انسانیت تو مر چکی
(عابد محمود عزام, karachi)
انسان کی تیز رفتار ترقی کو
دیکھتے ہوئے کبھی کبھار میں سوچتا ہوں کہ اگر ماضی بعید کا کوئی انسان زندہ
ہو کر دوبارہ دنیا میں آکر انسان کے ہاتھوں ہونے والی ایجادات اور اخترعات
کو دیکھ لے تو یقیناً ایک بار تو وہ ضرور گمان کرے گا کہ یہ دنیا وہ نہیں
ہے جس کو میں چھوڑ کر گیا تھا، بلکہ یہ کوئی اور ہی جہان ہے۔ انسان نے ایسی
ایسی نت نئی اور حیران کن ایجادات کر ڈالی ہیں، جن کو دیکھ کر انسانی عقل
دنگ رہے بغیر نہیں رہ سکتی۔ جنگلات میں رہنے والے دیوہیکل جانوروں سے لے کر
زمین پر رینگتے ہوئے کیڑوں تک کوئی بھی چیز انسان کی نظروں سے اوجھل نہیں
رہی ہے، بلکہ صرف زمین ہی نہیں، انسان نے تو چاند پر بھی اپنے قدم ٹکا لیے
ہیں اور سمندر کی تہہ میں رہنے والی مخلوقات تک دسترس حاصل کر لی ہے۔ یقینا
یہ سب کچھ بہت بڑا کمال ہے، لیکن افسوس ! خلاؤں کو تسخیر کرنے اور زمین کی
تہوں میں جھانکنے والا انسان تمام جدیداور انوکھی چیزوں کے اختراع کی کنجی
حاصل کرنے میں تو کامیاب ہوگیا، لیکن انسانیت کو بچانے میں کامیاب نہ ہوسکا۔
اکیسویں صدی میں پہنچ کر سائنسی ایجادات اور خلاؤں کو تسخیر کرنے والا خود
پسندی اور نرگسیت میں مبتلا روبوٹ نما مشینی انسان اپنی حکمت کے خم و پیچ
میں الجھ کر دن بہ دن انسانیت سے دور ہوکر درندگی کے اس قدر قریب ہو رہا ہے
کہ اب یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا ہے کہ دل کی جگہ چٹان انسان کے سینے میں
ہے یا درندہ اپنے سینے میں پتھر رکھتا ہے۔ بلکہ انسان کے ہاتھوں انسانوں کی
بے دریغ قتل و غارتگری اور خونریزی دیکھ کر تو انسان کو ہی درندوں پر فوقیت
دینے کو دل چاہتا ہے، جو خونریزی انسان اپنی بستیوں میں کرتا ہے، جنگلوں
میں رہنے والے درندوں سے اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ جنگلوں کا
بھی کوئی نہ کوئی قانون و دستور ہوتا ہے، لیکن اکیسویں صدی میں رہنے والے
انسانوں کی نفرتیں، رقابتیں، حسد، بغض اور لالچ ہمیں جنگل کے دور سے بھی
بہت پیچھے لے جا چکی ہےں۔ حالانکہ انسان تو اشرف المخلوقات ہے، اس کو تو
اشرف المخلوقات ہونے کی لاج رکھنی چاہیے تھی، لیکن ترقی یافتہ شہروں میں
رہائش پذیر انسان نے اس لاج کو بری طرح پامال کیا۔
ماہر نفسیات انتھونی اسٹور نے لکھا ہے: ”کرہ ارض پر آج تک جنم لینے والی
تمام انواع میں انسان سب سے زیادہ ظالم اور سفاک واقع ہوا ہے۔“ ماہر نفسیات
انتھونی نے بالکل بجا کہا ہے، کیونکہ انسانی تاریخ انسان کے مظالم اور
سفاکیت کی وجہ سے انسان کے خون سے رنگین ہے۔ قابیل و ہابیل کی داستان سے لے
کر افغانستان کی فرخندہ کو بے تحاشہ مار پیٹ کر قتل کرنے اور لاہور کے حافظ
نعیم اور محمد نعمان کو زندہ جلانے تک انسان کی تاریخ میں سفاکیت و درندگی
اس قدر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے کہ جسے دیکھ کر انسانیت کا سر شرم سے جھک
جاتا ہے۔ صرف اپنے مفادات کے لیے انسان نے کئی کئی علاقے ملیامیٹ کردیے
اورہنستی بستی آبادیوں کو اجاڑ کر رکھ دیا۔انسان نے ہی انسان کو بھوکے
شیروں کے سامنے ڈال کر تماشا دیکھا۔ انسان نے ہی توپ کے دہانے پر باندھ کر
انسان کے پرخچے اڑائے۔ انسان نے ہی انسان کو زندہ درگور کیا۔ انسان نے ہی
انسان کو تیل کے گرم کڑاہوں میں ڈال کر بھونا۔ انسان نے ہی جنگوں میں ایک
ایک دن میں دس دس لاکھ انسانوں کو قتل کیا اور ہیر و شیما اور ناگا ساکی پر
انسان نے ہی ایٹم بم گرا کر لاکھوں انسانوں کی زندگیاں چھین لیں۔ یہ تو
