عالم اسلام کے عظیم دانشور ٗ درویش اور محقق ڈاکٹر حمید اﷲؒ

زندگی اور کارنامے
ڈاکٹرمحمد حمید اﷲ صاحب 16 محرم الحرام 1326ھ (19 فروری 1908ء)کو حیدرآباد دُکن میں پیدا ہوئے اور آپ نے تعلیم و تربیت کے مختلف مراحل بھی اسی سرزمین میں طے کیے جو اس وقت اہلِ علم کا مرکز اور علومِ اسلامیہ کا گہوارہ تھی۔ خدا جن لوگوں سے کوئی خاص کام لینا چاہتا ہے‘ ان کے طور طریقے ابتدا ہی سے نرالے ہوتے ہیں۔ جامعہ عثمانیہ کی طالبِ علمی کے زمانے میں آپ کے علمی شغف کا یہ عالم تھا کہ نہ تو کبھی غیرحاضر ہوئے اور نہ جماعت میں دیر سے پہنچے۔ آپ نے جامعہ عثمانیہ سے ایم اے ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کیں لیکن حصولِ علم کی تشنگی اور تحقیق و جستجو کا ذوق بڑھتا گیا۔ چنانچہ آپ اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے لیے یورپ پہنچے۔ بون یونیورسٹی (جرمنی) سے اسلام کے بین الاقوامی قانون پر تحقیق و جستجو کا ذوق بڑھتا گیا چنانچہ آپ اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے لیے یورپ پہنچے۔ بون یونیورسٹی (جرمنی) سے اسلام کے بین الاقوامی قانون پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈی فل کی ڈگری حاصل کی اور سوربون یونیورسٹی (پیرس) سے عہد نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم اور خلافتِ راشدہ میں اسلامی سفارت کاری پر مقالہ لکھ کر ڈاکر آٹ لیٹرز کی سند پائی۔ ڈاکٹر صاحب کچھ عرصے تک جامعہ عثمانیہ حیدرآباد میں پروفیسر رہے۔ یورپ جانے کے بعد جرمنی اور فرانس کی یونیورسٹیوں میں بھی تدریسی خدمات انجام دیں۔ فرانس کے نیشنل سینٹر آف سائینٹفک ریسرچ سے تقریباً بیس سال تک وابستہ رہے علاوہ ازیں یورپ اور ایشیا کی کئی یونیورسٹیوں میں آپ کے توسیعی خطبات کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔

ڈاکٹر صاحب السنہ شرقیہ یعنی اردو‘ فارسی‘ عربی اور ترکی کے علاوہ انگریزی‘ فرانسیسی‘ جرمن ‘ اطالوی وغیرہ زبانوں پر بھی عبور رکھتے ہیں۔

اسی وجہ سے آپ کا مطالعہ بہت وسیع ہے۔ چنانچہ مختلف اقوام و ادیان کے تاریخی اور تقابلی مطالعے کی بدولت آپ کے مقالات اور تصانیف کا علمی و تحقیقی مرتبہ نہایت بلند ہے۔ تبلیغ اسلام کے سلسلے میں بھی آپ کو اس لسانی مہارت سے بڑی مدد ملی۔ آپ نے اہلِ مغرب کو اسلام کی حقیقی تعلیمات اور پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سے متعارف کرانے کے لیے مختلف یورپی زبانوں میں سینکڑوں مقالات اور متعدد کتابیں لکھیں۔ فرانسیسی زبان میں آپ کے ترجمہ قرآن مجید اور اسی زبان میں دو جلدوں پر مشتمل سیرتِ پاک کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں اسی طرح انگریزی میں آپ کی کتاب (Muhammad Rasul Allah) بہت مقبول ہوئی۔ آپ اپنی تقریروں اور تحریروں میں عام مبلغوں کا مناظراتی اور جارحانہ انداز کبھی اختیار نہیں کرتے بلکہ قدیم وجدید مآخذ کے تحقیقی تقابلی مطالعے کے بعد اپنے نتائج فکر‘ نہایت محتاط اور مثبت طریقے سے پیش کر دیتے ہیں۔ چنانچہ آپ کی تحریر و تقریر کا یہ سائینٹفک انداز اور استدلال و استنباط کا مجہتدانہ اسلوب جدید دور کے سنجیدہ علمی مذاق کو بہت متاثر کرتا ہے۔

یوں تو آپ کی کثیر التعداد تصانیف کے موضوعات کا دائرہ بہت وسیع ہے لیکن قرآن و حدیث اور سیرتِ طیبہ صلی اﷲ علیہ وسلم پر آپ کے تحقیقی مقالے خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ آپ نے سیرت النبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے اجتماعی اور سیاسی پہلوؤں پر مختلف زبانوں میں کئی کتابیں تصنیف کی ہیں جن میں عہد نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کے نظامِ حکومت‘ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیاسی زندگی اور مسلمانوں کے ابتدائی سیاسی نظام پر محققانہ روشنی ڈالی گئی ہے۔ مثال کے طور پر:
The battlefields the of pret Muhammad the First Written--Constitution. the Muslim conduct of state
الوثائق کو ایسا سیہ للعہد النبویا الخلافتہ الراشدہ‘ رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیاسی زندگی‘ عہد نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم میں نظامِ حکمرانی وغیرہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ علاوہ ازیں آپ نے اپنی فاضلانہ تنصیف ’’قانون بین الممالک کے اصول اور نظیریں‘‘ میں مسلمانوں کے قدیم علمِ سیر کو قانون بین الممالک (انٹرنیشنل لا) کی حیثیت سے متعارف کرایا۔ علمِ حدیث کے سلسلے میں ڈاکٹر صاحب کا اہم ترین کارنامہ صحیفہ ہمام بن منبہ کی تحقیق و اشاعت ہے۔ یہ قدیم ترین مجموعہ احادیث ہے جو عہد صحابہ رضوان اﷲ علیہم اجمعین میں مرتب ہوا تھا۔ آپ نے اس نادر و نایاب ذخیرہ حدیث کا ایک مخطوطہ برلن میں دریافت کیا اور اسے جدید اسلوب تدوین کے مطابق مرتب کر کے شائع کرایا۔

خدمتِ قرآن کے سلسلے میں آپ نے پچیس برس قبل تراجم قرآنِ حکیم کی بیلیوگرافی ’’القرآن فی کل لسان‘‘ مرتب کی تھی جس میں دنیا بھر کی ایک سو بیس زبانوں میں قرآن کے تراجم کا تذکرہ اور بطورِ نمونہ سورۂ فاتحہ کے تراجم درج ہیں۔ پچھلے دنوں آپ نے گور مکھی میں ترجمہ قرآن کی تلاش کے سلسلے میں لکھا تھا کہ ’’اگر خرید ناممکن نہ ہو تو اس کے فوٹو یا مائیکرو فلم بھی کافی ہوں گے اور سارے مصارف پیشگی ادا کرنے کو حاضر ہوں۔‘‘ اس سے آپ کے ذوق و شوق کا پتہ چلتا ہے اور ظاہر ہوتا ہے کہ تراجم قرآن کے مکمل نسخے جمع کرنے کی مہم ہنوز جاری ہے۔ درحقیقت آپ کی ذاتِ گرامی ان علمائے سلف کی یاد دِلاتی ہے جن کی عمر کا ہر لمحہ علمی تحقیق میں گزرتا تھا اب بھی جب کہ آپ کی عمر اسی برس سے تجاوز کر چکی ہے آپ جواں عزم و ہمت سے تحقیقی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ آپ امام بخاری کے مشہور مجموعہ احادیث ’’الجامع الصحیح‘‘ کا مکمل اشاریہ مرتب کر چکے ہیں جو نہایت پیچیدہ اور دشوار کام تھا۔ آج کل آپ فرانسیسی زبان میں اپنے ترجمہ قرآن اور مختصر تفسیر کے بیسویں ایڈیشن کے پروف پڑھنے میں مصروف ہیں۔ آپ ہر ایڈیشن کو جدید تحقیق اور عصری علوم سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اسے نظرثانی کے بعد طباعت کے لیے پریس کو دیتے ہیں۔
...........

