سعودیہ یمن تنازعہ یا ایران سعودیہ سرد جنگ

1990میں متحد ہونے والے شمالی وجنوبی یمن کے باشندے بالاآخر اپنے اردگردموجودریاستوں کے مفادات کی جنگ اپنی سرزمین پر اپنے ہی لوگوں سے لڑرہے ہیں۔

اس وقت حوثی جوکہ عقائد کے اعتبارسے شعیہ زیدی کہلاتے ہیں‘دارلحکومت صنعاء پر ستمبر 2014سے قابض ہیں۔یہ fiversبھی کہلاتے ہیں۔دورحاضر میں اس تحریک کا آغاز 2003میں ہواجب دارلحکومت صنعاء میں نمازیوں نے امریکہ واسرائیل مخالف نعرے لگائے۔یمنی صدر علی عبداﷲ صالح جو کہ خود بھی شیعہ زیدی تھے ۔اس جماعت کے آٹھ سو کے قریب حمایتی 2004میں پکڑے گئے۔یمنی صدرنے تنظیم کے سربراہ حسین الحوثی کو مذاکرات کی دعوت دی لیکن انھوں نے ٹھکرادی اور حکومت کیخلاف بغاوت کے دوران 18جون 2014میں مار دیئے گئے۔بغاوت جاری رہی اور 2010میں ایک مصالحت کے تحت حوثیوں نے کاروائیاں روک دیں۔پھر 2011کے یمنی انقلاب میں حوثیوں نے حصہ لیا‘جس کے نتیجے میں نیشنل ڈائیلاگ کانفرنس ہوئی۔نومبر 2011میں حوثیوں نے گلف کوپریشن ڈیل کو رد کردیا اوراسکے ساتھ ہی سابق صدر صالح کے لیئے چانسز کم کرتے ہوئے مخلوط سرکار کے منصوبے کو بھی ٹھکرادیا۔نومبر 2011میں حوثیوں نےsaadaاورaljawfجیسے بڑے یمنی صوبوں پرکنٹرول حاصل کرلیا۔hajjahپرکنڑول حاصل کرکے وہ دارلحکومت صنعاء تک پہنچناچاہتے تھے۔مئی 2012میں حوثیوں نے hajjahکے بڑے حصے پر تسلط قائم کرلیا۔21ستمبر 2014کو حوثیوں نے یمنی دارلحکومت کے بڑے حصے پر قبضہ جمالیا جس میں ریڈیوسٹیشن اوراہم ملکی عمارتیں شامل تھیں۔چھ جنوری2015کو حوثیوں نے یمن کے صدارتی محل پر قبضہ حاصل کرلیا جبکہ صدرعبدالرب منصورہادی محفوظ رہے۔چھ فروری کو حوثیوں نے پارلیمنٹ تحلیل کردی اور اختیارات اپنی انقلابی کونسل کے سپرد کردیئے۔20مارچ 2015کو البدراورal-hashooshمساجد میں خود کش حملے ہوئے ‘جس کے نتیجے میں142حوثی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے اور351زخمی ہوئے ‘یہ یمن کی تاریخ کی سب سے بڑی دہشت گردانہ کاروائی تھی۔بائیس مارچ 2015کواپنی ٹیلی ویثرن خطاب میں حوثیوں کے رہنماء عبدالمالک حوثی نے اس دہشت گردکی کاروائی کو امریکہ اوراسرائیل کی کارستانی قراردیااورساتھ ہی سعودیہ عرب سمیت کچھ ممالک کو دہشت گرد گروپس کی مالی امدادکاذمہ دارٹھہرایا۔اس سے قبل عراق کی شدت پسند تنظیم اس حملہ کی ذمہ داری قبول کرچکی تھی جبکہ القاعدہ نے اس سے براء ت کا اعلان کیا۔
حوثیوں کی ممبر شپ 2005میں ایک سے تین ہزارکے درمیان رہی۔2009میں 2000سے دس ہزار۔یمن پوسٹ کادعوی ہے کہ ان کے پاس ایک لاکھ جنگجوہیں۔حوثی ایکسپرٹ احمد البحری کے مطابق حوثیوں کی ممبرشپ میں ایک لاکھ سے ایک لاکھ بیس ہزارتک افرادشامل ہیں ‘جن میں مسلح اورغیرمسلح حمایتی شامل ہیں۔

