ہمارے یہاں سیاست اور جمہوریت کے حوالے سے
جب بھی بات کی جاتی ہے، سیاسی جماعتوں کی خامیوں کا ذکر ہوتا ہے، ان کی
کارکردگی پر سوال اٹھتے ہیں ان پر لگائے جانے والے الزامات کا تذکرہ ہوتا
ہے، تو سیاسی جماعتوں کے قائدین زیربحث آتے ہیں، ان کے راہ نماؤں، اقدامات
اور پالیسیوں کا تذکرہ ہوتا ہے، ہر پہلو پر مباحثہ ہوتا ہے، لیکن سیاست اور
جمہوریت کے اہم ترین عنصر کو موضوع نہیں بنایا جاتا اور یہ عنصر ہے سیاسی
کارکن۔
جلسے جلوس اور مظاہرے ہوں، نعرے لگانے کا عمل ہو یا انتخابی سرگرمیاں،
سیاست کی ساری چہل پہل اور سیاسی جماعتوں کی تمام گہماگہمی کارکنوں ہی کے
دم سے ہے، اس لیے سیاسی کارکنوں کی تبدیلی ہماری سیاست اور سیاسی جماعتوں
کے رویوں میں تبدیلی کا باعث بن سکتی ہے، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے
کہ ہمارے سیاسی کارکن ملک تو کیا اپنی جماعتوں میں بھی کوئی تبدیلی لانے کی
اہلیت نہیں رکھتے، جس کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر سیاسی کارکن تعلیم سے محروم
ہیں یا بہت کم تعلیم یافتہ، یہ کمی سیاسی جماعتیں کارکنوں کی ذہنی تربیت کے
ذریعے پوری کرسکتی ہیں لیکن ایک تو سیاسی قائدین کو اس کی فرصت نہیں، دوسرے
نھیں روبوٹ جیسے کارکن چاہییں جو ان کی ہر ہدایت اور ہر فیصلہ سوچے سمجھے
بغیر تسلیم کریں اور اس پر عمل کریں۔ بدقسمتی سے ہماری سیاسی جماعتوں میں
سے کم کم ہی ہیں جن میں کارکنوں کے لیے یہ امکانات ہوں کہ وہ کارکن کی سطح
سے بلند ہوکر پارٹی کی قیادت سنبھالیں یا کم از کم مرکزی قائدین کی صف میں
شامل ہوں۔ وراثت کی سیاست اور شخصیت پرستی کی فضا میں کارکنوں کا کام بس
نعرے لگانا اور دریاں بچھانا رہ جاتا ہے۔ یہی نہیں گلوبٹ کے سامنے آنے سے
آج تک اور اس بھی پہلے سے آنے والی افسوس ناک خبریں بتاتی ہیں کہ سیاسی
کارکنوں کا کن کن مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور کیا جارہا ہے۔
سیاسی کارکنوں کو ایک عام آدمی سے کہیں زیادہ سیاسی شعور کا مالک ہونا
چاہیے، لیکن ہمارے یہاں ایسا نہیں اور ہم قیادت کے فقدان کا شکار کیوں ہیں؟
ان دونوں سوالوں کے جواب میں جہاں دیگر وجوہات پیش کی جاسکتی ہیں وہیں ایک
اہم وجہ ہے ہماری درس گاہوں میں طلبہ یونینز کا خاتمہ۔
نوجوانوں کو ہمارے راہ نما ملک کا مستقبل کہتے نہیں تھکتے، انھیں قوم کی
امید قرار دیا جاتا ہے ان کی روشن آنکھوں سے آس لگائی جاتی ہے کہ وہ ہمارے
وطن سے اندھیرے دور کردیں گے، لیکن جہاں یہ نوجوان کسی کے لیے امید کی کرن
ہیں تو کسی کے لیے خوف کا سایہ بھی ہیں، یہی خوف ہے جو ہمارے تعلیمی اداروں
میں طلبہ یونینز کے قیام میں رکاوٹ ہے۔ سوال یہ ہے کہ طلبہ یونیننز طلبہ کے
لیے خطرہ ہیں یا ان سے کسی اور کو خطرہ درپیش ہوسکتا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی ملک کے سیاسی شعور رکھنے والے اور قومی مقاصد کے
لیے متحرک ہونے والے طلبہ نے ملک میں تبدیلی لانے کے لیے اہم کردار ادا کیا