کسی اعلیٰ نصب العین یا مشن کے لیے زندگی کا ایک ایک لمحہ وقف کر دینے کی بات محاورتاً تو سُنی تھی لیکن اس کا کوئی عملی نمونہ دیکھنے کا کبھی اتفاق نہ ہوا تھا۔ نامور زعماء اور اکابرین کی زندگی کا کچھ نہ کچھ وقت اہلِ خانہ‘ اعزاء‘ دوست احباب اور مختلف نوعیت کی معاشرتی تقریبات کی نذر ہوتا ہے اور اجتماعی زندگی میں ایسا ہونا ناگزیر ہے لیکن پیرس کے حالیہ سفر میں اسلام کے ایک ایسے خادم کو دیکھنے کا موقع اور اس سے دو تین ملاقاتیں کرنے کا شرف حاصل ہوا جس کی زندگی مختصر نیند اور ضروری حاجات کے سوا پوری کی پوری اسلام کی خدمت کے لیے وقف ہے۔ اس میں نہ بیوی بچوں کا کوئی دخل ہے نہ کسی ملازم اور رفیق کی کوئی گنجائش اور نہ اعزاء اور دوست احباب یا تقریبات کا کوئی جھمیلا حتیٰ کہ ٹیلی فون تک کا کوئی جھنجھٹ نہیں ہے۔ وقت کا ہر لمحہ اشاعتِ اسلام اور تبلیغِ اسلام کے لیے وقف ہے اور اس میں ایسا انہماک و تسلسل ہے کہ دم لینے کی مہلت نہیں بس یہ فکر دامن گیر ہے کہ چوراسی سال کی عمر ہو چکی ہے کہیں فرشتہ اجل نے آ دبوچا‘ اپنے رب کا سامنا ہوا اور اس نے یہ پچھا کہ میں نے جو نعمتِ دین تمہیں عطا کی تھی‘ اسے دوسروں تک پہنچانے کے لیے تم نے کیا کیا؟ تو میں وہاں کیا منہ دِکھاؤں گا۔ ندامت و شرمندگی سے بچنے کے لیے کچھ تو زادِ راہ ساتھ لے لوں باقی سہارا اس کے عفو و درگزر اور عطا و بخشش سے مل جائے گا۔

یہ شخصیت ہے عالمِ اسلام کے معروف و منفرد محقق‘ مصنف‘ مترجم‘ مفسر اور مبلغ پروفیسر محمد حمید اﷲ کی جو اپنے عظیم کام ہی کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے طرزِ زندگی کی بے مثال خصوصیات کے باعث مسلم دنیا کے اہل علم و فضل اور فرانس اور فرانسیسی زبان سے وابستہ افرقی ممالک میں انتہائی قدرواحترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ وزیراعظم محمد نوازشریف نے جب مجھ سے پہلی بار اپنے دورۂ فرانس کا ذکر کیا تو میں نے ان سے درخواست کی کہ وہاں ایک نامور عالم اور محققق ڈاکٹر محمد حمید اﷲ سے ضرور ملیے جو پاکستان میں آئین سازی کے ابتدائی مراحل میں گراں قدر خدمات انجام دے چکے ہیں اور مغربی دنیا میں اس ملک کا نام روشن کرنے میں انہوں نے بڑا کام کیا ہے۔ وزیراعظم نے اسی وقت متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ پیرس میں سفارت خانہ کو پیغام دے دیا جائے کہ میرے پروگرام میں ڈاکٹر محمد حمید اﷲ سے ملاقات کو بھی شامل کیا جائے۔ بعدازاں وزیراعظم کے ساتھ جانے والے صحافیوں میں جب مجھے شمولیت کی اطلاع ملی تو پیرس کو تفصیل سے دیکھنے کی دیرینہ خواہش کی تکمیل کے علاوہ سب سے زیادہ خوشی اس خیال سے ہوئی کہ یہ سفر مجھے ڈاکٹر محمد حمیداﷲ سے ملاقات کرنے اور ان کی زندگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع فراہم کرے گا۔ ڈاکٹر صاحب سے کراچی میں اس وقت ایک مختصر ملاقات ہوئی تھی جب وہ جنرل ضیاء الحق شہید کی دعوت پر پاکستان آئے تھے اور بہاول پور کی اسلامیہ یونیورسٹی میں اپنے یادگار خطبات کا سلسلہ مکمل کر کے پیرس واپس جا رہے تھے۔ ان سے میری مراسلت بھی رہی لیکن کبھی ان سے تفصیلی ملاقات کا موقع نہ مل سکا۔ میں نے اپنے زمانہ طالبِ علمی اور خصوصاً جامعہ کراچی سے پولیٹیکل سائنس میں ایم اے کی تیاری کے دوران ڈاکٹر صاحب کی کتابوں سے بہت استفادہ کیا تھا اس وقت ڈاکٹر صاحب کے تبحر علم کے علاوہ جس چیز نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا تھا وہ یہ تھی کہ متعلم اور معلم دونوں حیثیتوں سے ڈاکٹر صاحب کی پوری زندگی جرمنی اور فرانس میں گزری ہے لیکن ان کی فکر اور تحریر پر مغربی فکر اور تہذیب کا کوئی ادنیٰ سا شائبہ بھی نظر نہیں آتا اور وہ دیوبند یا ندروہ جیسی کسی دینی درس گاہ کے فاضل استاد کا سا اسلوبِ نگارش رکھتے ہیں جس میں اساسیات دین پر گہرے اعتقاد کا رنگ غالب ہوتا ہے۔ وہ جدید ترین دنیا کے شہری اس کے علوم کے شناور اور اس کے انتہائی ترقی یافتہ باشندوں کے مسلمہ استاد ہیں مگر اپنی فکر اور تحریر کے لحاظ سے وہ متقدمین کی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ ہمارے ہاں کسی کو چند ہفتوں کے لیے مغرب کی ہوا لگ جائے تو وہ اپنے دیس میں خود کو اجنبی محسوس کرنے لگتا ہے لیکن ڈاکٹر محمد حمیداﷲ کی اسلامی فکر اور مشرقی تہذیب یورپ میں ساٹھ سال کی رہائش کے باوجود ذرا متاثر نہ ہوئی بلکہ اس نے اُلٹا اہلِ یورپ کو متاثر کیا اور ہزاروں افراد کو اسلام کی آغوش میں پہنچا دیا۔ مغربی تہذیب علامہ اقبال کی طرح ڈاکٹر محمد حمیداﷲ کا بھی کچھ نہ بگاڑ سکی۔

