بیتے ہوئے دن کچھ ایسے ہیں ...........

ایف اے تو میں نے1978ء میں پاس کر لیا تھا۔ گریجویشن کی تمنا دل میں باقی تھی۔ شادی کے بعد مصروفیت کی نوعیت یکسر بدل گئی۔ صبح دفتر جاتا پھر وہاں سے واپس گھر آنا اور شام پانچ کے قریب ایک بار پھر تیار ہو کر شبلی کالج گڑھی شاہو لاہور جانا ایک مشکل مرحلہ تھا ۔ان دنوں شبلی کالج گڑھی شاہو چوک کے مغرب میں واقع ایک پرانی سی دو منزلہ عمارت میں قائم تھا۔ یہ پرائیویٹ کالج پڑھائی کے اعتبارسے بہت میعاری تصور کیاجاتا، یہاں ایف۔اے اور بی۔اے کی کلاسوں کے طلبہ کوپڑھایا جاتا تھا۔ دور نزدیک کے طالب علم یہاں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آتے اور ہر کلاس کے مختلف سیکشن تھے۔ جہاں انتہائی محنتی اور شفیق اساتذہ پڑھاتے ۔ یہ کالج بالائی منزل پر انتہائی خستہ حالت کی عمارت میں قائم تھا جس کی سیڑھیاں بھی نہ ہونے کے برابر تھیں، روشنی کا بہت کم انتظام تھا، جب کالج سے ہم باہر نکلنے لگتے تو بڑی سوچ سمجھ کر قدم جماتے ہوئے نکلتے۔(آج وہ کالج ناپید ہوکر ماضی کا قصہ بن چکا ہے۔)

1981ء کے وسط میں، میں نے یہاں داخلہ لیا تو طاہر مفتی بھی میرے ساتھ ہی کالج میں داخل ہو گیا۔ طاہر مفتی( اﷲ غریق رحمت کرے بہت سال پہلے ایک حادثے کا شکار ہوکر فوت ہوچکاہے) براہ راست میرا دوست نہیں تھا بلکہ میرے ایک دوست طاہر مقصود بٹ کا یار تھا ۔ہفتے میں کئی بار اکٹھے بیٹھ کر ہم کھانا کھاتے جس سے دوستی کا آغاز ہوا۔طاہر مفتی ٗ طاہر بٹ کو دوست کی حیثیت سے بہت پسند کرتا تھا اس کی یہ ہر ممکن کوشش ہوتی کہ طاہر بٹ دوپہر کا کھانااس کے ساتھ کھائے ۔ وہ برانڈرتھ روڈ کی ایک عمارت میں واقع ایک پرائیویٹ دفتر میں مینجر کی حیثیت سے ملازم تھا۔جہاں طاہر بٹ کے ہمراہ میں بھی پہنچ جاتا ۔

شبلی کالج میں اساتذہ کرام میں پروفیسر صفدر علی صفدر ہمیں انگریزی پڑھاتے تھے جبکہ پروفیسر حنیف جنہیں محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ بطور پرائیویٹ سیکرٹری کام کرنے کا اعزاز حاصل تھا وہ ہمیں اکنامکس پڑھایا کرتے ۔ ایک اور اردو کے پروفیسر تھے جن کا نام مجھے یاد نہیں۔ لیکن شفقت کے اعتبار سے وہ بھی کسی سے کم نہیں تھے۔ پروفیسر صفدر علی صفدر، بڑے دبنگ قسم کے استاد تھے ۔وہ اپنے پریڈ میں کسی کو اُونگھنے نہیں دیتے ٗ جو ایسا کرتا تھا اسے وہ سارا پریڈ بینچ پر کھڑا کر دیا کرتے ۔ یہ بھی عجیب اتفاق تھا کہ مجھے بھی صرف انہی کے پریڈ میں زیادہ اُونگھ آتی۔ جمائی پر جمائی مجھے پریشان کیے رکھتی ۔ہمیشہ یہی ڈر لگا رہتا کہ کہیں وہ مجھے جمائی لیتے ہوئے دیکھ نہ لیں اور سارا پریڈ مجھے بینچ پر کھڑا رہنا پڑے۔ اگلے اور پچھلے بنچوں پر اکرم، اعجاز، افضل جنجوعہ اور قاسم (کچھ دوستوں کے نام میں بھول چکا ہوں) وغیرہ بیٹھتے ۔ ان سب میں اکرم اور اعجاز کی شرارتیں عروج پر رہتیں وہ کسی بھی پروفیسر کے پریڈ میں شرارتوں سے باز نہ آتے اپنی حرکتوں میں مگن رہتے۔ پہلے پہلے تو کئی اساتذہ نے انہیں روکنے کی کوشش کی، لیکن ڈانٹ ڈپٹ کا ان کی صحت پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ چنانچہ انکی یہ حالت دیکھ استاد بھی خاموش ہو گئے ۔ پوری کلاس کے لڑکوں کو وہ مذاق کرتے ۔ ہم چونکہ ان کے بالکل پیچھے بیٹھتے اس لئے ان کے شَر اور مذاق سے محفوظ رہتے اور وہ ہمیں اپنے ہمنواؤں میں ہی شمار کرتے۔ ایک دن ایک پریڈ کا استاد چھٹی پر تھا۔ سب لڑکوں نے سوچا کہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کیوں نہ بازار کی سیر کی جائے۔ چنانچہ سب کے فیصلے کے مطابق ہم سب چل پڑے۔ گڑھی شاہو کے چوک میں دودھ، لسی کی دکانیں خاصی مقدار میں ہیں، وہاں سے دودھ پیا اور واپسی پر ہمیں لڑکیوں کا ایک چھوٹا سا گروپ نظر آیا۔ گروپ میں موجودچند شرارتی لڑکوں سے نہ رہا گیا اور انہوں نے لڑکیوں پر آواز سے کسنی شروع کر دیں بلکہ تیز تیز قدموں سے ان کا پیچھا کرنا بھی شروع کر دیا۔ مجھے ان کی یہ حرکت بہت بری لگی، میں نے کہا کہ بھائی ہم انجوائے کرنے آئے ہیں لڑکیوں کو پریشان کرنے نہیں آئے۔ وہ ہمارے بارے میں کیا سوچتی ہوں گی۔ وہ شرارتی لڑکے اکرم اور اعجاز تو اس معاملے میں ہر اول دستے کا کام کر رہے تھے۔ جبکہ لڑکوں کی اکثریت کو یہ بات اچھی نہ لگ رہی تھی۔ دراصل میری شروع سے یہ عادت رہی ہے کہ میں لڑکیوں کے معاملے میں بہت محتاط رہتا ہوں، مجھے آوازیں کسنا پسندنہیں، میں ایسے کام کرنے والوں کو اچھے خاندان کا فرد نہیں سمجھتا۔ امتحان کے دن قریب آنے پر ہمیں کالج سے فارغ کر دیا گیا۔ سال بھر کی رفاقت نے جدائی کے وقت کافی پریشان کیا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جدائی کا یہ احساس کم ہوتا چلا گیا۔ اکرم اور اعجاز سے کالج سے نکلنے کے بعد دوستی ہو گئی کیونکہ وہ دونوں میرا بے حد احترام کرتے۔ اکرم پاکستان کو خیر باد کہہ کرجرمنی چلا گیا جہاں سے وہ میموں کے ساتھ اپنی تصاویر ہمیں بھجواتا رہا۔ وہ جس چیز کا شوقین تھا جرمنی میں اسے وہ کچھ مل گیا۔ اعجاز، گنگا رام کے پاس لاہور موٹرز پر کبھی کبھی نظر آتا ۔ یہ دونوں دوست رام گڑھ (مجاہد آباد) کے رہنے والے تھے۔ جبکہ طاہر مفتی کی دوستی نے بالواسطہ سے ترقی کرکے بلاواسطہ کی نوعیت اختیار کرلی۔ اکثر اوقات وہ میرے دفتر اور گھر آتا رہتا، وہ برانڈرتھ روڈ پر مہران کارپوریشن کا منیجر تھا جب بھی دوپہر اکٹھے کھانا کھانے کو دل چاہتا تو وہ مجھے اور طاہر بٹ کو فون کر دیتا اور لکشمی چوک سے حلیم منگوا کر اکٹھے دوپہر کا کھانا کھاتے۔ یہ سلسلہ کافی عرصہ تک چلتا رہا بلکہ جب تک طاہر مفتی مہران کارپوریشن میں موجود رہا یہ رابطہ قائم رہا، پھر کسی اہم معاملے پر اختلاف کی بنا پر انتظامیہ نے اسے ملازمت سے فارغ کردیا ۔

