نور احمد میرٹھی........ تاریخ کا ایک باب
مستقبل کاایک حوالہ
ہم جناب نور احمد میرٹھی صاحب کو جان کر بھی نہیں جانتے تھے، یقیناً آپ
ہماری اس بات پر حیران ہورہے ہوں گے، لیکن حقیقت یہی ہے، اگر جناب ندیم
صدیقی صاحب (ڈپٹی ایڈیٹر روزنامہ انقلاب ممبئی) نیٹ پر ہماری توجہ اُن کی
جانب مبذول نہ کراتے تو شاید یہ راز ہم پر نہ کھلتا کہ جنھیں ہم بچپن سے
کسی اور حیثیت سے جانتے تھے، وہی دراصل دنیائے ادب کی عظیم شخصیت نور احمد
میرٹھی ہیں، ہوا کچھ یوں کہ جب ندیم صدیقی صاحب سے ہماری کتاب”تحریک تحفظ
ختم نبوت سیدنا صدیق اکبرتا علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی“کے حوالے سے رابطہ
محبت کے درجے میں داخل ہوا تو نیٹ پر باتوں باتوں میں ایک دن انہوں نے ہمیں
کراچی کے علاقے کورنگی زمان ٹاؤن (جو کہ ہمارے گھر سے تقریباً تین چار کلو
میٹر کے فاصلے پر ہے) میں رہائش پزیر اپنے دوست جناب نور احمد میرٹھی صاحب
کا فون نمبر دے کر اُن کی خیریت سے آگاہی اور سلام پہنچانے کی استدعا کی،
چنانچہ ہم نے ندیم صدیقی صاحب کی معرفت جناب نور احمد میرٹھی صاحب کو فون
کر کے اُن کی خیریت معلوم کی اور انہیں ندیم صدیقی صاحب کا سلام پہنچایا،
یہ سلسلہ کئی ماہ تک چلتا رہا، آخر ایک دن جناب نور احمد میرٹھی صاحب نے
فرمایا، احمد صاحب آپ اکثر فون کر کے خیریت معلوم کرتے ہیں ، کسی دن تشریف
لاکر شرف ملاقات بخشیں، چنانچہ ہم ایک دن اپنے ایک دوست کے ہمراہ جناب نور
احمد میرٹھی صاحب کے آشیانے پر پہنچے، چہرہ شناسا سا لگا، بات چیت اور مکمل
تعارف میں یہ عقدہ کھلا کہ موصوف ہمارے علاقے میں جاوید کلینک ( جس کے
سامنے ہم بچپن میں کھیلا کرتے تھے ) پر ڈاکٹر جاوید کی معاونت کے فرائض
انجام دیتے رہے ہیں، گزشتہ سات ماہ سے صاحب فراش اور ریڑھ کی ہڈی میں ٹی بی
کی وجہ سے بستر پر ہونے کے باوجود وہ ہمارے ساتھ نہایت ہی محبت اور خنداں
پیشانی سے پیش آئے اور اپنی دس بیش قیمت کتابیں خوبصورت تاثرات کے ساتھ
ہمیں پیش کیں، یہ نور احمد میرٹھی صاحب سے بحیثیت نور احمد میرٹھی ہماری
پہلی ملاقات تھی۔
ڈاکٹر جمیل جالبی سچ کہتے ہیں کہ ”نور احمد میرٹھی صاحب دل انسان ہیں، خلوص
و محبت کا پیکر ہیں، دھن کے پورے، کام کے پکے....علم و ادب اُن کا اوڑھنا
بچھونا، دن رات اِسی کام میں لگے رہتے ہیں اور گزشتہ پندرہ بیس سال کے عرصے
میں کئی کتابیں مرتب کر کے شائع کرچکے ہیں جو سب کی سب اپنے موضوع پر
اچھوتی اور اُن کی محنت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔“نور احمد میرٹھی ادارہ فکر
نو کراچی کے بانی، بزم اتحاد ادب، بزم شعر و سخن، ادارہ فوق الادب سے