ہے۔ خود ہماری تاریخ بھی اس حقیقت کا ثبوت فراہم کرتی ہے۔ برصغیر میں طلبہ
سیاست کا باقاعدہ آغاز سن 1905 میں تقسیم بنگال کے موقع پر برطانوی راج کی
مخالفت کے باوجود شروع ہوا۔ اس تحریک میں پاکستان کی قانون ساز اسمبلی کے
پہلے سپیکر مولوی تمیز الدین خان نے بطور طالب علم حصہ لیا۔ جواب میں سرکار
نے اس سال ہونے والے میٹرک کے امتحانات میں نصف سے زیادہ طلباء کو فیل کر
دیا۔ اس کے علاوہ پنجاب میں 1905 میں ہی کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے طلبہ نے
ہندوستانی طلبہ سے امتیازی سلوک کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کی، جس کی
قیادت مستقبل میں کانگریس پارٹی کے راہن ما ڈاکٹر ستیہ پال نے کی۔ کچھ سال
بعد تحریک ہجرت (1920) میں بھی بہت سے مسلمان طلبہ نے حصہ لیا۔ رولٹ ایکٹ
اور اس کے نتیجے میں ہونے والے سانحہ جلیانوالہ باغ نے بھی طلبہ پر اثر
ڈالا اور جلیانوالہ باغ کی راکھ سے بھگت سنگھ اور اسکے ساتھی نمودار ہوئے۔
1936 میں ہندوستان کی پہلی طلبہ جماعت ’آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن‘ لکھنٔو
میں قائم کی گئی۔ اس موقع پر منعقد کردہ کانفرنس سے قائداعظم اور جواہر لال
نہرو نے خطاب کیا۔اس تنظیم میں ہندو طلباء کی تعداد مسلمانوں سے کہیں زیادہ
تھی۔ اس مسئلے کے تناظر میں 1937 میں آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کا
قیام کلکتہ میں عمل میں آیا، جس نے قیام پاکستان کی تحریک میں انتہائی موثر
حصہ ادا کیا۔
تشکیلِ پاکستان کے بعد طلبہ تحریک کا از سر نو آغاز مشرقی پاکستان اور صوبہ
سندھ سے ہوا۔ پاکستان بنتے ہی مختلف مسائل پر طلبہ نے احتجاج کا علم بلند
کیا۔
زبان کے مسئلے کو بنیاد بنا کر ایسٹ پاکستان مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن قائم کی
گئی جس کے عہدے داروں میں ڈھاکایونیورسٹی کے شیخ مجیب الرحمٰن بھی شامل تھے۔
1949 میں راولپنڈی میں کمیونسٹ پارٹی کے زیراثر ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن
) قائم کی گئی جس کی ایک شاخ 1952 میں سندھ میں قائم ہوئی۔ اس تنظیم نے
مختلف تعلیمی اداروں کی غیرمناسب فیسوں کے مسئلے پر بھی احتجاج کیا مگر
انتظامیہ کی ہٹ دھرمی کے باعث بات ہنگاموں اور گرفتاریوں تک جا پہنچی۔1954
میں اس تنظیم پر پابندی لگادی گئی۔ ایوب خان نے مارشل لا لگانے کے بعد طلبہ
تنظیموں کو غیرقانونی قرار دے دیا۔ پابندی کے باوجود ایوب دور کے دوران
البتہ طلبہ کسی نہ کسی طور حکومت کے خلاف برسر پیکار رہے۔ معاہدہ تاشقند کے
بعد ایوب کابینہ چھوڑنے والے ذوالفقار علی بھٹو نے طلبہ کو ایوب مخالف
تحریک میں موثر طور پر استعمال کیا اور اسی وجہ سے 1968 میں شروع ہونے والی
اس عوامی تحریک میں طلبہ نے ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔ جماعت اسلامی کے
زیر اثر طلبہ جماعت ’اسلامی جمیعت طلبہ‘ کی ابتدا پاکستان کے قیام کے چند