بعد ازاں طاہر مفتی جے پی انٹرپرائزز میں ملازم ہو گیا لیکن یہاں وہ رونقیں بحال نہ رہ سکیں جو مہران کارپوریشن کاحصہ تھیں۔ میرا تو وہاں جانا نہ ہوتا جب بھی طاہر کو ملنے کا شوق ہوتا تو طاہر مفتی میرے پاس چلا آتا۔ پھر ہم دونوں طاہر مقصود بٹ کے پاس چلے جاتے جہاں وہ طاہر بٹ کی ناز برداریاں کرنے میں پیش پیش تھا بلکہ وہ طاہر سے ملاقات کو اپنے لئے ایک بڑی سعادت تصور کرتا تھا ۔اس دوران کھانے پینے پرجو بھی خرچ ہوتا وہ طاہر مفتی ہی برداشت کرتا۔ چند دنوں بعد ہی طاہر مفتی ’’جے پی انٹرپرائزز‘‘ چھوڑ کر شیخ کبیر، سرتاج ملز کے آفس میں ملازم ہو گیا اور شیخ کبیر کے ذاتی سٹاف میں اسکا نام شامل تھا۔ وہ لوگ چونکہ خاصے خطر ناک تھے اس لئے میں اسے یہی نصیحت کرتا کہ وہ ان لوگوں سے ممکن حد تک دور ہی رہے تاکہ کسی بھی لمحے دشمنی کی بنا پر کسی انسان کی جان نہ چلی جائے۔ لیکن طاہر مفتی میری بات کو سنی ان سنی کر دیتا۔

اسی دوران طاہر مقصود بٹ جو اس کا جگری دوست تھا، ناراض ہو گیا دونوں کے درمیان ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ تک ملاقات نہ ہوئی۔ طاہر مفتی بے حد پریشان ہو گیا جبکہ طاہر بٹ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم تھا، طاہر مفتی میرے دفتر آیا اور اس نے التجا بھرے لہجے میں کہامیں اس کی طاہر بٹ سے صلح کروا دوں۔ مجھے بھی کوئی احتراز نہیں تھا لیکن اس کام کے لئے مجھے دونوں کو ایک ہی جگہ اکٹھا کرنا ذرا مشکل دکھائی دے رہا تھا ۔ طاہر بٹ کہیں جانے سے پہلے خاصے نخرے کرتا اور بلانے والے کو اسکے نخرے برداشت بھی کرنے پڑتے ۔ چنانچہ میں مفتی کی خاطر طاہر بٹ کو اپنے گھر آنے کی دعوت دے دی۔ پہلے تو حسب معمول وہ معذرت کرتا رہا اور حیران بھی تھا کہ میں اُسے اتنے پرزور طریقے سے اپنے گھر کیوں بلا رہا ہوں کیونکہ پہلے کبھی بھی میں نے اسے گھر آنے پر اس قدر مجبور نہیں کیا تھا۔ بہرکیف طاہر مفتی کو بھی اس کی اطلاع دے دی گئی اور دونوں مقررہ وقت پر میرے گھر پہنچ گئے اور ایک دوسرے کو دیکھ کر حیران ہو گئے۔ معنی خیز نظروں سے مجھے دیکھنے لگے۔ میں نے دونوں کو سمجھانے کے انداز میں بتایا کہ زندگی اور موت کا پتہ نہیں کہ کب کیا ہو جائے۔ دوستوں میں اختلافات ہوتے رہتے ہیں لیکن انہیں اس حد تک نہیں بڑھا لینا چاہئے کہ اختلافات کی ایسی خلیج پیدا ہو جائے جسے ختم کرنا بھی ممکن نہ رہے۔ ہم نے ایک دوسرے کے ساتھ بہت اچھے دن گزارے ہیں ہمیں ان دنوں کو فراموش نہیں کرنا چاہئے اور اپنے تمام تر اختلافات کو بھُلا کر ایک بار پھروہی محبت اور خلوص اپنے دلوں میں پیدا کرنا چاہئے جو اس سے پہلے موجود تھا۔ دراصل اندر سے طاہر بٹ بھی طاہر مفتی سے صلح کر لینے کے موڈ میں تھا کیونکہ اس کو کافی دن ہوئے تھے کسی ہوٹل میں طاہر مفتی کے ساتھ کھانا نہیں کھایا تھا جسکا اہتمام مفتی اکثر کیا کرتا رہتا ، جب بھی بسنت آتی تو طاہر مفتی بسنت کے بہانے طاہر بٹ کے ساتھ مجھے بھی اپنے گھر بلا لیتا تاکہ صبح سے شام تک ان کا ساتھ رہے۔ دوپہر کا کھانا بھی بڑے اہتمام سے گھر میں تیارہوتا اور ہم تینوں دوست جی بھر کے کھاتے۔ یہ سہولت ہمیں طاہر بٹ کی بدولت ہی ہمیں حاصل تھی۔ طاہر بٹ، طاہر مفتی کا انتہائی فیورٹ بلکہ آئیڈیل تھا ۔یہی وجہ تھی کہ مفتی کی یہ کوشش ہوتی کہ ہر صبح اور ہر شام طاہر بٹ اس کے ساتھ ہی رہے، اس سلسلے میں وہ طاہر بٹ کے گھر والوں کو بھی خاصا پریشان کئے رکھتا ۔ دن میں ایک دو بار طاہر بٹ کے پیچھے ان کے گھر ضرورہوتا جب کبھی طاہر بٹ بے اعتنائی برتتا تو اس کی شکایت بٹ کے والد سے براہ راست کر دیتا۔ جبکہ بٹ کے لئے ایک اور مجبوری یہ بھی تھی کہ اسکا ہونے والا بہنوئی محمد آصف بھی اس پر مکمل طور پر فدا تھا خوبصورت لوگوں کو ایسی پریشانیوں کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے ۔ محمد آصف اور طاہر مفتی جب ایک ہی شخص ’’طاہر بٹ‘‘ کو پسند کرنے لگے تو طاہر بٹ کے لئے بہت مشکل ہوگیا کہ وہ دونوں میں سے کس کے ساتھ رہے، چنانچہ جو بھی بٹ کی رفاقت سے محروم ہوتا، اسکی زبان پر شکوے اور شکایتیں آ جاتیں۔

ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ قربان پولیس لائن میں( جو ہمارے ریلوے کوارٹروں کے قریب واقع تھی اور وہاں ہر چھٹی والے دن کرکٹ میچ کھیلا جاتاتھا) ہماری کرکٹ ٹیم کا میچ سید میٹھا کی کرکٹ ٹیم سے تھا اور وہاں سے طاہر بٹ اور انکے انکل، ایوب بٹ وغیرہ کے ہمراہ قربان لائن میچ کھیلنے کے لئے آئے ۔ میچ ابھی شروع ہی ہوا تھا کہ پک اپ پر آصف طاہر بٹ کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے پہنچ گیا۔ ہم سب کی موجودگی میں طاہر بٹ نے اسے زیادہ اہمیت نہ دی تو اس نے آسمان سر پر اٹھا لیا اور طاہر بٹ کو کوسنے لگا۔ میں نے اسے سمجھایا کہ طاہر بٹ بھی ایک انسان ہے جو ہر وقت ہر کسی کے لئے مخصوص نہیں رہ سکتا۔ اسے اپنی مرضی سے بات کرنے، کسی سے ملنے کا موقعہ تو دیا کرو ہر وقت اسکے پیچھے لگے رہنے سے آپ کو کیا حاصل ہوتا ہے، وہ کرکٹ میچ کھیلنے کے لئے آیا ہے شام تک واپس سید میٹھا پہنچ جائے گا وہاں آپ اس کی رفاقت زیادہ آسانی سے حاصل کر سکتے ہیں، لیکن یہاں اسکی توجہ نہ ملنے کا شکوہ ہرگز نہ کریں۔ چونکہ آصف ٗطاہر بٹ کا بہنوئی بننے والا تھا اور منگنی ہو چکی تھی اس لئے میں نے گفتگو میں احتیاط ہی برتی۔ بعد میں طاہر کی زبانی معلوم ہوا کہ آصف نے بٹ کے والد سے بھی شکایت کر دی جس پر طاہر کی ڈانٹ ڈپٹ بھی پڑی۔ اسی طرح طاہر مفتی اپنے کام چھوڑ کر جہاں طاہر بٹ موجود ہوتا وہاں پہنچ جاتا اور اسکی یہ مکمل کوشش ہوتی کہ طاہر بٹ کی مکمل توجہ کا مرکز وہی رہے، کرکٹ میچ جائے جہنم میں ۔ وہ طاہر بٹ پر اپنا قبضہ اس قدر مستحکم رکھنا چاہتا تھا جیسے یہ اسکی نوآبادی ہو یا منکوحہ ہو…… کسی سے مسکرا کر بات کر لینا بھی طاہر مفتی کے لئے ناگوار گزرتا ۔ اس نے یہ مسکراہٹ میرے علاوہ کسی اور کو کیوں دے دی ہے۔ میں تو چونکہ پہلے ہی مقابلے کی اس دوڑ دور تھابلکہ جب بھی کہیں طاہر بٹ سے ملاقات ہوتی اس میں جذباتی پن کہیں نہ آتا ۔ہاں طاہر بٹ مجھے اتنا ہی پیار کرتا تھا جتنا طاہر مفتی، طاہر بٹ کو کرتا تھا۔ وہ کئی بار میرے گھر بھی آیا اور کئی کئی گھنٹے ہم اکٹھے بیٹھ کے گپیں مارتے رہے۔ طاہر کے والدین کے ساتھ بھی میرا معقول رابطہ تھا لیکن یہ تعارف طاہر مفتی سے ذرا مختلف تھا کیونکہ طاہر بٹ کے والدین، طاہر مفتی کو جذباتی اور حادثاتی دوست قرار دیتے جبکہ کئی مرتبہ طاہر کی زبانی سنا کہ میرا ذکر سنجیدہ اور معزز دوست کے زمرے میں آتا۔ میں اس بات سے بخوبی آگاہ تھا کہ جتنا طاہر بٹ پر میرا حق ہے اتنا ہی کسی اور کا بھی ہوسکتا ہے پھر طاہر بٹ کی مجھے جتنی توجہ ٗ محبت اور چاہت ملتی میں اُسی پر اکتفا کرتا اور مزید کی جستجو نہ کرتا۔ کیونکہ کسی بھی دوست کے بارے میں پیار اور خلوص کے جذبات انسان کے دل میں ہوتے ہیں ٗبار باراظہار کرنے سے محبت بڑھتی نہیں بلکہ کم ہوتی ہے ۔ اسی لئے تو بٹ مجھے ’’سرد دوست‘‘ کے نام سے پکارتا ، لیکن وہ اپنے ہر راز میں مجھے شریک ضرور کرتا تھا۔ بلکہ مفید مشورے بھی طلب کرتا۔

ایک مرتبہ طاہر مفتی نے پروگرام بنایا کہ سنیما میں جا کر فلم دیکھی جائے اور اس مقصد کے لئے مفتی نے تین ٹکٹ ایڈوانس حاصل کر لئے۔ طاہر بٹ کی فرمائش پر میں بھی اس پروگرام میں شامل تھا لیکن جب ہم سنیما ہال میں بنے ہوئے باکس میں داخل ہوئے تو طاہر میرے ساتھ بیٹھ گیا ۔یہ بات طاہر مفتی کو ناگوار گزر رہی تھی وہ ہر حال میں طاہر بٹ کے ساتھ ہی بیٹھنا چاہتا تھا اور اسی خاطر یہ سارا پروگرام بنایا تھا اب وہ اپنی اس محرومی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا میرے ساتھ طاہر مفتی کے تعلقات انتہائی ادب و آداب کے تھے اور وہ مجھے سینئر دوست سمجھتا ٗ میں بھی اس پر اکتفا کرتا، پھر طاہر بٹ سے میرا ایک اور رشتہ بھی تھا اور وہ رشتہ بڑا قدیمی تھا کیونکہ اکثر و بیشتر طاہر بٹ ہماری ٹیم کی جانب سے کرکٹ کھیلا کرتا ۔ صبح سے شام کرکٹ گراؤنڈ میں ہو جاتی اور یہیں جی بھر کے باتیں کرنے کا وقت بھی مل جاتا ، لیکن آصف اور طاہر مفتی کرکٹ کا شوق نہ رکھنے کی بنا پر اتنی طویل رفاقت سے محروم تھے اور انہیں یہ احساس محرومی سکون نہ لینے دیتا ۔ بہرکیف جب بے چینی اوراضطراب حد سے بڑھ گیا تو میں نے خود طاہر مفتی کو طاہر بٹ کے ساتھ بیٹھا دیا ۔ تب جا کر اُس نے سکون سے ہمیں فلم دیکھنے دی۔ ورنہ وہ فلم کے دوران احتجاج کرکے مزا کرکرا کر رہا تھا۔

ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ میرا ’’نواب ٹائپ‘‘ دوست ’’یاسین ملک‘‘ جو رائے ونڈ میں رہتا تھا اس نے ہم تینوں کو رائے ونڈ آنے کی دعوت دی۔ ہمارے لئے بھی یہ دعوت خوش آئند تھی کیونکہ شہر لاہور میں عرصہ دراز سے رہتے ہوئے دم گھٹنے لگا ۔ہم نے سوچا کہ چلو اسی طرح گاؤں کی کر لی جائے۔ طاہر مفتی اور طاہر بٹ بھی اس سفر پر روانہ ہونے کے لئے خاصے پرجوش تھے۔ سفر کے لئے ٹرین کا انتخاب کیا گیا طاہر مفتی، طاہر بٹ کے لئے ٹرین میں ہر آسائش کا اہتمام کرنا چاہ رہا تھا اسکا کہنا تھا تھرڈ کلاس میں سفر کرتے ہوئے طاہر بٹ کو دھکے لگیں گے وہاں بدبو دار لوگ بیٹھے ہوں گے اس لئے فرسٹ کلاس ڈبے میں اطمینان سے بیٹھ کر ہمیں جانا چاہئے۔ میں نے سمجھایا کہ مفتی صاحب، طاہر بٹ چینی کی مٹی کا بنا ہوا برتن نہیں ہے جو انسانوں کے ساتھ لگنے سے ٹوٹ جائے گا مزید تھرڈ کلاس میں سفر کرنے والے بھی ہماری ہی طرح کے لوگ ہوتے ہیں چار اسٹیشن تو ہم نے جانا ہے اس کے لئے اتنا اہتمام اچھا نہیں لگتا۔ پھر کسی لمبے سفر پر جانا پڑا تو ضرور ایسا اہتمام کر لیں گے۔ فی الحال جس سفر کو انجوائے کرنے ہم جا رہے ہیں دروازے میں کھڑے ہو کر بھی کیا جا سکتا ہے۔ میرے فیصلے پر سب نے آمین کہا اور ہم خیبر میل پر سوار ہو گئے۔ رائے ونڈ پہنچ کر ہمیں اپنے دوست اور میزبان یاسین کے گھر جانا تھا ٹانگے کے ذریعے ہم اسکے بتائے ہوئے پتے پر پہنچ گئے جہاں وہ ہمیں پہلے ہی منتظر ملا۔ اسکے ساتھ رائے ونڈ کی سیر کی، دوپہر کا کھانا خاصا پُرتکلف تھا، شوق میزبانی میں یاسین اس قدر آگے چلا گیا کہ ہمیں شرمندگی ہونے لگی۔ اس نے بطور خاص گاؤں کے ’’لیموں‘‘ طاہر بٹ کے لئے منگوائے رکھے تھے ۔ پتہ نہیں کیوں طاہر بٹ ان لیموں کو استعمال نہیں کرنا چاہ رہا تھا حالانکہ وہ اس سے پہلے کئی مرتبہ لیموں کا ذکر یاسین کے سامنے بہت فخریہ انداز میں کرتا رہا تھا آج جب انہیں استعمال کرنے کا موقع ملا تو شرما کر خاموش ہو گیا۔ یہاں ایک اور واقعہ بھی رونما ہوا کہ یاسین کا نوکر، طاہر مفتی پر فدا ہو گیا وہ جتنا طاہر مفتی سے تعلقات بڑھاتا اتنا ہی طاہر مفتی اس سے گھبراتا بلکہ شرماتا تھا مفتی صاحب کے چہرے پر گھبراہٹ کا احساس اتنا بڑھ گیا کہ وہ التجائیں کرنے لگا کہ ہمیں یہاں سے جلدی واپس جانا چاہئے۔ میں یہ دیکھ کر محظوظ ہو رہا تھا کیونکہ مجھے علم تھا کہ یہ سب کچھ ایک ڈرامہ ہے اور اس میں ذرا سی بھی حقیقت نہیں ہے۔ گرمیوں کے موسم میں دوپہر کتنی تلخ ہوتی ہے اس سے تو ہر کوئی آگاہ ہے ۔دھوپ ذرا ڈھلنے کا انتظار کر رہے تھے۔ چار بجے ہم لاہور آنے کے لئے مکمل تیار ہو گئے اور بذریعہ ٹرین واپس لاہور پہنچ گئے۔ وقت کم ہونے کی وجہ سے ہم یاسین کا گاؤں نہ دیکھ سکے اور نہ ہی کھیتوں میں خود جا کر گنے توڑ نے کا شوق پورا کرسکے ۔