وابستہ اور آرٹس کونسل کراچی کے رکن ہیں، بیماری کی حالت میں بھی وہ تصنیف
و تالیف کے کام میں تندہی سے مصروف ہیں، اِس وقت 1991ء سے 2010ء تک چھپنے
والے شعری مجموعوں کا دو جلدوں اور نعتیہ کلام کا ایک جلد پر ”انتخاب“ کے
عنوان سے کام جاری ہے، اس کے علاوہ وہ ”گلستان عقیدت“ کے نام سے غیر مسلموں
کی منقبتی شاعری،”تذکرہ شعرائے طنزو مزاح“،”شعرائے طنزو مزاح کی نعتیہ
شاعری“ اور” تذکرہ شاعرات پاکستان “پر بھی کام کررہے ہیں۔
میرٹھ کی سرزمین ہمیشہ سے باکمال لوگوں کا گہوارہ رہی ہے جہاں علم و دانش
کے کئی شگوفے پھوٹ کر قدآور درخت بنے،فکرو فہم اور علم و دانش کے اِن گلوں
نے مہک کر برصغیر کی فضا کو معطر اور دیدہ ودل کو منور کیا، اِسی گدازپارہ
صفت مٹی سے نور احمد میرٹھی کا وجود بھی نمو پایا، نور احمد میرٹھی کے والد
سید محمداحمد کا تعلق دہلی اور والدہ کا میرٹھ سے تھا، نور احمد میرٹھی نے
17جنوری 1948ءکو دہلی میں آنکھ کھولی اور اپنے نانا سید نورالٰہی کے زیر
سایہ میرٹھ میں پرورش پائی، فیض عام انٹر کالج میرٹھ سے تعلیم حاصل کی،
موصوف کے نانا کا حلقہ احباب وسیع اور ماحول خالص مشرقی تھا، اسی لیے علم و
تہذیب کی چھاؤں جو سونے کو کندن بنا دے، میں اُن کا فکر و شعور پروان چڑھا،
وہ اپنے نانا سے بہت متاثر اور عملی ادبی کام میں اشرف علی زبیری کے ممنون
ہیں، جنوری 1962ء میں وہ پاکستان منتقل ہوئے اور سماجی، ادبی اور صحافتی
زندگی کا آغاز کیا، برصغیر پاک و ہند میں غیر مسلموں کی حمدیہ، نعتیہ اور
رثائی شاعری کے حوالے سے تحقیقی کام کرنے نور احمد میرٹھی پہلے آدمی ہیں،
اُن کی ادبی خدمات کو مشاہیر اور دانشور طبقہ نے سراہا اور وہ آج دنیائے
علم و ادب کی ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں،اُن کی ادبی خدمات پر انہیں قائد
اعظم ادبی ایوارڈ اور پاکستان نعت اکیڈمی کا سلور جوبلی ایوارڈ بھی مل چکا
ہے۔
نور احمد میرٹھی کی دور رس متلاشی نگاہیں ہمیشہ عجیب عجیب نکتے تلاش کرکے
اپنی بو قلمی کے نادر شاہکار تراشتی ہیں اور جدیدو منفرد انداز اُن کے محور
فکر پر رقصاں ہے، جس کا عملی اظہار ان کی وہ تصنیفات ہیں جو موجودہ اور آنے
والی نسلوں کیلئے سرمایہ افتخار ہیں، حقیقت یہ ہے کہ نور احمد میرٹھی ایک
مکمل سوچ، مجسم فکر، سراپا خلوص اور بے پایاں محبت کی وہ شبنم ہیں جو ذہنوں
کو طمانیت اور زندگی کو حرارت بخشتی ہے، جن لوگوں نے علم و ادب کو مقصد
حیات بناکر مولانا اسمعٰیل میرٹھی کی نظم ”پن چکی“کی طرح دُھن اور لگن سے
کام کیا، اُن میں نور احمد میرٹھی کا نام نمایاں و ممتاز ہے، اُن کی اب تک
درجن بھر چھوٹی بڑی کئی کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں ”اذکارو افکار،
