ہاشم پورہ کا سانحہ: سزا تو ملی مگر۔۔۔

وہ قیامت کی رات تھی۔مئی کی شدید گرمی میں چھوٹے چھوٹے گھروں کے رہنے والے اکثرلوگ اپنی گلیوں میں چارپائی ڈال کر پڑرہتے ہیں۔ مگر شہر میں کرفیو تھا۔غیرمسلم محلوں میں تو صورتحال پھر غنیمت تھی۔ لوگ گلیوں میں آزادی سے آجارہے تھے۔ محلے کی دوکانوں کے شٹر بھی آدھے تہائی کھلے تھے۔ مگر مسلم محلوں میں حال یہ تھا کہ کسی نے کھڑکی بھی کھولی تو تڑ سے گولی چلی اور کھڑکی بند ہوگئی۔

یہ واقعہ رمضان کے آخری جمعہ ، 22 اور23 مئی1987 کی درمیانی رات کا ہے ۔ اس سے چندروز پہلے بابری مسجد کا دروازہ چور دروازے سے پوجا پاٹھ کے لئے کھلوا دیا گیا تھا۔جس پر ایک فرقہ میں سخت غم وغصہ تھا۔ سراپا احتجاج لوگ عالم بے بسی میں سڑکوں پر نکل آئے تھے۔پولیس نے ان کوللکارا۔وہ مرعوب نہیں ہوئے ،تو ان پر پہلے ڈنڈے برسائے۔پھر گولیاں چلائیں۔ جواب میں چند اینٹ پتھر اچھالے گئے ۔ اسی کا نام ’فساد‘ رکھ دیا گیا۔ حالانکہ نہ ہندوحملہ آور ہوئے تھے اورنہ مسلمان ہندوؤں سے ٹکرائے تھے۔ہاں نعرے دونوں طرف سے لگائے گئے تھے۔

صورتحال قابو میں نہیں آئی توریاست کے وزیراعلا ویر بہادر سنگھ خود میرٹھ کے سرکٹ ہاؤس میں ڈیرہ ڈال کر بیٹھ گئے۔ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی تھی کہ جو کام عدالت کی آڑ لیکر کروایا گیا اس پر عوام برہم کیوں ہیں؟ ان کا تعلق گورکھپورسے تھا۔ علاقے میں گورکھناتھ مندر کے مہنت اویدناتھ اور ان کے چیلے آدتیہ ناتھ کا سیاسی اثر رسوخ تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ویربہادرسنگھ کو فکر یہ تھی کہ پوروانچل میں ان کی سیاسی جاگیر نہ چھن جائے۔ ان کو سیکولرزم کا دامن تنگ نظرآیا۔وہ کانگریس میں رہتے ہوئے مہنت سے بازی مارلیجانے کے فراق میں تھے۔ راجیو گاندھی نے بغیر استحقاق ان کو وزیر اعلا بنا دیا تھا۔ چنانچہ وزیراعلا نے اکثریتی فرقہ پرستی کا کارڈ کھیلا اورمسلم احتجاج کو کچلنے کی ٹھانی۔ ان کو ’سبق سکھانے ‘کا ارادہ کیا۔ گمان یہ ہے کہ ان کو مرکزی سرکار کی پشت پناہی حاصل تھی جو اسی انداز میں سکھوں کو ’سبق ‘ سکھا چکی تھی۔ چنانچہ’ سیاں بھئے کوتوال، تجھے ڈر کس کا؟‘کی مصداق وزیراعلا بے خوف پورے جلال میں تھے۔

