بھارت اور روس کے معاہدے
(Ata Muhammad Tabasum, Karachi)
بھارت اور روس کے معاہدے ،صدر ولادیمیر
پیوٹن کے دورے نے خطے میں نئی صف بندی کا علان کردیا
اس ہفتے روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے دورہ بھارت اور روس و بھارت کے مابین
اربوں ڈالر کے 20 معاہدے، روس کی جانب سے آئندہ 20 سال کے دوران مزید 12
ایٹمی ری ایکٹر کی تعمیر، جدید ہیلی کاپٹر اور جنگی ساز و سامان بنانے کی
فیکٹری لگانے کے معاہدے خطے میں بدلتے ہوئے حالات اور نئی صف بندی کی جانب
اشارہ ہیں۔ روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے دورہ بھارت سے یہ بھی واضح ہوگیا
ہے کہ دونوں مملک ماضی کے تعلقات جاری رکھیں گے۔ دنیا میں امریکہ اپنی قدر
کھو رہا اور روس اقوام عالم میں اپنی اس قدر بحال کررہا ہے کہ وہ اپنے دوست
ممالک کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا۔امریکہ کے بارے میں یہ تاثر گہرا ہوتا
جارہا ہے کہ جن جن ممالک کے حکومتوں نے امریکہ سے دوستی وفاداری نبھائی
امریکہ انہی کو وقت پر چھوڑ گیا۔اس بات کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے کہ
آئندہ چند برسوں میں امریکی تسلط کے خاتمے کے بعد بین الاقوامی سطح پر طاقت
کسی ایک ہاتھ تک محدود نہیں رہے گی بلکہ چین، روس اور کسی حد تک بھارت بھی
آئندہ دور میں عالمی طاقت کے حصے دار ہوں گے۔ پاکستان نہ صرف ان تینوں
ممالک کے درمیان میں واقع ہے بلکہ اپنی مستحکم جوہری حیثیت کی وجہ سے بھی
دنیا میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ یوں آئندہ برسوں میں پاکستان ایک تیزی
سے ترقی کرتی ہوئی معیشت اور انتہائی اہم ریاست کے طور پر نظر آرہا ہے۔اس
سال جولائی میں چین، روس، بھارت، جنوبی افریقہ اور برازیل کے گروپ برکس نے
ایک سو بلین ڈالر کے ترقیاتی بینک کے قیام کا اعلان تنظیم کی چھٹی سربراہی
کانفرنس کے موقع پر برازیل کے شہر فورٹالیزا کے مقام پر کیا تھا۔ جس میں
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور روس کے صدر پیوٹن کی ملاقات ہوئی تھی۔
موودی نے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ وہ جوہری، دفاع اور توانائی کے شعبے
میں روس کے ساتھ اسٹریٹجک تعاون کو مزید آگے لے جانا چاہتے ہیں۔ انھوں نے
روسی صدرپیوٹن کو دسمبر میں بھارت کے دورے اور جوہری توانائی پلانٹ دیکھنے
کے لئے مدعو کیا تھا.مودی اس سے پہلے 2001 میں بھی پیوٹن سے مل چکے ہیں.
انہوں نے کہا تھاکہ ہمارے تعلقات بہت پرانے ہیں اور روس ہر کسوٹی پر کھرا
اترا ہے. مودی کا کہنا تھا کہ آپ بھارت میں کسی بچے سے بھی پوچھ کر دیکھئے
کہ بھارت کا سب سے سچا اور اچھا دوست کون ہے تو جواب ملے گا روس.امریکہ
بھارت کے روس سے بڑھتے ہوئے تعلقات کو تحسین کی نظر سے نہیں دیکھتا، بلکہ
بھارت کے روس کے ساتھ دفاعی معاہدوں پر اظہار ناراضگی کر رہا ہے۔ اسکے
باوجود امریکہ بھارت کو کھونے کو تیار نہیں ہے۔ اس نے کہا ہے کہ بھارت
امریکہ کا اہم شراکت دار ہے اور صدر اوباما روس بھارت معاہدوں کے باوجود
بھارت کا دورہ منسوخ نہیں کرینگے۔ روس کی جانب سے بھارت میں 12ایٹمی ری
ایکٹر تعمیر کرنے سمیت 20معاہدوں کے حوالے سے امریکی ترجمان جین ساکی نے
کہا ہم ان معاہدوں کو مانیٹر کر رہے ہیں۔ ہم تمام ممالک سے یہ کہتے رہیں گے
کہ روس کے ساتھ ماضی کی طرح کے معاملات سے گریز کریں۔امریکہ اور یورپ نے
یوکرائن پر روس کے حامیوں کے قبضے کے بعد روس پر پابندیاں عائد کر رکھی
ہیں۔روس اور بھارت کی باہمی دفاعی اور اقتصادی تعاون کی تاریخ بہت پرانی
ہے۔ بھارت نے صرف روس پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنی جنگی دفاعی صلاحیت و