نورسخن، گلبانگ وحدت، بوستان عقیدت، انتخاب، اشاریہ، صابربراری کی تخلیقات،
تذکرہ شعرائے میرٹھ، مشاہیر میرٹھ، شخصیات میرٹھ اور بہر زماں بہرزباں جیسی
نادر ونایات اور اچھوتی کتابیں شامل ہیں، اس کے علاوہ مہروماہ، فراز
خودی،جام طہور،چشم شوق،تاریخ رفتگاں،پانی پہ نقوش،ہوا چراغ آئینہ،خواب سے
بیداری تک،دکھ موسم اور خواب،اعتبار کا موسم اور کتابوں پر تاریخی قطعات
بھی آپ کی مرتبہ کتب میں شامل ہیں، جناب نور احمد میرٹھی کی تمام کتابیں
بین الاقوامی ادبی معیار کے مطابق چھاپی گئی ہیں۔
گزشتہ 25سال سے وہ اسی کام میں لگے ہوئے ہیں کہ میرٹھ کے لوگوں نے علم وادب
اور زندگی کے مختلف شعبوں میں علمی وتخلیقی سطح پر جو خدمات انجام دی
ہیں،انہیں بصورت تذکرہ یکجا و مرتب کرکے دنیا کے سامنے پیش کریں،میرٹھ سے
تعلق رکھنے والی قومی و ملی تاریخ کی اِن عظیم شخصیات کے ذکر کے بغیر ہماری
تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی،اِن سب شخصیات کو سمیٹ کر تذکرے کی صورت میں یکجا
کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا،اِن کاموں کیلئے ادارے بنائے جاتے ہیں،جہاں
بہت سے لوگ مل کر کام کرتے ہیں اور پھر کوئی نتیجہ برآمد ہوتا ہے،لیکن نور
احمد میرٹھی نے یہ کام تن تنہا کرکے ایک ایسا کارنامہ انجام دیا ہے جس پر
نہ صرف نور احمد میرٹھی بلکہ ہم سب بجا طور پر فخر کرسکتے ہیں،ڈاکٹر جمیل
جالبی کہتے ہیں کہ ”بہر زمان بہر زبان کو ملاکر اُن کا یہ کام”تذکرہ شعرائے
میرٹھ“،”مشاہیر میرٹھ،شخصیات میرٹھ“اتنا اہم ہوجاتا ہے کہ کسی بھی
یونیورسٹی کو انہیں ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری دینی چاہیے۔“
نوراحمد میرٹھی کی ادبی تخلیقات
گلبانگ وحدت “پانچ سو پچیس کلر صفحات پر مشتمل اس کتاب میں نور احمد میرٹھی
نے غیر مسلم شعراء کے حمدیہ کلام کو موضوع گفتگو بنانے کے ساتھ ساتھ ایک
تخصیص اور تحدید کے دائرے میں سمو دیا ہے، اس کتاب میں نور احمد میرٹھی نے
غیر مسلم شعراء میں حمدیہ رجحان اور ان کی تخلیقات کو تلاش کرکے ایک اچھوتا
،مشکل اور منفرد کام سرانجام دیا ہے،اس مجموعے کی فہرست شعراء اور فہرست
ماخذ اس حد تک مبسوط ہے کہ فاضل مرتب کی جستجواور تلاش و مستعدی پر رشک آتا
ہے، گلبانگ وحدت اردو شاعری میں غیر مسلموں کی حمد کو یکجا صورت میں مرتب
کرنے کی ایک عمدہ کوشش ہے،211غیر مسلم شعراء انتخاب کو دیکھ کر اس حیران کن
امر کا بھی انکشاف ہوتا ہے کہ غیر مسلم شعراء کی حمدیہ و نعتیہ شاعری کا لب
و لہجہ، لفظیات کی ترتیب اور احترام و عقیدت مسلمانوں کے اظہار و بیان سے
مختلف اور کم درجہ کا نہیں۔
بہر زماں بہر زباں“اپنے نام کے اعتبار سے حیات و کائنات کی تمام تر افقی
