شعار مرگ

1979 کے اسلامی انقلاب میں امام خمینی (رح) نے امریکا اور اسرائیل کے خلاف ایک شعار بلند کیا، مرگ بر امریکا، مرگ بر اسرائیل، اس نعرے کا مقصد بادشاہ وقت یعنی رضا شاہ پھلوی کہ جو امریکہ کے زیر اثر تھا سے چھٹکارا اور امریکہ اور اسراَئیل کا اصلی چہره لوگوں کے سامنے پیش کرنا تھا، امام خمینی (رح) کے اس نعرے کے بعد لوگ، پھلوی حکومت کے مخالف سیاسی جماعتیں، سٹوڈنٹس، علماء کرام اور دانشمند لوگ ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو گئے اور رضا شاہ پھلوی کے حکومت سے بغاوت کا اعلان کر دیا، بعد ازاں امام خمینی کو ملک بدر کر دیا گیا لیکن اُن کے مخلص ساتھیوں نے اس تحریک کو آگے بڑھایا، جب پورا ایران اس انقلاب کے لیے آمادہ ہو گیا اور لوگ سڑکوں پر نکل آئے تو ملک کا بادشاہ ملک سے بھاگنے پر مجبور ہو گیا، امام خمینی ملک میں واپس آئے اور اس ملک کے باگ دوڑ سنبھالی، ملک میں الیکشن کرائے اور اس طرح ایک طویل المدت بادشاہی نظام کا خاتمہ ہوا اور ملک میں جمہوری نظام نافذ ہوا۔

اس انقلاب اسلامی کی چبھن امریکا اسرائیل اور بہت سے خلیجی ممالک کو بھی تھی، مسلمانوں کے سب سے بڑے اجتماع یعنی حج کے موقع پر امام خمینی نے "برات از مشرکین" "یعنی مشرکین سے نفرت کا اظھار" کے دن کے طور پر منانے کا فتوی دیا ایرانی حجاج اور دیگر شیعہ حجاج نے اپنے رہبر کے اس فتوے پر عمل کرتے ہوئے "برات از مشرکین" اور مرگ بر امریکا اور مرگ بر اسرائیل کا نعرہ بلند کیا اور ہر سال اس دن کو منانے لگے، 1987 میں سعودی عرب میں حج کرنے والےایرانی افراد کی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی اور ایرانی اور باقی ممالک سے آئے ہوئے شیعہ حجاج اس دن اپنے رھبر کے فتوے پر عمل کرتے هوئے اجتماع میں مصروف تھے، تو سعودی حکومت نے اُن کے اس اجتماع میں دہاوا بول دیا,عمارتوں سے آتش گیر ماده پھینکا گیا گولیاں برسائی گئی خدا کے گھر آئے هوئے خدا کے مھمانوں کو شهید کیا گیا, جس کے نتیجہ میں اس سال کل 405 حجاج شهید ہوئے، جن میں سے 275 حاجی ایرانی تھے، لیکن اس واقعہ کو سیاسی رنگ دیا گیا اور کہا کہ یہ لوگ کعبہ پر قبضہ کرنا چاہتے تھے، لیکن انسان خود غور کرے کہ کیسے ایک ہزار افراد پر مشتمل ایک گروہ کہ جن میں بیشتر خواتین اور بچے تھے بغیر کسی اسلحے کے اپنے سب سے مقدس مقام پر قبضہ کر سکتے ہیں۔ استعمار نے اس واقع کو سیاسی رنگ دے کر چھپانے کی کوشش کی۔