پیرس میں ہم منگل 14 جنوری کو ساڑھے آٹھ بجے شب پہنچے اور ایفل ٹاور کے نزدیک کنکورڈ کے علاقے میں واقع ہوٹل کریوں(Crillon) میں جہاں وزیراعظم کے ساتھ ہمارے قیام کا انتظام کیا گیا تھا‘ اپنے کمروں تک پہنچتے پہنچتے دس بج گئے اس دن بارہ گھنٹے طویل سفر کے بعد آرام کے سوا کوئی دوسری مصروفیت نہ تھی۔ اگلے روز ہم سرکاری مصروفیات میں شرکت سے فارغ تھے اس لیے سب نے اپنے اپنے ذوق و طلب کے مطابق پروگرام مرتب کیے۔ میں نے ناشتہ کے فوراً بعد ڈاکٹر محمد حمیداﷲ سے ملاقات کی سبیل نکالی۔ اپنے ارادہ کا ذکر چند دوستوں سے کیا تو روزنامہ عبرت حیدرآباد کے ایڈیٹر قاضی اسد عابد اور روزنامہ فرنٹیئر پوسٹ کے ایڈیٹر جناب قیصر بٹ نے ساتھ چلنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ہم ایک کار میں ڈاکٹر صاحب کی رہائش گاہ پہنچے جو پیرس کے مرکزی علاقے میں ایک چار منزلہ قدیم عمارت میں واقع ہے۔ ڈاکٹر صاحب چوتھی منزل پر رہتے ہیں اس عمارت میں لفٹ نہیں ہے‘ لکڑی کا زینہ ہے اور ڈاکٹر صاحب اس پیرانہ سالی میں دن میں کئی بار اس زینے سے اُترتے چڑھتے ہیں۔ انہوں نے اس عمارت میں زمانہ طالبِ علمی گزارا اور اب اسی میں ایک چھوٹے سے کمرے میں 1948ء سے مقیم ہیں۔ ہم تقریباً ساڑھے دس بجے صبح وہاں پہنچے‘ ڈاکٹر صاحب کا کمرہ بند دیکھ کر مایوس لوٹے مگر عمارت کے صدر دروازے پر ڈاکٹر صاحب آتے ہوئے مل گئے۔ انہوں نے بڑے تپاک سے میرا خیرمقدم کیا اور بتایا کہ میں علی الصبح نماز کے بعد لائبریری چلا جاتا ہوں‘ وہیں سے واپس آ رہا ہوں۔ وہ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ہم سب سے آگے نکل گئے اور ہم ان کا ساتھ نہ دے سکے‘ سب کے سانس پھولے ہوئے اور قدم بھاری تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے تیسری منزل پر پہنچ کر بتایا کہ اوپر میرے کمرے کی مرمت ہو رہی ہے اس لیے عارضی طور پر یہاں رہ رہا ہوں۔ انہوں نے کمرہ کھولا تو ہمیں یوں محسوس ہوا کہ کتابوں کے کسی گودام میں آ گئے ہیں۔ ایک بوسیدہ صوفہ‘ فائلوں اور کتابوں سے لدی ایک پرانی میز‘ ایک جانب چھوٹی سی چارپائی اور سٹیل کی تین چھوٹی کرسیاں‘ کتابوں کے بڑے بڑے بکسوں اور کریٹوں کے درمیان جمی ہوئی بلکہ پھنسی ہوئی تھیں اور ان پر بیٹھنے سے قبل انہیں کتابوں اور فائلوں کے بوجھ سے آزاد کرنا ضروری تھا۔ ڈاکٹر صاحب بڑی دیر تک ہماری آمد پر اپنی مسرت کا اظہار کرتے رہے۔ شفقت‘ محبت‘ انکساری‘ عاجزی‘ تواضع اور اپنی بے سروسامانی کے سبب ہماری تکلیف و زحمت پر تاسف کے جذبات سے ان کا چہرہ معمور تھا۔ ابتدائی تعارفی گفتگو کچھ پرانی یادوں کی تجدید اور اپنی چار کتابوں کی پیش کش کے بعد ڈاکٹر صاحب سے سوال و جواب کے سلسلے کا آغاز ہوا تو انہوں نے بتایا کہ میں 1948ء سے یہاں مقیم ہوں۔ پاکستان یہیں سے گیا تھا اور وہاں مولانا سید سلیمان ندوی‘ متعدد علماء اور مولانا ظفر احمد انصاری کے ساتھ مل کر پاکستان کے آئین کے لیے بنیادی نکات‘ علماء کے 22 نکات اور نظامِ تعلیم کے خاکہ کی تیاری میں شریک رہا اور پھر پیرس واپس چلا آیا۔ انہیں میری زبانی مولانا ظفر احمد انصاری کے انتقال کی خبر ملی تو گہرے دُکھ کا اظہار کیا۔ مولانا کی ملی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے ان کی مغفرت کے لیے دعا کی۔ ڈاکٹر بشارت علی کے انتقال پر بھی انہوں نے افسوس اور صدمہ کا اظہار کرتے ہوئے دعائے مغفرت کی۔ انہوں نے بتایا کہ وزارتِ تعلیم کے تحت یہاں اورینٹل سٹڈیز ریسرچ سنٹر قائم ہے جس میں ایسے صاحبانِ علم کو رکھا جاتا ہے جو مختلف وجوہ کی بناء پر اپنے وطن سے ہجرت پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ میں پچیس سال سے اس سے وابستہ رہ کر اب ریٹائر ہو چکا ہوں اور اس کے وظیفہ پر میری گزر بسر ہو رہی ہے۔ میں نے جرمنی کی بون یونیورسٹی سے 1932ء میں اسلام کے بین الاقوامی قانون پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔ اگلے سال سور بورن یونیورسٹی پیرس سے عہد نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کی ڈپلومیسی کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کیا۔ بعدازاں جامعہ عثمانیہ حیدرآباد میں پڑھانے لگا۔ سقوطِ حیدر آباد کے بعد میں پیرس چلا آیا اور یہاں تحقیقاتی ادارے سے وابستہ ہو گیا اب میں کسی بھی ملک کا شہری نہیں ہوں۔ مستقبل مہاجر ہوں‘ میری مہاجریت کی ایک سند حکومتِ فرانس نے جاری کر دی تھی‘ وہی میرا پاسپورٹ ہے اسی پر بیرونی سفر کرتا ہوں یوں میری شہریت آفاقی ہے۔ اپنے علمی کام سے متعلق ایک سوال پر ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ میرا پہلا مضمون 8 جولائی 1928ء کو ہفت روزہ ’’نونہال‘‘ لاہور میں ’’مدراس کی سیر‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا اس موقع پر انہوں نے ایک پرانی کاپی دِکھائی جس میں تاریخی ترتیب کے ساتھ ان کے مضامین اور کتابوں کی فہرست موجود ہے۔ مختلف بین الاقوامی جرائد اور مختلف زبانوں میں ان کے شائع شدہ مقالات کی تعداد 921 ہے‘ وہ ایک سو سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کے بعض مضامین اور کتابوں کا ترجمہ چینی اور جاپانی سمیت متعدد زبانوں میں ہو چکا ہے۔ ان کا سب سے عظیم کارنامہ فرانسیسی زبان میں قرآنِ حکیم کا ترجمہ اور تفسیر ہے اس کے انیس ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ ہر ایڈیشن دس سے بیس ہزار کی تعداد میں طبع ہوا ہے اور آج کل وہ بیسویں ایڈیشن کا پروف پھڑنے میں مصروف ہیں۔ فرانسیسی میں سیرت نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم بھی دو جلدوں میں شائع ہو چکی ہے۔ حال میں ان کی مرتب کردہ کتاب السیر الکبیر کی چار جلدیں ترکی زبان میں شائع ہوئی ہیں جو انہوں نے ہمیں دِکھائی۔ ان کا موضع اسلام کا بین الاقوامی قانون ہے۔ اردو زبان میں عہد نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کے میدانِ جنگ‘ عہد نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کا نظامِ حکمرانی‘ رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی تدوینِ قانونِ اسلامی‘ عہد نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کا نظامِ تعلیم‘ سیاسی وثیقہ جات از عہد نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم تا خلافتِ راشدہ ان کی بلند پایہ تحقیقی کتب ہیں۔ علاوہ ازیں وہ ٹیپو سلطان اور اردو کی ترقی‘ یورپ میں ادبی نشاۃ ثانیہ‘ سلطنت مسقط و عمان‘ مشرق میں انقلاب کے لیے روسی تدابیر‘ سرور کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم کی حکومت جیسے عنوانات سے متعدد کتابیں لکھ چکے ہیں۔ وہ ایک عرصہ تک انقرہ کی ارضِ یوم یونیورسٹی میں لیکچر دیتے رہے ہیں اور اس کے لیے ہر ہفتے پیرس سے انقرہ جایا کرتے تھے۔ ڈاکٹرصاحب کو آٹھ زبانوں اردو‘ فارسی‘ عربی‘ انگریزی‘ فرانسیسی‘ جرمنی‘ ترکی اور اطالوی پر عبور حاصل ہے اور ان سب زبانوں میں ان کی تصانیف موجود ہیں۔ وہ طویل عرصے فرانسیسی زبان کے ایک ماہنامہ جریدے ’’فرانس اسلام‘‘ کے مدیر بھی رہے اور ایک تنظیم ’’جمعیتہ الصداقتہ الاسلامیہ‘‘ کے خازن ہیں۔