اور عمودی وسعتوں کا احاطہ کرتی ہوئی ایک ایسی نادرو نایاب ضخیم کتاب جس
میں 391 غیر مسلم شعراء جن میں ہندو، سکھ، عیسائی، پارسی، بدھ اور دوسرے
مذہبی عقائد کے ماننے والے لوگ شامل ہیں،کا چودہ مختلف زبانوں پر مشتمل
کلام بمعہ حالات 263کتب و رسائل کی مدد سے1008 صفحات پر ترتیب دیا گیا
ہے،یہ اتنا ضخیم اور جامع تذکرہ ہے کہ ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد کہتے ہیں کہ” اب
آئندہ سوسال تک اس موضوع پر کام کرنے کی ضرورت نہیں“ڈاکٹر فرمان فتح پوری
کہتے ہیں کہ ”کسی نے حضور پاک کی سیرت طیبہ کو سپرد قلم کرکے مرتبہ جاودانی
حاصل کرلیا ہے اور کسی نے نعت گو شعراء کے تذکرہ و انتخاب کی ترتیب و تدوین
سے اپنے لئے ایک ابدی نشان بنالیا ہے، نور احمد میرٹھی نے یہ بھی کیا ہے
لیکن اس سے آگے بڑھ کر انہوں نے بہر زماں بہر زباں کے زیر عنوان ایک ایسا
عظیم کارنامہ انجام دیدیا ہے جو اردو میں آپ اپنا جواب اور آپ اپنی مثال
ہے،نور احمد میرٹھی اپنی خوبی قسمت پر جس قدر ناز کریں کم ہے۔“اردو ادب میں
غیر مسلم شعراء کے حوالے سے اب تک ایسا تذکرہ شائع نہیں ہوا ،عمدہ لہجہ اور
نوع بہ نوع اسلوب میں کہی گئی اتنی بہت سی نعتوں تک رسائی حاصل کرنے میں
نور احمد میرٹھی نے کس قدر محنت شاقہ،انتظار،صبرو اصرار اور جدوجہد کی ہے
اس کا صحیح اندازہ تو وہی لگا سکتا ہے جو خود اہل قلم ہو،حقیقت یہ ہے کہ
336 غیر مسلم مدحت نگاران رسالتماب صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام اور حالات
کو جمع کرنا ایک عظیم مگر محیر العقل کام ہے جس پر انہیں کسی بھی یونیورسٹی
سے باآسانی P.hd کی ڈگری مل سکتی ہے،درحقیقت ”بہرزماں بہر زباں “نور احمد
میرٹھی کی وہ عظیم کتاب ہے جسے بین الاقوامی پزیرائی ملی۔
نور سخن “ برصغیر پاک و ہند میں ذات رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے
محبت و عقیدت کا نعتیہ اظہار جہاں مسلمانوں نے کیا،وہاں ہندو شعراء بھی کسی
سے پیچھے نہیں رہے،لیکن کچھ عرصہ قبل تک لاعلمی کی وجہ سے اُن کی تعداد
انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے،جناب نور احمد میرٹھی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ
انہوں نے 154ہندو شعراء کا کلام جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے
ذکر کا اعجاز پایا،کو نور سخن میں جمع کرکے ایک عظیم کارنامہ سرانجام دیا
ہے، یوں اپنے موضوع اور ترتیب کے اعتبار سے یہ غیر مسلموں کی کہی ہوئی
نعتوں پر مشتمل ایک ایسا حسین مجموعہ ہے،جو تسکین روح،طمانیت قلب اور ایمان
کو جِلا بخشتا ہے۔
بوستان عقیدت “ بابائے اردو مولوی عبدالحق فرماتے ہیں”مسلمانوں کی المیہ