ایک دن صبح سویرے جب وہ اعلا پولیس اورسول حکام کے ساتھ میٹنگ میں تھے ، مقامی ایم پی صاحبہ ان نے ملنے وہاں آ پہنچیں۔ مگروزیراعلا نے ان کو وہاں رکنے نہیں دیا۔ جب ایک فیصلہ کرلیا گیا تو اس کونافذ کرنے کی ہمت دن میں تو نہیں ہوئی۔ چوروں کی طرح رات کی تاریکی میں مسلم محلہ ’ہاشم پورہ‘ پر یلغار کی گئی۔آج پوری دنیا بے بسوں کی اس بستی کے نام سے واقف ہے۔ مگراس کو یہ شہرت اور شناخت وزیراعلا کی ’بہادری‘ سے نہیں ،بلکہ سرکار کی سفاکی اورانسانی حقوق کی بد ترین پامالی کی بدولت ملی۔ جو جرم پی اے سی سے کروایا گیااس پر پردہ نہیں پڑسکا۔بے یار و مددگار انسانوں کے قتل کی ہٹلری واردات کا داغ ایک نام نہاد سیکولرجمہوری حکومت پرلگ کررہا۔یہ واقعہ جس زمانے میں پیش آیا، دنیاتب تک دہشت گردی کے نام سے واقف نہیں تھی۔
رات ہوئی تو پی اے سی کے جوان ٹرکوں میں سوار ہو کر آئے۔ دروازوں پر دستک دی۔ جو نہیں کھلا ،اس کو توڑ دیا ۔ وحشیوں کی طرح اندرگھسے۔ توڑ پھوڑ کی، لوٹ کھسوٹ کی۔ کوئی 45ہٹے کٹے لوگوں کو بندوق کی نوک پر گھروں سے نکالا، ٹرک میں ڈالا اور چند کلومیٹر دور مکند پور گاؤں کے پاس لیجاکر ان کو گولیاں بھون ڈالا۔ لاشیں گنگ نہر میں اچھال دی گئیں۔

تھوڑے ہی فاصلہ پر پولیس پوسٹ تھی۔ انجارج بی بی سنگھ نے گولیوں کی آواز سنی تو سمجھے گاؤں میں ڈاکہ پڑ گیا ہے۔ فوراً اپنے دوماتحتوں کو موٹرسائیکل پر بٹھا کر دوڑے۔ تنگ راستے میں ادھرسے آتا ہواپی اے سی کا ٹرک ملا، جس پر 41ویں بٹالین لکھا تھا۔ کچھ دورآگے چلے۔وہاں جو منظردیکھا اسے دیکھ کر ان کے ہوش اڑ گئے۔ فوراً ایس ایس پی تربھون نارائن سنگھ کی کوٹھی پر پہنچے۔ صورتحال سے باخبر کیا۔ انہوں نے ضلع کلکٹر نسیم زیدی کو مطلع کیا اورچند منٹ میں ضلع کے اعلا افسران اس جگہ پہنچ گئے جہاں ابھی تک جھاڑیوں سے خون ٹپک رہا تھا اور چند لاشیں جھاڑیوں میں پڑی تھیں۔ ان کے حکم پر نہر میں جال ڈالے گئے۔ بہت سی لاشیں نکالی گئیں۔ مگر ریاستی حکومت کو ان کی یہ مستعدی ناگوار گزری۔ چنانچہ نہ وہ ٹرک تحویل میں لیا جا سکا ،جو ارتکاب جرم کے لئے استعمال ہوا تھا، نہ اسلحہ ضبط ہوا۔ نہ کوئی گرفتاری ہوئی۔ بعداز خرابی بسیار 9 برس بعد سی بی سی آئی ڈی نے انکواری کی خانہ پوری مکمل کی۔ ایف آئی آر درج ہوئی۔ کچھ لوگ گرفتارکئے گئے۔ معطل بھی ہوئے اور چند ماہ بعد ایک ایک کرکے رہا بھی ہوگئے۔ ڈیوٹی پر بحال ہوگئے۔ ترقیاں دی گئیں ۔ پی اے سی پولیس میں بھیجے گئے۔ کئی سرکاری نوکری پوری کرکے شان سے ریٹائر ہوگئے۔ البتہ مقدمہ کی رسمی کاروائی جاری رہی۔

میں نے ایک ملاقات کے دوران میرٹھ کے نامور وکیل سید عاصم علی سبزواری مرحوم سے پوچھا، کیا کسی کو سزا ہوگی؟‘‘ فرمایا، ’ہاں ہوگی، مگریہ پوچھو کسے ہوگی؟‘ میں نے کہا،’ فرمائیے‘۔ بولے:’ مقتولین کے لواحقین کو ہوگی۔ ان کے گھٹنے عدالتوں کے چکر کاٹتے کاٹتے جواب دے جائیں گے۔ اپنی مزدوری کاایک حصہ اپنا اور بچوں کا پیٹ کاٹ کرمقدمہ پر خرچ کرتے رہیں گے، مگر ہاتھ کچھ نہیں آئیگا۔‘‘ بیس برس بعد ان کا یہ کہنا درست ثابت ہوگیا۔

