تاریخی ثقافتی ورثہ کی بربادی اور حکمرانوں کی غیر سنجیدگی
(Anwar Abbas Anwar, Lahore)
قومی معاملات میں ہم کس قدر
سنجیدہ ہیں؟اس میں ہماری ( عوام ) اور حکمرانوں کی تحصیص کوئی نہیں سب اس
میں شامل ہیں۔ لیکن ہمیشہ سنجیدگی اور غیر سنجیدگی ،ذمہ داری اور غیر زمہ
داری کی بات کرتے ہوئے حکمران ہی زیر بحث آتے ہیں۔ عوام نہ کبھی پہلے کسی
بات کے ذمہ دار ٹھہرے ہیں اور نہ ہی ٹھہرائے گئے ہیں۔ لہذا بات حکمرانوں کی
ہی ہوگی ۔موجودہ حکومت پاکستان ،عوام اور اسکے اثاثہ جات کے تحفظ کے دعوے
کرتی نہیں تھکتی۔ لیکن عملی طور پر ساری توجہ ایسے پراجیکٹس پر مرکوز رکھی
جاتی ہے جہاں ان کی ذاتی دل چسپی ہوتی ہے۔اٹھاروین ترمیم کے بعد صوبے با
اختیار بنا دیئے گئے ہیں۔محکموں کی صوبوں کو منتقلی کے علاوہ تارٰیخی
مقامات کی ملکیت بھی صوبائی حکومتوں کو مل گئی ہے۔ تارٰیخی مقامات میں مغل
شہنشاہوں کی تعمیر کی گئی تاریخی عمارتیں جن میں ہرن مینار ،قلعلہ شیخوپورہ
بھی شامل ہیں ۔کی حفاظت کرنے میں دلچسپی نہ لینا حیران کن ہونے کے ساتھ
ساتھ پریشان کن بھی ہے۔تاریخی عمارتیں اور مقامات کی قوموں کی تاریخ ہوتت
ہیں اور انہیں قومی ورثہ کا درجہ حاصل ہوتا۔ اور زندہ قومیں اپنے قومی ورثہ
کو تباہ و برباد نہیں ہونے دیتے اور اس کی حفاظت کو یقینی بناتی ہیں۔لیکن
ایم ہم ہیں جو زندہ قوم ہونے کا پرچار کرتے ہیں لیکن قومی ورثہ کے تحفظ کے
لیے خود پر عائد ہونے والی ذمہ داریاں ادا کرنے سے دیدہ دانستہ چشم پوشی کے
مرتکب ہوتے ہیں۔
شالامار باغ ہو یا مقبرہ نورجہاں یا اسکے بھائی آصف جاہ کی آخری آرام گاہ
ہو یا پھر آپ شیخوپورہ کا تاریخی قلعہ دیکھ لیں سب کی حالت خستہ بہ ہے۔،
شیخوپورہ اپنے نام سے ہی خبر دیتا ہے کہ اسے مغل بادشاہ جہانگیر جس کو پیار
سے شیخو کہا جاتا تھا نے اپنے شہزادوں کے ہرن کے شکار کے شوق پو مدنظر
رکھتے ہوئے شیخوپورہ میں ایک ہرن مینار اور ایک قلعہ تعمیر کروائے۔ بتایا
جاتا ہے کہ یہ تاریخی قلعہ کوئی لگ بھگ6 160 میں تعمیر ہوا۔قلعہ شہر کے وسط
میں واقع ہے جب کے ہرمینار شہر کے شمالی حصے میں محض چند کلومیٹر کے فاصلے
پر ہے۔آج حکمرانوں کی عدم توجہی کے باعث یہ تاریخی قلعہ خھنڈرات کا منظر
پیش کر رہا ہے۔ جب کہ ہماری حکومت موٹروے اور میٹرو بس پراجیکٹ کی راتوں
رات تعمیر کے حصار میں گھرے ہوئے ہیں۔ ان منصوبوں پر تو اربوں روپے خرچ کیے
جا رہے ہیں لیکن پاکستان کے قومی ورثہ کی دیکھ بھال کی کسی کو پرواہ نہیں ۔
2012 کے آخری مہینے ایک رپورٹ منظر عام پر آئی جس میں بتایا گیا کہ محکمہ
آرکیالوجی کے کسی نیک اور اس قومی ورثہ کے ہمدرد افسر نے اس خیال سے کہ
ہمارے حکمرانوں کو تو اس قومی ورثہ کے تحفظ کے لیے اقدامات اٹھانے کی فکر
نہیں لہذا پاکستان کے سب سے ’’پرانے اور وڈے‘‘ ہمدرد اور دوست امریکہ بہادر
سے مدد مانگ لی جاتی ہے چنانچہ اس نیک افسرنے ایک خط کے ذریعے امریکہ سفارت
خانے کی توجہ اس قومی ورثہ کی تباہی و بربادی کی جانب دلائی۔ جس پر اس قومی
ورثہ سے دور کا بھی تعلق واسطہ نہ ہونے کے باوجود اس قومی ورثہ کا دورہ کیا
اور اس کی ھٖاظت کے لیے بھاری فنڈز بھی دینے پر رضامندی ظاہر کی۔ پھر محکمہ
آرکیالوجی اور امریکی سفارت خانے کے مابین ایک معاہدہ پر دستخط ہوئے۔جس کے
تحت امریکی سفارت خانہ اس تاریخی اور قومی ورثہ کی بحالی کے لیے وفاقی اور
پنجاب حکومت کو ساڑھے آٹھ لاکھ ڈالر دینے تھے اور اس میں وفاقی اور پنجاب