حوثیوں کے سینئر رہنماء یحی بدرالدین الحوثی ہیں ‘پھرعبدالمالک بدرالدین حوثی ہیں‘عبدالکریم بدرالدین ہائی رینکنگ کمانڈر ہیں ‘عبداﷲ الرزامی سابق کمانڈرہیں‘ابوعلی عبداﷲ الحاکم الحوثی ملٹری لیڈر ہیں‘جبکہ بدرالدین الحوثی انکے روحانی پیشواتھے جوکہ 2010میں وفات پاگئے تھے۔صالح ہبراسیاسی رہنماء ہیں اورفارس منا گورنرسعداہیں جوکہ صالح پریزیڈینشل کمیٹی کے فارمرہیڈ بھی ہیں۔

27مارچ 2015کو 26.9ملین آبادی والے سعودیہ عرب نے کویت ‘متحدہ عرب امارات‘ مراکش ‘ اردن‘ قطر‘ بحرین اورسوڈان کی حمایت سے ایک کروڑ کی آبادی کے حامل یمن پر فضائی بمباری کی۔اس آپریشن میں خلیجی ریاستوں کو امریکہ کی لاجسٹک اورانٹیلی جینس سپورٹ کے ساتھ ساتھ پروگرام ترتیب دینے میں بھی مددشامل تھی۔

1932میں معرض وجود میں آنے والے سعودیہ عرب کی سرحد ایران ‘بحرین اوریمن کے ساتھ ملتی ہے۔جنوبی سرحد اومان اوریواے ای کے ساتھ ملتی ہے۔ایران اورسعودیہ کے تعلقات کوئی خوشگوارنہیں رہے ۔جس کی وجہ یمن میں دونوں ممالک کے مفادات کی جنگ اورفقہی بنیادیں بھی ہیں۔ اسکے علاوہ ایران کے صوبے اصفہان کے شہرکاشان میں موجودایک زیارت گاہ بھی وجہ تنازعہ ہے۔صفوی خاندان نے اسے عرب کے خلاف عجم کی مزاحمت قراردے کرزیارت گاہ میں ڈھالا۔ 2007میں عربی علماء ایران سے اس عمارت کومنہدم کرنے کی درخواست کرچکے ہیں۔1980سے لے کر اب تک ایران سعودیہ تعلقات منقطع رہے ہیں۔ماضی میں سعودی سفیر عدیل الجبیر پاقاتلانہ حملہ کاالزام بھی ایران پر لگ چکاہے۔1980میں سعودیہ عرب نے صدام حسین کی حمایت کرتے ہوئے ایرا ن عراق جنگ پر پچیس بلین ڈالرخرچ کیئے ۔تیرہ صوبوں پر مشتمل سعودیہ عرب اپنی جی ڈی پی کا دس فیصد اپنی آرمی پر خرچ کرتاہے اوراس کی کل فوج کے حاضر سروس ملازموں کی تعداددولاکھ کے لگ بھگ ہے۔

پاکستان کے سعودیہ عرب سے قریبی تعلقات ہیں۔ ماضی میں بھی جب سعودیہ عرب کو یمنی یلغارکاسامناہواتوپاکستانی افواج نے مقدس سرزمین کی حفاظت کی۔اسوقت بھی پاکستان کے 750کے قریب فوجی سعودیہ عرب میں موجود ہیں۔

