سعودی حکومت کو در پیش خطرات
(ساجد حسین ساجد, BAHAWAL PUR)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یمن میں سعودی حکومت کی یلغار کے جواز پر ممکنہ دلائل میں سب سے اہم دلیل
یہ بیان کی جا رہی ہے کہ سعودی سلامتی اور حرمین شریفین کویمنی قبائل سے
خطرہ ہے، جب کہ زمینی حقائق کا مشاہدہ کیا جائے تو یمن میں حکومت عملاً ختم
ہو چکی ہے اور وہاں کی مسلح عوامی تنظیم ’’ انصار اللہ ‘‘ نے ملک کا کنٹرول
سنبھال لیا ہے۔ سعودی عرب اس سے پہلے چھے دفعہ یمنی حکومت کے ذریعے ’’
انصار اللہ ‘‘ پر حملہ کروا چکا ہے اور سعودی عرب کی بھر پور کوشش رہی ہے
کہ یمن کو ہر لحاظ سے پسماندہ رکھا جائے اور یمن میں کبھی بھی عوامی حکومت
کا قیام نہ ہونے پائے۔
اگر یمن کے قبائل حکومت پر قبضہ کر بھی لیتے ہیں تو اس سے سعودی عرب کی
شہنشاہیت کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟ کیا وہ سعودی عرب سے جنگ کریں گے؟ کیا وہ
سعودی عرب پر قبضہ کر کے اس کو یمن میں شامل کرنا اور اپنے ملک کا حصہ بنا
نا چاہتے ہیں؟ اگر پچھلے چند سالوں کی تاریخ کو دیکھا جائے تو انصار اللہ
ایسا ہر گز نہیں چاہتی کیونکہ آج تک ان کا کوئی ایسا بیان منظر عام پر نہیں
آیا کہ جس کو مدّنظر رکھ کر کہا جا سکے کہ انصار اللہ یا یمن کے حوثی قبائل
یمن کی حکومت پر قابض ہونے کے بعد سعودی عرب کو اپنی حکومت میں شامل کر لیں
گے۔ وہ لوگ صرف اپنے ملک میں اصلاح اور عوامی حکومت کا قیام چاہتے ہیں۔ ان
لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت صرف ان کی عوام کی نمائندہ حکومت ہو اور
ان کے ملک میں ان کے اپنے لوگوں کا حکم چلے نہ یہ کہ ہر کام میں سعودی
فرمانروا کی چشم و ابرو کے اشارے کا انتظار کیا جائے۔
اس عوامی حکومت کے قیام سے سعودی عرب میں موجود حکومت مخالف تحریکوں کو
حوصلہ ملے گا اور یمن کی دیکھا دیکھی سعودی عرب میں بھی انقلاب آئے گا اور
خاندان سعود کی حکومت ختم ہو جائے گی اس لئے آل سعود اپنی خاندانی حکومت کی
بقا و سلامتی کیلئے جنگ لڑ رہے ہیں۔
دوسری دلیل جو کہ سعودی عرب کی طرف سے سامنے آئی ہے وہ یہ کہ ہم یمنی صدر
کو اس کا قانونی حق دلانے کیلئے جنگ کر رہے ہیں۔ اگر یمنی صدر یمنی عوام کا
نمائندہ ہے تو وہ یمن ہی کی عوام کے ذریعے ہی اپنا حق حاصل کرے، اسے خاندان
سعود سے التجا کرنے کی کیا ضرورت پیش آ گئی ہے؟ اگر انصار اللہ عوامی
نمائندہ تنظیم نہیں ہوتی تو باقی عوام اس تنظیم کے خلاف کیوں نہیں کھڑے
ہوتے؟ جب کہ سعودی حملے کے خلاف صنعا شہر کے لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے
اور انہوں نے سعودی حملوں کی مذمت کی۔
فلسطین گذشتہ کئی دہائیوں سے اپنا قانونی حق حاصل کرنے کیلئے سعودی عرب سے
مدد کی درخواست کر رہا ہے۔ فلسطین کی مدد کرتے وقت اس سنی اتحاد کو سانپ
کیوں سونگھ جاتا ہے؟ یہ سعودی ، کویتی اور اماراتی طیارے جو یمنی عوام کو