اس سوال پر کہ آپ نے پیرس ہی کو اپنی مستقل رہائش کے لیے کیوں منتخب کیا؟ ڈاکٹر حمید اﷲ نے بتایا کہ ایک تو ایسا تحقیقی ادارہ کہیں اور نہیں جس کا میں ذکر کر چکا ہوں دوسرے یہاں اسی لاکھ اور ایک کروڑ کتابوں پر مشتمل ایسی متعدد عظیم الشان لائبریریاں موجود ہیں جن کی کہیں نظیر نہیں ملتی۔ یہاں ایک ایک موضوع پر مثلاً عالمِ عرب پر خصوصی لائبریریاں موجود ہیں جن میں موضوع سے متعلق ہر زبان کی کتابیں یکجا مل جاتی ہیں۔ لائبریری السفہ الشرقیہ میں تیس لاکھ کتابیں موجود ہیں۔

یہاں کا ماحول بھی نسبتاً زیادہ پُرسکون اور علمی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ فرانس میں اگرچہ اسلام دشمنی کا جذبہ بہت شدید ہے اور الجزائر میں جو کچھ ہوا وہ اس کا واضح ثبوت ہے لیکن اس کے باوجود صرف پیرس میں اب تک ایک لاکھ فرانسیسی مسلمان ہو چکے ہیں یہاں ایک سو سے زیادہ مساجد موجود ہیں‘ اسلام قبول کرنے والے فرانسیسیوں کا یومیہ اوسط آٹھ تا 10 ہے‘ ان میں خواتین کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ ایک خاتون کا خط آج ہی ملا ہے جس نے اسلام قبول کرنے کی درخواست کی ہے اور لکھا ہے کہ اگرچہ میرے قریب بھی ایک مسجد موجود ہے لیکن اس پاکیزہ اور مقدس مقام تک جانے کی میں اپنے اندر ہمت نہیں پاتی۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ خط ہمیں بھی دِکھایا۔ انہوں نے بتایا کہ آج کل یہاں کسی ایک موضوع سے متعلق عیسائیوں‘ یہودیوں اور مسلمانوں کے نقطہ نظر کے اظہار کا پروگرام چل رہا ہے جس میں اسلام کے نقطہ نظر کی ترجمانی کے لیے میرا انتخاب کیا گیا ہے۔ موجودہ موضوع حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ تحقیق کے دوران نئے گوشے میرے سامنے آئے ہیں۔ مثلاً ہندوؤں کی رامائن اور یونانیوں کے مشہور شاعر ہومر کی نظم اوڈیسی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور کی تصانیف ہیں اور ان کی واقعہ نگاری پر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے واقعہ کا اثر موجود ہے۔ یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ مسلمان جو واقعہ حضرت اسماعیل علیہ السلام سے منسوب کرتے ہیں‘ وہ دراصل حضرت اسحاق علیہ السلام سے تعلق رکھتا ہے۔ میں نے ان کی کتابوں سے اور تاریخی ترتیب کے لحاظ سے ثابت کیا ہے کہ قرآن کا بیان کردہ واقعہ ہی درست ہے اس یہودی علماء نے مجھ سے علیحدگی میں کہا کہ ہم تمہاری تحقیق کو صحیح تسلیم کر لیں تو ہمارا تو سارا مذہب ہی باطل قرار پائے گا اور کھیل بکھیڑا ہو جائے گا۔ میں نے عرض کیا کہ میرا کام تحقیق ہے‘ ثبوت پیش کر دیئے ہیں‘ ماننا نہ ماننا آپ کا کام ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ میں آج کل ایک ایسی جگہ مسجد کی تعمیر میں مصروف ہوں جہاں فرانسیسی مسلمانوں کی خاصی بڑی تعداد موجود ہے لیکن ان کے لیے مسجد نہیں تھی۔ ایک عمارت خرید لی گئی ہے‘ پانچ لاکھ فرانک ادا کیے جا چکے ہیں‘ اتنی ہی رقم مزید مطلوب ہے‘ اﷲ تعالیٰ کوئی سبیل پیدا کر دے گا۔

ہمیں شدت سے احساس تھا کہ ڈاکٹر حمیداﷲ کی بہت قیمتی شے یعنی وقت کو ضائع کرنا کسی طرح بھی مناسب نہیں چنانچہ ہم نے اجازت چاہی اور گزارش کی کہ کوئی کلمہ نصیحت عطا فرمایئے۔ ڈاکٹر صاحب نے کمال انکساری کے ساتھ کہا ’’اشستغفراﷲ! میں اور کلمہ نصیحت‘‘ آپ مجھے کیوں شرمندہ کرتے ہیں‘ میں تو آپ کی کوئی تواضع نہ کرنے پر پہلے ہی بہت شرمندہ ہوں۔‘‘

اس گفتگو کے دوران قاضی اسد عابد صاحب نے اپنا کیمرہ نکال لیا اور ڈاکٹر صاحب سے ایک تصویر کی اجازت چاہی۔ انہوں نے فوراً اپنے چہرے کو دونوں ہاتھوں سے ڈھانپ لیا اور کہا ’’میں ناجائز کام کی اجازت کیسے دے سکتا ہوں؟‘‘ میں نے قاضی اسد عابد صاحب کو کیمرہ بند کر لینے کا اشارہ دیا اور تصویر پر اصرار نہیں کیا۔ یہ مضمون اسی لیے ڈاکٹر صاحب کی تصویر سے خالی ہے۔ رخصت ہوتے وقت ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ مجھے ابھی تک وزیراعظم سے ملاقات کے صحیح وقت کی اطلاع نہیں ہو سکی۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کے ہاں ٹیلی فون نہ ہونے کی وجہ سے تاخیر ہو گی۔ میں کسی کو بھیج کر آپ کو اس کی اطلاع دیتا ہوں۔ ایک گھنٹہ بعد ڈاکٹر صاحب کو سفارت خانے کے ایک افسر نے یہ اطلاع بہم پہنچا دی۔

