پاکستان میں توانائی کابحران جاری ہے۔
گذشتہ ایک دہاِئی سے اس میں شدت آئی ہے۔ اس دوران بحران میں اضافہ تو ہوتا
رہا مگراس میں کمی کے لیے کوئی ٹھوس حکمت عملی نہیں بنائی گئی۔اورنہ ہی
توانائی کے متبادل ذرائع تلاش کئے گئے۔ایک آدھ منصوبوں کاذکرکرنا ہمارے
نزدیک ضروری نہیں کیونکہ ان منصوبوں سے مجموعی طور پرکوئی فرق نہیں پڑا۔
توانائی کے متبادل اورقابل تجدید وسائل کی پاکستان میں کمی نہیں یہ
وافرمقدارمیں موجودہیں لیکن بدقسمتی سے ا ن پرکام نہیں کیا گیا۔ پاکستان
توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے سب سے زیادہ انحصار قدرتی ایندھن کے
ذرائع پرہے۔ پاکستانی قوم ہرسال پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر 12بلین ڈالر
سے زائد رقم خرچ کررہی ہے اور امسال2015 میں یہ رقم 40بلین ڈالرتک پہنچ
سکتی ہے۔ توانائی کے متبادل ذرائع کی تلاش اور اس میں ترقی کے لیے قائم
کردہ بورڈ (AEDB)کے قیام کے بعد سے تاحال کوئی حوصلہ افزاء نتائج اس بورڈ
نے دیئے۔ درجن بھرمنصوبے شروع کئے گئے مگران تمام منصوبوں سے ابھی تک قابل
ذکر توانائی قومی گرڈ میں شامل نہیں کی گئی ابھی تک توقعات پر انحصار
ہورہاہے۔ ہر بار قوم کوخوشحبری دی جاتی ہے کہ بس اگلے چند دنوں میں
500سے1000 ہزار میگاواٹ بجلی کوقومی گرڈ اسٹیشن میں شامل کرلیا جائے
گا۔دراصل ایسا اس لیے بھی نہیں ہوسکا کہ نجی شعبہ کے ساتھ اشتراک صیح معنوں
میں نہیں ہوا۔ نجی شعبہ کے لیے سرمایہ کاری کے لیے ماحول کو پرکشش نہیں
بنایاجا سکا۔اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو اْن تمام ذرائع سے نوازا ہے جو دنیا
بھر میں توانائی کے حصول کے لیے استعمال ہونے والے منصوبوں کی بنیادہوتے
ہیں۔
گذشتہ سال ستمبر میں اٹک کے علاقہ جنڈمیں پاکستان کے 100 ویں کنویں کا
افتتاح خود وزیراعظم پاکستان میاں محمد محمد نواز شریف نے کیا تھا اور قوم
کو اس وقت بھی یہی خوش خبری دی تھی کہ بس صرف تین سال کے اندراندرتوانائی
کا بحران کا خاتمہ کردیا جائے گا۔ امسال بھی وزیراعظم پاکستان نے یہی بات
کی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہر سال تین سال کا کہہ کر تیس گزار لیے جائیں گے۔
اس حقیقت سے انکارنہیں کیا جاسکتاکہ پاکستان میں گیس کے وسیع ذخائرہیں
جنہیں ابھی دریافت بھی نہیں کیا جاسکاایسے ان گنت ذخائر موجود ہیں اور ان
ذخائرمیں ماہرین ارضیات کے مطابق گیس اتنی وافر مقدار میں پائی جاتی ہے کہ
اگر ان سے ماضی کی حکومتیں استفادے کا عزم صمیم کر لیتیں تو پاکستان کو
کبھی توانائی کے بحران کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ گیس کی پیداوار کے لحاظ سے
پاکستان کا شمار بھی دنیا کے اْن ممالک میں ہوتا جو آج گیس برآمد کر کے
خطیر زر مبادلہ کمارہے ہیں۔ مثال کے طورپرہماری حکومت قطرسے گیس درآمد کرنے
کے منصوبے پر معاہدے پردستخط کرچکی ہے۔ مگرقوم کے لیے یہ بات بھی حیرت کا
باعث ہوگی کہ قطر کے اپنے ذخائرپاکستان کے مقابلے میں کم ہیں۔ ہاں یہ الگ
بات ہے کہ ان کی ضروت سے یہ ذخائر زیادہ ہیں۔ہمارے اپنے ملک کے ذخائر،زمین
کے اندر مدفن ہیں اور سمندرکی گہرایوں میں دفن ہیں انہیں کب نکالا جائے گا۔