ایف آئی آراورچارج شیٹ سے لیکر مقدمہ کی پیروی تک ساری کاروائی اس طور پر کی گئی کہ ملزم آخرکار چھوٹ جائیں۔ عدالت نے کہا ملزمان کی شناخت نہیں ہو سکی۔ رات کی تاریکی میں پولیس کے ایک جیسے لباس میں ، ہلمٹ پہنے ہوئے ہر فرد کی شناخت اور وہ بھی بیس برس بعد کیونکر ممکن تھی؟ اس کے لئے تو پی اے سی کا ریکارڈ کافی تھا۔مگر وہ نہ جانے کیا ہوا؟

یہ تو بڑی واردات تھی۔ واقعات اوربھی ہوئے۔ مثلاکرفیو کے دوران اکثر گھروں میں گھس کر پولیس نے زیادتیاں کیں۔ اسی دوران میرا ایک کرایہ دار محمد حنیف زد میں آگیا۔ اس کو تیز بخار تھا۔ دروازہ کھولنے میں دیر ہوئی، چارپائی سے کھڑا نہ ہوا گیا تو ڈنڈا برسا۔فطری طور روکنے کیلئے ہاتھ اٹھا، توکلائی کی ہڈی توڑدی گئی۔شدید بخار کی حالت میں اٹھا کر لے گئے۔ چند روز بعد عید تھی۔ عین چاند رات کو پولیس اس کے گھرآئی۔ اس کی بیوی بچوں کو اس سے ملانے کوتوالی بلا لے گئی۔ مگر وہاں ملاقات اس کی لاش سے ہوئی۔ اس کا چہرہ نہیں دیکھنے دیا گیا۔ اس کی بیوہ کو جو دکھانے کی پیش کش کی گئی ،اس کا بیان تہذیب کے دائرے سے باہر ہے۔ رات میں ہی پولیس کی نگرانی میں اس کی تدفین اس طرح کردی گئی کہ گھرکے افراد کے سواکوئی نہیں تھا۔

واردات کے28برس بعد مقدمہ کا فیصلہ آیاتو ایک شوراٹھا۔ اخباروں میں مذمتی بیان آنے لگے۔حالانکہ وقتافوقتا بیانات کے زریعہ خبروں میں رہنے کے رسیا برساتی لیڈروں کو یہ تک پتہ نہیں کہ عدالتی کاروائی کس طرح ہوئی؟ کسی نے دوران سماعت مظلومین کی داد رسی نہیں کی۔ مقدمے کی پیروی کیا ہوتی، واردات کے فوراً بعد رلیف کے نام پر جو پیسہ قوم نے دیا،اس کو پوری طرح خرچ نہیں کیاگیا۔ ایف ڈی کرالی گئی۔ رلیف کا مطلب اتنا ہی نہیں کہ چند روز کیلئے دال روٹی کا بندو بست کردیا جائے۔ متاثرین کوروزگار بھی چاہئے۔ ان کی بیواؤں اور کم سن بچوں کی خبرگیری بھی طویل مدتی عمل ہے۔ کتنی ہی بیوائیں بے سہارا ہوگئیں۔ کتنی بچیوں کی شادی کے لئے دو جوڑے کپڑوں کے بھی لالے پڑ گئے۔کتنے بچے تھے، جن کی تعلیم ادھوری رہ گئی۔ کتنے ہی اسکول کامنھ تک نہیں دیکھ سکے۔ آج وہ سب ہمدردی جتارہے ہیں اور اخباروں میں اپنے بیانات مع فوٹو چھپوارہے ہیں۔

