یمن کا بحران....پاکستان کیا کردار ادا کرسکتا ہے؟

یمن میں سعودی اتحاد کے حملے پانچویں روز بھی جاری رہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق عدن میں اب تک 100سے زاید افراد مارے جا چکے ہیں۔ سرکاری فوج نے عدن ایئر پورٹ کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ یمنی علاقے صعدہ میں بمباری میں باغیوں کے کئی اسلحہ ڈپو تباہ کر دیے گئے ہیں۔ فضائی کارروائی کے بعد سعودی عرب نے زمینی قبضے کی تیاریاں بھی شروع کر دی ہیں۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ یمن میں زمینی کارروائی کا آپشن موجود ہے، جبکہ سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے کہا ہے کہ یمن کی سلامتی و استحکام برقرار رکھنے کو تیار ہیں۔ ذرایع کا کہنا ہے کہ یمن کی صورتحال دن بدن کشیدہ ہورہی ہے اور آیندہ دنوں میں اس کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا۔ اس منظرنامے میں پاکستان کے کردار کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے، کیونکہ نہ صرف یہ کہ پاکستان اور سعودی عرب کی دوستی مضبوط ہے اور دونوں ہر مشکل گھڑی میں ہمیشہ ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے، بلکہ پاکستان تمام عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت ہونے کے ناتے پوری امت مسلمہ کی امیدوں کا مرکز بھی ہے۔ مسلم ممالک کے عوام پاکستان کو ایک قائد ملک کی حیثیت سے دیکھتے ہیں، جس سے یمن میں کشیدگی کو ختم کرنے کے حوالے سے پاکستان کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ اسی لیے سعودی عرب کی جانب سے پاکستان سے تعاون کی اپیل کی گئی، جس کو پاکستان نے قبول کیا۔ جس کے بعد عرب ممالک میں پاکستان کے حق میں ریلیاں نکالی جارہی ہیں۔ اس کے علاوہ یمن بحران پر قابو پانے کے لیے پاکستان کے تعاون کرنے کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ سوشل میڈیا پر عرب عوام کی جانب سے پاکستان کے حق میں بھرپور تحریک چلائی جارہی ہے، بلکہ بعض عرب ممالک میں پرنٹ میڈیا پر بھی پاکستان کی بھرپور تحسین کی جارہی ہے اور پاکستان کے کردار کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔ گزشتہ روز ایک عرب صحافی عبدالرحمن مطہر نے پاکستانی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یمن کی صورتحال میں پاکستان کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں عرب دنیا پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہے، کیونکہ پاکستان مسلم دنیا کی سب سے بہترین طاقت ہے اور واحد مسلم ملک ہے جس کے پاس نیو کلیئر طاقت ہے۔ میزائل ٹیکنالوجی ہے، ڈرون ٹیکنالوجی بھی ہے۔ عرب صحافی نے کہا کہ پاکستان اس پوزیشن میں ہے کہ مسلم دنیا کو لیڈ کرے۔ پاکستان کی اسی قائدانہ اہمیت کے پیش نظر سعودی عرب نے پاک حکومت سے باقاعدہ تعاون کی اپیل کی اور سعودی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز، شہزادہ مقرن بن عبدالعزیز، وزیردفاع شہزادہ محمد بن سلمان اور انٹیلی جنس کے سربراہ خالد بن بند رنے گزشتہ چند روز میں وزیراعظم نواز شریف سے بات کی۔ اس کے علاوہ بھی پاکستان کے دیگر اعلیٰ عہدیداروں سے کئی بار یمن کے معاملے پر گفتگو ہوچکی ہے۔ لہٰذامشرق وسطیٰ کے بحران پر پہلے اجلاس میں پاک حکومت نے اصولی بنیادوں پر فیصلہ کیا تھا کہ ”سعودی عرب کی علاقائی سالمیت کو لاحق کسی بھی خطرے کا پاکستان کی جانب سے سخت جواب دیا جائے گا۔“ پاکستان جہاں ایک طرف حرمین شریفین اور سعودی عرب کے تحفظ کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہے، وہیں قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے یمن بحران کا سیاسی اور پرامن حل کے لیے کوشاں ہے۔ عالم اسلام میں قائد کی حیثیت سے عاید ذمے داری کے پیش نظر پاکستان مشرق وسطیٰ کی کشیدگی کو کم کرنے اور پرامن حل تلاشنے کے لیے بھرپور کردار ادا کررہا ہے۔
سعودی عرب عالم اسلام کا ایک اہم ملک ہے، حرمین شریفین کی وجہ سے اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے دیرینہ دوستانہ تعلقات ہےں، اس کے علاوہ دونوں ملکوں کے درمیان گہرا مذہبی رشتہ بھی استوار ہے، جس کے پیش نظر پاکستان سعودی عرب کے معاملے میں کافی حساس اور سنجیدہ واقع ہوا ہے۔ یمن میں باغیوں کے خلاف آپریشن شروع ہونے کے بعد سے کئی بار پاکستانی حکام کی جانب سے سعودی عرب کا ساتھ دینے اور سعودی عرب کے بھرپور دفاع کرنے کے بیانات آچکے ہیں، پاکستان اس حوالے سے قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے اس معاملے کو بہتر انداز میں پرامن طریقے سے نمٹانا چاہتا ہے، پاکستان کی کوشش ہے کہ یمن کا بحران اس طریقے سے حل ہو، جس سے امت مسلمہ کو کوئی نقصان نہ اور عالم اسلام کے مفادات پر زد نہ پڑے۔ اسی لیے دیگر کاوشوں کے ساتھ گزشتہ روز وزیراعظم کے زیرصدارت اعلیٰ سطح کے اجلاس میں اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت نے اقوام متحدہ، او آئی سی اور بین الاقوامی برادری سے اپیل کی ہے کہ یمن کے بحران کا سیاسی حل نکالنے کے لیے تعمیری کردار ادا کرے۔ اجلاس میں یمن کی صورتحال کا جائزہ لیاگیا اوراجلاس کے بعد جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی عوام کی خواہشات کے مطابق سعودی عرب کی خودمختاری اور علاقائی یکجہتی کی حمایت اور مشرق وسطیٰ میں بگڑتی ہوئی صورتحال کو سنبھالنے میں پاکستان بامقصدکردار ادا کرنے کے لیے بھی پرعزم ہے۔ وزیراعظم اس تناظر میں یمن کے بحران کے جلد حل، مسلم امہ میں اتحاد و امن کے فروغ کے لیے برادر اسلامی ممالک کی قیادت اقوام متحدہ اور او آئی سی کے ساتھ بھی رابطے کریں گے۔ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ سعودی سالمیت اور خودمختاری کا دفاع کیا جائے گا۔ سعودی عرب کے دفاع میں ہر ممکن مدد کی جائے گی۔ پاکستان ایسے اقدامات کرے گا، جو ملک اور پوری امت مسلمہ کے مفاد میں ہوں گے۔ وزیردفاع کا کہنا تھا کہ سعودی عرب ہمسایہ ملک ہے، اس نے ہمیشہ مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کی ہے۔ حکومت سعودی عرب کی ہر طرح سے فوجی امداد جاری رکھے گی، یمن سعودی عرب کے درمیان کشیدگی کی صورت حال جلد بہتر ہو جائے گی، تاہم پاکستان سعودی عرب اور عالم اسلام کی حرمت پر آنچ نہیں آنے دے گا۔ حکومت سعودی عرب سے مکمل فوجی تعاون جاری رکھے گی، کیونکہ ہم سعودی عرب کی پاک سر زمین کی حفاظت اپنی حفاظت سمجھتے ہیں۔ سعودی عرب کی خودمختاری کو خطرہ ہوا تو ہمارے وسائل حاضر ہیں۔ ذرایع کے مطابق پاکستان سعودی عرب کی حفاظت کی خاطر ہر قربانی دینے کو تیار ہے۔ پاکستان اپنے عوام کی امنگوں کے مطابق سعودی عرب کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی حمایت کے لیے پختہ عزم رکھتا ہے۔ پاکستان مشرق وسطیٰ میں گھمبیر صورتحال کی بہتری میں بامقصد کردار ادا کر نے کے لیے بھی پرعزم ہے۔ اسی تناظر میں اور بحران کے جلد حل میں سہولت، امن کے فروغ اور مسلم امہ کی یکجہتی کے لیے وزیراعظم برادر ممالک کی قیادت کے ساتھ رابطہ کریں گے۔ پاکستان نے اقوام متحدہ، او آئی سی اور بین الاقوامی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ بحران کا سیاسی حل تلاش کرنے میں تعمیری کردار ادا کریں۔

ذرایع کے مطابق یمن میں سعودی عرب کی کمان میں جاری عسکری آپریشن کے تناظر میں بات چیت کے لیے وزیر دفاع خواجہ آصف کی زیرقیادت پاکستان کے اعلیٰ سیاسی و عسکری حکام کا ایک وفد منگل کے روز سعودی عرب پہنچا ہے۔ اس میں قومی سلامتی و خارجہ امور کے لیے وزیراعظم کے مشیر سرتاج عزیز کے علاوہ چیف آف جنرل سٹاف لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم اور ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز میجر جنرل عامر ریاض بھی شامل ہیں۔ یہ وفد دو دن سعودی عرب میں قیام کرے گا اور سعودی حکام سے یمن کی صورتحال اور سعودی عرب کی سلامتی سے متعلق امور پر بات کرے گا۔ اس وفد کی تشکیل اور روانگی کا اعلان ابتدائی طور پر گزشتہ ہفتے کیا گیا تھا، تاہم عرب لیگ کے اجلاس کے نتائج آنے تک اس کی روانگی دو مرتبہ موخر کی گئی۔ حکومت پاکستان پہلے ہی سعودی عرب کی علاقائی سالمیت کو خطرہ ہونے کی صورت میں ہر ممکن مدد دینے کا اعلان کر چکی ہے، تاہم ابھی تک وہاں فوج بھیجنے حوالے سے پاک حکومت کا کوئی واضح موقف سامنے نہیں آسکا۔ پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں اپنے بیان میں کہا تھا کہ پاکستان نے سعودی عرب کی علاقائی سالمیت کو خطرے کی صورت میں اس کے دفاع کا وعدہ کیا ہے، تاہم وہ کسی جنگ کا حصہ نہیں بن رہا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے پیر کو نامعلوم سرکاری ذرایع کے حوالے سے خبر دی تھی کہ پاکستان نے سعودی عرب کی یمن میں جاری کارروائی میں مدد کے لیے فوج بھیجنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔ تاہم اس پر فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ میجر جنرل عاصم باجوہ نے کہا ہے کہ پاکستانی فوجی سعودی عرب میں مشترکہ فوجی مشقوں میں تو حصہ لے رہے ہیں، تاہم وہ کسی جنگی مہم کا حصہ نہیں ہیں۔ طائف ملٹری کمانڈر میجر جنرل فارس بن عبداللہ القمری نے اپنے بیان میں کہا کہ ان مشقوں کی بہت پہلے تیاری کی گئی تھی، سعودی افواج کی تربیت اور ان کی صلاحیت بڑھانے کے لیے اسٹریٹجک سطح کے پروگرام کا حصہ ہے۔ پاکستان کے محکمہ خارجہ نے بھی یمن جنگ میں پاکستانی فوجی دستوں کی شمولیت کی تردید کی ہے۔ ملکی و عالمی حلقوں کی جانب سے امید کی جارہی ہے کہ یمن کے موجودہ بحران کے حل میں پاکستان کا کردار قائدانہ نوعیت کا ہوگا۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 700611 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.