یہ وہ واقعات ہیں جو یاد ماضی کا ایک حصہ بن چکے ہیں۔ کیونکہ طاہر مفتی اس وقت دنیا میں نہیں رہا اور وہ ایک حادثاتی موت کے ذریعے اپنے خالق حقیقی سے جا ملا ہے۔طاہر مفتی اپنی موت سے ایک دن پہلے اچھرہ تھانہ کی حوالات میں بند تھا۔ اسکا چھوٹا بھائی میرے پاس آیا اور تمام واقعات بتائے اور طاہر کی ضمانت دینے کے لئے مجھے کہا۔ میں نے طاہر بٹ کو فون کیا اور وہ بھی آ گیا اس کے ساتھ اچھرہ تھانے گیا جہاں پہنچ کر پتہ لگا کہ طاہر نے ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن سے گھر کی تعمیر کے لئے قرضہ دلانے کے بہانے جس عورت سے دو تین ہزار روپے لئے تھے اس عورت کو قرضہ نہیں ملا تو اس نے تھانے میں طاہر کے خلاف پرچہ درج کروا کر اندر کروا دیا، میں نے اے ایس آئی کو کہا کہ میں طاہر مفتی کی ضمانت دیتا ہوں۔ اے ایس آئی بھی شریف آدمی تھا اس نے میری ضمانت قبول کر لی اور طاہر مفتی کو چھوڑ دیا۔ یہاں سے ہم تینوں سہ چار بجے نکلے۔ طاہر بٹ کو مفتی صاحب کھانا کھلانے کے لئے لے گئے۔ مجھے بھی اس نے ساتھ چلنے کے لئے کہا لیکن میں نے معذرت کر لی کیونکہ میں اپنے گھر سے لایا ہوا کھانا کھا چکا تھا پھر مجھے ایوان ادب جانے کی جلدی تھی جہاں میں پارٹ ٹائم کام کرتا۔ معلوم نہیں یہ لوگ کب فارغ ہو کر اپنے گھروں کو گئے۔

اگلی صبح میرے دفتر جانے سے پہلے ہی طاہر کا ایک پرانا دوست مجھے سٹینڈ پر مل گیا میں نے اسکی آمد کی وجہ پوچھی اس نے بتایا کہ طاہر مفتی کا کل رات والو بس کے ساتھ ایک زبردست ایکسیڈنگ ہوا ۔طاہر مفتی بس کے ساتھ ساتھ گھسیٹتا چلا گیا اور فوت ہو گیا۔ اسکے یہ الفاظ مجھ پر بجلی بن کر گرے ابھی تو کل ہونے والی ملاقات کی گونج میرے ذہن میں باقی تھی اس لئے اس خبر پر یقین کرنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا پھر سوچا کہ کہیں وہ مذاق ہی نہ کر رہا ہو لیکن یہ مذاق نہیں تھا کیونکہ ایسا مذاق کسی بھی شریف آدمی کو زیب نہیں دیتا۔ مجھے بتا کر وہ لڑکا چلا گیا اور میں اس خبر سے بے حد پریشان ہو گیا اور پریشانی کے عالم میں طاہر بٹ کو فون کرکے اس حادثے کی اطلاع دی تو طاہر بھی اس خبر کو ماننے کے لئے تیار نہ تھا لیکن جب میں نے اسے یقین دلایا تو وہ مان گیا میں نے اسے جلدی پہنچنے کے لئے کہا ۔ پھر ہم دونوں دوست طاہر مفتی کے گھر واقع رحمان پورہ پہنچ گئے جہاں اس کی میت (جو اپنے پیارے دوست طاہر بٹ کے انتظار میں پڑی تھی)، نظر آ گئی ۔ آج ہمارا دوست لیٹا ہوا تھا بالکل یہیں پر وہ ہمارا استقبال کیا کرتا ۔ قہقہے فضا میں بکھرتے جہاں آج وہ ساقط اور بالکل چارپائی پر پڑا ہوا تھا اسے ایک لمحے کے لئے بھی یہ خبر نہ ہوئی تھی کہ زندگی بھر جس دوست کے پیچھے وہ پھرتا وہ دوست بھی خود چل کر بن بلائے اس کے پاس آیا ہے۔ ایسے لگتا تھا کہ وہ ہماری آمد پر خوش نہیں تھا جبھی تو لمبی تان کر سفید چادر لئے سویا ہوا تھا، اسکے چہرے سے جب چادر ہٹائی گئی تو یقین جانیں وہ چہرہ جو کبھی مسکراہٹ سے خالی نہیں رہتا تھا آج شدید زخموں سے چور مسکرا رہا تھا۔ شاید یہ خوشی بھی طاہر بٹ کے آنے کی وجہ سے اس کے چہرے پر عیاں تھی۔

آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی، گھر والوں کی حالت دیکھی نہ جاتی تھی۔ بالخصوص اسکے والد (جو انتہائی لاغر اور ضعیف تھے) کی حالت قابل رحم تھی لوگ یہی سمجھ رہے تھے کہ طاہر مفتی کا والد فوت ہو ا ہے۔ کسے خبر تھی کہ اسکے باپ کو اپنی زندگی میں اپنے جوان بیٹے کی موت کا صدمہ بھی دیکھنا ہے۔ بہرکیف آہوں اور سسکیوں کی فضا میں طاہر مفتی کو شاہ کمال قبرستان میں دفن کر دیا گیا اور اس طرح ایک انسان کا دنیا میں آنے اور واپس جانے کا سفر تمام ہو گیا۔

طاہر اپنی زندگی میں بہت تیز چل رہا تھا وہ سٹیپ بائی سٹیپ چلنے پر یقین نہیں رکھتا تھا بلکہ ایک ہی جست میں اپنی منزل پر پہنچنا چاہتا تھا۔ اپنی نجی زندگی کے بارے میں اس نے بڑے منصوبے بنا رکھے تھے اس کی ایک عزیزیہ جو اُسے بہت پسند تھی اسکی تصویر اپنے پرس میں رکھتا اور دن میں کئی بار اسے نکال کر دیکھتا۔ جس کی صورت اس کی اداکارہ طاہرہ نقوی سے ملتی تھی۔ بلکہ ہمیں بھی دکھاتا، پھر اسکا ارادہ بدل گیا کیونکہ ان کے عزیزوں میں سکوارڈن لیڈر کی ایک بیٹی جس کا شوہر ہوائی جہاز کے حادثے میں فوت ہو چکا تھا جس کی ایک بچی بھی تھی وہ اب سکوارڈن لیڈر کی بیٹی میں دلچسپی لینے لگا تھا ۔زندگی کے سہانے خواب اس نے بُننے شروع کر دیئے تھے بلکہ یہ بھی شنید تھی کہ کچھ عرصہ بعد ان کی منگنی بھی ہونے والی تھی کیونکہ دونوں گھرانے اس شادی پر رضامند تھے۔ قدرت نے منگنی کی مہلت ہی نہیں دی اور دنیا کے ہر کام میں جلدی کرنے والا طاہر مفتی دنیا سے جانے میں بھی جلدی کر گیا۔ بے شک ہم سب اﷲ کے لئے ہیں اور اس کی طرف لوٹ کر جاتے ہیں لیکن پھر بھی جب اس کی یاد آتی ہے تو دل اداس ہو جاتا ہے اور ذہن یاد ماضی کے دریچوں کو کریدنے لگتا ہے۔ اور زندگی پر یقین اٹھنے لگتا ہے۔ خدا اسے اپنے سایہ عافیت میں رکھے اور ہمیں بھی ایمان کی دولت کے ساتھ ساتھ اس صدمے کو برداشت کرنے کی توفیق بخشے۔آج اسے قبر میں اترے ہوئے بھی بیس پچیس سال ہوچکے ہیں ۔نہ جانے کس بے نام قبر میں وہ سو رہا ہے ۔
بیتے ہوئے دن کچھ ایسے ہیں
تنہائی جنہیں دوہراتی ہے
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 785341 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.