ایم ایس میر
گُول ضلع رام بن(جموں)
خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے
جس طرح تعلیم پیغمبری پیشہ ہے سیاست بھی اسی طرح مقدس ہے۔ قرآن پاک کی
متعدد آیات میں منافقین کیلئے دوزخ کی سزا کا حکم ہے۔لیکن آج کی دنیا میں
اور خاص طور پر ہماری ریاست میں جھوٹ ، فریب اور منافقت کا نام سیاست ہے۔
راست باز شخص آج ریاستی سیاست میں حصہ لینے کا اہل نہیں رہا۔ اپنے ووٹروں
سے جھوٹ، اپنے احباب اور کاروبارِ حیات میں منافقت، قول و فعل میں تضاد،
کردار نام کی کوئی چیز ان میں پائی نہیں جاتی۔ کہنا کچھ کرنا کچھ اور……
لیکن اس گئے گزرے دور میں مثال پیش کرنے کیلئے حلقہ انتخاب گول ارناس کی
عوام نے یہاں کے سیاسی طبقے کو پھر سے اپنی رہبری کرنے کا موقع فراہم
کیا۔چند روز ہوئے ایک ایسے واقف کار سیاست دان سے ایک ہوٹل میں اتفاقاً
ملاقات ہو گئی، آجکل کے سیاسی ماحول کے بارے میں اُن سے تبصرہ سننا چاہا۔
اور اُن کی خاموش مزاجی کے بارے میں پوچھاتو انھوں نے بات ٹالنے کی کوشش
کرتے ہوئے مجھ کسی اور موضوع کی طرف لے گئے ۔ اُن سے جب موجودہ دنوں کی
خاموش سیاست کے بارے میں سوال یا تو کہنے لگے۔ کس سیاست کی بات کر رہے ہو
ہم تو الیکشن ہوتے ہیں سیاست کا رخ بدل دیتے ہیں ……تھوڑی سے آہ بھرتے ہوئے
اپنے موضوع کو برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ آپ کو معلوم ہے ہم نے تو ۲۰۰۸ کا
اسمبلی الیکشن ہی جیت جانا تھا لیکن اُس میں ہمیں ایک ایسا لیڈر نہیں ملا
جو پیسہ خرچ کرتا بے شک اُس میں بولنے کی صلاحیت تھی وہ حق بات کو سامنے
لانے میں کافی ہوشیار تھا لیکن آجکل کے دور میں یہ سب نہیں چلتا آج کل تو
بس پیسے سے کام چلتا ہے ۔راقم نے فوراً لیڈر صاحب کی بات ٹوکتے ہوئے کہاکہ
حضرت اب کی بار تو آپ کو ایک صاحب ِ نصاب لیڈر ملا تھا اور اُ س نے پیسہ
بھی بہت خرچ کیا تو پھر یہ ناکامی کیوں؟لیڈر صاحب نے کہا کہ ہاں میں آپکی
بات سے سہمت ہوں لیکن اب کی بار جو لیڈر نصیب ہوا تھا وہ ہرگز اپنے لبوں کو
جنبش نہیں دیتا……ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اُس پہ سیاسی جادو ٹونا کا گہرا
اثر پڑا ہے ۔راقم نے پھر سے لیڈر صاحب سے ایک سوال کیا کہ آخر جن لوگوں نے
آپکو ووٹ دیا ہے اُن کا کیا ہوگا۔تو لیڈر صاحب نے پست حوصلوں میں مایوسی کا
اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج ایسا ماحول پیدا ہو گیا ہے کہ سیاست سے دل بھر
گیا ہے آئندہ سیاست میں حصہ نہ لینے کا پختہ ارادہ کر لیا ہے۔ میں نے پوچھا
وہ کیوں؟ تو کہنے لگے۔ آجکل جو سیاست دان منافق اور جھوٹا نہ ہو وہ کلی
ناکام ہے۔ قوم کا بیڑا غرق کر دیاگیا ہے موجودہ سیاست دانوں کو سیاست کا
پتہ ہے نہ سیاست کی اخلاقیات کا۔………………راقم نے پھر سے لیڈر صاحب کی شان میں