شاعری امام حسین کی شہادت ہے“بوستان عقیدت غیر مسلموں کی حمدیہ و نعتیہ
شاعری کے بعد رثائی شاعری کا مجموعہ ہے،جسے نور احمد میرٹھی صاحب نے بڑی
جانفشانی سے مرتب کرکے فدما کے دور سے لے کر عصر حاضر تک 120غیر مسلم
شعراءکی مرثیہ گوئی کو 704صفحات کے مجموعے میں یکجا کردیا ہے،اس کتاب کے
مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اردو شاعری میں ہندوؤں کی مرثیہ نگاری کی تاریخ
بہت ہی قدیم ہے، ہندو مرثیہ نگاروں نے اردو شاعری کی ادبی قدروں اور
روایتوں کا لحاظ رکھتے ہوئے مرثیہ کو مثنوی،قصیدے،مربع اور مسدس کی شکلوں
میں لکھا اور حضرت امام حسین کی شہادت پر غیر مسلموں کے قلم سے نکلنے والی
سیاہی نے صفحہ قرطاس پر سرخ رنگ بکھیرے۔
تذکرہ شعرائے میرٹھ“602شعراء کے حالات اور مستند کوائف پر 992 صفحات پر
مشتمل اس ضخیم کتاب میں متعدد ایسے شعراءکا ذکر شامل ہے جو ہماری تاریخ کا
ناگزیر حصہ ہیں،ان میں مصطفی خان شیفتہ،قلق میرٹھی،مولانااسمعیل
میرٹھی،مرزا رحیم بیگ، احسان دانش،سلیم احمد،اقبال عظیم،مظفروارثی،فہمیدہ
ریاض،حزیں میرٹھی،عالمتاب تشنہ وغیرہ شامل ہیں،درحقیقت ان سب شخصیات کو
سمیٹ کر تذکرے کی صورت میں مرتب کرنا آسان کام نہیں۔
مشاہیر میرٹھ“ 224 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں اُن 59مشاہیر کا تذکرہ شامل
ہے جنھوں نے علم و ادب دنیا اور مذہب و سماجیات کے شعبوں میں غیر معمولی
خدمات انجام دیں، یہ وہ مشاہیر ہیں جن کے نام آج بھی زندہ ہیں اور آنے والے
زمانے میں بھی زندہ رہیں گے،اِن مشاہیر میں ڈاکٹر سر ضیا الدین احمد،بابائے
اردو مولوی عبدالحق،شاہ عبدالعلیم صدیقی،آغاناصر ،انتظار حسین وغیرہ شامل
ہیں،تذکرہ شعرائے میرٹھ کی طرح مشاہیر میرٹھ میں بھی جو معلومات و کوائف
دیئے گئے ہیں وہ مستند ماخذوں سے حاصل کرکے سلیقے سے ترتیب دیئے گئے
ہیں،یہی احتیاط نور احمد میرٹھی کا مزاج اور اُن کی کتابوں کی ہر سطر سے
جھلکتی ہے۔
شخصیات میرٹھ“اِس کتاب میں 130شخصیات کا ذکر شامل ہے جنھوں نے شعروشاعری
اور علم وادب کے علاوہ زندگی و سماج کے دوسروں شعبوں میں غیر معمولی خدمات
انجام دیں،اِن میں متعدد ایسی شخصیات ہیں جو قومی و ملی سطح پر برصغیرپاک و
ہند کی تاریخ کا حصہ ہیں،جن میں مولانا نذیر احمد خجندی،نواب جمشید احمد
خان،حکیم احمد شجاع،وغیرہ شامل ہیں،یہ کتاب 340 صفحات پر مشتمل ہے۔
اشاریہ“ تذکرہ شعرائے میرٹھ،مشاہیر میرٹھ اور شخصیات میرٹھ “کے اشاریئے جو
کہ رجال،اماکن،کتب اور ادارے وغیرہ کی سہولت کو مد نظر رکھ کر مرتب کیا گیا
ہے ایک ایک قاموس کی حیثیت رکھتاہے،234صفحات پر سا ئینٹیفک انداز پر ترتیب
