محترم قارئین السلامُ علیکم
کائنات میں اللہ عزوجل نے بے شُمار مَخلوقات پیدا فرمائی ہیں اِن میں بعض
وہ ہیں جِنہیں دیکھنے سے ہماری آنکھ قاصر ہیں جیسے فرشتے ۔ جنّات وغیرہ اور
بعض وہ مخلوقات ہیں جنہیں ہم دیکھ تو سکتے ہیں لیکن وہ ہماری پُہنچ سے دور
ہیں آپ نے اکثر پریوں اور جل پریوں کی کہانی ضرور سُنی ہوگی بعض لوگ اِسے
صرف کہانی کی حد تک ہی مانتے ہیں جبکہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ مخلوقات
اجسامِ دُنیا میں ایسے ہی موجود ہیں جیسے ہم اور آپ آئیے دیکھتے ہیں اِس
میں کتنی حقیقت ہے اور کِتنی کہانی ہے۔
قُرآنِ مجید میں جا بَجا اللہُ سُبحانہُ تعالیٰ نے انسان کے ساتھ جِنّات کا
تذکرہ فرمایا ہے جِس میں سے ایک مشہور آیت آپ نے ضُرور سُنی ہوگی (وما
خَلَقتُ الجِنَّ والانِسَ اِلا لِیَعبُدُون) ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ
: ہم نے انسانوں اور جِنّات کو اِس لئے پیدا فرمایا کہ وہ ہماری عِبادت
کریں
اِن آیات کے تِحت ہم پر لازم ہو گیا کہ ہم جِنّات پر یقین رکھیں کہ قُران
کی آیت کا انکار کُفر ہے اب سوال پیدا ہوتا ہے کیا پریوں کا بھی وُجود ہے۔
تو مُحترم قارئین جب جِنّ کا وُجود ثابت ہوگیا تو کیا جِّنِی کا وُجود نہ
ہوگا ہم جب بیتُ الخلا میں داخِل ہوتے ہیں تو کیا دُعا پڑھتے ہیں یہی نہ کہ
اے اللہ عزوجل میں تیری پناہ چاھتا ہوں خَبِیث جِنُّوں اور جِنّیوں سے اب
معلوم یہ ہُوا کہ جِنِّی کا وَجود بھی ہے تو محترم قارئین پری بھی جِنّی ہے
یہ کوئی الگ مَخلوق نہیں بلکہ عام جِنّی اور پَری میں وَہی فَرق ہے جیے ایک
عام دراز گوش اور عربی نسل گُھوڑے میں فرق ہوتا ہے ایک عام جِنّیِ کے پر
نہیں ہوتے جبکہ پری کے پر بھی ہوتے ہیں اور یہ دیکھنے میں بھی جاذِب نظر
ہوتی ہے اِن میں قبائل بھی ہوتے ہیں اور جِس طرح ہمارے یہاں نسل اور قبائل
پہ فَخر کیا جاتا ہے بالکل ویسے ہی اُن میں بھی اعلٰی قبائل دوسروں پر فخر
کرتے ہیں مثال کے طور پر قبیلہ ایمن یہ قبیلہ نہائت مُعزز قبیلہ مانا جاتا
ہے۔
اِسی طرح بیشُمار قبائل پریوں میں بھی موجود ہیں یہ تو بات ہوگئی پریوں کی
اور مُجھے اُمید ہے آپ کو یہ مضمون پڑھنے میں لُطف بھی آرہا ہوگا آئیے اب
کچھ بات جل پریوں کے بھی مُتعلق کرلیتے ہیں
جل سنسکرت زُبان کا لفظ ہے جسکے معنٰی ہیں پانی اور پری فارسی زُبان کا لفظ
ہے جسکے لغوی معنٰی ہیں انتہائی حسین اسطرح یہ اُردو میں اسطرح مستعمل ہوتا
ہے کہ اِس کے لغوی معنٰی بنتے ہیں پانی کی پری یا پانی میں رہنے والی
انتہائی حسین مِخلوق۔ میرے ذہن میں اکثر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ہَوا
میں جِنّ اور پرّی ہوسکتے ہیں زمین پر ہوسکتے ہیں تو آخر پانی میں کیوں
نہیں ہوسکتے میں اُن لوگوں پر جو اِسے افسانوی مَخلوق مانتے ہیں زبردستی
اپنی رائے نہیں تھوپنا چاہتا۔صرف وہ دلائل جو میرے ذہن سے اِبہام کو رفع
کرتے ہیں شیئر کرنا چاہتا ہوں کہ آپ بھی غور کریں شائد میں آپکو قائل کر