اس وقت مرکز میں راجیوگاندھی کی سرکار تھی۔ ان کے ہی خاندان کے فرد ارون نہرو وزیر داخلی سلامتی، ان کے مشیرخاص تھے۔ مسجد کا تالا کھولے جانے سے اقلیتی فرقہ کو سبق سکھانے تک کا یہ گھناؤنا کھیل سیکولرزم کی راہ چھوڑ کر نرم ہندتووا کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہونے کے لئے کیا جارہا تھا۔ پی اے سی کے جن جوانوں پر قتل کے الزام میں مقدمہ چلا، بیشک گولیاں انہوں نے ہی چلائیں، مگر کیا پی اے سی کے ایک انسپکٹر کی یہ مجال ہوسکتی ہے کہ وہ اپنی بٹالین کو لیکر اتنی بڑی واردات کرگزرے ؟ ہرگز نہیں۔ میں نے ایک مرتبہ مسٹر بی پی سنگھل سے، جو میرٹھ میں ڈی آئی جی رہ چکے تھے اور یوپی میں آئی جی پولیس کے منصب سے ریٹائر ہوئے، پوچھا کہ یہ سب کیونکر ہوا؟ انہوں نے صاف کہا: دیکھوآغا، جب تک اوپرسے اشارہ نہیں ہوتا، پولیس ایک بدمعاش کاانکاؤنٹر تک نہیں کرسکتی۔

اس واردات کے بعد راجیو گاندھی میرٹھ گئے۔ پیدل شہر میں گھومے۔مگرہاشم پورہ کے اندر نہیں گئے۔ برابر کی سڑک سے گزررہے تھے کہ وہاں کا ایک باشندہ کسی طرح ان تک پہنچ گیا۔ استدعا کی کہ چل کر ہمارا حال تو دیکھ لو۔ مگروزیراعظم ہند نے سنی ان سنی کردی۔ البتہ جب چند برس بعد ویربہادر سنگھ کی پیرس میں مشکوک حالات میں موت ہوئی تولاش انڈیا آتے ہی وہ ان کو شردھانجلی دینے لکھنؤ پہنچ گئے۔

ایک مظلوم کولیکر محترمہ محسنہ قدوائی، ایم پی راجیو کے پاس گئیں۔ اس نے اپنا حال بیان کیا۔ عرض کیا، مقتولین کے ورثا کی کچھ مالی امداد تو کروادیجئے، مگر ہاشم پورہ کے کسی مظلوم کو ایک دھیلا نہیں ملا۔سچ بتائیں انصاف کا خون کس نے کیا؟ اصل ذمہ دار کون تھا؟اور مقدمہ میں ملزمان کن کو بنایا گیا تھا؟مقدس دربارصاحب کی پامالی سے مضطرب سکھ بھائیوں کو تو دہلی میں سبق سکھادیا اورمیرٹھ میں بابری مسجد کے عقیدت مندوں کو بھی، مگران حماقتوں سے کانگریس نے کیا سبق لیا؟ سکھوں میں دم تھا، دہائیوں بعد ان سے معافی بھی مانگ لی گئی، کچھ مالی امداد بھی دیدی گئی، مگر ظلم کے زخم آج بھی ہرے ہیں۔ مقتولین کا بھوت اب تک کانگریس کا پیچھا کر رہا ہے۔ حالانکہ کانگریس نے ایک سکھ کو وزیراعظم تک بنادیا۔ مسلم قیادت نے کیا کارنامہ کرکے دکھایا۔ صرف اخباروں میں بیان بازی یا کچھ اور؟

مقدمہ کا فیصلہ بظاہر اب آیا ۔ مگرقدرت کا فیصلہ تو کب کاآچکا ہے۔ نرم ہندتووا کی چال، جو راجیو سرکار نے ارون نہرو کے ساتھ مل کرچلی، جس کو نرسمہا راؤ نے آگے بڑھایا، الٹی پڑگئی۔پہلے تالا کھلوایا، پھر شلانیاس کروایا ، مگراقتدار ہاتھ سے جاتا رہا۔ اترپردیش کی سرکار ہمیشہ کے لئے ہاتھ سے نکل گئی۔ میرٹھ کی اسمبلی اور پارلیمنٹ کی سیٹ جو ہمیشہ کانگریس جیتاکرتی تھی، اس کے لئے اب ایک حسرت بن کررہ گئی۔ سیاسی غلطیوں کی یہ سیاسی سزائیں ہیں۔ تو یہ نہ کہئے کہ سزا نہیں ملی۔ رہے وہ بیچارے پیادے جنہوں نے جرم کا ارتکاب اپنے ارادے سے نہیں کیا، ان کو کیا سزا ملتی؟ان جو حکم ملا وہی کیا۔پی وی ایس برگیڈیر(ر)آئی آرخان نے ایک مرتبہ غیررسمی گفتگو کے دوران بجا کہا، مسلح سیکیورٹی دستوں کو سکھایا ہی یہ جاتا ہے، جو حکم ملے اس کی تعمیل کرو۔اس لئے اصل مجرم وہ کب تھے جن کو اب عدالت نے بری کیا؟وہ توجرم کی سازش کے صرف الہ کار تھے۔ کلیم عاجز نے کیا خوب ترجمانی کی ہے:
دن ایک ستم، ایک ستم رات کرو ہو
وہ دوست ہو، دشمن کو بھی مات کرو ہو
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کروہو کہ کرامات کروہو

