کیا اچھے دنوں کا وعدہ واقعی انسانوں سے کیا تھا ؟
(Mohd.Husain Sahil, India)
مہاراشٹر میں عوام کی ترقی کے،
کاروباری اور صنعتی ترقیات کے تعلق سے کئی نئے قوانین مرکزی حکومت کے پاس
راشٹر پتی کی منظوری کیلئے التواء میں بہت پہلے سے موجود ہیں ، اس کے باجود
اچانک گؤ کشی یا گؤ نسل کشی کی پابندی کے قانون کی فوری طور پر راشٹرپتی سے
منظوری حاصل کرنے میں ریاستی اور مرکزی حکومت نے اپنی تیزرفتاری یا اپنی
بیداری کا ثبوت پیش کرنے کی کوشش کی ، جس کی وجہ سے عوام میں موجودہ سرکار
کی سوچ اور انداز فکر پر شک و شبہات پیدا ہوگئے ہیں ، سیاسی لوگوں کی حکمت
عملی پر سوالیہ نشان لگ گئے ہیں۔
ریاست بھر میں گؤ کشی پر پابندی عائد کی جائے اس تعلق سے نہ ہی عوام احتجاج
کر رہے تھے اور نہ ہی عام آدمی اس تعلق سے کوئی اصرا ر اور ضد پر آمادہ تھا،
نہ ہی کسی گروپ یا سیاسی پارٹی نے اندولن کرنے کی دھمکی دی تھی۔ پھر سرکار
کو یہ فیصلہ اتنی برق رفتاری سے لینے کی کیا ضرورت پیش آئی؟کانگریس اور
راشٹروادی کانگریس سرکا ر سے پریشان ہوکر تمام مذاہب کے لوگوں نے متحد
ہوکربی جے پی اور شیوسینا کو اپنے قیمتی ووٹ دے کر انھیں کامیابی سے سرفراز
کیا، جس کے پس پشت یہی ایک امیدتھی کہ یہ سرکار یقیناہمیں ’اچھے دنوں ‘ سے
متعارف کرائے گی۔مگر افسوس کے اس سرکار کو عوام کے مسائل حل کرنے سے زیادہ
اپنی سوچ و فکر کا ’ایجنڈا‘ عوام پر تھوپنے میں زیادہ دلچسپی ہے۔پھر(اچھے
دنوں کا وعدہ انسانوں سے کیا تھا یا بیلوں سے)
مہاراشٹر میں گؤ کشی پر پابندی 1976سے نافذ ہے، اس لحاظ سے یہ موضوع کچھ
نیا نہیں ہے۔1995میں بی جے پی اور شیوسینا جب اقتدار میں تھی ، اس وقت
انھوں نے گؤ کشی کی پابندی کے قانون میں تبدیلی کرتے وقت گائے کے ساتھ ساتھ
بیل ، بچھڑا کو ذبح کرنے کی پابندی کے قانون میں شامل کرکے اس قانون کو
ہاؤس میں پاس کیا اور مرکز ی حکومت کے پاس راشٹرپتی کی منظوری کیلئے
1999میں روانہ کیا تھا ، اسی قانون کو ریاستی اور مرکزی حکومت نے راشٹر پتی
سے منظور کروا لیا ہے۔
گؤکشی پر پابندی سے لیکر گؤ نسل کشی پابندی تک کی توسیع اس قانون میں ہونے
کی وجہ سے بیل اوربچھڑا، کا ذبیحہ کرنا ،اس کا گوشت لینا، گوشت کھانایہ
تمام کام جرم میں شامل ہوگئے ہیں۔( اچھا ہے اس تعلق سے سوچناکوئی جرم نہیں
، اگرایسا کوئی آلہ دستیاب ہوجائے توپھر کئی لوگ جیل کی سلاخوں کے پیچھے
نظر آئیں گے )اس جرم میں ۵ سال کی جیل اور اور 10ہزار روپئے کا جرمانہ عائد
ہوگا۔اس نئے قانون کی وجہ سے سماج میں کئی لوگوں کو پریشانی لاحق ہوگی
ہے،کئی مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔جو لوگ اس قانون سے متاثر ہوئے ہیں وہ اپنی
ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مختصر یہ کے اہل اقتدار نے اپنا
ایجنڈا تھوپنے کیلئے اس قانون کو نافذکرنے کا کام کیا ہے۔
اہل اقتدار کا ایجنڈا اور اس سے وابستہ سیاست یہ دوباتیں تو اس میں شامل ہی
ہیں، مگر اس کے ساتھ گائے کو ہندو دھرم میں ’گؤماتا ‘کا مقام حاصل ہے ، گؤ
نسل کشی پر پابندی کے قانون کا تعلق ہندو مذہب سے جوڑا جاتا ہے۔اسی لیے
سپریم کورٹ نے اس بات کی تاکید کی ہے کہ قانون کو نافذ کرنے تعلق سے بیان