بروز ہفتہ کی اطلاعات کے مطابق حوثی عدن کی بندرگاہ کی جانب پیش قدمی کررہے ہیں۔اس دوران سعودیہ عرب کاطیارہ f.15بحیرہ احمرمیں گرکرتباہ ہوگیا۔سعودی پائلٹس کو امریکیوں نے بچایاجبکہ حوثیوں کا دعوی ہے کہ ایک سوڈانی پائلٹ ان کے زیرحراست ہے اور طیارے کو انہوں نے اینٹی ائرکرافٹ گن سے گرایاہے ‘سعودی عرب نے اس بات کی تردید کی ہے۔امریکی وزارت دفاع کے ایک اہلکارنے ایسوسی یٹڈ پریس کو بتایاکہ قریبی ملک جبوتی سے پرواز کرنے والے ایک امریکی ہیلی کاپٹرنے خلیج عدن میں جاکر اس طیارے کے پائلٹس کو بچایا۔

عدن وہ علاقہ ہے جہاں یمن کے معزول صدر عبدالرب ہادی منصوری بیٹھ کر اپنے کاروبار مملکت چلارہے تھے ۔

اس ساری صورتحال میں سعودیہ عرب نے پاکستان سے سفارتی اورعسکری سطح پر امداد کا مطالبہ کیاہے۔پاکستان نے سعودی عرب کے دفاع کا اعلان کیا ہے ۔ اورخانہ کعبہ پر حملے کی گردش کرتی خبروں پر کہاہے کہ مقدس مقامات کی ہرصورت حفاظت کی جائیگی ۔پاکستانی وزیردفاع جناب خواجہ آصف نے آج بروز ہفتہ قومی اسمبلی میں اپنے وضاحتی بیان میں کہا کہ پاکستان یمن میں زمینی کاروائی کا ارادہ نہیں رکھتابلکہ اسکے برعکس مقدس سرزمین سعودیہ عرب پر حملہ ہواتواس کا مکمل دفاع کیا جائے گا۔پاکستان تحریک انصاف اوراپوزیشن لیڈر خورشیدشاہ نے سعودیہ عرب کی حکومتی حمایت کوآڑے ہاتھوں لیا اورکہاکہ پاکستان کو اس جنگ میں کودنے سے پرہیز کرناچاہیئے ورنہ ہم تباہ ہوجائیں گے ۔شاید اس وجہ سے وزارت دفاع نے وضاحتی بیان جاری کیا۔جبکہ وزارت دفاع نہ یہ بھی کہا کہ جنگ میں شامل ہونے یااس سے متعلق کوئی بھی فیصلہ پارلیمنٹ کی رائے سے ہی ہوگا۔

یمن کی سرزمین پر لڑی جانے والی یہ جنگ سعودیہ اورایران کی سرد جنگ کہی جاسکتی ہے۔اس کا اندازہ ایرانی سپریم رہنماء آیت اﷲ خامنہ ای کے قریبی ساتھی اور بااثررکن پارلیمنٹ علی رضاذکانی کے بیان سے لگایاجاسکتاہے جس میں انہوں نے کہاہے کہ اب وقت آ گیاہے کہ ایران سعودیہ عرب پر کنڑول حاصل کرلے اور اسوقت ایران یمن کے بیس میں سے چودہ صوبوں پر کنٹرول حاصل کرچکاہے۔

لبنان میں موجود ایران کی مزاحمت کارتنظیم حزب اﷲ کے سربراہ حسن نصراﷲ نے اپنے بیان میں سعودیہ عرب کے یمن پر فضائی حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودیہ نے حملے سے متعلق جو دلائل دیئے ہیں وہ بے بنیادہیں۔انہوں نے کہا کہ جب عرب ممالک ‘مصراورافریقہ میں اسلامی تحریکیں اُٹھیں اسوقت سعودیہ کہاں تھا؟اب سعودیہ خونی جنگ چھیڑناچاہتاہے۔ایران کاتذکرہ کرتے ہوئے حزب اﷲ کے سربراہ نے کہا کہ ایران ہمارااچھادوست ہے۔

ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے ایران کو خبردارکیا ہے کہ وہ اپنے توسیع پسندانہ عزائم سے باز رہے اورسعودی عرب کو اپنی حمایت کا یقین دلایا۔

مصرکے شہرشرم الشیخ میں جاری عرب لیگ کے دوروزہ اجلاس میں یمن کی نمائندگی کرتے ہوئے صدر عبدالرب منصور ہادی نے کہا کہ حوثی ایران کے حمایت یافتہ ہیں ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حوثیوں کے ہتھیار ڈالنے تک مسلح کاروائی جاری رہے۔ انہوں نے کہا کہ ملکی فوج حقیقی قیادت کے احکامات مانے اور سرکاری عمارات کی حفاظت کرے ۔ اجلاس کے دوران یمن میں زمینی جنگ بھی موضوع بحث رہی ۔مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے کہا کہ خطے کی صورتحال کے پیشِ نظرعرب لیگ کے تحت مشترکہ فورس کا قیام عمل میں لایاجائے۔

ہفتہ کے روز ہی امریکی صدرنے سعودیہ کے بادشاہ سلیمان بن عبدالعزیز کو اپنی حمایت کا یقین دلایا۔اوردونوں راہنماؤں نے یمن میں دیرپاامن کیلئے سیاسی مذاکراتی عمل پراتفاق کیا۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق مصری اورسعودی بحری جہاز اورکشتیاں آبنائے باب المندب میں تعینات کردی گئی ہیں۔بحیرہ احمر سے نہرسویز میں داخلے کیلئے استعمال کی جانے والی یہ آبی گزرگاہ مصرکی قومی سلامتی کے حوالے سے حساس ہے۔

سعودی طیاروں نے صنعاء کے شمال میں ایک فوجی کیمپ کو بھی تباہ کیا۔2011میں عوامی احتجاج کے نتیجے میں سبکدوش ہونے والے سابق یمنی صدرعلی عبداﷲ صالح نے حال ہی میں حوثیوں کے ساتھ اتحاد قائم کیا ہے‘وہ حالیہ یمنی صدرعبدالرب منصورہادی کے ناقد ہیں اورزیدی شیعہ ہیں ۔اطلاعات کے مطابق انہوں نے ہی حوثیوں کو جنوبی یمن کے علاقوں پر دھاوا بولنے کی ترغیب دی تھی ۔ ان کے بیٹے احمد علی عبداﷲ صالح کی کمان میں علی صالح کی محبت کا دم بھرنے والے جنگجواورفوجی ‘حوثیوں کے شانہ بشانہ لڑ رہے ہیں۔

اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ ایک کروڑ آبادی والے اس ملک میں شہریوں کے پاس خوراک کی قلت ہے اور جنگ زدہ ملک میں انسانی المیہ جنم لے سکتاہے۔

بروز پیریمن میں امریکہ کے سفیر میتھیوٹیولر نے کہا تھاکہ وہ پرامید ہیں کہ حوثی باغیوں اور یمنی صدر منصورہادی کے درمیان مصالحت ہوجائے گی۔

بیس مارچ کو ہونے والے دھماکے کے بعد ہی امریکہ نے جنوبی یمن کے ہوائی اڈے پر تعینات اپنی سپیشل فورسز کے سواہلکاروں کو وطن واپس بلالیاتھاجو وہاں موجودرہ کر القاعدہ کے خلاف ڈرون حملے کرتے تھے۔یہ ایک عندیہ تھا کہ اب حالات ویسے نہیں رہیں گے۔

