سعودی عرب کی قیادت میں یمن میں
حوثی باغیوں کے خلاف عرب اتحاد کے فوجی آپریشن شروع ہونے کے بعدسعودی عرب
اورمصرکے نوجوانوںمیں فوج میں بھرتی ہونے کانمایاں جذبہ پیداہواہے ۔سعودی
عرب اورمصرکے ہزاروںنوجوانوںنے اپنی مسلح افواج کے ساتھ مجوزہ مشترکہ عرب
فورسز میں شمولیت کے لیے درخواستیں دینی شروع کردی ہیں۔سعودی عرب کو
فورسزمیںافرادی قوت کی کمی کامسئلہ حل ہوجائے گا۔عرب لیگ میں شامل بائیس
ملکوں نے ایک مشترکہ عرب فوج بنانے پر بھی اتفاق کرلیاہے جس پر غوروخوض
جاری ہے اورآئندہ چارماہ کے دوران اس پر عملی اقدامات کے شروع ہونے کاامکان
ظاہرکیاگیا ہے۔مشترکہ فوج کی تجویز مصری صدرفیلڈمارشل عبدالفتاح السیسی نے
دی ہے۔جوصدربننے سے قبل مصرکی مسلح افواج کے سربراہ رہے ہیں۔ مشترکہ فوج
40ہزارارکان پرمشتمل ہوگی جس کاچناﺅ عرب ملکوں کی اسپیشل فورسز سے کیاجائے
گا۔سعودی جریدے سبق الیکٹرونیہ کی رپورٹ کے مطابق حوثی باغیوںکے خلاف فیصلہ
کن طوفان نامی فوجی آپریشن شروع ہونے کے بعدگزشتہ بدھ کے روزعسیرنامی علاقے
میںیمنی سرحد پرباغیوںکی فائرنگ سے شہید ہونے والے سعودی فوجی اہلکار
کوجمعرات کوپورے فوجی اعزازکے ساتھ سپردخاک کردیاگیاہے۔شہیدفوجی سلیمان
المالکی نے ڈیوٹی کے دوران حفظ قرآن کریم شروع کیاتھااورانہوں نے اپنے اہل
خانہ کو آخری پیغام میں دس پاروں کی تکمیل کی خبردی تھی۔سلیمان المالکی کی
نمازجنازہ اس کے آبائی علاقے ابہامیں اداکی گئی جس میں فوجی حکام ،شہیدکے
عزیزواقارب کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کے باشندوںنے بڑی تعدادمیں شرکت کی۔
فوجی کی شہادت کے بعدسعودی عرب میں سوشل میڈیاپرنوجوانوں کی بڑی تعدادنے
مسلح افواج میںبھرتی کے لیے خواہش ظاہرکی ہے۔سعودی عرب کی مسلح افواج کے
شعبہ اطلاعات اورتربیتی مراکزمیںنوجوانوںکی بڑی تعداددرخواستیں بھیجنے لگی
ہے۔فوج میںشمولیت کے خواہش مندوں میں صرف نوجوان نہیں بلکہ یونیورسٹی کی
طالبات نے بھی مطالبہ کیاہے کہ انہیں افواج میں کام کرنے کی اجازت دی
جائے۔رپورٹ کے مطابق مسلح افواج میں شمولیت کاحالیہ جذبہ1967ءکی عرب
اسرائیل جنگ کے بعدپہلی مرتبہ دیکھنے کومل رہاہے۔اس سے قبل کے درمیانی عرصے
میں عرب نوجوانوں میں بیرون ملک تعلیم ،یورپ اورامریکامیں سیٹل ہونے کاشوق
تھایہی وجہ تھی کہ بھرپوردولت کے باوجود عرب ممالک کی افواج میں ضرورت کے
پیش نظر افرادی قوت کی اگرکمی نہ تھی توکم ازکم کوئی زیادہ حوصلہ افزابھی
نہیں تھی۔رپورٹ کے مطابق یمن آپریشن اورمشرق وسطی میں رونماہونے والی
تبدیلیوں کے باعث عرب نوجوانوںمیں اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے پیداہونے
والاجذبہ خوش آئند ہے اس سے ان ممالک بالخصوص سعودی عرب کودرپیش
فورسزمیںافرادی قوت کی کمی کامسئلہ حل ہوجائے گا۔
میڈیارپورٹوں کے مطابق سعودی عرب اورمصرمیں فوروزمیں شمولیت کاجذبہ امڈنے
کے ساتھ عرب میڈیامیں عرب ملکوں کی دفاعی قوت کے جائزے سے متعلق رپورٹیں
بھی سامنے آنے لگی ہیں۔جن میں عرب ملکوں کی مسلح افواج کے بارے میں مفید
