کیازبردست اورکمال کی قوم ہیں ہم
پاکستانی بھی۔۔ہماری زندگی کے کئی پہلو اورکئی رنگ ہیں، ہرپہلوقابلِ ذکر
اورہررنگ قابلِ دید ہے۔اگر پہلوبدلنے میں ہم بے مثال ہیں توپہلوتہی کرنے
میں ہماراجواب نہیں۔۔۔۔اوررنگ ایسے کہ بدلنے پر آئیں توگرگٹ اورلینے میں
خربوزے سے کم نہیں۔ایک مدت سے سوشل میڈیاپرہماری زندگی کے مختلف پہلوؤں
اورمختلف رنگوں کی مختلف انداز میں خوب تشہیرہوتی ہے بلکہ تذلیل ہوتی ہے
اورستم بالائے ستم یہ کہ ہم خودسوشل میڈیاپراپنی ہی بیوقوفی اورتذلیل سے
خوب محظوظ ہوتے ہیں بلکہ اسے اپنا غازہ رخساراوروجۂ افتخارسمجھتے ہیں۔اپنے
ہی ذاتی زندگی کے چھپے ہوئے ان گوشوں کو ہم نے دنیاکے سامنے ظاہرکیااوراپنے
کردارکے ان کے پہلوؤں کوننگاکردیا، جودنیاکے سامنے ہماری شرمندگی کاباعث
بنتی جارہی ہیں۔ لسانی بنیادوں پرایک دوسرے کی تذلیل ہمارامرغوب مشغلہ ہے
اورایک دوسرے کے خلاف ایسے گھٹیا ، بیہودہ اورشرآمیز لطیفے شیئرکرتے ہیں جو
آپس میں باعث ِنفرت اورہماری قومی حیثیت کے ختم کرنے کاسبب بنتے
ہیں۔پوراپورادن کرکٹ کے میچ دیکھنے کے لئے ہمارے بچے، جوان اوراب توماشاء
اﷲ بوڑھے بھی اس کام میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔۔ٹیلی وژن کے سامنے بیٹھے
رہتے ہیں۔۔اورچیختے چلاتے رہتے ہیں، بچوں کے بیچ میں سے ایک آدھ آواز
امیرصاحب کی بھی نکل رہی ہوتی ہے، جو اپنی بڑی داڑھی اورسفید پگڑی کے ساتھ
کبھی کبھی جذبات پر قابورکھنے میں یکسرناکام ہوجاتے ہیں اورساتھ ساتھ مولوی
صاحب بھی ایک تکیہ پربراجماں میچ کے آخری لمحات میں دنیاومافیہاسے کوسوں
دورہاراورجیت کے فلسفے پرغورکر رہے ہوتے ہیں۔ جبکہ اسکے مقتدی مسجدمیں
نمازپڑھوانے کیلئے انتظارمیں بیٹھے ہوتے ہیں۔ گیندکی حرکت اورکیمرے کے
مناظرکے ساتھ ساتھ مولوی صاحب بھی کروٹیں بدلتے ہیں۔ جبکہ داداجان
جوبغیرعینک کے اپنے پوتوں اورمحلے کے بچوں میں تمیزنہیں کرسکتے، بھی اپنے
حکیمانہ مشوروں کے ساتھ میچ کے مناظردیکھ رہے ہیں اورحریف ٹیم کے کھلاڑیوں
کوخوب گالیاں اوربددعائیں دیتے ہیں۔شاید میچ دیکھنے کایہ عالم پوری دنیامیں
اورکہیں نہیں ہوگا، اپنی جیت پر حد سے نکل کر خوشی منانا اوردوسروں کی جیت
پر اپنے غصے پرقابونہ رکھنااورایسی ایسی حرکات کرناکہ انسان کاسرشرم سے جھک
جائے۔بلے اوروکٹوں کاجنازہ شاید دنیامیں کسی قوم نے پڑھایاہو۔ میچ ہارنے پر
ٹیلیوژ ن پرسرعام ڈنڈوں کی بارش کرنا اوراپنے ہی کھلاڑیوں کے پتلے بناکر
انہیں سولی پرچڑھانابھلاکبھی کسی مہذب قوم کی پہچان ہوسکتی ہے۔سوشل
میڈیاپرایسے ایسے مناظردیکھنے کو ملتے ہیں کہ حیرت کی انتہانہیں رہتی۔بچے
سے لیکر بوڑھوں تک سارے فیس بک کے ایسے دیوانے ہیں کہ اورکوئی کام ہی نہیں۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ ہماری قوم کاوہ طبقہ جو ناخواندہ ہے اوراپنے نام تک
نہیں لکھ سکتاوہ بھی سمارٹ فون خرید لیتا ہے اورفیس بک میں دھڑادھڑآئی ڈیز
بناکر استعمال کرنا شروع کر دیتا ہے۔ بوڑھے اورعمررسیدہ افراد کی ایک
دیرینہ خواہش ہوتی ہے کہ مرنے سے پہلے کم ازکم انکی ایک عدد آئی ڈی ضروربنے
اوراسکے لئے کہیں سے ایک عددتازہ فوٹولینے کے لئے صحن گلشن میں جاتے
ہیں۔ہمارے نوجوان سٹائل بدل بدل کراورنئے نئے کپڑے پہن فوٹوبناتے ہیں تاکہ
اسے فیس بک پر اپلوڈ کرکے پوری دنیاکو اپنی اصلیت دکھاسکیں۔میرے ایک دوست
نے ایک خوبصورت وادی میں ایک جگہ کئی تصاویرکھنچوا کرفیس بک پر پوسٹ
کیں۔میں نے کمنٹس میں لکھا۔۔کم ازکم ایک آدھ تصویر خالی نظارے کی بھی
کھنچوالیتے ، پتہ چلتاکہ یہ وادی کتنی خوبصورت ہے۔ جس پر وہ ناراض ہوئے۔۔۔
ہماری زندگی میں اعتدال نام کی کوئی چیز نہیں۔ہم یاتوکوئی کام کرتے نہیں
اوراگرکرتے ہیں توپھراس بات کو نہیں دیکھتے کہ اس کافائدہ کتناہے اورنقصان
کیاہے۔بلکہ اپنی حد سے ہمیشہ تجاوزکرتے ہیں کیونکہ اصل میں ہمیں کچھ
کرناآتانہیں۔ہمارے سامنے کوئی مقصدتوہوتا نہیں بلکہ ہم زندگی کو یوں گزارتے
ہیں ، جیسے موت ہمارے سامنے کھڑی ہے اورہمیں اس تک پہنچنے کی جلدی ہے
یاجیسے زندگی ہمارے اوپر بوجھ بنی ہواورجو وقت کی شکل میں اﷲ نے ہمیں بہت
بڑی دولت دی ہے اسکو کسی طرح لٹاکرختم کردیں۔کوئی مقصدحیات نہ ہو، کچھ حاصل
کرنے کی جستجونہ ہو، مقابلہ کاجذبہ نہ ہو،مختلف حالات وواقعات سے عبرت حاصل
نہ ہو،زندگی میں تغیراورانقلاب کی سوچ نہ ہواوردین دنیامیں کامیابی کے حصول
کاشوق نہ ہوتوپھر۔۔۔۔۔۔۔۔سوشل میڈیاکو اس طرح استعمال کرکے، زندگی کے قیمتی
لمحات ضائع کرکے دین دنیامیں رسوائی اورذلت ہمارامقدرہوگی۔۔ |