ہم واپسی پر راستے میں دیر تک اس مردِ قلندر کے علم و فضل‘ اسلام کی اشاعت و تبلیغ کے لیے اس کی بے مثل خدمات اور اس کی سادگی‘ خوش خلقی اور عاجزی و انکساری پر اپنے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے رہے۔
جمعرات 16 جنوری کو صبح ساڑھے دس بجے وزیراعظم سے ڈاکٹر حمیداﷲ کی ملاقات تھی‘ ان کے لیے گاڑی کا انتظام تھا مگر انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ میں روزانہ میٹرو (زیرزمین ٹرین) سے سفر کرتا ہوں اسی کے ذریعے آ جاؤں گا‘ کوئی صاحب زحمت نہ فرمائیں۔ وہ مقررہ وقت سے دس منٹ پہلے پہنچ گئے۔ فرانسیسی وزیر دفاع سے وزیراعظم کی ملاقات گیارہ بجے طے تھی۔ پہلے سے جاری ملاقات میں کچھ زیادہ دیر ہوگئی اور ڈاکٹر صاحب کی باری آنے پر وزیر دفاع تشریف لے آئے۔ وزیراعظم نے ڈاکٹر صاحب سے معذرت کرتے ہوئے درخواست کی کہ آپ آدھے گھنٹے انتظار فرما لیں‘ میں آپ سے بہت اطمینان کے ساتھ بات کرنا چاہتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب نے ذرا بدمزگی کا اظہار نہ کیا اور کہا کہ میں گھنٹوں انتظار کے لیے تیار ہوں۔ آپ کی دوسری مصروفیات زیادہ اہم ہیں‘ وہ میرے ساتھ تقریباً پون گھنٹے بیٹھے رہے اور دوسرے متعدد اصحاب ان سے گفتگو کا فیض اُٹھاتے رہے۔ وزیراعظم نے ڈاکٹر صاحب سے اپنی ملاقات کے لیے پانچ افراد کا پینل مقرر کیا تھا جن میں راقم بھی شامل تھا۔ لیکن میرے اور سینیٹر فتح محمد خان کے سوا اس میں باقی تین ارکان میں سے کوئی شریک نہ ہوا۔ ڈاکٹر صاحب کا تفصیلی تعارف میرے ذمہ تھا‘ وزیراعظم ان کی خدمت اور شخصیت سے بہت متاثر ہوئے اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ آپ نفاذِ اسلام کے سلسلہ میں اپنی تجویز اور مشوروں سے نوازیں۔ ڈاکٹر صاحب نے بڑی انکساری کے ساتھ کہا کہ ’’میں یہاں بہت دُور بیٹھا ہوں‘ پاکستان کے حالات سے زیادہ واقف نہیں‘ آپ کو کیا مشورہ دوں؟ میں اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ اﷲ پر توکل رکھیے‘ اپنا کام اسی کے بھروسے پر کرتے جایئے‘ وہ ساری رکاوٹیں دُور کرتا اور آسانیاں پیدا کرتا چلا جائے گا۔‘‘ وزیراعظم نے اب تک کے کام اور مجوزہ آئینی ترمیم کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کو اپنے عزائم سے باخبر کیا تو انہوں نے غیرمعمولی مسرت کا اظہار کیا اور ان کی کامیابیوں کے لیے دعا کی۔ وزیراعظم نے جب پوچھا کہ میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟ تو ڈاکٹر صاحب نے شکریہ ادا کرتے ہوئے نہایت بے نیازی کے ساتھ جواب دیا ’’خدا کا فضل ہے‘ میں کسی چیز کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔‘‘ اس موقع پر میں نے ڈاکٹر صاحب کو یاد دِلایا کہ آپ کسی مسجد کی تعمیر کے لیے فنڈز کی کمی کا ذکر کر رہے تھے اس کی کچھ تفصیل وزیراعظم کو بتایئے۔ انہوں نے کچھ تامل کیا تو میں نے ہی اس کی تفصیل پیش کی۔ وزیراعظم نے فرمایا کہ پانچ لاکھ فرانک‘ ایک لاکھ ڈالر کے برابر بنتے ہیں‘ یہ پوری رقم حکومتِ پاکستان کی جانب سے ڈاکٹر صاحب کو ادا کر دی جائے گی تو انہوں نے کہا کہ میں وہاں آ کر کیا خدمت کر سکوں گا؟ یہاں ہمہ وقت تحریری کام اور نومسلم فرانسیسیوں کی تعلیم و تربیت پر لگا رہتا ہوں۔ یہ کام میری غیرحاضری سے متاثر ہوگا۔ وزیراعظم نے کہا کہ آپ کی آمد ہمارے لیے باعثِ برکت ہوگی اور پوری قوم آپ کو اپنے درمیان پا کر خوشی محسوس کرے گی۔ ایک ہفتہ ہی کے لیے زحمت فرما لیجیے۔ آپ میرے مہمان ہوں گے‘ مجھے اپنی سہولت کے مطابق اپنی آمد کی تاریخ سے مطلع فرما دیجیے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس پر غور کرنے کا وعدہ کیا اور بعدازاں میرے نام ایک خط میں بتایا کہ میں رمضان کے بعد اور انگریزی مہینے کے آغاز پر آ سکتا ہوں لیکن ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ اس کی ضرورت ہی کیا ہے۔ انہوں نے وزیراعظم کے نام خط اردو میں خود ٹائپ کیا‘ وہ انگریزی اردو اور فرانسیسی عبارت خود ہی ٹائپ کرتے ہیں اور اکثر مسودہ کے بغیر براہِ راست ٹائپ رائٹر پر عبارت تیار کرتے ہیں۔

وزیراعظم نے ڈاکٹر صاحب کے حالات سُن کر یہ بھی پیش کش کی کہ آپ کے لیے حکومت کی طرف سے ایک ملازم فراہم کر دیا جائے گا جو گھر اور باہر کے کاموں میں آپ کا ہاتھ بٹا سکے گا اس پر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ مجھے اس سے محفوظ ہی رکھیئے وہ میرا وقت ہی خراب کرے گا جسے میں اپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق صرف کرتا ہوں۔ وزیراعظم نے بہت اصرار کیا تو انہوں نے اس پر بھی غور کرنے کا وعدہ کیا۔ ٹی وی کے کیمرہ مین داخل ہوئے تو ڈاکٹر صاحب نے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں سے ڈھانپ لیا اور وزیراعظم سے کہا کہ مجھے اس سے محفوظ رکھیے۔ وزیراعظم کے اشارے پر تمام کیمرہ مین باہر نکل گئے اسی لیے یہ ملاقات ٹی وی پر پیش نہ کی جا سکی۔

