ایران کا جوہری پروگرام

پر امن نیوکلر پروگرام جاری رکھنا ہر ملک کا بنیادی حق ہے۔دنیا میں بڑھتی ہوئی آبادی اور تیزی سے کم ہوتے ہوئے قدرتی وسائل کی بدولت اس ٹیکنالوجی کی افادیت میں اضافہ ہوا ہے۔عمومی طور پر اس ٹیکنالوجی کو جنگ اور دفاع میں استعمال کی علامت سمجھا جانے لگا ہے اور عوامی تاثر یہ زور پکڑ رہا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کا واحد مقصد تباہی اور بربادی ہے۔اس تاثر کو زائل کرنے کی ضرورت ہے ۔ایٹمی ٹیکنالوجی کا سوِل استعمال انسانیت کی فلاح اور بہبود کے لیے دورِحاضر میں لازمی ہو گیا ہے اور مستقبل قریب میں اس کی اہمیت میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔یہ ٹیکنالوجی قدرتی وسائل کے متبادل کے طور پر استعمال ہوگی۔توانائی،زراعت،صحت،ادویات سازی سمیت کئی ایک شعبوں میں اس کا استعمال بنی نوح انسان کی بقا کا ضامن بن جائے گا۔

امریکہ اور یورپ کے جن ممالک کے پاس یہ ٹیکنالوجی موجود ہے وہ سمجھتے ہیں کہ اب اس ٹیکنالوجی کا دیگر ملکوں میں منتقل ہونا عالمی امن کے لیے خطرناک ہے اور ان کو خدشہ لاحق ہے کہ اس کے پھیلاؤ سے دنیا میں تباہی پھیلے گی۔اسی نکتہ کے پیشِ نظر اس ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ پر پابندی لگا دی گئی ہے اوریہ کام اقومِ متحدہ جیسے ادارے کے ذریعے کروایا گیا ہے ۔ان بڑی طاقتوں کا خیال ہے کہ وہ ایٹمی ٹیکنالوجی پر اپنی گرفت برقرار رکھ کر دنیا کی دوسری اقوام پر اپنی اجارہ داری قائم رکھ سکتے ہیں اور باقی دنیا کی پسماندگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے وسائل کو بے دردی سے لوٹ سکتے ہیں ۔یورپ اور امریکہ کی اس سوچ کی وجہ سے دیگر ملکوں میں اس ٹیکنالوجی کا حصول ایک چیلنج بن کر ابھرا ہے ۔ایشائی اور اسلامی ممالک ان کی اجارہ داری کو ختم کرنے کے لیے اس ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے اب دن رات ایک کیے ہوئے ہیں ۔بھارت،پاکستان اور شمالی کوریا کو اس سلسلے میں کامیابی مل چکی ہے جبکہ ایران اور اب سعودی عرب بھی اس کے حصول کے لیے کوشاں ہیں ۔

آج کل ایران ایک ایسا ملک ہے جو اس ٹیکنالوجی میں مکمل صلاحیت حاصل کرنے کے بالکل قریب پہنچ گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور یورپ نے اس پر اقتصادی پابندیاں عائد کر کے دباؤ بڑھایا ہو اہے۔اقوام متحدہ کا ادارہ بھی ان پابندیوں کی حمایت کرتا ہے ۔عالمی منڈی میں تیل کی تیزی سے کم ہوتی ہوئی قیمتیں بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ایران کی اقتصادی ترقی کا انحصار تیل پر ہی ہے اور اس کی کم قیمت نے ایران کی مشکلات میں شدید اضافہ کیا ہے عالمی معاشرے میں ایران تیزی سے تنہائی کا شکار ہو تا جا رہا ہے اور اس کے اثرات اس کے اپنے عوام پر بھی پڑ رہے ہیں مگر ایران اپنے موقف پر سختی سے قائم ہے۔

عالمی منظر نامے میں 5+1اور ایران کے درمیان مذاکرات کا بہت چرچا ہے۔ان مذاکرات کو بہت اہمیت حاصل ہے ۔5+1کا خیال ہے کہ ایران ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کے بعد اپنے خطے کے ملکوں جن میں اسرائیل بھی شامل ہے کو نشانہ بنا سکتا ہے اور اس کے ایٹمی طاقت بننے سے خطے میں طاقت کا توازن بگڑ جائے گا۔جبکہ ایران کا موقف مختلف ہے۔دنیا کو ایران کا موقف سمجھنے کی ضرورت ہے ۔انقلاب کے بعد سے ایران میں دو متوازی نظام ہائے حکومت بڑی کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ایک سیاسی اور جمہوری حکومت ہے جس کے حسن روحانی سربراہ ہیں جبکہ دوسرا نظام ولایتِ فقیہی قائم ہے جس کے سربراہ علی خامنائی ہیں اور ایران میں یہ نظام نہایت مضبوط،موثراور طاقت ور ہے ۔اگرچہ عالمی طاقتوں کے ساتھ مذاکرات حسن روحانی کی ٹیم کر رہی ہے مگر اس پر مکمل کنٹرول علی خامنائی کا ہی ہے۔ایران میں رہبر معظم کے فتوے کی اہمیت کلیدی ہے اور اس کی ایک مذہبی حیثیت ہے۔ان کے ایک فتوے کے مطابق ایٹمی ہتھیار بنانا حرام ہیں ۔اس نورز کے موقع پر مشہد میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پر امن ہو گا اور اس سے جنگی ہتھیار نہیں بنائے جائیں گے۔ایران کا ایٹمی پروگرام مکمل طور پر سول مقاصد کے لیے ہے اور ایران اپنے اس حق سے پیچھے نہیں ہٹے گا ۔اب دنیا کو ایران کا حق اسے دینا ہو گا ۔سن2000میں بھی آئی اے ای اے نے ایران کے نیوکلر پروگرام کو مکمل طور پر پر امن قرار دیا تھا اور اب بھی اس کے موجودہ سربراہ یوکیا امانو نے ایران کے تعاون کو تسلیم کیا ہے اس ادارے نے اپنی تمام رپورٹوں میں اعتراف کیا ہے کہ ایران کے ایٹمی پروگرام میں کسی بھی قسم کا انحراف نہیں پایا جا تا ہے۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا ایران کے سول جوہری صلاحیت کے حصول کے حق کو تسلیم کرے اوران مذاکرات کو کامیاب بنایا جائے اور ایران سے پابندیاں اٹھا کر وہاں کی عوام کی مشکلات کو کم کیا جاے۔ اگر عالمی طاقتیں اپنے بے جا موقف پر قائم رہیں تو خدشہ ہے کہ ایران بھی اپنا موقف تبدیل کر لے گا۔ حکومتِ ایران کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اپنے روحانی پیشوا کے فتوے کی پاسداری کرتے ہوئے ایٹمی ہتھیار بنانے سے مکمل گریز کرے اور آئی اے ای اے کو اپنے جوہری پروگرام تک مکمل رسائی دے اسی میں خطے کے عوام کی بھلائی ہے۔
hur saqlain
About the Author: hur saqlain Read More Articles by hur saqlain: 77 Articles with 61636 views i am columnist and write on national and international issues... View More