سکوں ورنہ لازمی نہیں کہ آپ میرے خیالات سے 100 فی صد اِتِفاق کریں لیکن
میں آپ کو حضرت کمال الدین الدمیری کی کتاب حیاتُ الحیون سے یہ تحریر ضرور
پڑھانا چاہوں گا آپ رحمتہ اللہ علیہ کا زمانہ 742 ھجری سے 808 سن ھجری تک
کا ہے۔
آپ اپنی مشہورِ زمانہ تصنیف ِٔ لطیف میں مضمون دریائی انسان کے تحت ارشاد
فرماتے ہیں
(انسانُ الماءَ دریائی انسان)
یہ بھی ہمارے جیسے انسان کے مشابہ ہوتا ہے، فرق صرف یہ ہے کہ پانی کے انسان
کے دُم ہوتی ہے۔ شیخ قزوینی رحمتہ اللہ علیہ نےعجائبُ المخلوقات میں کہا ہے
کہ ایک مرتبہ پانی کا آدمی ہمارے بادشاہ مقدر کے زمانہ میں نکل آیا تھا
بعض حکما نے کہا ہے کہ دریائے شام میں یہ پانی کا انسان بعض اوقات اسی (ہمارے
جیسے) انسان کی شکل و صورت میں دکھائی دیتا ہے۔ اس کی سفید ڈاڑھی بھی ہوتی
ہے، لوگ اسے (شیخ البحر) کہتے تھے چنانچہ جب لوگ اسے خواب میں دیکھتے تو اس
کی تعبیر شادابی وغیرہ ہوتی ۔
بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ایک پانی کا انسان بعض بادشاہوں کے دربار میں
لایا گیا تو وہ بادشاہ اس آدمی سے اس کے حالات معلوم کرنا چاہتا تھا ۔
چنانچہ بادشاہ نے پانی کے انسان کی شادی ایک عورت سے کردی۔ اس عورت سے ایک
لڑکا پیدا ہوا جو ماں باپ کی گفتگو کو سمجھ لیتا تھا۔ ایک مرتبہ بادشاہ نے
لڑکے سے سوال کیا کہ تمہارے والد کیا باتیں کر رہے ہیں تو اس نے جواب دیا
کہ میرے والد یہ کہہ رہے ہیں کہ تمام جانوروں کی دُم ان کے پچھلے حصہ میں
ہوتی ہے لیکن میں ان لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ (ان کی دُم) ان کے چہرے میں ہے۔
حضرت لیث بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ سے دریائی انسان کے بارے میں پوچھا گیا
تو آپ نے فرمایا کہ دریائی انسان (کا گوشت) کسی بھی حالت میں نہیں کھایا
جاسکتا ۔واللہ تعالی اعلم۔
بِنات المأءَ
(بنات المأِءَ یٰعنی پانی کی عورت) ابن ابی الاشعت نے کہا ہے کہ یہ بحر
روم کی مچھلیاں ہیں جو عورتوں سے مشابہ ہوتی ہیں ۔ جن کے بال سیدھے اور رنگ
گندمی ہوتا ہے۔ نیز ان کی شرمگاہ اور پستان بڑی بڑی ہوتی ہیں۔ یہ مچھلیاں
گفتگو بھی کرتی ہیں لیکن ان کی گفتگو سمجھ سے بالاتر ہے۔ نیز یہ مچھلیاں
ہنستی اور قہقہہ مارتی ہیں ۔ ملاح کبھی کبھی ان مچحلیوں کو پکڑ لیتے ہیں
اور ان سے وطی کر کے پھر دریا میں چھوڑ دیتے ہیں۔ رویانی کہتے ہیں کہ جب ان
کے پاس کوئی شکاری عورتوں سے مشابہ مچھلی پکڑ کر لاتا تھا تو یہ ان سے وطی
نہ کرنے کی قسم لیتے تھے۔ اما قزوینی رحمتہ اللہ علیہ نے عجائبُ الخلوقات
میں اس بات کا تزکرہ کیا ہے کہ ایک آدمی ایک بادشاہ کے پاس اس قسم کی
مچھلی شکار کر کے لے گیا تو جب وہ مچھلی گفتگو کرتی تو اس کی گفتگو سمجھ
میں نہیں آتی تھی۔ پس اس آدمی نے اس مچھلی سے شادی کرلی۔ پس ان سے ایک
بچہ پیدا ہوا۔ پس وہ بچہ اپنے باپ اور ماں دونوں کی گفتگو کو سمجحتا تھا۔‘
قارئین مُحترم زندگی رہی تو انشاءَاللہ اس سلسلے پر مزید کچھ لکھوں گا |