جمعہ کو اپنی روانگی سے قبل میں ایک بار پھر الوداعی ملاقات کے لیے ڈاکٹر صاحب کے ہاں حاضر ہوا‘ وہ اس وقت اپنے ایک شاگرد کے ساتھ نمازِ مغرب ادا کر رہے تھے اور خود امام تھے‘ ان کی قرأت کی آواز دروازہ سے باہر صاف سنائی دے رہی تھی۔ اختتام نماز تک میں دروازے کے باہر منتظر کھڑا رہا۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ انہوں نے نماز سے قبل بجلی بجھا دی اور نماز ختم کرتے ہی بلب پھر روشن کر دیئے۔ بعد میں یہ عقدہ کھلا کہ شیشوں سے باہر اردگرد کے لوگ نماز پڑھتے نہ دیکھیں کیونکہ اس سے ظاہر داری اور نمائش عبادت کا پہلو نکلتا ہے۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کو بتایا کہ آپ کا خط وزیراعظم کو پہنچا دیا گیا ہے۔ انہوں نے بڑی دعائیں دیں اور مسجد کا مسئلہ حل ہونے پر خدا کا شکر ادا کیا۔ میں نے چونکہ اس بار تنہا تھا اور ڈاکٹر صاحب کا مراکشی شاگرد اردو سے ناواقف اس لیے موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ڈاکٹر صاحب سے ایک نازک سوال کر ڈالا۔ ڈاکٹر صاحب آپ زندگی بھر قرآن و سنت کا درس دیتے رہے اور اس پر عمل بھی کرتے رہے مگر آپ نے ایک سنت پر عمل نہیں کیا یعنی سنتِ نکاح اس کا کیا جواز ہے؟ ڈاکٹر صاحب نے ایک لمحہ کا توقف کیے بغیر کہا کہ ’’میں سخت گناہ گار ہوں‘ مجھے خود اس کا احساس ہے اور اب بڑھاپے میں تو اس کوتاہی کا بہت شدت سے احساس ہے‘ اﷲ مجھے معاف فرمائے۔ آپ بھی میری اس کوتاہی پر معافی اور مغفرت کی دعا کیجیے اس عمر میں اس کوتاہی کا ازالہ بھی کرنا چاہوں تو اب اس کا امکان کہاں؟‘‘ یہ کہہ کر مزید کھلے اور اصل سبب بتایا کہ ہمارے ہاں یہ کام والدین کے ذمہ ہوتا ہے‘ میں چونکہ ایک طرف وطن سے دُور یہاں تنہا رہا اور دوسری طرف والدین سے بھی محروم تھا اس لیے خاندان میں کسی کو خیال نہ آیا۔ میں تعلیم و تحقیق میں اس درجہ منہمک اور مستغرق رہا کہ اس طرف توجہ ہی نہ گئی بس یوں ہی وقت گزرتا گیا۔ یہ کوتاہی عمداً نہیں ہوئی‘ سہواً حالات نے اس کے اسباب پیدا کر دیئے۔ میں نے دوسرا سوال تصویر سے اس درجہ گریز کے بارے میں کیا تو ڈاکٹر صاحب نے وہی جواب دیا کہ اسلام میں کی اجازت نہیں۔ میں نے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ وغیرہ کی تصویروں کا حوالہ دیا تو انہوں نے کہا کہ تصویر کو انہی ناگزیر ضروریات تک محدود رہنا چاہیے۔ یہ تشہیر کا نہیں‘ شناخت کا معاملہ ہے‘ میں تشہیر کے لیے تصویر کی اجازت کیسے دے سکتا ہوں؟ یہ جواب تھا اس شخص کا جس کی زندگی تصویروں کے سیلاب کے درمیان گزری ہے اس کا گھر آج تک ٹی وی اور ریڈیو تک کے وجود سے خالی ہے۔ ذرا غور کیجیے اس کے گھر میں بیوی بچے ہوتے‘ ریڈیو اور ٹی وی ہوتے اور ٹیلی فون موجود ہوتا تو مجموعی طور پر عمرعزیز کا کتنا حصہ ان کی نذر ہوتا اور دنیا اس عظیم محقق‘ مصنف اور مفسر کی کتنی قیمتی کتابوں سے اور تبلیغی خدمات کے کتنے نتائج سے محروم رہ جاتی؟ بظاہر یہ ایک غیرفطری اور غیرمتوازن زندگی ہے لیکن جس شخص نے زندگی کا ایک ایک لمحہ اپنے مشن کے لیے وقف کر دیا ہو اس کے بارے میں کوئی اپنے دل سے پوچھے کہ رازِ حیات اس پر کھلا یا ہم پر۔

یہ ایسی ہی ہستیوں کا توفیض ہے کہ آج فرانس میں عیسائیت کے بعد دوسرا بڑا مذہب اسلام ہے اور اس کی قبولیت کی رفتار سب سے زیادہ تیز ہے۔
(بشکریہ تکبیر از محمد صلاح الدین ایڈیٹر ہفت روزہ تکبیر)

وہ 1908ء میں حیدر آباد میں پیدا ہوئے تھے اور 17 ستمبر 2002ء کو انتقال کیا۔ اس طرح انہوں نے 94 برس کی عمر پائی تھی۔ صدر پاکستان‘ جناب ضیاء الحق نے انہیں پاکستان کا اعلیٰ ترین اعزاز ’’ہلال پاکستان‘‘ عطا کیا تھا۔
.....................

بڑے بڑے سیرت نگاروں میں ایک نام سید سلیمان ندوی کا بھی ہے لیکن اس روز ان کے پاس آنے والا بھی سیرت نگار ہی تھا۔ سید سلیمان ندوی کو مہمان کا انتظار صبح سے ہی تھا۔ مہمان وقت مقررہ پر پہنچے‘ سید صاحب انہیں دارالمصنّفین لے گئے۔ کتب خانے کی عمارت میں داخل ہونے سے پہلے مہمان نے جوتے اتار لئے۔ سید صاحب نے ان سے کہا اگر جوتے پہنے رکھیں تو کوئی حرج نہیں۔

وہ بولے ’’جہاں سیرت نبویؐ لکھی گئی ہو وہاں میں جوتا کیسے پہن کر چلا جاؤں۔‘‘

زندگی بھر سیرت نبویؐ پر کام کرنے والے یہ مہمان ڈاکٹر حمید اﷲ تھے۔ چار سال کی عمر میں ہی ان کی اماں انہیں لوری کی بجائے سیرت رسولؐ کے واقعات سنایا کرتی تھیں۔ یوں بچپن میں سیرت رسولؐ سے آغاز ہوا جو آخر روز تک قائم رہا۔ وہ نبی اکرمؐ کے سفر ہجرت کے محقق ہیں۔ انہوں نے پیادہ‘ گھوڑے اور اونٹ کی پیٹھ پر بیٹھ کر عملاً سفر کیا‘ جس راستے پر حضورؐ نے ہجرت کی تھی اس راہ کو متعین کیا جو کہ روایات میں دھندلا گئی تھی۔ سیرت پر لکھنے کے لئے وہ کئی مرتبہ سعودی عرب کے سفر پر گئے۔ جنگی میدانوں کا خود جائزہ لیا اور پھر اس کی روشنی میں لکھا۔

ڈاکٹر حمید اﷲ کے مضامین کی تعداد ایک ہزار تینتالیس سے زائد ہے جو سات زبانوں میں لکھے گئے۔ وہ 9 زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ اردو‘ انگریزی‘ فرانسی اور عربی میں کتابیں لکھا کرتے تھے۔ ان کی کتابیں جرمنی‘ ہسپانوی‘ روسی اور اطالوی زبان میں ترجمہ ہوتی تھیں۔ ان کی مطبوعہ کتابوں کی تعداد 174 ہے۔ جرمن‘ ترکی‘ ہسپانوی‘ روسی اور اطالوی میں وہ روانی سے گفتگو کیا کرتے تھے۔ انہوں نے قرآن مجید کی ہبلیوگرافی تیار کی جس سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن مجید کے اردو میں تین سو‘ انگریزی میں ڈیڑھ سو اور فرانسیسی میں ستر تراجم ہو چکے ہیں۔ آخری ترجمہ ڈاکٹر صاحب کا ہے۔ سیرت پر مسلسل کام کرنے اور مصروفیت کی وجہ سے انہوں نے شادی نہ کی۔ اپنا کھانا خود تیار کرتے تھے۔ ان کے فلیٹ میں کتابیں رکھنے کی جگہ نہیں تھی‘ صوفے پر‘ میز پر‘ الماریوں میں‘ غرض ہر جگہ کتابیں ہی کتابیں تھیں۔ سوائے بستر اور جائے نماز کے کوئی جگہ ایسی نہ تھی‘ جہاں کتابیں موجود نہ ہوں۔ وہ 19 فروری 1908ء میں حیدرآباد دکن کے مقام کھٹل منڈی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام حاجی خلیل اﷲ جبکہ دادا کا نام حاجی صبغت اﷲ تھا۔ والد اور دادا دونوں علمی شخصیات تھے اور کئی کتب کے مصنف تھے۔