گستاخی کرتے ہوئے لیڈر صاحب کی بات کاٹتے ہوئے سوال کیا کہ آخر ۲۰۰۸ء میں
آپ کی ناکامی کی اہم وجہ کیا ہے ۔تو لیڈر صاحب نے مزاحیہ انداز میں بولتے
ہوئے کہ ’’کہیں آپ میری یہ باتیں ریکارڈ تو نہیں کر رہے ہو‘‘ میں آپ کو اب
۲۰۰۸ء کے الیکشن میں ہماری ناکامی کی ایک اہم وجہ بتا دوں گا۔ دیکھو صاحب۔
یہ سیاست اب سیاست نہیں بلکہ ایک گورکھ دھندہ بن چکا ہے اب سیاست کا معیار
اتنا گر چکا ہے کہ سیاست دانوں کی صف میں کسی ایماندار شخص کا کھڑا ہونا
ایمانی موت سے کچھ کم نہیں ،جس کو جھوٹ ،فریب اور مکاری کرنے کی صلاحیت
نہیں وہ سیاست میں آکر اپنی ایمانداری کا جنازہ اپنے ہی کاندھوں کے اٹھائے
ہوئے واپس لوٹ آتا ہے ! چلو چھوڑئے اس سبکو! تو……ہاں!!…… میں آپکو یہ بتانا
چاہتا تھا کہ ۲۰۰۸ء کے اسمبلی الیکشن میں ناکامی کی اہم وجوہات کچھ اس طرح
تھی کہ میں بیان کرنے سے شرمندہ ہو رہا ہوں میں نے لیڈر صاحب سے بضد ہو کر
یہ سارا قصہ بیان کرنے کو کہا لیڈر صاحب بولے کہ ………………
شرم آتی ہے مجھے اس حضرت ِ انسان پر
کار ِ بد خود کرے لعنت کرے شیطا ن پر
کہا !! ہار کی اہم وجہ (HE)اور(SHE)کی تھی اب آپ ہی بتاؤکہ جیت کیونکر کر
نصیب ہوتی ۔ایسے حالات میں سیاست بھی منافقت کی موت مر رہی ہے چنانچہ ایسا
دیکھ کر میرا بھی سیاست سے دل بھر گیا ہے ۔ دکھ بھرے لہجے میں لیڈر صاحب
لگاتار بولتے ہی جا رہے تھے …………اتنا ہی نہیں پہلے(HE)اور (SHE) دوگروہ تھے
ایک گروہ کو عوام ’’جیالے‘‘کہتے تھے اور دوسرے کو’’متوالے‘‘ کہا کرتے تھے
اب جب کہ تیسرا گروہ سر چڑھ گیا تو اب جان کے لالے پڑے ہیں۔
تو بتائیے کیا یہاں کی اس سادہ لوح قوم پر عذاب ِالٰہی نہیں ہے کہ سیاست
دان پچھلے کئی برسوں سے قوم کو ٹینشن میں مبتلا کئے ہوئے ہیں۔اخبار میں
کبھی کسی شخص یا ادارے کیخلاف دو سطور بھی شائع کی جائیں تو حکومتی فون
مشینری کی گھنٹیاں بجنی شروع ہو جاتی ہیں اور فوری طور پر حرکت میں آجاتی
ہے کہ یہ خبر کیونکر لیڈر کے خلاف لگی جب کہ لیڈر حضرات عوام سے ووٹ حاصل
کر کے غائب ہو گئے ہیں اور علاقہ میں کوئی بھی پرسان حال نہیں علاقہ میں
روز بروز مشکلات میں اضافہ ہوتا چلا آ رہاہے کبھی خستہ حال سڑکوں کی وجہ سے
ایسے ایسے حادثے رونما ہوجاتے ہیں کہ انسان کا دل ہل جاتا ہے پاؤں تلے سے
زمین سرکنے لگتی ہے لیکن مجال ہے کہ کسی سرکاری اہلکار /رسیاستکار یا کسی
سیاست دان کے کانوں پر جوں تک رینگے۔ ایسے اوقات میں لیڈر عوام سے
دور،الیکشن آئے اور عوام کے ہمدم، ہمدرد اور ہمسفر بن جاتے ہیں۔
گو کہ سیاست اب سیاست نہیں بلکہ تجارت بن گئی ہے کل تک الیکشن کے ٹائم میں
سیاست دانوں نے عوام سے طرح طرح کے حیلوں اور بہانوں سے ووٹ حاصل کیا آج
