یومِ پاکستان آج کے تناظر میں۔۔۔!

آج سے 75سال پہلے باہمت لیڈران کی جِدوجہد اور تگ ودو کے سبب قرار دادِلاہور منظور ہوئی مولوی فضل الحق نے اس قراردادکو پیش کیا ۔ میں تاریخی داوُپیچ میں بالکل بھی مہارت نہیں رکھتا اس لیے فیصلہ مورخین پر چھوڑتے ہیں کہ تب کیا ہوا اور کیا نہ ہوااس یاداشت میں علیحدہ ریاست کا تصور تھا یہ نہیں یہ ماضی کے ابواب کو کرید کر معلوم کرنا تاریخ دانو ں کا کام ہے کچھ تلخ حقائق پڑھنے والے کے دل پر شدید نشتر زنی بھی ڈھاتے ہیں۔ تحریکِ پاکستان کے پہلو وُں پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دو قومی نظریہ علیحدہ وطن کے حصول کے لیے روح کی حیثیت رکھتا ہے۔ 23مارچ 1940 جس دن مسلمانوں کی کوششوں کو فیصلہ کُن شکل ملی اوراس یوم ہی نے مسلمان رہنماوُں کی امنگوں پرپورااتر کر ان کی فکر کو داددی۔مارچ کا مہینہ مہکتی فضا ء کا ضامن ہوتا ہے لاہور کے منٹو پارک میں ظہور پذیر ہونے والا اجلاس جو اب اقبال پارک کے نام سے جانا جاتا ہے وہاں ان تمام جملوں کا تبادلہ ہوا جو مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے تھے اس کے بعد بغور جائزہ لے لینے کے بعد مسلمانوں کی آزادی کے لیے کوششیں مزید تیزی اختیار کر گئیں اور علیحدہ ریاست کے لیے ان کی سعی میں فراوانی واقع ہوئی۔23 مارچ کو پاکستان ڈے کی حیثیت حاصل ہے اور ہر سال بہترین نمود ونمائش اور اعلیٰ تبسُم کے ساتھ اس دن کو قوم انتہائی مسرت کے ساتھ بسرکرتی ہے یہ زندہ قوم ہے جو بہت کچھ جھیل کر بھی اپنی خوشی میں کمی رقم نہیں ہونے دیتی اور اپنی حب الوطنی کا ثبوت ازسرِنو دیتی ہے نفرتوں کی آبیاری کو مسترد کر کے آپسی بھائی چارے کو فروغ دینے کا عندیہ دیتی ہے لیکن افسوس کیاان قومی دنوں کے گزرتے ہی شیطانیت غلبا پا جاتی ہے اور تمام نیک ارادے خاک میں مل جاتے ہیں سب کچھ جوں کا توں ہی رہتا ہے ۔اس لیے ہمیں تادیر غور و فکر کر کے اپنی روش کو سہی ڈگر لانا ہوگا کیونکہ ہمارے قول وفعل میں بہت بڑا تضاد ہے دُکھ اس بات کا ہے کہ انتہائی معدب موجودہ لیڈران خود کو محب ِوطن ظاہر کرتے ہیں لیکن حقیقتاٌ وہ بیرونی قوتوں کے شکنجے میں گھرے ہوئے ہیں آج دشمن سماج کی ثقافتی یلغار ہمارے اوپر برتری لیتی جارہی ہے۔دراصل ہم خود مختار نہیں ہیں پاکستان کے سیاسی پیشواوُں کے دلیرانہ بیانات پر ہنسا نہ جائے تو کیا کیا جائے جب ہم جانتے ہوں کے ان خوفزدہ حاکموں نے ہمارا مورال کس قدر گرا رکھا ہے۔فقط جوشِ خطابت اور اپنے دیس کے لیے محبت سے سرشار ہو نے کے ٖڈھونگ سے ہم کیسے اس سب کو پروپیگنڈا گردان سکتے ہیں کے دشمنان ہمارے خلاف سازشیں کر رہے ہیں اور ان کے متحرک ہمارے ملک کے اپنے کردار ہی ہیں۔تعلیمات میں ٹکراوُ وہ وجہ تھی جو علیحدگی کا موجب بنی اور مختلف نظریات کی باز گشت اوج کو جا پہنچی ۔قائد اعظم اور علامہ اقبال کی روحیں آج غمگین ہونگی کہ ان کا خواب آج بھی ادھورا ہے پاکستان وہ وطن نہیں بن پایا جہاں رتی برابر بیرونی مداخلت نہ ہو بلکہ اکثریتی فیصلوں میں اغیار کی رائے کو حاکمِ وقت ملحوظِ خاطر رکھتا ہے۔