خود ڈاکٹر صاحب نے لکھنا شروع کیا تو 70 برس کی زندگی میں سے 35 برس وہ سیرت پر ہی لکھتے رہے۔ ’’پیغمبر اسلامؐ حیات اور کارنامے‘‘ کے نام سے ان کی کتاب دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب دنیا کی 22 زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے۔

انہوں نے جامعہ عثمانیہ سے ایم اے‘ ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کیں مگر حصول علم کی تشنگی میں کوئی کمی نہ آئی اور وہ اعلیٰ تعلیم کے لئے یورپ پہنچ گئے۔ یورپ میں انہوں نے بون یونیورسٹی (جرمنی) سے پی ایچ ڈی اور سور بون یونیورسٹی (فرانس) سے ڈاکٹر آف لیٹرز کی اسناد حاصل کیں۔ ان اسناد کے حصول کے لئے انہوں نے ’’اسلام کا بین الاقوامی قانون‘‘ اور ’’خلافت راشدہ میں اسلامی سفارت کاری‘‘ جیسے اہم موضوعات پر مقالات تحریر کئے۔ اب وہ ڈاکٹر بن چکے تھے۔ انہوں نے تدریس کو شغل بنایا اور یورپ اور ایشیا کی متعدد جامعات سے وابستگی اختیار کی اور ساتھ ساتھ اردو‘ فارسی‘ عربی اور ترکی کے علاوہ انگریزی‘ فرانسیسی‘ جرمن اور اطالوی زبانوں پر عبور بھی حاصل کیا اور ان زبانوں کو اپنی تحریروں سے مالامال کرنا شروع کر دیا۔

انہوں نے اہل مغرب کو اسلام کی حقیقی تعلیمات اور پیغمبر اسلام کی سیرت طیبہ سے متعارف کرانے کے لئے مختلف یورپی زبانوں میں سینکڑوں مقالات اور متعدد کتابیں تحریر کیں جن میں فرانسیسی زبان میں ان کا ترجمہ قرآن اور تفسیر طبع ہوئی اور انگریزی زبان میں ’’سیرت پاک محمدؐ رسول اﷲ‘‘ کے تو اب تک متعدد ایڈیشن طبع ہو چکے ہیں۔ یوں تو ڈاکٹر صاحب کی تصانیف کے موضوعات کا دائرہ بہت وسیع ہے لیکن قرآن وحدیث اور سیرت طیبہ پر ان کے تحقیقی مقالے خاص طور پر بڑی اہمیت کے حامل ہیں جن میں سیرت پاک کے اجتماعی اور سیاسی پہلوؤں‘ عہد نبویؐ کے نظام حکومت اور رسول کریمؐ کی سیاسی زندگی اور مسلمانوں کے ابتدائی سیاسی نظام پر محققانہ روشنی ڈالی گئی ہے۔

ڈاکٹر صاحب کا ایک اور گراں قدر کارنامہ دنیا کی ایک سو بیس زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم کی جامع ببلیو گرافی ’’القرآن فی کل لسان‘‘ ہے۔ اس کے علاوہ امام بخاری کے مرتب کردہ مشہور مجموعہ احادیث صحیح بخاری کا مکمل اشاریہ بھی مرتب کر چکے تھے‘ جو بذات خود ایک بڑا اور بہت اہم کام ہے۔ انہیں تحقیق سے بھی بڑی دلچسپی تھی جس کا ثبوت احادیث کے قدیم ترین مجموعہ صحیفہ امام بن منبہ کی بازیافت اور اس کی اشاعت ہے۔
ڈاکٹر صاحب مستقل طور پر پیرس میں مقیم رہے جس کا سبب وہاں ہر نوع اور زبان کی کتابوں کی بہ آسانی دستیابی اور یورپ میں اشاعت اسلام کا کام قرار دیا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر سجاد یلدرم لکھتے ہیں کہ قیام پاکستان کے بارے میں ڈاکٹر حمید اﷲ کچھ زیادہ گرم جوش نہ تھے۔ وہ مولانا ابو الکلام آزاد اور مولانا مودودی کی طرح تقسیم ہند کے خلاف تھے۔ اس لئے کہ اس طرح برصغیر کے مسلمان کئی حصوں میں بٹ جاتے اور مجموعی طور پر ان کی سیاسی‘ معاشی اور ثقافتی حیثیت کم ہو جاتی۔ بہرحال جب پاکستان معرض وجود میں آ گیا تو انہوں نے اسے اﷲ تعالیٰ کی مرضی سے تعبیر کیا اور اس فیصلے کے آگے سر تسلیم خم کر دیا اور پھر کبھی مخالفت میں ایک لفظ نہ کہا۔

ایک بار نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں جب وہ پاکستان آئے تو ان کا حافظہ متاثر ہو چکا تھا۔ بات کرتے اور بھول جاتے تھے۔ بہادر یار جنگ اکیڈمی میں تقریر کرنے کھڑے ہوئے تو کچھ زیادہ دیر تقریر نہ کر سکے اور موضوع سے انصاف نہ کر سکے۔ حافظہ ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ حیدرآباد کالونی کے جلسے میں آئے تو تقریر شروع کرنے سے پہلے ڈاکٹر رضی الدین سے پوچھنے لگے مجھے یہاں کیوں بلایا ہے‘ میں کیا بات کروں؟
ساکاریا یونیورسٹی کے پروفیسر ثریا سرما نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ جب وہ کافی دشواریاں اٹھانے کے بعد فلوریڈا پہنچے اور انہوں نے ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کی تو انہیں یہ دیکھ کر انتہائی دکھ ہوا کہ ڈاکٹر صاحب نے ان کو نہیں پہچانا۔ ان کی یادداشت جاتی رہی تھی حالانکہ وہ ترکی میں ان کے بے حد قریب تھے اور ان سے بہت فیض حاصل کیا تھا۔ حقیقت یہ تھی کہ ڈاکٹر کو الزائمر جیسی بیماری لاحق ہو گئی تھی۔ چونکہ انہوں نے ساری زندگی دماغی کام کیا تھا چنانچہ ان کے دماغ پر اثر پڑا تھا اور ان کی یادداشت متاثر ہو گئی تھی۔ وہ کچھ سوچنے کے قابل نہیں رہے تھے۔

اپنی آخری زندگی میں ڈاکٹر صاحب کلمات کے ذریعے اظہار خیال سے محروم ہو چکے تھے۔ ان سے صرف سدیدہ ہی بات کر سکتی تھی۔ پہلے اردو میں اور اس کے بعد اشاروں میں۔ وہ زندگی بھر اپنا اوورکوٹ پکڑانا یا اپنے ہاتھ کو بوسہ دلوانہ پسند نہیں کرتے تھے لیکن اب اٹھنے بیٹھنے اور رفع حاجت کے لئے سہارے کے محتاج تھے۔
سدیدہ عطا اﷲ‘ ڈاکٹر محمد حمید اﷲ کے بڑے بھائی کی پوتی اور احمد عطاء اﷲ کی صاحبزادی ہیں۔ جنوری 1996ء سے ڈاکٹر صاحب کے انتقال تک انہوں نے ڈاکٹر صاحب کی خدمت کی۔ ان کی زبانی ان کے آخری روز کے معمولات یوں تھے:
پیر کے روز رات کا کھانا ہم نے ساتھ کھایا۔ اس کے بعد حسب معمول میں نے دادا کے بال اور داڑھی تراشنے کی کوشش کی۔ انہوں نے صرف مونچھیں تراشنے کی اجازت دی اور اپنے معمول کے مطابق گیارہ بجے بستر پر دراز ہو گئے۔

