ناموس رسالت

ناموس کا لفظی معنی ’’ عزت عصمت اور لاج و آبرو ‘‘ ہے ۔ جبکہ رسالت کا لغوی معنی ’’پیغام پہنچانے کے ہیں‘‘۔ یہاں ناموس رسالت کا مفہوم یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے ہر نبی کی قدرو منزلت کی جائے کیونکہ وہ اﷲ کے بھیجے ہوئے ہیں ۔ اور نبی کریم ﷺ چونکہ تمام انبیاء و مرسلین سے فضیلت و مرتبہ میں بڑھ کر ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلَی بَعْضٍ مِّنْہُم مَّن کَلَّمَ اللّہُ وَرَفَعَ بَعْضَہُمْ دَرَجَاتٍ (سورہ اٰل عمران-253)
ترجمہ: یہ سب رسول ہم نے فضیلت دی ہے ان میں سے بعض کو بعض پر ان میں سے کسی سے کلام فرمایا اﷲ نے اور بلند کیئے ان میں سے بعض کے درجے ۔

قرآن و حدیث سے جب حضور ﷺ کو باقی تمام انبیاء و مرسلین سے ہر لحاظ سے مرتبہ و فضیلت حاصل ہے توپھر ان کی عزت اور ناموس بھی باقی تمام انبیاء سے زیادہ ہے ۔ ہر مومن کو چاہئے کہ وہ ہر لحاظ سے آپ کی ناموس کا خیال رکھے اور کسی قسم کا حرف نہ آنے دے اور آپ کی ناموس کی خاظر تن من قربان کر دینا ایمان کام کی دلیل ہے ۔
بقول شاعر:
نمازاچھی , زکوٰۃ اچھی , روزہ اچھا , حج اچھا
مگر میں باوجود اس کے مسلماں ہو نہیں سکتا
نہ جبتک کٹ مروں میں خواجہ بطحا کی عزت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا

ناموس رسالت اور قرآن:
اﷲ تعالیٰ نے حضور ﷺ کی عزت و توقیر کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
لِتُؤْمِنُوا بِاللَّہِ وَرَسُولِہِ وَتُعَزِّرُوہُ وَتُوَقِّرُوہُ (سورہ فتح- 9)
ترجمہ: تاکہ (اے لوگو) تم ایمان لاؤ اﷲ پر اور اس کے رسول پر اور تاکہ تم ان کی مدد کرو اور دل سے ان کی تعظیم کرو۔

اس آیت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دین کی خدمت کے ساتھ ساتھ حضور ﷺ کی عزت و توقیر بھی لازمی امر ہے ۔ حضور ﷺ کی مدد اور اسی طرح آپ کی تعظیم و تکریم یکساں اہمیت کی حامل ہے ۔
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
فَالَّذِیْنَ آمَنُواْ بِہِ وَعَزَّرُوہُ وَنَصَرُوہُ وَاتَّبَعُواْ النُّورَ الَّذِیَ أُنزِلَ مَعَہُ أُوْلَـئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ (سورہ اعراف- 157)
ترجمہ: پس جو لوگ ایمان لائے اس (نبی امی) پر اور تعظیم کی آپ کی اور پیروی کی اس نور کی جو اتارا گیا آپ کے ساتھ وہی (خوش نصیب) کامیاب و کامران ہیں۔