قوت بڑھانے کیلئے اس نے امریکہ، فرانس، جرمنی اور برطانیہ سے بھی اسلحہ کی
خریداری کے متعدد معاہدے کر رکھے ہیں۔ دو ماہ قبل بھارت نے امریکہ کیساتھ
بھارت میں اسلحہ ساز فیکٹریاں لگانے کے بھی معاہدے کئے جبکہ امریکہ کے ساتھ
اس کا ایٹمی ٹیکنالوجی بڑھانے کا معاہدہ پہلے ہی موجود ہے، اس طرح بھارت اس
وقت جدید اور روایتی اسلحہ خریدنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے
اور اب وہ امریکہ اور روس کے تعاون سے اسلحہ سازی کی فیکٹریاں لگا کر اسلحہ
برآمد کرنیوالے ممالک کی صف میں بھی شامل ہو جائیگا، بھارت کا خود کو اسلحہ
سے لیس کرنے کا جنون بڑھتا جارہا ہے۔ جس سے خطے میں طاقت کا توازن بگڑ رہا
ہے۔روسی صدر ولادیمیرپیوٹں کے دورہ ہندوستان کو خاصی اہمیت دی جارہی ہے۔
اگلے ماہ امریکی صدر اوباما بھی بھارت کا دورہ کرنے والے ہیں۔ حال ہی میں
روس اور پاکستان کے درمیان روابط بڑھے ہیں۔ بھارت نے پیوٹن کے اس دورے کو
باہمی تعلقات میں ایک سنگ میل قرار دیا ہے۔ وزارت خارجہ کے جوائنٹ سکریٹری
اجے بساریا کے مطابق وزیر اعظم روس کے ساتھ تعلقات کو اپنی خارجہ پالیسی کا
اہم ترین حصہ سمجھتے ہیں۔ صدر پیوٹن نے اس دورے کے دوران ہندوستان میں نئے
ایٹمی بجلی گھروں کی تعمیر ، سخوئی سپرجیٹ، جنگی طیاروں ، ایم ایس۔ 21طرز
کے مسافر بردار طیاروں اور روسی ٹکنالوجی پر مبنی اسمارٹ سٹی قائم کرنے میں
تعاون کی بات بھی کی ہے۔ ہندوستان اپنی دفاعی ضروریات کے لئے اب صرف روس پر
انحصار کرنے کے بجائے دیگر ملکوں سے بھی دفاعی سازو سامان درآمد کرتا ہے
تاہم سفارتی لحاظ سے وہ اب بھی روس کو کافی اہمیت دیتا ہے۔ اس کی ایک بڑی
وجہ یہ ہے کہ نئی دہلی کا ماسکو کے ساتھ کسی معاملے میں کوئی بڑا اختلاف
کبھی نہیں رہا جب کہ سرد جنگ کے زمانے میں ماسکو کشمیر پر ہندستان کے موقف
کی مسلسل تائید کرتا رہا ہے اور افغانستان ، ایران، نیز دہشت گردی جیسے بین
الاقوامی امور پر بھی دونوں ملکوں کے موقف یکساں ہیں۔ اس کے علاوہ دونوں
ممالک عالمی اداروں پر مغرب کے بڑھتے ہوئے غلبے کو بھی ناپسند کرتے ہیں۔روس
اور بھارت کے درمیان ہونے والے معاہدوں میں تیل کی سپلائی و تلاش ، فوجی
تربیت ، مشترکہ لڑاکا اور ٹرانسپورٹ طیارے بنانے کے معاہدے کے علاوہ 12 نئے
جوہری ری ایکٹرز کی تعمیر ، روس کی جدیدترین ہیلی کاپٹر KA-226Tبھارت میں
تیار کرنے کے معاہدے بھی شامل ہیں۔ روس اگلے سال گجرات میں ایک بڑا
انڈسٹریل پلانٹ بھی تعمیر کرے گا۔ اس سے قبل 2008 اور 2010 کے معاہدوں کی
روشنی میں روس جنوبی علاقے کودن کولام میں دو ایٹمی ری ایکٹرز قائم کرچکا
ہے اور نئے ری ایکٹرز کی تعمیر کے بعد روس اور بھارت کے درمیان دفاع کے
شعبے میں مزید تعلقات مضبوط ہوں گے۔بھارت اپنے ہتھیاروں کا ستر فیصد روس سے
خریدتا ہے۔ روس بھارت کو ہتھیار بیچنے کے علاوہ اہم ٹیکنالوجی بھی فراہم
کرتا ہے۔بھارت نے من موہن سنگھ کے دور میں فرنس ، امریکہ ، اسرائیل سے بھی
کئی اہم دفاعی معاہدے کیئے تھے۔ دوسری جانب روس کے لئے بھارت اہم مارکیٹ
ہے، جسے وہ کھونا نہیں چاہتا۔ روس اسلحہ فوخت کرنے والا بڑا ملک ہے۔ دونوں
ملکوں کے درمیان تجارتی حجم دس ارب ڈالر کا ہے۔ جس میں گذشتہ عرصے میں کچھ
کمی دیکھنے میں آئی تھی۔ وزیراعظم نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد
روسی صدر کا یہ پہلا دورہ بھارت ہے جب کہ ان دنوں روس کو یوکرین کے معاملے
پر امریکا اور یورپی یونین کی جانب سے پابندیوں کا سامنا ہے۔موجودہ صورتحال
میں پاکستان کی سیاسی قیادت کے لیئے ایک امتھان ہے کہ وہ ان عالمی طاقتوں
کے ساتھ اپنے روبط میں کس طرح توزن قائم رکھتا ہے۔ قیادت کی ذرا سے غلطی
پاکستان کو مشکلات سے دوچار کرسکتی ہے۔ |
|