منگل کی صبح چار بجے میں نے انہیں بیدار کیا تاکہ معمولات صبح انجام دے سکیں۔ وہ بغیر کسی مدد کے غسل خانے گئے اور غسل کیا۔ اس کے بعد ناشتا کیا پھر صبح چھ بجے خود چل کر بستر تک گئے۔ میں کام پر جانے کی تیاری کر رہی تھی۔ اس وقت وہ بستر پر بیٹھے تھے۔ پونے سات بجے گھر سے روانہ ہونے سے قبل میں نے ان کے کمرے میں جھانک کر دیکھا تو وہ چہرہ دیوار کی طرف کئے نہایت سکون کے ساتھ سو رہے تھے۔

دوپہر ایک بجے میری واپسی ہوئی۔ اس وقت دادا نے ایک وعدہ پورا کیا جو انہوں نے 1996ء میں مذاق کے طور پر پیرس میں کیا تھا۔ انہوں نے مذاق میں کہا تھا کہ وہ موت کے فرشتے کو میری موجودگی میں اپنی روح قبض کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

یہ جنوری 1996ء کا واقعہ ہے کہ جب دادا جان کو تقریباً نیم مردہ حالت میں پیرس کے ایک ہسپتال میں داخل کیا گیا۔ اطلاع ملتے ہی میں امریکہ سے پیرس پہنچ گئی۔ انہیں بچانے کے لئے آلات لگے تھے۔ مجھے بتایا گیا کہ ان کا جسمانی نظام کام نہیں کر رہا اور یہ کسی وقت بھی بند ہو سکتا ہے۔ مجھ سے اجازت مانگی گئی کہ وہ آلات ہٹا دیئے جائیں جو انہیں لگائے گئے ہیں تاکہ اس سسٹم کو بند کیا جا سکے جو انہیں لگایا گیا ہے۔ میں نے اس فیصلے میں تین دن لگا دیئے۔ بالآخر وہ آلات ہٹا لئے گئے۔ اگلی صبح ڈاکٹر یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ دادا اپنی کوششوں سے بستر پر بیٹھ چکے تھے اور ناشتا کر رہے تھے۔ رمضان المبارک شروع ہو چکا تھا اور وہ روزے رکھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے نو برس کی عمر سے کبھی رمضان کا کوئی روزہ قضا نہیں کیا تھا۔

میں نے اس موقع پر ان سے درخواست کی تھی کہ وہ میری موجودگی میں اس دنیا سے رخصت نہیں ہوں گے۔ اس مطالبے پر وہ محظوظ ہوئے اور انہوں نے کہا کہ اگر ممکن ہوا تو وہ فرشتہ اجل سے کہیں گے کہ ان کی روح میری موجودگی میں قبض نہ کی جائے۔

17 دسمبر 2002ء کو وہ دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور پاؤں جڑے ہوئے تھے‘ ان کے ہاتھ اس طرح بندھے ہوئے تھے جیسے وہ نماز میں باندھا کرتے تھے جس وقت میں کمرے میں داخل ہوئی تو میں نے اندازہ لگایا کہ وہ اس دارفانی سے کوچ کر چکے ہیں کیونکہ وہ اپنے پاؤں نیند کی حالت میں ملا کر رکھتے تھے۔

میں نے فون کر کے اپنے بھائی اور دادا کے شاگردوں کو اطلاع دے دی۔ وہ سب تھوڑی دیر میں جمع ہو گئے۔ اس کے بعد ہم انہیں آخری آرام گاہ کی طرف لے گئے جو سینٹ جون بلف ہے۔ انہیں فلوریڈا کے چپل بل کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔ اس موقع پر تقریباً ستر افراد موجود تھے۔

دادا پیرس کے قدیم درختوں کو پسند کرتے تھے اور حیدرآباد کے املی اور نیم کے درختوں کا خاص طور پر تذکرہ کرتے تھے۔ آج وہ شاہ بلوط کے ایک درخت کے سائے میں آرام کر رہے ہیں۔ ان کی وفات کی خبر…… سارے اسلامی پریس اور ترکی کے اخبارات نے بھی شائع کی۔ جن میں ینی شفق‘ ملی گزیتے‘ زمان‘ وقت اور درگاہ شامل ہیں۔ استنبول میں کئی تعزیتی جلسے ہوئے۔ ان جلسوں میں ڈاکٹر صاحب کے مداحوں اور طلبہ نے جن کا شمار اب ترکی کے قابل ذکر استادوں میں ہوتا ہے‘ ڈاکٹر صاحب کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ نجی ٹیلی ویژن کنال 7 نے ان کے بارے میں پروگرام پیش کئے۔ اخباروں میں برسراقتدار اور انصاف پارٹی کے ترجمان شفق نے سب سے زیادہ مضامین اور مقالات شائع کئے۔ اس اخبار کی اشاعت ایک لاکھ ہے۔ اس نے فروری 2003ء میں اپنی اشاعت میں اور سارے ترکی میں بل بوڈز کے ذریعے اشتہار دیئے جن میں ڈاکٹر صاحب کی کتاب ’’پیغمبر اسلام‘‘ (دو جلدوں میں) جو حضورﷺ کی سیرت کے بارے میں ہے‘ اپنے اخبار میں شائع شدہ 59 کوپنوں کے عوض دینے کا اعلان کیا۔ اس اشتہار کے شائع ہوتے ہی اخبار کی اشاعت میں پچاس ہزار کا اضافہ ہو گیا۔ اپریل کے آخر میں کوپن جمع کرنے والے ڈیڑھ لاکھ قارئین میں دو دو جلدیں تقسیم کی گئیں۔

اسی اخبار نے ڈاکٹر صاحب کی دوسری مشہور تصنیف ’’غزوات رسول ﷺ ‘‘ کے لئے اعلان کیا کہ اسے بھی انعامی کوپنوں کے ذریعے تقسیم کیا جائے گا۔

اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ ایک دھان پان سے شخص نے مغربی معاشرے میں خاموش انقلاب برپا کر دیا۔ آج فرانس میں مسلمانوں کی تعداد پچاس لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ حال ہی میں فرانسیسی حکومت نے مسلم کونسل کو وہی مرتبہ دیا ہے جو پہلے صرف یہودی کونسل کو حاصل تھا۔ اب انہیں یہودیوں جیسی مراعات حاصل ہیں اور وہ ان سے کسی معاملے میں کمتر نہیں ہیں۔

بارہ سو سال پہلے بغداد کے ایک بزرگ نے کہا تھا کہ عافیت گمنامی میں ہوتی ہے‘ گمنامی نہ ہو تو تنہائی میں‘ تنہائی نہ ہو تو خاموشی میں اور خاموشی نہ ہو تو صحبت سعید میں۔ اتنے علم‘ ناموری اور اتنی پذیرائی کے باوجود ڈاکٹر صاحب نے زندگی خاموشی‘ تنہائی اور گمنامی میں گزار دی جو ایک بڑی کرامت تھی۔ ایسا لگتا ہے جیسے قرون وسطیٰ کے زمانے کا کوئی مسلمان بھٹک کر ہمارے زمانے میں آ گیا تھا۔

( یہ آرٹیکل مولانا محمدصلاح الدین ایڈیٹر ہفت روزہ تکبیر اور عبدالوارث ساجدکے مضمون جو ہفت روزہ زندگی میں شائع ہوا ٗ کے اشتراک سے تیار کیاگیا ہے ۔)
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784940 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.