اپنی بمباری کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں ،اسرائیل پر تو پچھلے پچاس سالوں میں
ایک دفعہ بھی بمباری کی جرأت نہ کر سکے۔
مصر کی قانونی حکومت جو کہ اخوان المسلمین کی عوامی تحریک سے وجود میں آئی
تھی، کیوں سعودی عرب نے اس حکومت کا تختہ الٹا؟ اس وقت کیوں محمد مرسی کو
قانونی حق دلانے کیلئے آ ل سعود نے مدد نہیں کی؟ بلکہ فوجی آمر جو آج سعودی
شاہی خاندان کے ساتھ ہے اس کی حکومت کے قیام میں سعودی نے بھر پور مدد کی
اور اس آمر نے جس حکومت کا تختہ الٹا ،کیا وہ قانونی حکومت نہیں تھی؟
تیونس میں عوامی انقلاب کے بعد وہاں کے صدر کو بچانے کیلئے سعودی حکومت
خاموش رہی ،اس خاموشی کی وجہ کیا ہے؟
شام میں بشارالاسد کی قانونی حکومت باقی رکھنے کیلئے سعودی شاہی خاندان مدد
کو آگے کیوں نہیں بڑھتا؟ اس کے بر عکس مصر کی حکومت کو تباہ کرنے کیلئے
باغیوں کی اسلحہ، پیسے اور ہر طرح سے مدد کی جا رہی ہے ۔
عراق کی عوامی و قانونی حکومت کے خلاف سعودی اسلحہ اور ریال کیوں خرچ ہو
رہے ہیں ؟ان تمام حکومتوں کے خلاف سعودی عرب کے ساتھ امریکہ بھی شانہ بشانہ
کھڑا نظر آتا ہے یہ کون سے اسلام کی خدمت ہے؟ یہ کس فرقے کا اتحاد ہے؟
سعودی عرب امریکہ کے اشارے پر دوغلی پالیسی اپنائے ہوئے ہے کبھی شیعہ سنی
مخالفت کا بہانہ بنایا جاتا ہے، کبھی حرمین شریفین کی حرمت کو آڑ بنا کر
لوگوں کی ہمدردیاں بٹورنے کی کوشش کرتا ہے، کبھی ایران کا بڑھتا ہوا اثر و
رسوخ بتا کر لوگوں کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کیا ہر سال لاکھوں
شیعہ کعبۃ اللہ کا حج کرنے سعودی عرب نہیں جاتے؟ کیا شیعہ ،نبی اکرم ﷺ کے
مزار مقدس کی حرمت کے قائل نہیں ہیں؟ تو پھر حرمین شریفین کو شیعوں سے کیا
خطرہ اور کیسا خطرہ؟ کیوں لوگوں کو حقائق نہیں بتائے جاتے؟
یمن میں اگر عوامی قبائل کی حکومت قائم ہو جاتی ہے تو خاندان سعود کو اپنی
بادشاہت قائم رکھنا مشکل ہو گا۔ امریکہ بھی اس لئے اس خاندان کی حمایت کرتا
ہے کیونکہ عوامی حکومتوں سے امریکہ کیلئے اپنے مفادات حاصل کرنا مشکل ہیں۔
یہ سب حکمران جو آج یمن کے خلاف جنگ کیلئے اتحاد قائم کر رہے ہیں اگر یہ
مسلمانوں کے نمائندے ہیں تو ان کو یہی اتحاد اسرائیل کے خلاف بنانا چاہئے،
جس نے بیت المقدس پر قبضہ کر رکھا ہے اور وہی ایسا ملک ہے جس سے حرمین
شریفین کو بھی خطرہ ہے۔ اسرائیل جس نے 1948ء میں فلسطین پر غیر قانونی
قبضہ کیا اور اس دن سے لے کر آج تک ہمیشہ مسلمانوں کے قتل عام میں مصروف ہے
اور مسلمانوں کے قبلہ اول ، بیت المقدس پر غاصبانہ قبضہ جمائے ہوئے ہے۔
انتظار یہ ہے کہ مسلمان حکمرانوں کو کب اپنی غیرت دینی کا خیال آتا ہے اور
کب وہ اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں کو ظلم سے نجات دلانے کیلئے اتحاد قائم
کرتے ہیں۔ اور وہ اتحاد ہو گا شیعہ سنی اتحاد بلکہ اسلامی اتحاد۔ اور سب کی
زبان پر ہو گا ؎
اسلامی اتحاد زندہ باد
شیعہ سنی اتحاد پائندہ باد |
|