آیت کے آخر میں بڑے اختصار اور جامعیت کے ساتھ بتا دیا کہ فلاح و سعادت سے صرف وہی سرفراز ہو گا جو حضور ﷺ پر سچے دل سے ایمان لایا اور اسکی تعظیم و تکریم میں کوئی کوتاہی نہ کی ۔ ایمان کے بعد حضور کی تعظیم و تکریم سب سے اہم ہے ۔ بلکہ نصرت اور اتباع قرآن کا حق ادا ہی تب ہو سکتا ہے جب دل میں حضور ﷺ کا ادب و احترام ہو ۔ ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
ناموس رسالت کے پیش نظر اور عزت و تکریم کے منافی ذرا سی حرکت پر تمام اعمال ضائع ہونے کی وعید سنائی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیِ اللَّہِ وَرَسُولِہِ وَاتَّقُوا اللَّہَ إِنَّ اللَّہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ (سورہ حجرات- 1)
ترجمہ: اے ایمان والو ! آگے نہ بڑھا کرو اﷲ اور اس کے رسول سے اور ڈرتے رہا کرو اﷲ تعالیٰ سے بیشک اﷲ سب کچھ سننے جاننے والا ہے ۔ آگے ارشاد فرمایا :
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْہَرُوا لَہُ بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُکُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ
(سورہ حجرات -2)
ترجمہ: اے ایمان والو ! نہ بلند کرو اپنی آوازوں کو نبی کریم ﷺ کی آواز سے اور نہ زور سے آپ کے ساتھ بات کرو جس طرح زور سے تم ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہو ( اس بے ادبی سے) کہیں ضائع نہ ہو جائیں تمہارے اعمال اور تمہیں خبر تک نہ ہو ۔