وہی سیاست دان عوام سے اپنا ناطہ توڑ چکے ہیں ۔سیاست کا معیار اس قدر گر
چکا ہے کہ سیاست دانوں نے مختلف شعبہ جات میں اپنے منظور ِ نظر سرکاری
ملازمین کو تعینات کر رکھا ہے جوبڑے سرکاری عہدے پرہی اگر اُن کے حلقے میں
ایک غریب تعلیم یافتہ لڑکا کوئی سفارش لے کر کسی ملازمت کیلئے آجائے اوروہ
سرکاری عہدیدار سے کہے فلاں محکمہ میں ایک پوسٹ خالی ہے اور علمی قابلیت کے
لحاظ سے میں اس کا اہل بھی ہوں لہٰذا مجھے اس جگہ پر لگایا جائے تو سرکاری
آفیسرایک دم اس سے وعدہ کر لیتا ہے کہ ایک ہفتہ کے اندر اندر آپکا کام ہو
جائے گا لیکن اسی دوران اگر کوئی اور ایسا تعلیم یافتہ امیدوار سرکاری
آفیسر کے پاس پہنچ گیا جو اسکی جیب گرم کر سکتا ہے۔ تو اس کیلئے دوسرے روز
ہی ملازمت کا پروانہ جاری کیا جاتا۔غور طلب بات ہے کہ جب حاکموں کا یہ حال
ہو جائے کہ وہ بکاؤ مال بن جائیں تو بقول حبیب جالب ’’ہر شاخ پہ الو بیٹھا
ہے انجام گلستاں کیا ہوگا‘‘ کے مصداق اب یہ سیاست نہیں بلکہ منافقت اور چور
بازاری ہے۔ اس دور میں شریف لوگوں کا جینا منافقوں نے حرام کر دیا ہے۔یہ
سیاست دان صرف ہم سے ہی ایسا سلوک نہیں کر تے بلکہ یہ لوگ آپس میں بھی لڑ
مر رہے ہیں ہر کوئی دوسرے کو چور اور حرام خوراور پتہ نہیں کیا کیا برے
القاب کہہ کر پکارتے ہیں اسمبلی جہاں عوامی مسائل کو سامنے لانے کا ایک
ٹائم ہوتا ہیں وہاں پر جاکر دیکھیں تو یہ سیاست دان ایک دوسرے سے ایسی فحش
کلامی اور ننگ و ناجائز الفاظوں سے پکارتے ہیں کہ انسانیت شرمسار ہوجاتی ہے
انسانیت کا دم گھٹنے لگتا ہے ۔کوئی بھی سیاست دان ایسا نہیں کہ وہ کسی کو
برا بھلا کہنے سے قبل اپنے دامن میں جھانکتا۔محبت و پیار نام کی کوئی چیز
ہی نہیں دکھائی دیتی اور جب یہ تمام چیزیں روز بروز مفقود ہوتی چلی جائیں
تواﷲ کی برکت اٹھ جاتی ہے قہر الٰہی نازل ہوتے ہیں۔ سیلاب، قحط، جنگیں اور
بیماریاں اس قوم کی جانب رُخ کر لیتی ہیں جس قوم کے رہبرخود رہزن بن جائیں
علاقہ اقبالؒؔ نے شاید ہمارے لیے ہی لکھا تھا۔
تم ہو آپس میں غضبناک، وہ آپس میں رحیم
تم خطا کار و خطا بیں ، وہ خطا پوش و کریم
اگر یہ سیاست دان منافقت ، گالی گلوچ اوردھوکہ دہی کے بجائے آپس میں ایک ہو
کر عوام الناس کے مسائل حل کرنے کیلئے جٹ جائیں بجائے اس کے کہ جو رقو م
ایک دوسرے کیخلاف اشتہار بازی اور ایک دوسرے کو گالی گلوچ دینے اور زبان پر
نہ لانے والی چمک دمک پر خرچ کی جا رہی ہیں تو عوام بھی خوش اوراﷲ بھی راضی
ہو کر ان لوگوں پراور ریاست و قوم پر رحمتیں اور برکات نازل فرماتے۔ ہوسِ
ِاقتدار نے ان سے تمام اخلاقتی، مذہبی اور قانونی اقدار چھین لی ہیں۔ ہائے
افسوس ! کس کس کو کہیں!
باقی نہ رہی تیری وہ آئینہ ضمیری!
اے کشتۂ سلطانی و ملّائی و پیری ! |