ماہ بعد ہوئی۔ اس تنظیم نے بھی اپنے نظریات کے مطابق نہ صرف طلبہ سیاست میں
فعال کردار ادا کیا بل کہ قومی معاملات کے حوالے سے بھی سرگرمیوں کا مظاہرہ
کرتی رہی ہے۔
ایوب خان کے بعد جنرل ضیاء الحق کے دور میں طلبہ یونینز کا باب بند کردیا
گیا جو اب تک بند ہے۔
دنیا خاص طور پر برصغیر اور پاکستان میں طلبہ کا فعال سیاسی کردار تھا جس
نے ہمارے ملک کے ہر آمر کو طلبہ سے خائف کیے رکھا۔ آمر ہی نہیں جمہوری حکم
رانوں نے بھی طلبہ یونینز قائم نہ کرکے ثابت کردیا ہے کہ وہ بھی طلبہ کے
شعور اور ان کے سیاسی کردار سے خوف زدہ ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ طلبہ یونینز ہوں یا طلبہ تنظیمیں، یہ نوجوانوں کی سیاسی
نرسری ہوتی ہیں، جہاں طلبہ سیاست کے رموز سمجھتے ہیں اور ان کے ذریعے نئی
قیادت جنم لیتی ہے۔ پاکستان میں طلبہ تنظیموں سے جن راہ نماؤں نے جنم لیا
ان میں معراج محمد خان، شیخ رشید احمد، الطاف حسین، ڈاکٹر فاروق ستار، قاضی
حسین احمد، سراج الحق، جاوید ہاشمی اور دیگر سیکڑوں سیاسی قائدین شامل ہیں۔
جامعات اور کالجوں میں انتخابات کے ذریعے طلبہ یونینز کا قیام طلبہ میں
جمہوری سوچ پیدا کرتا ہے۔ یونینز کے ذریعے مختلف امور سنبھالنے والے طلبہ
میں قیادت کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔
جب تک طلبہ یونینز پر پابندی عاید نہیں کی گئی تھی طلبہ تنظیموں کے درمیان
تصادم اور تعلیمی اداروں میں تشدد کے واقعات پابندی کے بعد کے مقابلے میں
کہیں کم ہوتے تھے، کیوں کہ طلبہ تنظیمیں طلبہ یونین کا الیکشن جیتنے کے لیے
اپنے رویوں، کام اور نظریات کی بنیاد پر طلبہ کو اپنی طرف مائل کرنے کی
کوشش کرتی تھیں، لیکن جب طلبہ یونیز کے الیکشن کا سلسلہ ختم ہوگیا تو طلبہ
تنظیمیں طاقت کے بل پر تعلیمی اداروں میں اپنی حیثیت منوانے کے رجحان کی
طرف مائل ہوگئیں، جس کا نتیجہ باہمی تصادم اور بیسیوں طلبہ کی شہادت کی
صورت میں ہمارے سامنے ہے۔
نظریاتی بنیاد پر بننے والی طلبہ تنظیموں کے کارکنوں کا ایک دوسرے سے
نظریات پر بحث ومباحثہ مکالمے کی فضا پیدا کرتا ہے اور اس سے طلبہ میں
سیاسی شعور بلند ہوتا ہے۔ یوں معاشرے کو باشعور نوجوانوں کا وہ گروہ ملتا
ہے جو ان کی راہ نمائی کرتا ہے، مگر طلبہ یونینز نہ ہونے اور طلبہ تنظیموں
کی موجودہ صورت حال کی وجہ سے ہم اس گروہ سے محروم ہوگئے ہیں۔
جہاں تک تعلیمی اداروں میں تشدد کا تعلق ہے تو اسے روکنا حکومت کا کام ہے،
کیا سیاسی جماعتوں کے درمیان پُرتشدد تصادم کے واقعات، جو ہوتے رہتے ہیں،
کو جواز بنا کر سیاسی عمل اور سیاسی اداروں پر پابندی عاید کی جاسکتی ہے؟
حیرت کی بات یہ ہے کہ اس اہم مسئلے پر اب بات ہی نہیں کی جارہی ہے۔ ملک میں
قیادت کے فقدان کا تذکرہ ہوتا ہے لیکن اس تذکرے میں یہ نکتہ زیربحث نہیں
لایا جاتا کہ طلبہ یونینز کا نہ ہونا بھی قیادت کے فقدان کا ایک اہم سبب ہے۔
سیاسی طور پر باشعور طلبہ ملک کی ضرورت ہیں اور اس کے لیے طلبہ یونینز کا
قیام اور ان کے انتخابات ناگزیر ہیں۔ |