مظلوم کی آہ‘غریب کی
صدا‘دردکی کراہ اور ظالم کی سوچ ہمیشہ آپس میں ٹکراتے رہے ہیں۔مظلوم ہتھیار
اُٹھا کرخود کو ظالموں کی صف میں لاکھڑاکرتاہے ‘جواز خود جرم ہے ۔مگر کیا
ایسے مجرم کیساتھ اس ظالم کو بھی سزا نہ دی جائے جو اسے ظلم کی دنیا میں
پہنچانے کا سبب بنا؟؟؟
1978میں الطاف بھائی نے جس جماعت کی درسگاہوں میں بنیاد رکھی ‘وہ جماعت
1984میں مہاجروں کی جماعت کہلائی اور 1997 میں متحدہ قومی مومنٹ کا لیبل
لگا کر قومی سیاست میں کودپڑی۔جماعت نے نام بدلا مگر انداز نہ بدلا۔ ہم جب
کراچی میں مہاجر کے حقوق پر ڈاکہ کے قصے سنتے تو اپنے قرب وجوار اورملک کے
طول وعرض میں پھیلے چکوک میں اپنے مقامی بھائیوں کے حالات زندگی کاجائزہ
لیتے توحقوق وآزادی کی معمولی سی تبدیلی بھی جٹ ‘پشتون‘پنجابی ‘سرائیکی اور
ان افراد کے درمیان نہ پاتے جن کے آباؤاجداد مہاجرتھے‘ جنھیں متحدہ قومی
مومنٹ اب بھی مہاجر گردانتی ہے اوربعض بذاتِ خود یہ الفاظ استعمال کرتے
ہیں‘شاید اس وجہ سے کہ یہ ایک معززلفظ ہے۔میاں صاحب کے تینوں ادوار میں
کراچی میں ایم کیوایم پرآپریشن کیا گیا۔اس کی دووجوہات ہوسکتی ہیں ‘ایک یہ
کہ میاں صاحب کی ایم کیوایم سے کوئی دیرینہ مخالفت ہے ‘دوسرامیاں صاحب میں
کراچی کوآزادکروانے کاجذبہ کارفرماہے۔جواب:ن لیگ اور ایم کیوایم کوئی حریف
سیاسی جماعتیں یاایک دوسرے کے وزن کی جماعتیں نہیں ہیں۔ایک کاووٹ بینک
دوسرے کے ووٹ بینک کو زیادہ متاثر نہیں کر رہا‘اس حقیقت سے تو انکارممکن
نہیں کہ پنجاب میں تشریف لانے والے ہمارے معززمہاجربھائی ہمیشہ سے مسلم لیگ
سے ہی والہانہ محبت کرتے آئے ہیں اورایم کیوایم کی پرزورمہم جوئی کے بعدبھی
پنجاب میں موجود مقامی افرادجن کے آباؤاجدادمہاجرتھے اب بھی بطوراکثریت ن
لیگ کے پلڑے میں ہی وزن ڈالتے ہیں اورمستقبل میں بھی ان میں سے چند ایک
گھرانوں یا علاقائی ولسانی لہرکے زیراثر معمولی سے تعداد کے ادھر اُدھرہونے
کاخطرہ لاحق تھا‘اس سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ ن لیگ کا کوئی ذاتی
مفاد اس بات میں شامل نہیں تھاکہ ایم کیوایم کو کریش کردیاجائے‘’’مشترکہ
مفاد‘‘الگ شہ ہے جسے قیاس کیاجاسکتاہے۔پنجاب میں ن لیگ کیلئے اگرکوئی خطرہ
بن سکتاہے توناقص رائے کے مطابق ان میں تحریک انصاف پچاس فیصد‘بلاول زرداری
پلس بھٹوخاندان تیس سے چالیس فیصد اوراگرکوئی نئی سیاسی جماعت جنم لیتی ہے
تو پھر یہ اعدادوشمار کسی اور زاویہ سے مرتب ہوں گے۔
اگرنیشنل ایکشن پلان کی سندھ میٹنگ کاجائزہ لیں یاکراچی کی معاشی صورتحال
کا توہمیں اندازہ ہوتاہے کہ اب کراچی کو آزادکروانے میں سیاستدانوں سے
زیادہ ہماری پاک فوج کاکردار زیادہ نمایاں ہے جولائق تحسین
ہے۔دوسراپاکستانی سرمایہ دار طبقہ بھی اب اس میں امن چاہتاہے اوروہ اسوقت
ہی ممکن ہے جب کراچی کو تمام عسکری گروہوں سے پاک کردیاجائے ۔پھرنئے آنے
والے سرمایہ کاتحفظ آسانی سے ممکن ہوگااوراس بھتہ کی مدمیں منافع کی بچت
ہوگی۔جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اگرکراچی کو پرامن کرناہے تو پھر