دیتے وقت براہ کرم اسے مذہبی یا انا کا مسلۂ نہ بنائیں۔
وید کے دور سے فائدہ بخش ثابت ہونے والی گائے اس جانور کو شاید کچھ معصوم
پنڈتوں نے اسے ہندو سماج کی ’گؤ ماتا ‘ قرار دی ہے۔اس وجہ سے گائے یہ پاک
صاف دیوتا ہے ، اس کی حفاظت کرنا ہندو مذہب کی حفاظت کرنے کے مساوی ہے،
ایسا پرچار کیا گیا ہے، جس نے بعد میں جاکر عقیدہ کی صورت اختیار کرلی
ہے۔ایسا پرچار کرنے میں جن سنگھ پارٹی سب سے آگے تھی۔اسی وجہ سے گؤ کشی کو
ہندو دھرم سے جوڑنے کا کام بی جے پی کرکے بھولے بھالے عقیدے کااور مذہبی
جذبات کا مذاق اُڑایا جارہا ہے۔
ان حالات میں ہمیں ویر وینائیک دامودر ساورکر کی یاد آتی ہے جن کی حالات
اور سیاسی اُتار چڑھاؤپر باریک نظر تھی،سماجی اور مذہبی گہرائی سے بھی واقف
تھے۔ ہندوؤں کا لیڈر بن کر انھوں نے اسٹیج پر جلوۂ افروزہوکر اس بھولے
بھالے عقیدہ پر دل کھول کر تنقید کرتے ہوئے اس وقت کے ہندوؤں کوکھری کھری
سنانے میں نہیں چوکے۔گائے کو دیوتا سمجھ کر ہندوں لوگوں نے اس کی پوجا کرنا
اورایک اندھے عقیدے کی پیروی کرنااس دانشور اور دور اندیش نے کبھی بھی
تسلیم نہیں کیا۔ہندو کی گائے کی پاگیزگی پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ
’گائے ایک فائدہ بخش جانور ہے، ماتا نہیں اور دیوتا تو ہے ہی نہیں‘ایسے
خیالات اور نظریات کو پیش کرکے ملک بھر میں بے چینی کا ماحول پیدا کیا
تھا۔گائے یہ ہندوؤں کی ’گؤ ماتا‘ ہے ایسا پرچار کرنے والوں کو مخاطب ہوکر
ویر وینائیک دامودر ساورکرکہتے ہیں کہ ’گائے اگر واقعی کسی کی ماں ہے تو وہ
بیل کی ماں ہے، کسی ہندو کی نہیں‘۔
گائے کے تعلق سے ویر وینائیک دامودر ساورکرنے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’ گائے
کھڑے کھڑے گھاس یا چارہ کھاتے کھاتے دوسری طرف سے بلا جھجھک پیشاب پاخانہ
کرتی ہے، گائے کو جب تھکن آتے ہی وہ جگالی کرتے ہوئے اپنے ہی پیشاب پاخانے
پر بیٹھ جاتی ہے اور اپنے ہی دُم سے وہ گوبر اپنے جسم پر مار لیتی ہے،کئی
مرتبہ لگام چھوٹتے ہی وہ کہیں بھی جاکر کسی بھی ناپاکی میں منہ مارلیتی ہے
، اور اپنے ہونٹ چاٹتی ہوئی جب اپنے ٹھکانے پر آجاتی ہے تواس جگہ پر صاف
ستھرے کپڑوں میں ملبوس برہمن اور عورتیں آکر اس کی پوجا کرتے ہیں، اسے
چھوتے ہیں، اس کے دُم کو چھو کر اپنے پیشانی پر وہی ہاتھ پھیرتے ہیں، اس کی
پوجا کرتے ہیں، چاندی کے پیالی میں اس گائے کی پیشاب لیکر پی جاتے ہیں ،
تاکہ وہ پینے والے پاک و صاف ہوجائے، ایسا عقیدہ ہے۔( یہ باتیں میں نہیں
کہہ رہا ہوں یہ باتیں ویر وینائیک دامودر ساورکرجیسے باشعوراور ذی فہم شخص
اس وقت کے ہندو عوام کو مخاطب ہوکر کہہ رہے ہیں۔)
ویر وینائیک دامودر ساورکر کہتے ہیں کہ گائے یہ فائدہ بخش جانور ہے دیوتا
نہیں ہے، یہ پیغام ویر وینائیک دامودر ساورکر نے واضح طور پر لوگوں تک
پہنچایاہے ۔ ایک جگہ ویر وینائیک دامودر ساورکر لکھتے ہیں کہ ’’گائے نے
دودھ دیا تو کتا بھی انسان کی کئی مرتبہ جان بچاتا ہے ، پھر گائے کی طرح ہی
کتا انسان کیلئے فائدہ بخش ہے۔‘‘اپنی ہر سوچ کو وہ عقل کی کسوٹی پر گھس
کرلوگوں کے سامنے پیش کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کی فکر اور سوچ میں ایک جدت
