حس مزاح اور آپ

اخبارات میں موجود لطائف کے سیکشن میں سب سے اوپر جعلی الفاظ میں درج ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہنسئے اور ہنسائے،،، ہنسی گھر،،،،،ہنسنا منع ہے۔ وغیرہ وغیرہ بعض اوقات ایسے ایسے لطائف ہوتے ہیں جنکو پڑھ کر یہ یقین آجاتا ہے کہ اگر بتایا نہ گا ہوتا کہ یہ لطائف کا سیکشن ہے تو واقعی پتہ نہ لگتا۔ اخبار کی خبروں میں اکثر ہی ایسی خبریں ہوتی ہیں جو لطائف سے ذیادہ انسان کو ہنسنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر سالانہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتری کی طرف جارہی ہے۔

خیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حس مزاح کے بارے میں کچھ باتیں یوں ہیں کہ کچھ لوگ ایسے ضرور ملتے ہیں جن کے اندر مزاح اور زندہ دلی کا ایسا کمبینیشن ہوتا ہے جو کہ انکے ساتھ رہنے والوں تک کو بھی سرشار کر دیتا ہے اکثر یہ قدرت کی عطا بھی ہوتا ہے کہ کچھ کے اندر اتنی صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ ہر بات کے اندر مزاح کا پہلو ڈھونڈ کر سنجیدگی اور رنجیدگی کو کم کر سکتے ہیں۔

کچھ لوگ مزاق کو ایک غلط مطلب تک لے جاتے ہیں جس میں دوسروں کو مزاق کا نشانہ بنا کر ہی انکو تسکین ملتی ہے اور وہ مزاح اسی کو سمجھتے ہیں کہ دوسروں کا مزاق اڑا کر سب کو ہنسایا جاسکے۔ درحقیقت یہ مزاق کیوہ قسم ہے جو کہ اگر نہ پائی جائے تو ذیادہ بہتر ہے۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستانی قوم حس مزاح کے معاملے میں خاصی نکمی ہوتی جارہی ہے۔ جبکہ دنیا کے بہترین مزاح پرفارمرز میں سے ایک پاکستانی نوجوان کا شمار ثابت کرتا ہے کہ پاکستانی قوم اب ایسی بھی گئی گزری نہیں ہے۔ ۔زندگی میں جس قسم کی بھی صورتحال درپیش آتی رہے اس میں رد عمل کتنا چلا کر یا رو کر دیا جارہا ہے یہ بہت اہم ہے۔ جیسا کہ بہت سے واقعات میں درحقیققت ہمیں کوئی جسمانی یا جزباتی نقصان تو ہو ہی نہیں رہا ہوتا پھر بھی ہم چیخنا چلانا اپنا فریضہ خیال کرتے ہیں۔ ہر چیز پر رد عمل دینے غمگین ہونے اور دکھی ہونے سے پہلے یہ جاننا اور چیک کرنا ضروری ہے کہ دیکھ لیا جائے اس واقعے سے اگر جسمانی یا جزباتی نقصانی نہیں ہورہا تو بس جانے دیں اور بات کو اڑا دیں۔

جن باتوں کو مذاق میں نہیں اڑانا چاہئے لوگ انکو مزاق میں اڑاتے اکثر دیکھے جاسکتے ہیں۔ اولاد بدتمیزی کرے اسکو اوائل عمری میں تو بہت ہی مزے کی بات خیال کیا جاتا ہے اور ہنس ہنس کر بدتمیزی پر رد عمل دیا جاتا ہے جبکہ بڑے ہوتے ہوتے اولاد کا عمل تع نہیں بدلتا مگر والدین کا ردعمل بدلنے لگتا ہے اور اب مزاح کی حس پھڑکنے کی جگہ غصے کی حس دھڑکنے لگتی ہے۔

ان شخصیات کو جنکے ماتھے پر ہمیشہ بل پڑے رہیں اور بھویں غصے سے تنی رہیں انکو اگر بتا بھی بدیا جائے کہ یہ لطیفہ ہے یا اس بات پر ہنسنا تھا پہلا رد عمل وہ ناک بھوں چڑھا کر اور دوسرا غصے سے آنکھیں دکھا کر ہی دے گیں۔

ایک غلط خیال یہ بھی ہے بہت سے لوگوں کے ذہن میں کہ اگر آپ ہر وقت غصے اور سنجیدگی کا لبادہ اوڑھے رہیں تو آپ خاصے معزز خیال کئے جائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں یہ خیال ذہنوں میں موجود ضرور ہے مگر عملی طور پر ہم لوگ اس طرح کے لوگوں کو سڑیل کہتے ہیں۔

تحقیق کے مطابق ڈپریشن کا حل یہی ہے کہ انسان ایسی فلم یا ڈرامے دیکھے جنکو دیکھ کر آپکو بے اختیار ہنسی ضرور آئے اس سے یہ ہوگا کہ آپکا ڈپریشن کم ہوگا۔ ہنسنے سے انسان کے اندر ایک خاص قسم کا کیمیکل پیدا ہوتا ہے جو انسان کو ٹینشن کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔۔

پس اگر آُ ہنسنے ہنسانے والے اور دوسروں کے ساتھ خوش رہنے والے اور دوسروں کو خوش رکھیں گے تو یقینی طور پر آُکی وجہ سے کسی کا ڈپریشن کم ہوگا اور آپکے لئے یہ صدقہ جاریہ ہو گا۔
sana
About the Author: sana Read More Articles by sana: 231 Articles with 293037 views An enthusiastic writer to guide others about basic knowledge and skills for improving communication. mental leverage, techniques for living life livel.. View More