معلومات موجودہیں۔العربیہ نے اپنی ایک رپورٹ میں عرب ممالک کی دفاعی صلاحیت
اورمسلح افواج کی کارکردگی سے متعلق مختصرخاکہ پیش کیاہے جس کے مطابق
مصرکودفاعی اعتبارسے دنیا کی13ویں مضبوط فوج کی حیثیت حاصل ہے جبکہ عرب
دنیاکی پہلی بہترین فوج کادرجہ حاصل ہے ۔مصرکی مسلح افواج میں باضابطہ
فوجیوں کی تعدادچارلاکھ 68ہزارہے ریزروفوج چارلاکھ 79ہزارہے مصرمیں35ملین
افراد میں فوجی خدمات انجام دینے کی صلاحیت موجودہے ۔مصری فوج کے پاس
چارہزار487ٹینک موجودہیں۔بکتربندگاڑیوں کی تعداد9ہزار646ہے ۔مصرکے پاس
863جنگی طیارے 200جنگی ہیلی کاپٹراورنیوی کٹس 221ہیں۔مصری بحریہ بھی مضبوط
اورپیشہ ورانہ صلاحیتوں سے مالامال ہے ۔مصرکے بعد سعودی عرب کی باری آتی ہے
جو کہ عرب دنیا کی دوسری بڑی اورپوری دنیا کی 25ویںبڑی فوج رکھتاہے۔سعودی
عرب کی مجموعی آبادی دوکروڑاسی لاکھ(28ملین )ہے۔سعودی عرب کی مسلح افواج کی
تعداداڑھائی لاکھ سے زیادہ ہے ۔ریزروفوج 25ہزارہے جبکہ ملک میں فوجی صلاحیت
کے حامل افرادکی بھی خاصی تعداد ہے۔سعودی عرب کے پاس6ہزارتوپیںہیں۔ 977جنگی
طیارے اور4سوہیلی کاپٹرسعودی کے پاس ہیں۔سعودی عرب میںجنگی طیاروںکے لئے
214ہوائی اڈے ہیںجبکہ ایمرجنسی کے وقت جنگی طیاروںکے ٹیک آف کے لیے ہنگامی
رن ویز ان کے علاوہ ہیں۔العربیہ کے مطابق بین الاقوامی ادارے آئی ایچ ایس
کے مطابق گزشتہ سال بین الاقوامی سطح پرمجموعی طورپر64ارب 40کروڑڈالرمالیت
کااسلحہ فروخت ہواہے۔جس میں سب سے زیادہ سعودی عرب کاہے ۔سعودی عرب
اورمتحدہ عرب امارات نے گزشتہ سال مشترکہ طورپر8ارب 60کروڑڈالر مالیت
کااسلحہ خریداہے۔سعودی عرب کی دفاعی صلاحیت میں”اف 15ایگل “اپنی ایک خاص
اہمیت رکھتاہے اس طرح کے جنگی طیارے برطانیااورامریکاجیسے بڑے ممالک کے پاس
ہیں۔ سعودی عرب کی دفاعی صلاحیت کااندازہ اس کے جنگی بحری بیڑے سے بھی
لگایاجاسکتاہے۔”ایف 15اسٹرائیک ایگل“نامی بحری جنگی بیڑاامریکااورجاپان کے
بعد صرف سعودی عرب کے پاس ہے۔ اسے سعودی عرب کی دفاعی صلاحیت کی ریڑھ کی
ہڈی قراردیاجاتاہے۔بحری بیڑا”یوروفائیٹرٹائفون “برطانوی ساختہ
”ٹورناڈو“پیشگی اطلاع دینے والے الیکٹرونک آلات ،اپاچی ہیلی
کاپٹروںاورامریکی ساختہ کیوااورسیکورسکی ہیلی کاپٹروںسے لیس ہے۔سعودی عرب
کو چونکہ بحراحمراوربحر عرب میں سیکورٹی مسائل کاسامنارہتاہے اس لیے سعودی
بحریہ کے پاس غیرمعمولی صلاحیت کے حامل طیارے اورہیلی کاپٹرہیں۔ان میں
سرفہرست فرانسیسی ساختہ ہیلی کاپٹر”یورکوپٹر“جدیدترین امریکی جنگی
جہاز”نورتھروپایف 5“اوربرطانوی ساختہ دیگر جہاز بھی شامل
ہیں۔میڈیارپورٹوںکے مطابق مصراورسعودی عرب کے بعد عرب ممالک کی مسلح افواج
میں شام تیسرے نمبرپرتھی۔شام کے بعدالجزائر کی باری آتی ہے۔الجزائرکی فوج
عرب ملکوںمیںچوتھے نمبرپرہے ۔الجزائرکے بعدمتحدہ عرب امارات ہے جس کی فوج
کوعرب دنیا کی پانچویں بڑی فوج کادرجہ حاصل ہے ۔امارات کے بعد یمن ،اردن ،کویت
،عراق اورعمان کی باری آتی ہے عمان عرب دنیا میں سعودی عرب کے بعد اسلحہ
کادوسرابڑاخریدارہے۔ |