تھی ایک تجلی تھی، ایک وضاحت تھی، ان کی بات لوگوں کے دل و ذہن میں اُتر
جاتی تھی۔
موجودہ سیاست میں ایسی سوچ و فکر لوگ ہی نہیں ہیں، جو ہیں ان سیاسی لیڈران
کی کارکردگی دیکھ کران کے ذہنی دیوالیہ پن کا اندازہ ہوتا ہے۔ایک جگہ یہ
سیاسی لیڈران گائے اور بیل کی جان بچانا چاہتے ہیں اور دوسری طرف بھینس ،
بکری، مرغی کو ذبح کرنے کی کھلی آزادی دینا، یہ بھید بھاؤ نہیں ہے؟گائے اور
بھینس دونوں جانور ہی ہے۔ گائے کو پاک صاف اور بھینس کوناپاک قراردینے والے
یہ سیاسی لوگ کون ہوتے ہیں۔ ان کے پاس پاکی اور ناپاکی کا کیا پیمانہ ہے ،
پاکی کسے کہتے ہیں ،کیا وہ اس کی وضاحت کرسکتے ہیں۔
اس قانون کی وجہ کسان ناکارہ ،بیمار، بوڑھے اور زخمی یا لنگڑے لولے جانور
فروخت نہیں کرسکتے ہیں۔پھر ان جانوروں کا علاج کون کرے گا، انھیں چارہ کو ن
کھلائے گا، انھیں پانی کو پلائے گا،ان کی دیکھ بھال کون کرے گا، انھیں بارش
میں کونسی چھت کے نیچے رکھا جائے گا۔ کیا حکومت نے ان مسائل کے تعلق سے
سوچا ہے ، کیا حکومت ان مسائل سے باخبر ہیں،کسانوں کو ایسے ناکارہ جانوروں
کو فروخت کرکے جو آمدنی ہوتی تھی ، اس رقم سے کسان اپنی بیٹی کی شادی
کرواتے تھے ، اپنے بچوں کی فیس بھرواتے تھے ،اب یہ اخراجات کو برداشت کرے
گا، یہ کسان جب اپنے کھیتی کے خسارے سے بچ جائے گاتو وہ جانوروں کے خسارہ
پر خود کشی کرسکتا ہے ۔حکومت کو سوچنا چاہیے کہ یہ بیف صرف مسلمان ہی نہیں
،بلکہ عیسائی ، بودھ اور دیگر کئی فرقے کے لوگ کھاتے ہیں۔پھر کسی کو کیا
کھانا چاہیے اور کیا نہیں کھانا چاہیے یہ ڈیپارٹمنٹ سیاسی لوگوں کا یا
مذہبی لوگوں کا نہیں یہ میڈیکل ڈپارٹمنٹ طے کرے گا کہ انسان نے کیا کھانا
چاہیے یا کیا نہیں کھاناچاہیے۔جو انسان کو ہضم ہوتا ہے جو انسان کھانے میں
کراہت محسوس نہیں کرتا ، جو صحت کیلئے نقصان دہ نہیں ہیں وہ سب حلال چیزیں
انسان نے کھانی چاہیے۔
سیاست ہی مذہب ہے ایسا عقیدہ رکھنے والے سیاست دانوں نے 11کروڑ مراٹھی عوام
کی مانگ یا مطالبہ نہ ہوتے ہوئے بھی گؤ نسل کشی کا قانون بنا کر اس پیشہ سے
وابستہ لوگوں کا گلا دبایا ہے اور یہ گلا دبانے کیلئے انھوں نے ہندو مذہب
کا ہاتھ استعمال کیا ہے، ایسا بتانے کی اور جتانے کی کوشش کی گئی ہے، جو
ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد کو قبول نہیں ہے۔ہندو مذہب میں ذی ہوش اور ذی فہم
لوگ آج بھی موجود ہے۔ہندو مذہب کی ٹھیکیداری لے کر کوئی بھی قانون بنانے کی
کوشش نہ کریں۔
اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی
نوٹ: مذکورہ بالا قانون کی وجہ سے جانوروں کے کاروبار سے وابستہ کتنے لوگوں
کے روزی روٹی کے لالے پڑے ہیں ،کتنے کاروبار ٹھب ہوگئے ہیں،گوشت کے کاروبار
میں پورے قریشی برادری کے علاوہ چمڑے ،گوشت، ہڈیاں اوردیگر بیشمارکارباربند
ہوچکے ہیں، وہ دن دور نہیں جب یہ لوگ کسانوں کی طرح خود کشی کرنے پر مجبور
ہوجائیں گے۔سیاسی، سماجی، مذہبی اور کاروباری لوگوں نے ایک پلیٹ فارم پر
آکر اس مسلۂ پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔اہل اقتدار کو اس قانون پر
نظر ثانی کی ضرورت ہے۔اس تعلق سے گفتگو آئیندہ مضمون میں ہوگی۔ |
|