ماضی کی باتیں تھیں، لیکن اب تو انسان بہت ترقی کر چکا ہے، بہت کچھ سیکھ
چکا ہے، ہر طرح کا ہنر جانتا ہے، اب تو انسان کو مہذب ہوجانا چاہیے، لیکن
اگر ”مہذب“ انسانوں کی دنیا پر نظر تو دوڑائی جائے تو خود ہی اندازا ہوجائے
گا کہ انسان کتنا ”مہذب“ ہوگیا ہے۔ ایجادات اور اخترعات کی صدی کو شروع
ہوئے پندرہ سال بیت چکے ہیں، لیکن انسان کی انسان دشمنی میں کوئی کمی نہیں
آئی، بلکہ انسانیت حیوانیت کی جانب انتہائی تیزی سے گامزن ہے۔ زمانہ ماضی
میں ہونے والی خونریزی کو تو جہالت کا شاخسانہ قرار دے کر نظرانداز کر دیا
جاتا ہے، لیکن اس ترقی یافتہ دور میں انسان کو مارنے کے ان گنت طریقوں کو
کیا نام دیا جائے؟ انسان کے ہاتھوں انسان کی پامالی، بربریت، وحشت اور
حیوانیت کو کس نظر سے دیکھا جائے؟
انسانوں نے ملک، قوم، مذہب اور لسانیت کے نام پر کشت و خون کا جو بازار گرم
کر رکھا ہے، اس کو دیکھنے کے بعد انسانوں سے وحشت ہونے لگتی ہے۔ ہر کسی کے
پاس خون بہانے کے لیے اپنی اپنی لاتعداد دلیلیں ہیں، لیکن ہر تاویل انسانیت
کے چہرے پر بدنما داغ کو مٹانے میں ناکام نظر آرہی ہے۔ ہر کوئی اپنے اپنے
راگ الاپ کر مزید ظلم وستم اور بربریت کو ہوا دے رہا ہے۔ ایک دوسرے کو نیچا
دکھانے، انتقام کی پیاس بجھانے اور اپنی انا کی تسکین کی خاطر مختلف حیلوں
اور بہانوں سے انسانیت کا جنازہ نکال رہا ہے۔ دنیا کے سب سے زیادہ مہذب اور
ترقی یافتہ سمجھے جانے والے امریکا کے صدر بش نے جنگی جنون میں مبتلا ہو کر
دنیا میں جمہوریت کے نام پر اپنی چوہدراہٹ قائم کرنے کے لیے چار درجن ممالک
کی فوجوں کے ساتھ مل کر افغانستان اور عراق میں لاکھوں لوگوں کی زندگیاں
چھین کر خونریزی کی جو تاریخ رقم کی وہ تو الگ باب ہے، لیکن جو لوگ ”مہذب“
امریکوں کے ہتھے چڑھے ان کو انسانیت سوز تکالیف دے کر گوانتانامو، ابو غریب
اور بگرام میں انسانیت کو جس طرح شرمندہ کیا گیا، اس کی مثال ملنا بھی مشکل
ہے۔
انسان کا انسان کے ہاتھوں قتل کوئی انوکھی اور انہونی بات نہیں ہے، یہ خون
خرابہ اور جنگ و جدل تو آپ کو ہر زمانے میں ہی نظر آئے گا۔ ہر دور میں کوئی
نہ کوئی قابیل کسی نہ کسی ہابیل کا ناحق قتل کرتا رہا ہے، لیکن بڑا سانحہ
یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں پہنچنے کے بعد بھی انسان وحشی پن سے نہیں نکلا
اور یہ وحشی پن کسی ایک ملک، قومیت یا مذہب کے ماننے والوں تک محدود نہیں
ہے، بلکہ دنیا کے ہر کونے میں یہ مختلف شکلوں میں نظر آتا ہے۔ عیسائیت کے
ماننے والے مغربی اتحاد کی شکل میں افغانستان، عراق اور دیگر مسلم ممالک
میں، بودھ مت کے ماننے والے برما میں، ہندو مت کے ماننے والے کشمیر میں،
یہودیت کے ماننے والے فلسطین میں، جبکہ اسلام کے ماننے والے خود اپنے ممالک
میںاپنی دہشت اور دھاک بٹھانے کے لیے جنگی اصولوں، قوانین اور اخلاقیات کو
بالائے طاق رکھ کر انسانیت کا مذاق اڑانے میں مصروف ہیں۔ مختلف ممالک میں
بم دھماکوں کے ذریعے بے گناہوں کا ناحق خون کرنا، مسجدوں، مندروں، گرجوں،
اسکولوں، مدرسوں اور بازاروں میں خون کی ندیاں بہانا اکیسویں صدی میں رہنے
والے جذبات سے عاری انسان کا معمول بن چکا ہے۔ انسان کی بے حسی اور وحشی پن
کو دیکھتے ہوئے انسان اور وحشی میں فرق کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ زیادہ تکلیف
دہ بات تو یہ ہے کہ ان حالات میں انسانیت کا دفاع کرنے والا دور دور تک نظر
نہیں آرہا، بلکہ اب تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ انسانیت تو مر چکی ہے۔ |
|