اس واقعہ کے اس پہلو کو ابھارنا اس لئے ضروری ہے کہ کانگریس میں 2014 اور اس کے بعد کی پے درپہ شکستوں کے بعد ایک مرتبہ پھر یہ رو بہہ رہی ہے کہ اقلیت نوازی کو جو الزام اس پر بھاجپا لگاتی رہی ہے، اس غیرحقیقی داغ کوکھرچ پھینکنے کے لئے ہندتووا کی راہ پر قدم جمائے جائیں۔ کانگریس میں ہمیشہ ایسے کھدر دھاری رہے ہیں جو اندر سے سنگھیوں سے بھی دوقدم آگے اکثریتی فرقہ پرستی کرتے ہیں ۔ اب پھرایسے لوگ پارٹی میں زور مار رہے ہیں۔ اسی لئے سونیا گاندھی کو ہٹانے اورراہل کو لانے کی مہم چل رہی ہے کہ اس نوسکھیا کوراجیو کی طرح شیشے میں اتارنا آسان ہوگا۔

ہاشم پورہ سازش میں شریک سیاست دانوں کو قدرت سے سزائیں تواور بھی ملیں، مگران کا ذکر مناسب نہیں۔ البتہ جو لوگ اس فیصلے کے بعد ماتمی دھن بجا رہے ہیں وہ اپنا جائزہ ضرور لیں کہ مقدمہ کی 28 سالہ سماعت کے دوران وہ کہاں تھے؟ اﷲ غریق رحمت کرے بھائی یامین صاحب کو،جو تادم آخر مقدمے کی پیروی میں لگے رہے حالانکہ لیڈروں سے نہایت دل برداشتہ رہے۔ انتقال سے چندماہ قبل گھنٹہ گھر(میرٹھ) پر ملاقات ہوگئی۔ چائے کی دوکان پر دیر تک اپنا درد بیان کرتے رہے۔ لیکن اکیلا چنا کیا بھاڑ پھوڑتا؟

بات ہے تو غیرمتعلق مگرمظلومین کے مقدموں کی پیروی کے ضمن میں اگر مہارشٹرا کے حوالے سے اعتراف حق نہ کیا جائے تو زیادتی ہوگی۔ جو کام ہاشم پورہ کے مظلومین کے لئے نہیں ہوسکا،اب مولانا گلزار قاسمی اور ان کی ٹیم دہشت گردی کے الزامات میں گرفتار مظلومین کے لئے خوب کررہی ہے۔ کئی لوگ جیلوں سے باہر نکل آئے ہیں۔ اﷲ ان کو، ان کے معاونین کو ،جمعیۃ علماء میں ان کے شرکاء کارکو اوران کے وکلاء کو مزید ہمت وحوصلہ دے اور خدمات کو قبول کرے۔ آمین۔