پہلاٹارگٹ متحدہ ہی کیوں ؟تو اس کا جواب ہماری ناقص عقل یہ دیتی ہے کہ اول:
ایم کیوایم کراچی کی سب سے بڑی جماعت ہے۔2:پنجاب ‘سندھ ‘بلوچستان
اورخیبرپختونخواہ کے افراد پر ایم کیوایم کے خوف کا ایک تاثر قائم ہے
۔سوم:کراچی کی سیاست پرحکمرانی کی وجہ سے لوگ سمجھتے ہیں کہ اس کاعسکری
گروہ سب سے زیادہ محفوظ ہے۔4::عام پاکستانی یہ سمجھتاہے کہ اگرکراچی میں
متحدہ سے تعلق رکھنے والے ایسے افراد جوعسکری عزائم رکھتے ہیں اپنے انجام
کوپہنچتے ہیں تو کراچی میں موجود ثانوی حیثیت رکھنے والے لسانی وعلاقائی
گروہ بھی ہتھیارڈال دیں گے یاان سے ہتھیارڈلوانا اتنامشکل نہیں۔
اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ عروس البلاد کراچی کیاچاہتاہے؟جواب یہ ہے کہ عروس
البلاد دہائی دے رہاہے کہ اگر اب بھی دمادم مست قلندرکی صداگونجنے کے بعد
خاموشی چھاتی ہے تومیراکیابنے گا؟عروس البلاد کہتاہے کہ مائنس ون
فارمولاکوئی حل نہیں ؟عروس البلاد کہتاہے کہ کچھ بھی ہو ‘کیسے بھی ہو‘جس
اندازسے بھی ہو ‘زیادہ نہ سہی توکم سہی مگر متحدہ قومی مومنٹ ایک حلقہ
اثررکھتی ہے ۔وہ کراچی کے ان لوگوں کی آواز بن چکی ہے جو جذباتی بنیادوں پر
آج بھی لسانی لہرمیں گم ہیں ۔الطاف حسین ان گونجتی صداؤں اورالزامات کی
بوچھاڑ کے باوجود قومی وصوبائی اسمبلی بشمول سینیٹ میں اپناحصہ رکھتے
ہیں۔ان حالات کے تناظرمیں دو ہی راستے ہیں ۔یاتو ایم کیوایم اپنے اندرموجود
آستین کے سانپوں تک قانون کو رسائی دے اور جذبات کے آئینے میں اپنے
ووٹرکومشتعل کرنے کاارادہ ترک کردے ۔دوسراراستہ وہی ہے جس کے ذریعے سے ایم
کیوایم آج ملک کی چوتھی بڑی سیاسی جماعت ہونے کے باوجود ناپسندیدگی کی نگاہ
سے دیکھی جارہی ہے ۔حالانکہ تنظیم سازی‘نظم وضبط اوراچھے لوگ اس میں آج بھی
موجودہیں‘جمہوری روایات پر عمل کرتے ہوئے متحدہ میں صلاحیت ہے کہ ایک
صبرآزمادورسے گزرنے کے بعدوہ دوبارہ ملکی سیاست میں قدم جماسکے مگراگرصبرنہ
کیاتوپھر کراچی وسندھ کیاپاکستان کو ایک کڑے مرحلے سے گزرناہوگا۔جس کا
فیصلہ سیاستدانوں کے تدبر‘فہم وفراست اورانتظامی صلاحیتوں کاامتحان ہوگا
اور اﷲ کرے وہ اسے سیاسی مصلحت اورسیاسی رنگ نہ دیں۔۔آخری بات یہ کہ اگر
متحدہ مجرم ثابت ہوتی ہے تو اس کوسزادینے کے بعد کیاسماج میں موجود ان
عناصر کا سدباب بھی کیاجائے گاجونوجوانوں کواس حدتک لائے کہ وہ اپنے روشن
مستقبل اورجوانی کو اسلحے کے انبارکی نذرکردیں ؟ صولت مرزاکوتوسزاملے گی
؟لیکن عروس البلاد کراچی دہائی دے رہا ہے کہ میرے فرزندصولت کے مجرموں کو
کب سزاملے گی؟عروس البلاد پکاررہاہے کہ تم کہتے ہو کہ جس نے مجھے اکتیس سال
سے یرغمال کیا اسے سزاملے گی لیکن جس نے مجھے صدیوں سے یرغمال کررکھاہے‘
کیا اسے بھی سزاملے گی؟؟؟؟
مظلوم کی آہ‘غریب کی صدا‘زخموں کی کراہ اور ظالم کی سوچ ہمیشہ آپس میں
ٹکراتے رہے ہیں۔مظلوم ہتھیار اُٹھا کرخود کو ظالموں کی صف میں لاکھڑاکرتاہے
‘جواز خود جرم ہے ۔مگر کیا ایسے مجرم کیساتھ اس ظالم کو بھی سزا نہ دی جائے
جو اسے ظلم کی دنیا میں پہنچانے کا سبب بنا؟؟؟ |