دی گئی یہ کتاب مصنف کے پختہ علمی وتحقیقی ذوق کی عکاسی کرتی ہے۔
انتخاب“ 1981ءسے 1990ءکے درمیانی عرصے میں برصغیر پاک و ہند میں منظر عام
پر آنے والے 252 شعری مجموعوں کا انتخاب ہے،جس میں سن اشاعت کے ساتھ شعری
مجموعوں کی ترتیب بہ اعتبار حروف تہجی رکھی گئی ہے،بقول ڈاکٹر ساجد امجد
”یہ شعراء کا نہیں مجموعہ ہائے کلام کا نتخاب ہے۔“
اذکارو افکار“کراچی کے اُن شعراء کے تذکرے پر مشتمل ایک ایسی کتاب جو
لانڈھی کورنگی میں رہتے ہیں،اِن میں بعض ایسے اساتذہ بھی شامل ہیں جو
دنیائے ادب میں عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں اور ایسے نوجوان
شعراء بھی شامل ہیں جن کا تخلیقی مستبقل روشن ہے۔
صابر براری کی تخلیقات “یہ مشہور شاعر و ادیب جناب صابربراری کی ادبی
تخلیقات پر ترتیب دی گئی ایک کتاب ہے۔ مندرجہ بالا کتابوں کے علاوہ
مہروماہ،فراز خودی،جام طہور،چشم شوق،تاریخ رفتگاں،پانی پہ نقوش اور کتابوں
پر تاریخی قطعات بھی موصوف کی مرتبہ کتب میں شامل ہیں،واضح رہے کہ جناب نور
احمد میرٹھی کی ساری کتابیں بین الاقوامی ادبی معیار کے مطابق ہیں۔
نوراحمد امیرٹھی کی علمی و ادبی خدمات اہل علم کی نظر میں
علامہ شاہ احمد نورانی فرماتے ہیں ”وہ کام جو مختلف حضرات مل کر کرتے وہ
انہوں نے تنہا کر دکھایا۔“ ڈاکٹر فرمان فتحپوری کہتے ہیں ”نور احمد میرٹھی
کی نگاہ جستجو اور اشہب خیال نے بے بحرظلمات میں عواضی کا فریضہ اداکیا،
اُن موتیوں کو تہہ آب سے باہر نکلا اور نئی آب و تاب کے ساتھ منظر عام پر
لے آئے کہ عاشقان رسول کے دیدہ ودل منور ہوگئے۔“ڈاکٹر ابوالخیر کشفی کہتے
ہیں”جناب نور احمد میرٹھی نے انتخاب اور ترتیب و تدوین کے فن کی تمام
نزاکتوں کو خوب سمجھا اور بڑے سلیقے سے اپنے ادبی کاموں میں اِن کا اظہار
کیا، یہ تذکرے اپنے حسن ترتیب اور حسن صورت کی بناء پر ہماری ادبی تاریخ
میں یاد رکھے جائیں گے۔“محترم ضیاءالحق قاسمی کہتے ہیں کہ ”اللہ تعالیٰ اُن
کی خدمت کو شرف قبولیت بخشے۔“جناب زیڈ اے نظامی کہتے ہیں کہ ”قدرت نے نور
احمد میرٹھی کو اِس خدمت کیلئے منتخب کرلیا، اُن کی تگ و دو اِس امر کی
عکاسی کرتی ہے کہ وہ پورے انہماک اور خداداد صلاحتیوں کے ساتھ محو سفر ہیں،
مجھے امید ہے کہ اُن کی یہ کاوشیں تاریخ ادب کا حصہ بنیں گی۔“مشفق خواجہ
کہتے ہیں”آپ نے موضوع کا حق ادا ہی نہیں کیا بلکہ کام کرنے والوں کیلئے ایک
مثال قائم کردی کہ کام کس طرح کرنا چاہیے،آپ نے جس اعلیٰ معیار کا کام
انجام دیا ہے اُس پر حیرت ہوتی ہے۔“پروفیسر معین الدین عقیل کہتے ہیں کہ
”ہمارا ادب اُن کے اِن کارناموں کو کبھی فراموش اور نظر انداز نہیں کرسکے