پاکستان جو گزشتہ تیس برس سے حالت جنگ میں ہے اور سرحد پاردراندازی سہہ رہاہے ۔دوکروڑ کے شہرکراچی میں امن نام کو نہیں ۔اگر ایسے حالات میں پاکستان سعودیہ کے ساتھ ملکر یمن میں زمینی یا فضائی کاروائی میں حصہ لیتاہے تو پھرپاکستان کو ایران کی ناراضگی مول لیناپڑے گی جوکہ بھارت کابھی دوست ملک ہے۔اس حقیقت سے انکارنہیں کیاجاسکتاکہ سعودی عرب نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیااورہمارے گہرے سٹریٹیجک تعلقات ہیں۔سعودی عرب نے اسوقت بھی پاکستان کا ساتھ دیا جب اسے ایٹمی قوت بننے کیلئے مالی امداددرکارتھی۔ایٹمی دھماکوں کے بعد بھی پاکستان کو غیرمعینہ مدت ڈیفرڈ پیمنٹ کی بنیاد پر تیل ملتارہا۔ 1999میں سعودیہ عرب نے پاکستان کو مفت تیل فراہم کیا۔ہرناگہانی آفت میں سعودیہ عوام اورشاہ نے پاکستان کے عوام کادکھ سکھ میں ساتھ دیا۔مگر اس سب کے باوجود اپنے ملک کی سلامتی کو داؤپرنہیں لگاناچاہیے۔پاکستان کو چاہیئے کہ سعودیہ عرب اوریمن کے درمیان مصالحت کی کوئی راہ نکالے ۔پاکستان کے سعودی سرزمین کے دفاع کے اعلان کے بعد یمن میں محصورپاکستانیوں کیلئے مشکلات پیداہوگئی ہیں۔آج بروزہفتہ پاکستانی سفارت خانے سے رابطے کے بعد جب سترہ بسوں کاقافلہ الحدید کی جانب چلاتوحوثی باغیوں نے انہیں راستے میں روک لیا۔پاکستانی سفارت خانے نے باغیوں سے گزارش کی کہ انہیں چھوڑ دیاجائے جسے انھوں نے رد کردیا۔اطلاعات کے مطابق یمن میں تین ہزارکے قریب پاکستانی پھنس چکے ہیں اور حوثی پاکستان کو اپنادشمن قراردے رہے ہیں ۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ ممکن ہے وہ پاکستانی افراد کو ڈھال کے طورپر استعمال کریں۔وزیراعظم پاکستان کے مشیر برائے خارجہ امورسرتاج عزیز کاکہناہے کہ چوبیس گھنٹے میں پاکستانیوں کو ریسکیوکرلیاجائے گااﷲ کرے ایساہی ہو۔جبکہ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اعزازچوہدری نے ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ حوثی باغیوں نے پاکستانی افراد کوچھوڑ دیاہے ‘جنھیں عنقریب وطن واپس لایاجایاگا۔انھوں نے کہ کہ سعودی سرزمین پر حملہ پاکستان کیلئے باعث تشویش ہوگا۔عدن کی صورتحال مخدوش ہے جیسے ہی حالات سنبھلے وہاں سے بھی پاکستانیوں کا نکال لیا جائے گا۔پاکستانی وزیردفاع نے سعودی ہم منصب سے ٹیلی فونک گفتگوبھی کی۔