2004 میں حوثی قبائل نے اپنے قائد حسین بدرالدین حوتی کے شہید ہونے کے بعد "الموت لامریکا، الموت لاسرائیل اور الموت لیھود" کے نعرے کو بلند کیا، یہ نعرہ دراصل اس نگران حکومت کے خلاف تھا کہ جو اپنا مقررہ وقت پورا کر چکی تھی، چونکہ یہ نگران حکومت سعودی عرب, امریکا اور اسرائیل کی پسندیدہ حکومت تھی ، لیکن اس حکومت نے اپنی مقررہ مدت کے پورا ہونے کے بعد بھی نئی حکومت کے قیام کے لیے کوئی اقدام نہ کیا تو اس وقت انصاراللہ تنظیم, دیگر یمنی قبائل اور فوج نے ملکر اس حکومت کے خلاف تحریک کا آغاز کیا اور الموت لامریکا، الموت لاسرائیل اور الموت لیھود کے نعرے کو بلند کرتے هوئے تحریک کا آغاز کءا, لیکن سال 1987 کی طرح اس تحریک کو بھی دبانے کی کوششیں شروع کر دی گئی عالمی میڈیا پر یہ تاثر دیا جانے لگا کہ یہ حوثی قبائل مکہ اور مدینہ پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور حجاز انکی وجہ سے خطرے میں ہے، لیکن اگر حقیقت پسندانہ نگاہ سے اس تمام تحریک پر نظر کی جائے تو نہ تو عالمی میڈیا پر دیگر باغی تنظیموں کی طرح حوتی قبائل کا کوئی موقف سامنے آیا ہے کہ اُنکا مقصد کیا ہے، اگر اُن کا نظریہ سامنے آنے دیا جائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گااور یہ بات واضح ہو جائے گی کہ ان قبائل نے نہ تو سعودی عرب پر حملہ کیا، نہ یمن میں مقیم غیر ملکیوں میں سے طالبان اور داعش کی طرح کسی کے گلے کاٹے اور نہ ہی کسی عام آدمی کو اذیت دی، بلکہ اس تحریک کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ یمن میں دوبارہ جمہوری حکومت کے قیام کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ اگر اس تمام تر جنگ میں اگر کسی کا کوئی نقصان ہوا ہے تو صرف اور صرف اس میں یمنی بے گناہ لوگ کہ جنہوں نے حکومت وقت کے خلاف آواز بلند کی اُنکا ہوا ہے، طیاروں نے بمباری کی ہے تو یمنی لوگوں کے گھروں پر، گھر اجڑے تو ان بے کناہ لوگوں کے، لیکن اس کے باوجود نہ تو ان حوثیوں نے کہ جنہیں باغی کہا جا رہا ہے ،نے سعودی عرب کی طرف پیش قدمی کی، نہ ہی یہ دھمکی دی کہ ہم سالانہ بیس ہزار تیل بردار بحری جہازوں کی گزر گاہ باب المندوب کی ناکہ بندی کر دیں گے، اور نہ ہی دیگر دہشت گرد تنظیموں کی طرح مخالف ملک میں بم دھماکہ کیا اور نہ ہی اس کی دھمکی دی، نہ خانہ کعبہ اور مدینہ میں قبضہ کرنے کا کوئی بیان جاری کیا۔ بلکہ اس جنگ کی وجہ سے اگر کسی کا فائدہ ہوا ہے تو فقط اور فقط طالبان اور داعش کا کہ جنھوں نے یمن کے صوبہ حضر موت کے دارلحکومت ال مقلہ کی جیل پر حملہ کر کے اپنے اہم کمانڈر خالد بطانی سمیت تین سو ساتھی آزاد کرا لیے ، اور امریکااور اسرائیل کا کہ جو اپنی سازش میں کامیاب ہوئے کہ مسلمان آپس میں بر سر پیکار رہیں اور وہ لوگ جی بھر کر فلسطینی عوام پر ظلم کر سکیں،اگر سعودی عرب دیگر ملکر یمن پر قبضہ بھی کر لیتے ہیں تو اس کے بعد سعودی عرب خود کمزور ہو جائے گا اور اسکا فائدہ داعش کو ہو گا کہ جنھوں نے سعودی عرب پر قبضہ اور مقام مقدسہ کو تباہ کرنے کے دھمکی دے رکھی ہے تو سعودی عرب اس جنگ کی وجہ سے خود اپنے لیے مشکلات میں اضافہ کر رہا ہے۔ اور پاکستان کو اس جنگ میں غیر جانبدرانہ رول اپنا کر پاکستان کو مزید کسی جنگ سے بچانا ہو گا۔۔
rizwan haider sherazi
About the Author: rizwan haider sherazi Read More Articles by rizwan haider sherazi: 3 Articles with 2020 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.