راجناتھ کی یقین دہانی
ہم مرکزی وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ کے اس بیان کا خیرمقدم کرتے ہیں جو انہوں قومی اقلیتی کمیشن کے زیر اہتمام ملک بھر کے اقلیتی فرقہ کے دانشوروں کے جلسہ میں نئی دہلی میں گزشتہ پیر، 24مارچ کودیا۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت اقلیتوں اوران کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی پابند ہے اوران میں عدم تحفظ کے احساس کو ختم کرنے کے لئے سخت سے سخت قدم اٹھائیگی۔اس طرح کے خوشگواراطلاع اس سے قبل وزیراعظم بھی دے چکے ہیں۔ لیکن ہم منتظر ہیں کہ ان وعدوں پرعمل کا آغاز کب سے ہوگا؟ فی الحال تو عیسائی اورمسلم اقلیتوں کا مجموعی احساس یہ ہے کہ مودی کی سرکار آنے کے بعد سے اقلیت دشمن عناصر کے حوصلے بڑھے ہیں۔ ان کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ان کی بیٹیوں کو اغوا کرنے کی دھمکی دی جارہی ہے ۔ ان کو حرام زادے تک کہا جارہا ہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ ان کی پارٹی اور سرکار ایسے لوگوں کی حوصلہ شکنی کرتی نظرنہیں آتی بلکہ ان کو نئی ذمہ داریاں دے کر ان کا مان سمان اوراثرورسوخ بڑھا یا جارہا ہے۔ کیا یہی ڈھنگ ہیں اقلیتوں کو یہ احساس دلانے کے کہ سابقہ سرکارکے مقابلے وہ اس سرکار میں زیادہ محفوظ ہیں؟ ان کے جان ومال، عزت آبرو، ان کی عبادت گاہوں اورعقائد کو نشانہ نہیں بنایا جائیگا اوران کے کمزورلوگوں کو ورغلا کر دھرم پریورتن کا چکر نہیں چلایا جائیگا؟

وزیرداخلہ نے تبدیلی مذہب کے بارے میں وہی باتیں دوہرائی ہیں، جو ان کے پریوار کے لوگ کہتے ہیں۔ کون آدمی کب کس مذہب کوچھوڑتا ہے ،کس مذہب کو اختیارکرتا ہے، یہ اس کے آئینی حق ہے۔ کوئی قانون بناکر اس میں رکاوٹ ڈالنا حق بجانب نہیں۔ البتہ زورزبردستی سے، ڈرا، دھمکاکر کمزور طبقوں کو مجبورکرنا کہ وہ دھرم بدل لیں ، قابل گرفت ہے۔ یہ سب وہ لوگ کررہے ہیں جن کا تعلق ان کی اپنی وچار دھارا سے ہے۔ بیچارے مسلمانوں اورعیسائیوں میں اتنی جرأت کہاں کہ کسی کا مذہب دھوکہ، دباؤ یا لالچ سے تبدیل کرائیں؟

سریش والا اور پرسنل لابورڈ
مسٹر ظفرسریشوا لا ابھی چند ہفتہ ہواکہہ چکے ہیں کہ مسلم پرسنل لا بورڈ میں ایک فرد کو چھوڑ کر سب بیوقوف ہیں۔ اس کے باوجو وہ بورڈ کی میٹنگ میں پہنچ گئے۔ ظاہر ہے اس بیان کی بدولت بورڈ ممبران ان سے برہم ہیں۔ سریشوالا شاید یہ خواہش رکھتے تھے کہ بورڈ کے پلیٹ فارم سے اپنی بات کہیں مگر ان کو واپس جانا پڑا۔ ہرچند کہ سریشوالا کا مذکورہ بیان بہت ہی ناپسندیدہ تھا مگرحکمت کا تقاضا کچھ اورتھا۔یہ بات یقینا کچھ پسندیدہ نہیں ہوسکتی کہ اپنے گھرآئے ہوئے کسی شخص کو یوں نکال باہر کیا جائے،چاہے وہ ہمارا دشمن ہی کیوں نہ ہو۔ ان سے کہا جاتا آپ خطاب تونہیں کرسکتے لیکن سن سکتے ہیں۔ کیا عجب تھاکہ کوئی معقول بات ان کی سمجھ میں آہی جاتی۔علماء کی اس مقتدرمجلس میں اس اسوہ پر عمل ہونا چاہئے تھا جس کانمونہ حضور صلعم نے شمشیر برہنہ جناب عمر کے آنے پرپیش کیا تھا۔وہ اسلام اورمسلمانوں کے کھلے دشمن تھے۔ مگر اﷲ نے ان کا دل پلٹ دیا اوروہ اسلام کی ڈھال بن گئے ۔ (ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 180817 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.