اسوقت عالم اسلام میں ترکی ‘پاکستان ‘مصر اورایران بڑی فوجی قوت والے ممالک ہیں۔وسائل کے اعتبارسے سعودیہ عرب کے شہر الغوارمیں دنیامیں سب سے زیادہ تیل پایاجاتاہے ‘اندازہ ہے کہ یہ ذخیرہ 75بلین بیرل کے قریب ہے۔ ۔اگر اس جنگ کے تناظر میں مستقبل کو دیکھاجائے تو ترکی ‘ سعودیہ ‘مصر اور پاکستان مل کراگریمن میں کاروائی کرتے ہیں توایران کو حوثیوں کی امدادکیلئے کودناپڑے گااورعالم اسلام کی طاقت آپس میں ٹکراٹکراکرپاش پاش ہوتی رہے گی۔امریکہ سعودیہ کو عسکری امداد کے بدلے بھاری معاوضے کا کہہ سکتاہے جیساکہ عراق کاہواکھڑاکرکے کیاگیااورایک طویل عرصے تک تیل مفت لیاجاتارہا۔عالم اسلام کے سرکردہ ممالک اس جنگ کاحصہ بنتے گئے تووہ عسکری لحاظ سے کمزورہوتے جائیں گے ۔ خلیجی ممالک اورمصرمیں اسرائیلی تسلط میں اضافہ ہوگا‘مسئلہ فلسطین دب جائے گا۔ایران پاکستان سے مخالف میں ممکن ہے اندرون خانہ بھارت کاساتھ دے اسطرح ایران معاشی وعسکری طورپرکمزورہوگاجس کے نتیجے میں پاکستان بھی اندرونی خلفشارکاشکارہوجائے گا(اﷲ نہ کرے) اورمسئلہ کشمیر لمبے عرصئے کیلئے عالمی توجہ کھوسکتاہے۔امریکی تحقیقی ادارے انٹرا ایکٹوانفوگرافک کے مطابق پاکستان کے پاس 120آٹومیٹک جوہری ہتھیارہیں جوکہ بھارت سے دس گنازائد ہیں ۔شاید اسی رپورٹ پر استعماری قوتیں پاکستان کو کسی جنگ میں دھکیل کر اس کیلئے مشکلات کھڑی کرناچاہتی ہیں۔

۔اس خطے میں بھارت کی عمل داری میں اضافہ ہوسکتاہے اوربالاآخرایران بھی استعمارکیلئے نرم چارہ ثابت ہوگا۔

استعماری قوتیں پہلے لارنس آف عریبیہ کے ذریعے عثمانی سلطنت کو ٹکڑوں میں بکھیر چکی ہیں ۔اب شاید وہ ان ٹکڑوں کوریزہ ریزہ کرکے مکمل تسلط چاہتی ہیں تاکہ ان کے وسائل سے بھرپورفائدہ اُٹھایاجاسکے۔ عراق پر تسلط قائم کیا گیااوراب وہاں دولت اسلامیہ کے ذریعے سستے داموں اورکئی مقامات سے مفت تیل ہڑپ کیاجارہاہے۔ ۔پہلے مختلف اسلامی ممالک میں مسلمانوں کوگروہوں کی صورت میں آپس میں فقہ کی بنیادپرلڑاکرمسلکی نوراکشتی کروائی گئی اوراب یہی مسلکی جنگ مختلف ممالک کے درمیان کروائی جارہی ہے۔ظاہر ہے جب یمن میں حوثی جان سے جائیں گے ‘لبنان کی حزب اﷲ میدان میں آئے گی اورایران بیچ میں کودپڑے گاتو سعودی میں موجود دس سے پچیس فیصد فقہ جعفریہ کے جذبات کو بھی مشتعل کیا جاناخارج ازامکان نہیں قراردیاجاسکتا ‘۔جس کے نتیجے میں ہرسودھواں ہی دھواں ہوگااورہرسمت میں ایک ہی صداگونجے گی
دل کے پھپھولے جل اُٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگی ا س گھر کے چراغ سے

اس کا واحد حل یہ ہے کہ مسلم ممالک ایران کے ذریعے حوثیوں پر دباؤ ڈلوائیں اوردوسری جانب سعودیہ عرب کے حمایت یافتہ یمنی کوئی نرمی کارخ دکھائیں ‘پھرمذاکرات کے ذریعے اس معاملے کوہمیشہ کیلئے دفن کردیاجائے۔اس سب کیلئے ایران اورسعودیہ کو اپنے مذہبی خیالات کی ترویج کے بجائے اپنے شہریوں کی حفاظت اورترقی کاسوچناہوگا۔ استعماری قوتیں ان اسلامی ممالک کو مسائل کے ایندھن میں دھکیل کر یہ کاروائی محض وسائل ہتھیانے کیلئے کررہی ہیں۔
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 188497 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.