ہندومسلم ثقافتوں کی امین سرزمین شرمسار ہے
(Asim Kazim Roonjho, Bela Lasbela)
ہندومسلم ثقافتوں کی امین ،
محبتوں کی سرزمین لسبیلہ جہاں رہنے والے تمام قبائل باہمی اتحاد واتفاق اور
یکجہتی کا ہمیشہ نشان رہے کبھی بھی اس سرزمین پر نفرتوں اور کدورتوں کی
آبیاری رنگ ، نسل ، زات پات اور مذہب کی بنیاد پر نہیں ہوئی بلکہ
ہندوغیرمسلموں کا اس قدر خیال رکھا جاتا کہ جام میر خان کے وقت میں گائے
سرعام ذبہ کرنے اور اسکی کھال سرعام فروخت کرنے پر پابندی تھی تاکہ ہندو جو
گائے کو عزت واحترام سے دیکھتے ہیں اور اسے ماتا کا درجہ دیتے ہیں انکی دل
آزاری نہ ہو لیکن ایک خبر گذشتہ روز سامنے آئی جس سے یہ ہندومسلم ثقافتوں
کی امین سرزمین شرمسار ہوگئ ۔ اسی سرزمین کی ایک میونسپل کمیٹی نے اپنے
اجلاس میں یہ فیصلہ کرتے ہوئے ہوٹل مالکان کو حکم دیا ہے کہ وہ غیر مسلموں
کے لیئے الگ برتن رکھیں ۔ ایک عوامی فورم جس کا کام عوام کی خدمت اور
میونسپل کمیٹیوں کے فرائض سرانجام دینا ہے ۔ انھوں نے ایک فیصلہ کردیا جو
سینکڑوں انسانوں کی دل آزاری کا سبب بنا اور اس افسوس ناک فیصلے سے انسانیت
کس قدر سرمشار ہوئی ہے یہ آپ سب بخوبی جانتے ہیں ۔ اس وقت ہمارے سرزمین میں
جہاں ایسے رویوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے جو باہمی اتحاد واتفاق کا سبب
بنیں تو وہیں ایسے منفی اقدامات سے منفی سوچ جہنم لے رہی ہے جس کے نتائج
بھی منفی نکلیں گے۔ اسلام میں کسی مذہب کے نام پر تفریق کی کوئی گنجائش
نہیں اسلام مہر ومحبت اور امن پسندی کا درس دیتا ہے۔ ہمارے نبی پاک نے بذات
خود نجران کے معاہدے کے وقت غیر مسلموں کے ساتھ کھانا کھایا۔خیبر کے موقع
پریہودیوں کے ہاتھ کا پکایا ہوا کھانا کھایا۔ثمامہ بن اثال جب قید ہوکر آیا
تو صحابہ کرام نے اپنے گھر کے برتنوں میں تین دن تک کھانا کھلایا ۔کئیں بھی
ہمیں غیر مسلموں کے الگ برتنوں کی مثال نہیں ملتی اور نہ ہی کسی مہذب
معاشرے میں اسے پسند کیا جاتا ہے۔ ہاں البتہ اسلام کے علاوہ کچھ دیگر مذاہب
میں اُونچ نیچ کی تعلیمات موجود ہیں لیکن اسے مہذب معاشرے کی اکثریت پسند
نہیں کرتی اور اس دھرم میں بھی اکثریت اسے تسلیم نہیں کرتی۔ ہماری روایات
بھی عظیم تعلیمات اور عظیم مثبت رواجوں پر مشتمل ہیں ان میں بھی ہمیں بھائی
چارگی اور مہرمحبت کا درس دیتی ہیں پھر آخر کیوں ایک ایسے فیصلے کی ضرورت
اس میونسپل کمیٹی کو پیش آئی۔جب میں اس پر معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تو
یہ علم میں آیا کہ وندر میں غیر مسلم بھکاریوں کی تعداد زیادہ ہے اورذکری
فرقے کے لوگ بھی ہیں اور ہوٹلوں پر صفائی کا نظام درست نہیں اس لیئے کچھ
لوگ ان برتنوں میں کھانا پسند نہیں کرتے اس لیئے وہ ایسے اقدامات کررہے ہیں
۔ اس سے افسوس ناک مقام اور کیا ہوسکتا ہے ایک انسان کو اس قدر حقیر سمجھنا
کہ اس کے برتن میں کھانا تک کھانا پسند نہ کیا جائے کیا ہمارے دین نے ہمیں
یہ درس دیا ہے کیا ہمارے نبی نے ہمیں یہ تعلیمات دی ہیں ہمارا دین تو اخوت
اور محبت کا درس دیتا ہے ۔ مہرومحبت ویگانگت کا درس دیتا ہے کسی قسم کی
نفرت کا درس نہیں دیتا ۔ اسلام میں کسی فرد سے نفرت کا درس ہمیں کئیں بھی
نہیں ملتا اسلام غلط عمل سے نفرت کا درس دیتا ہے، گناہ اور کفر سے نفرت کا
درس دیتا ہے۔ ہمارے پیارے نبی نے غیر مسلموں سے حسن سلوک کے مثال پیش کی
غیر مسلموں کو ایک ساتھ اپنے دستر خوان پر کھانا کھلاتے ، انکے ہاتھ کا
پکایا ہوا خود کھاتے اور آج ہم کیا پیغام دے رہے ہیں ۔ مذکورہ میونسپل
کمیٹی کو چاہیئے تھا کہ وہ ہوٹل کی صفائی اور حفظان صحت کے اصولوں کی
پابندی یقینی بنانے کا حکم ہوٹل مالکان کو دیتی بجائے اس کے کہ غیر مسلموں
کے برتن الگ کرنے کا حکم دے۔ اس سے ظاہر یہی ہورہا ہے کہ ہوٹلوں میں صفائی
اور حفظان صحت کے اصولوں کی پاسداری ممکن نہیں ہورہی اسی وجہ سے وہ ایسے
اقدامات کررہے ہیں ۔ اس وقت پہلے ہی ہندو مسلم ثقافتوں کی امین اس سرزمین
میں ہندو اپنے آپ کو اقلیت میں محسوس کررہا ہے ایسے اقدامات مزید اسکے
احساسات کو مجروع کریں گے۔ اس لیئے ضرورت اس امر کی ہے بجائے ایسے اقدامات
کے میونسپل فرائض اور میونسپل مسائل کے حل کے لیئے میونسپل کمیٹی فرائض
سرانجام دے انکا یہ اقدام یقینن ایک افسوسناک اقدام ہے جس سے کئی لوگوں کی
دل آزاری ہوئی اور انکے احساسات مجروع ہوئے ہیں ۔آج ہمیں ملکر اس سرزمین کی
بقاء کے لیئے کرادر ادا کرنا ہے اس لییئے ایسےاقدامات ہماری مزید تباہی اور
بدنامی کا سبب بنیں گے۔
|
|