سجاوٹ کے انبارجنگ میں استعال ہونے والے ہتھیاروں کی نمائش سمیت پریڈ کا اہتمام کیا جارہا ہے بڑے شہروں کو رونق بخشی جارہی ہے اشتہارات پر پانی کی طرح پیسہ بہایا جار ہا ہے کاش اتنی ہی تیزی سے عوامی فلاح کے لیے ہونے والے فنڈز بھی کوئی خادمِ اعلیٰ منظور کرے ہسپتالوں کو سہولیات سے لیس کیا جا سکے لوگوں کے مسائل پر کچھ خرچ کیا جا چکے۔آج یہ کہتے ہوئے دل کو رنج پہنچ رہا ہے کہ ہم وہ ہیں جو قد و قامت میں بہت نیچے ہیں لیکن جشن ایسا ہے کہ ہم سے بلند و ترقی یافتہ کوئی دوسرا نہیں ہے وہ معاشرہ جہاں بھوک و ننگ ہے جہاں امن نام کی کوئی شے نہیں ہے جہاں ہر کوئی بے پناہ مسائل سے دوچار ہے اور معذرت کے ساتھ ہمارے حکمرانوں کی ناقص پالیسیاں ہی اس سب کا باعث ہیں ان کی محاذ آرائی کا خبط اور بعد میں افہام و تفہیم کہا ں کوئی دقیق سے آشکار روش ہے؟ ملک کیوں موجودہ رہنماوُں کی سیاست کے نذر ہورہا ہے اس پر سوچنا پوری قوم کا کام ہے بہرکیف رجائیت پسندی ہمارا شیوہ ہے جس پر ہمیں کاربند رہنا ہے اوریقینا ایک وقت ایسا ہوگا جب ہم بھی غیر ملکی اثرواثوخ کے نرغے سے باہر نکلنے میں کامران ہونگے جب دوسرے مُلک ہمارے ہاں عمل دخل کرنے سے باز آئیں گے ۔ دہشتگردوں کے سہولت کار وہ اغیار ممالک ہیں جن سے ہم فہم و فراست سے تعلقات کو قوی کرنے کے لیے بے تاب ہیں یہ بھی درست ہے کہ سب کو ساتھ لے کر چلنا ہے مگر ملک کے اندرونی معاملات میں ان کے دخل کو ختم کرنا بھی وقت کے تناظر میں اہم حیثیت رکھتا ہے۔ فی الفور پنجاب میں نئے رجحان کی تعبیر کی جارہی ہے پنجاب میں روشنیوں سے لاہور شہر کو چمکایا جارہا ہے اسے دلہن کی طرح سجایا جارہا ہے اور یومِ پاکستان کا پرتپاک استقبال کیا جا رہا ہے اور جہاں سوگوار کیفیات دن با دن اضافہ پارہی ہیں وہیں ایسی تقریبات کا انعقاد شہریوں کے دل بہلانے کا کردار ادا کرتے ہیں جو کہ بے حد موثر و مثبت ہے اور دشمن کو طعنہ بھی ہے کہ وہ ہمارے چہروں کی چہک نہیں چھین سکتے اور دہشتگردوں کو جلد ہی نیست و نعبود ہونا ہے ہم اس بات کے متحمل نہیں کہ ان کے پھلائے ہوئے خوف و ہراس کو مزید تقویت بخشیں اب چونکہ دشمن مستقبل تباہ و برباد ہو رہا ہے اس لیے اب وہ جاتے جاتے حملے بڑھا رہا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ بقایا دہشتگرد بھی جلد واصلِ جہنم کر دیے جائیں گے۔ ہر حقیقت شناس پاکستانی جانتا ہے کہ رب العظیم کے کرم سے وطن میں جلد ہی چین و سکون کی فضاء مہکے گی۔ ’’باطل سے ڈرنے والے اے آسماں ہم نہیں سو بار لے چکا ہے تو امتحان ہمارا‘‘ محمدوقاربٹ لاہور پاکستان
Waqar Butt
About the Author: Waqar Butt Read More Articles by Waqar Butt: 31 Articles with 25257 views I am student at Government College University Lahore plus freelance columnist .. View More