حکومت نے ایک کروڑ ساٹھ لاکھ روپے بھی اس کام میں ڈالنے تھے۔ یہ کہانی کوئی
اگست دوہزار دس کی ہے۔ امریکی سفارت خانے نے قلعہ شیخوپورہ کی بحالی کے کام
کے آغاز کے لیے پہلی قسط کے طور پر پونے دولاکھ ڈالر کی گرانٹ جاری بھی
کردی گئی ۔یہ گرانٹ محکمہ آرکیالوجی کو فراہم کی گئی تھی۔ستم ظریفی کی حد
یہ ہے کہ وفاقی حکومت کے محکمہ آرکیالوجی نے یہ گرانٹ یہ کہہ کر امریکی
سفارت خانے کو واپس لوٹا دی یہ اٹھارویں ترامیم کے بعد تاریخی ورثہ کے
معاملات صوبوں کے پاس چلے گئے ہیں تاریخی و قومی ورثہ کی حفاظت اب صوبوں کے
ذمہ ہے۔
شائد پنجاب حکومت کی جانب سے امریکی سفارت کانے سے امداد وصول کرنے میں
ہچکچاہٹ کا مظاہرہ اس لیے کیا گیا ہو کہ ان دنوں پنجاب حکومت کے سربراہ
پاکستان کی وفاقی حکومت کو عوام کی نظروں میں گرانا چاہتی تھی اس لیے وہ
امریکی امداد قبول نہ کرنے اور کشکول توڑنے کے نعرے بلند کر رہی تھی اس
صورت میں اگر پنجاب حکومت قلعہ شیخوپورہ کے حس کی بحالی کے لیے امریکی
امداد قبول کر لیتی تو ’’ شہباز کی پرواز میں کمی آجاتی‘‘ حالانکہ وہ اور
ان کے بڑے بھائی دن رات امریکیوں کی آنکھ کا تارا بننے کے لیے سب کچھ کر
رہے تھے۔ ماسوائے قلعہ شیخوپورہ کی رونقیں لوٹانے کے لیے امریکی امداد لینے
کے۔
تیکسلا میں واقع گندھارا تہذیب کے شاہکار نمونے( مجسمے) پچھلے سال کے آخر
میں ہونے والی بارشوں کے باعث بری طرح متاثر ہوئے ۔سونا تلاش کرنے کے جنوں
میں بھی کافی نقصان پہنچا لیکن پنجاب کے حکمرانوں کی توجہ حاصل نہیں کر پا
رہے جس کے باعث یہ تاریخی اور ثقافتی ورثہ شدید متاثر ہو رہا ہے۔
قومی معاملات میں پنجاب حکومت کی غیر سنجیدگی کے مظاہرے اور عدم دلچسپی
یہاں پر ختم ہی نہیں ہوتی ،چودہری پرویز الہی کے دور میں اس نئی عمارت کا
منصوبہ بنایا گیا تھا اور تقریبا نو سال گزرنے کے بعداسکی تعمیر کا آغاز نہ
ہوسکا ہے۔ جس کے باعث اس کی لاگت کا تہمینہ780 ملین سے بڑھ کر 1.32 بلین تک
پہنچ چکا ہے۔اب تک کی تاخیر کی وجوہات میں کہا گیا کہ فنڈز کی عدم دستیابی
کے علاوہ مسجد کے گبندد اور چھت کے ڈائزئن کمی کے متعلق فیصلہ نہ ہونا ہے۔
اس سال پچھلے مہینے اسمبلی عمارت کے احاطہ میں مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا
ہے اس موقعہ پر سپیکر پنجاب اسمبلینے دعوی کیا کہ مسجد ایک سال کے اندر
تکمیل کو پہنچ جائے گی۔ خدا کرے کہ رانا اقبال اپنے دعوے کو سچ ثابت کر
دکھانے میں کامیاب و کامران ہوں۔
دو ہزار تیرہ میں بھی اسمبلی سکریٹریٹ کے ذرائع نے دعوی کیا تھا کہ اس سال
کام تکمیل کو پہنچ جائیگا اور ہم اسی سال حکومت پنجاب سے اسمبلی عمارت کے
فنڈز کے حصول کو یقینی بنائیں گے تاکہ مذید تاخیر نہ ہو لیکن دوہزار تیرہ
اور چودہ کے سورج پنجاب حکومت اور اسمبلی سکریٹریٹ پر ’’ تین حرف‘‘ پڑھتے
ہوئے غروب ہوگئے لیکن اسمبلی کی نئی عمارت پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکا۔
جبکہ موجودہ پنجاب حکومت اپنے دوسری مدت میں میٹرو نس منصوبہ سمیت کئی ایسے
منصوبے ریکارڈ وقت میں مکمل کرکے عالمی سطح پر داد تحسین وصول کر چکی ہے ۔
شائد اس منصوبے کی تکمیل میں تاخیر کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ اس اسمبلی
عمارت کی ریکارڈ وقت میں تکمیل سے انہیں کوئی سیاسی فائدہ نہیں ملنے والا
تھا۔ شائد حکمران بھول گے ہیں کہ ان کی غیر سنجیدگی کے نتائج ملک و قوم کو
ہی بھگتنے پڑتے ہیں |
|