کبھی چین تو کبھی جرمنی ہمیں آفرکرتا ہے کہ انہیں پاکستان میں توانائی کے
منصوبوں پر کام کی اجازت دی جائے۔وہ یہ نہیں کہہ رہے ہوتے کہ وہ’’ توانائی
،،اپنے ملک سے بریف کیس یا گٹھڑی میں باندھ کریا پھر کنٹینر میں لوڈ کرکے
ساتھ لےآئیں گے۔
بلکہ انہوں بھی اسی پاک وطن کے اندر موجود وسائل و ذرائع سے استفادہ حاصل
کرنا ہے۔ پاکستان جو کہ معدنی دولت سے مالامال ملک ہے۔ اس کی معدنی دولت
اور متبادل ذرائع کی اہمیت ممالک غیر کو تو ہے مگر ہمیں نہیں۔
پاکستان کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں سمندری حدود دور تک چلی
جاتی ہیں۔ پاکستان کو دریاوں کی سرزمین کہا جاتا ہے اورقدرتی جھرنے الگ ہیں
بڑی بڑی نہریں (آبپاشی کا سب سے بڑانظام)قارئیں گہری سوچ میں نہ پڑیں دنیا
بھر میں ان سب وسائل سے توانائی یعنی بجلی حاصل کی جاتی ہے۔ 22 سال
پہلے1993میں جرمنی نے پاکستان میں قدرتی جھرنوں سے بجلی پیدا کرنے کے
منصوبے پر کام کی پیشکش کی تھی کہ شمالی علاقہ جات کے قدرتی جھرنوں آبشاروں
سے 20 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی پیش کش کو ہماری حکومت نے سنجیدگی سے
نہیں لیا تھا۔ اور آج 22سال بعد یعنی2015 میں بھی وہی حال ہے۔ پن چکیوں سے
بجلی پیدا کرنے کا رواج دنیا بھر میں عام ہے۔بات اب اس سے بھی آگے تک چلی
گئی ہے۔ یورپ اور امریکہ میں سمندر میں کھبے لگاکر بڑے بڑے پنکھے لگائے
جارہے۔ہوا کے دباؤ سے بجلی پیدا کی جارہی ہے۔ ہوکے د باؤ سے بجلی پیدا
ہوسکتی ہے۔ اور شسمی توانائی سے بھی بجلی حاصل کی جارہی ہے۔ دور نہیں جاتے
پڑوسی ملک بھارت میں اس وقت شمسی سولرز پینلزکی تیاری پر بہت زیادہ زور دیا
گیا۔ کم لاگت سے سولرز پلیٹ بنانے کے لیے بھارتی حکومت نے نجی شعبے کی
حوصلہ افزائی کی جس کے بہتر نتائج سامنے آئے اور بھارت میں سولرزپلیٹ یا
پینل تیار کرنے کی انڈسٹری کامیاب ہے۔ اور یہ انڈسٹری بھارت کی گھریلو
انڈسٹری بن گئی ہے۔ جس طرح پاکستان پنکھاسازی کی صنعت ہے نے ترقی کی اور
گھرگھر پنکھے اور ان کے پارٹس بنائے جاتے ہیں اسی طرح بھارت میں شمسی
توانائی کے حصول کی خاطر بنیادی چیز سولرپلیٹ کی تیاری کو کم تر لاگت لے
جایا گیا اور حکومت نے نجی شعبہ کے ساتھ ساتھ پڑھے لکھے بے روزگار لوگوں کو
آسان شرائط پر قرضہ جات بھی دیئے اور سلولرز بناؤ جب مارکیٹ میں یہ
پلیٹس(سولرزپینل)عام ہوگئے تو ان کی قیمت بھی کم ہوگئی۔
قدرتی گیس کی طرح پاکستان میں کوئلے کے ذخائر کی بھی کمی نہیں ہے ۔مگر اس
سے بھی استفادہ حاصل کرنے کے لیے کچھ خاص نہیں کیا گیا۔متبادل توانائی
کاحصول آج کل دنیا بھر میں اہم ترین مقصد ہے۔ امریکہ میں اس پر اس قدر کام
ہوا کہ اب وہاں پیٹرول پر انحصار کم سے کم ہوگیا ہے۔
ضرورت اس مر کی ہے کہ پاکستان میں بھی متبادل توانائی کے ذرائع اور ان
وسائل میں اضافہ کیا جائے اس مقصد کے لیے قائم کئے گئے اداروں کی کارکردگی
سوالیہ نشان ہے۔ شاہد اب یہاں اصلاح واحوال بھی ممکن نہیں انتہائی ضروری ہے
کہ نئے سرے کام کیاجائے اور ٹائم فریم دیا جائے۔جلدی نہیں جنگی بنیادوں پر
کام کی ضرورت ہے۔ کیونکہ پاکستان اب مزید تاخیر کا متحمل نہیں ہوسکتا۔یہی
وقت کا تقاضا ہے ۔ |