گا۔“ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی بریلی کہتے ہیں”جناب نوراحمد میرٹھی نے تن تنہا
وہ اہم اور عظیم کارنامہ انجام دیا ہے جس کیلئے ادارے کی ضرورت
تھی۔“پروفیسر عاصی کرنالی کہتے ہیں کہ ”حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک حیرت آفریں
اعجاز ہے جس کا اظہار آپ سے ہوا۔“ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہاں پوری کہتے ہیں
کہ”آپ نے بہت بڑی ادبی خدمت انجام دی ہے اورآپ کے حسن ذوق کی کارفرمائی
ترجمہ و انتخاب دونوں ہی بے مثل و لاجواب ہے۔“جناب حکیم محمد سعید مرحوم
لکھتے ہیں کہ ”محنت اور لگن سے قطع نظر نعتیہ کلام کے انتخاب میں بھی اعلیٰ
ذوق کا ثبوت دیا گیا ہے اور کوشش کی گئی ہے کہ صرف ایسا کلام منتخب کیا
جائے جس میں جذبہ کی صداقت اور نئی خوبی کا پہلو ضرور ہو۔“خالد علیگ کہتے
ہیں کہ ”نور احمد میرٹھی کا دم غنیمت ہے کہ اُن کا سلسلہ اہل جنوں باقی
ہے۔“شاہ مصباح الدین شکیل کہتے ہیں”کاش کچھ یونیورسٹیاں ایسی ہوتیں جو
اعلیٰ تحقیقی کتابوں پر اعتراف خدمت کے طور پر از خود ڈاکٹریٹ عطا
کرتیں،اگر ایسا ہوتا تو جناب نور احمد میرٹھی کی کتاب اس کی مستحق
ٹہرتی۔“سید اختر الاسلام میرٹھ سے لکھتے ہیں کہ”ناسپاسی ہوگی کہ اگر نور
احمد میرٹھی کے ضمن میں یہ نہ کہا جائے کہ وہ ہر دم متحرک اور سیماب پا
شخصیت ہیں۔“محترم مسعود احمد برکاتی کہتے ہیں کہ”نور احمد میرٹھی کی محنت
شاقہ کی داد دینی پڑتی ہے۔“ڈاکٹر غلام مصطفی خان کہتے ہیں ”زعشق مصطفےٰ دل
ریش دارم...رفاقت باخدائے خویش دارم...آپ کو یہ رفاقت حاصل ہو۔“
اہل علم و دانش سے ایک سوال”کیا احسان کا بدلہ احسان نہیں
یقیناً احسان کا بدلہ احسان ہے، جناب نور احمد میرٹھی گزشتہ سات ماہ سے
ریڑھ کی ہڈی میں ٹی بی ہونے کی وجہ سے چلنے پھرنے سے معذور اور بے روزگار
ہیں، محنت، ایمانداری اور خود داری ہمیشہ اُن کی زندگی کا خاصہ اور وجہ
شناخت رہی ہے،آج بھی وہ اپنے رب پر توکّل کے ساتھ بہادری سے حالات سے نبرد
آزما اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھے ہوئے ہیں اور کسی بھی قسم کی ایسی مدد کے
طلبگار نہیں، جو اُن کی طبیعت، مزاج اور زندگی بھر کے اثاثے” خود داری“ کے
خلاف ہو، ہاں البتہ وہ اہلِ علم و دانش اور صاحبان ِمحبت سے اتنا ضرور
چاہتے ہیں کہ انکی ادبی تصنیفات خرید کر پڑھی جائیں، قارئین محترم یہ مضمون
بھی اسی جذبے کے تحت لکھا گیا ہے، قرآن کہتا ہے کہ ”اے ایمان والو...نیکی
اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو“آگے بڑھیئے اور نوراحمد
میرٹھی (فون نمبر00923232202815)کی علمی ادبی اور تاریخ کتب خرید کر اُن کی
مدد و معاونت میں حصہ دار بنئیے۔ |