اسی آیت کی تفسیر میں پیر محمد کرم شاہ الازہری ؒلکھتے ہیں ۔
تم اس غلط فہمی کا شکار ہوگے کہ تم بڑے نمازی اور غازی ہو ۔ صائم الدھراور قائم اللیل ہو ، مفسر ہو محدث ہو ، واعظ آتش بیان ہو اور جنت تمہارا انتظار کر رہی ہے ۔ اور جب وہاں پہنچو گے تو اس وقت پتہ چلے گا کہ اعمال کا جو باغ تم نے لگایا تھا اسے تو بے ادبی اور گستاخی کی باد صرصر نے خاک سیاہ بنا کر رکھ دیا ہے اس وقت کفِ افسوس ملو گے ، سر پیٹو گے لیکن بے سود لاحاصل ۔ ( ضیاء القرآن ص580،جلدنمبر4)
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
ادب و احترام اور ناموس رسالت کو اﷲ تعالیٰ نے دلوں کا تقویٰ قرار دیا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ِ أُوْلَئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللَّہُ قُلُوبَہُمْ لِلتَّقْوَی (سورہ حجرات-3)
ترجمہ: یہی وہ لوگ ہیں مختص کرلیا ہے اﷲ نے انکے دلوں کو تقویٰ کے لئے۔
ناموس رسالت اور صحابہ کرام:
ناموس رسالت کے لئے صحابہ کرام اپنا تن من دھن قربان کر دیتے تھے۔ کیونکہ انکے نزدیک اﷲ تعالیٰ کے بعد سب سے زیادہ معزز و مکرم جو ہستی تھی وہ حضور ﷺ کی ذات تھی ۔
۱) حضرت ابو بکر صدیق ؓ اور حضرت عمر فاروق ؓ نے آپ کے ساتھ آہستہ کلام کرنے کو معمول بنا لیا تھا ۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ جب بھی کوئی وفد حضور ﷺ سے مدینہ طیبہ میں ملاقات کے لئے آتاتو وہ ایک خاص آدمی بھیجتے جو انہیں حضور ﷺ کی بارگاہ کے ادب و آداب بتاتا اور تعظیم و تکریم کرنے کا کہتا ۔ (مستدرک حاکم)
۲) عروہ بن مسعود ثقفی ؓ جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے کفار کی طرف سے صلح حدیبیہ کے موقع پر حضور ﷺ سے بات چیت کرنے کے لئے آئے ۔ واپسی پر انہوں نے کفار کو بتایا کہ وہ قیصر و کسریٰ اور کئی دوسرے بادشاہوں کے دربار وں میں گیا ہے ۔ لیکن جاں نثاری اور عقیدت و ادب و احترام کے جو جذبات اس نے غلامان محمد ﷺ کے دلوں میں موجزن دیکھے ہیں انکی نظیر اسے کہیں بھی نظر نہیں آئی ۔ وہ اگر تھوکتے ہیں تو لعاب دہن کو تبرک سمجھ کر ہاتھوں پر لے لیتے ہیں ۔ اگر وہ وضو کرتے ہیں تو وضو کے پانی کا ایک قطرہ زمیں پر نہیں گرنے دیتے بلکہ آگے بڑھ کر اسے حاصل کرکے اپنے چہروں اور سینوں پر مل لیتے ہیں ۔ اگر کوئی کام کرنے کا اشارہ کرتے ہیں تو حکم بجا لانے میں سب ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لئے بیتاب ہو جاتے ہیں ۔ میں نے اطاعت کیشی ، جاں نثاری ، خلوص و محبت اور ادب و احترام کے یہ دلکش مناظر کسی شاہی دربار میں نہیں دیکھے ۔ (ضیاء النبی)
۳) حضرت اسامہ سے روایت ہے کہ میں حضور ﷺ کے پاس آیا ۔ حضور ﷺ کے ارد گرد صحابہ کرام ایسے ادب سے بیٹھے تھے کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں ۔
۴) قریش مکہ نے حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کو بیت اﷲ کے طواف کی اجازت دی تو آپ نے بیت اﷲ کا طواف کرنے سے انکار کر دیا اور فرمایا جب تک حضور ﷺ طواف نہ کریں گے میں بھی طواف نہ کروں گا ۔ (ضیاء النبی )
۵) حدیث مغیرہ میں ہے کہ حضور ﷺ کے صحابہ کما ل ادب و احترام کی وجہ سے حضور ﷺ کا دروازہ ناخنوں سے کھٹکھٹاتے تھے ۔ (مقام رسول)
ناموس رسالت اور محققین :
۱۔ امام شعرانی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’ وہ چیز جو حضور ﷺ کی تعظیم کی طرف مائل ہو کسی کو لائق نہیں کہ اس میں بحث کرے ۔ (کشف الغمہ)
۲۔ علامہ عارف اسماعیل حقی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ آپ کی ہر حالت میں عزت و توقیر امت پر لازم ہے کیونکہ دلوں میں جتنی حضور ﷺ کی تعظیم بڑھے گی اتنا ہی نور ایمان بڑھے گا ۔ (تفسیر روح البیان)
۳۔ ابو محمد عبدالحق حقانی فرماتے ہیں کہ حضور کی تعظیم و ادب فرض ہے ذرا بھی کوئی توہین کرے گا فیض رسالت سے ابدالاباد محروم رہے گا ۔ (تفسیر حقانی)
۴۔ امام سبکی فرماتے ہیں کہ جس نے قرآن میں ذرا سا بھی تأمل کیا تو وہ سارے قرآن کو حضور کے مرتبہ کی تعظیم عظیم سے بھرا ہوا پائے گا ۔ (مقام رسول)
اہانت رسول اور قرآن :
جو لوگ ناموس رسالت کا پاس نہیں رکھتے اور آپ کی بے ادبی و گستاخی کرتے ہیں اور آپ کو ذہنی جسمانی یا کسی قسم کی اذیت پہنچاتے ہیں انکے لئے دنیا و آخرت میں لعنت اور دردناک عذاب کی وعید قرآن نے سنائی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
إِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُونَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ لَعَنَہُمُ اللَّہُ فِیْ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَأَعَدَّ لَہُمْ عَذَاباً مُّہِیْناً (سورہ احزاب-57)
ترجمہ : بے شک جو لوگ ایذا پہنچاتے ہیں اﷲ اور اس کے رسول کو اﷲ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت سے محروم کر دیتا ہے دنیامیں بھی اور آخرت میں بھی اور اس نے تیار کر رکھا ہے انکے لئے رسوا کن عذاب ۔


دوسری جگہ پر ارشاد باری تعالیٰ ہے :
إِنَّ الَّذِیْنَ یُحَادُّونَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ أُوْلَئِکَ فِیْ الأَذَلِّیْنَ ( سورہ مجادلہ -20)
ترجمہ: بے شک جو لوگ مخالفت کرتے ہیں اﷲ اور اس کے رسول کی وہ ذلیل ترین لوگوں میں شمار ہونگے ۔ ایک اور جگہ پر ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَالَّذِیْنَ یُؤْذُونَ رَسُولَ اللّہِ لَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ (سورہ توبہ- 61 )
ترجمہ: اور جو لوگ دکھ پہنچاتے ہیں اﷲ کے رسول کو ان کے لئے دردناک عذاب ہے
ولید بن مغیرہ جو حضور ﷺ کی اہانت کرنے میں پیش پیش تھا ، خدا تعالیٰ نے اس کو اکھڑ اور بداصل کہا ہے ۔ کیونکہ اﷲ تعالیٰ کو اپنے محبوب کی گستاخی برداشت نہیں ہوتی ۔ ارشادباری تعالیٰ ہے :
عُتُلٍّ بَعْدَ ذَلِکَ زَنِیْمٍ ترجمہ : اکھڑ مزاج ہے اسکے علاوہ بد اصل ہے ۔ (سورہ قلم -13 )
ایک اور جگہ پر ارشاد فرمایا :
إِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الْأَبْتَرُ (سورہ کوثر -3)
ترجمہ : بے شک آپ کا دشمن ہی بے نام (ونشاں ) ہوگا ۔
ابو لہب جو آپکا چچا تھا جب حضور ﷺ نے سرداران قریش کو دعوت توحید دینے کے لئے کوہ صفاء پر بلایا اور پیغام توحید پہنچایا تو آپ کے چچا نے کہا تباّ لک (آپ کے لئے ہلاکت ہو) اﷲ تعالیٰ کو یہ گستاخی برداشت نہ ہوئی تو جواباً ارشاد فرمایا ۔
تَبَّتْ یَدَا أَبِیْ لَہَبٍ وَتَبَّ (سورہ لھب- 1)
ترجمہ: ٹوٹ جائیں ابو لہب کے دونوں ہاتھ اور وہ تباہ و برباد ہو گیا ۔
شاتم رسول اور حضور ﷺ کا رد عمل :
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ سرکار دو عالم علیہ السلام نے فرمایا جو شخص کسی نبی کو گالی دے اس کو قتل کر دو۔
(۱)کعب بن اشرف جو کہ یہودی تھا اور حضور ﷺ کی شان میں گستاخانہ اشعار کہتا تھا ۔ آپ ﷺ نے صحابہکرام کو فرمایا کون ہے ؟ جو اس (گستاخ) کو جا کر سزادے ۔ محمد بن مسلمہ کو یہ سعادت ملی اور بلا تکلف اپنی دانشمندی سے اس کو کیفر کردار تک پہنچایا ۔
(۲)ایک عورت حضور علیہ السلام کو گالیاں دیتی تھی تو آپ نے فرمایا کون ہے جو مجھے اس اذیت سے بچائے۔ خالد بن ولید کی غیرت جوش میں آئی اور اس کا کام تمام کر دیا ۔
(۳) فتح مکہ کے موقع پر (جبکہ عام معافی کا اعلان کر دیا گیا تھا ) حضور علیہ السلام نے ابن خطل اور اسکی باندیوں کے قتل کا حکم دیا کیونکہ اس دشمن رسول کی باندیاں گانے کے دوران ایسے اشعار گاتی تھیں جس سے حضور ﷺ کی توہین ہوتی تھی ۔
(۴) ابو رافع یہودی ( اس کا پورا نام ابو رافع سلام ابن ابی الحقیق ہے) حضور علیہ السلام کو نہ صرف خود اذیت دیتا تھا بلکہ لوگوں کو آپ کی مخالفت پر آمادہ کرتا تھا ۔ اس سلسلے میں ان کی معاونت بھی کرتا تھا لہٰذا اس کو قتل کر دیا گیا ۔

عصر حاضر کے عاشق :
ویسے تو ناموس رسالت پر اپنا تن من دھن قربان کرنے والے کسی دور میں بھی کم نہ تھے اور اب بھی کم نہ ہیں بدنام زمانہ راج پال ہندو نے جب گستاخانہ کتاب شائع کی تو عزت و ناموس رسالت کے رکھوالے غازی علم دین شہید نے اس کا کام تمام کیا ۔

ڈنمارک میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکے بنانے والے کو غازی عامر چیمہ نے انجام تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ ان کی کوشش یاد رہے گی۔
Hafiz Muhammad Saeed
About the Author: Hafiz Muhammad Saeed Read More Articles by Hafiz Muhammad Saeed: 8 Articles with 13922 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.