میرے قارئین کا پر زور اصرار تھا
کہ میں مقامی حکومتوں اور بلدیاتی انتحابات پر ضرور کچھ نہ کچھ تحریر کروں
اور اپنی رائے کا اظہار کروں۔وقت کی قلت اور تعلیمی و مذہبی مصروفیات کی
بنا پر تاخیر ہوتی گئی اور بالآخر آج کچھ وقت مل ہی گیا ۔ میں اپنے تمام
قارئین اور چاہنے والوں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جو گاہے بگاہے میرے قلم
کو متحرک رکھنے میں میرے بڑے معاون و مددگار ہیں۔
مقامی حکومتوں کے بغیر دنیا کا کوئی ملک خود کو ایک مضبوط و مستحکم جمہوریت
کا نمونہ نہیں کہلوا سکتا۔ اور ریاستی امور میں عوامی شرکت کے لیے اقتدار و
اختیار کی نچلی سطح تک منتقلی آج کی دنیا میں انتہائی ضروری عمل بن چکا ہے۔
اور پاکستان میں پچھلے سات سالوں سے بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے۔ 2008ء کے
بعد 2013ء کے انتخابات ہوئے جن کی صورت میں قومی و صوبائی اسمبلیاں تو معرضِ
وجود میں آئیں مگر بلدیاتی الیکشن کی صورت میں کسی مقامی حکومت کی کوئی شکل
سامنے نہیں آئی۔ کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں
حقیقی جمہوری نظام صرف اسی صورت مضبوط ہو سکتا ہے جب پاکستانی عوام اپنے
تمام مسائل کو گلی محلوں سے اپنے جیسے منتخب ہونے والے لوگوں کی وساطت سے
حل کرنے کی صلاحیت حاصل کر لے گی۔ عام آدمی مایوسی ، خوف، گھبراہٹ ، غربت
وافلاس، نسلی امتیاز اور احساس محرومی کا شکار ہے۔ اور اُسے کوئی غرض نہیں
کہ ملک کا صدر کون ہے اور وزیر اعظم کون؟ اسے آمر اور آمریت کے الفاظ اور
اعمال سے بھی آشنائی نہیں۔ اسے علم ہی نہیں کہ اقتدار کے نشے میں کون الست
ہے اور کون مست ہے۔ وہ اس بات سے بھی ناواقف ہے کہ کون باری لے رہا ہے اور
کون انتظار کی دہلیز پر بیٹھا ہے۔اُسے تو غرض ہے کہ صرف اور صرف اپنے مسائل
سے۔وہ صرف اور صرف ان کا حل چاہتاہے بغیر کسی تذلیل کے۔ اور یہ تبھی ممکن
ہے جب اقتدار و اختیار نچلی ترین سطح تک منتقل ہو گا۔ اگر اس کے یہ کام کسی
آمر کے دور میں بھی ہوں تو وہ اس کے لیے بھی ہاتھ اُٹھا لیتا ہے۔اور دعاؤ ں
کے انبار لگا دیتا ہے۔
اقتدارکی نچلی ترین سطح پر منتقلی کی راہ میں رکاوٹ قبائلی اور جاگیر
دارانہ ذہنیت کے حامل لوگوں کے ساتھ ساتھ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے
ممبران (جو مقامی نمائندوں کی محنت و کاوش سے ہی منتخب ہوتے ہیں ) بھی یہ
سمجھتے ہیں کہ مقامی حکومتوں کے نظام کی تشکیل کے بعد ان کی سیاسی حیثیت
کمزور ہو گی اور ترقیاتی فنڈز پر مقامی اداروں اور ان کے نمائندوں کا زیادہ
کنٹرول ہو گا کیونکہ مقامی حکومتوں کے اداروں میں شامل منتخب افراد کی ساری
سیاسی توجہ ترقیاتی فنڈز پرہی ہوتی ہے۔
ملک کے بے شمار مسائل مقامی حکومتوں کے قیام سے خود بخود ختم ہو سکتے ہیں ۔
اور ان کی تاخیر سے ملک مسائل کی دلدل میں پھنستا جا رہا ہے۔جہاں دیگر
نقصان ہو رہے ہیں وہاں سیاسی ورکروں اور نظریاتی کارکنوں کی تعداد بھی خال
خال نظر آ رہی ہے ۔ ٹیلنٹ تباہ ہو رہا ہے ۔ نئی نئی سوچ کے حامل افراد اپنے
آپ کو ضائع کر رہے ہیں۔اقربا پروری عروج پر ہے ۔ ایم این ایز اور ایم پی
ایزبھی چند اور محدود لوگوں سے وابستہ ہو کر رہ گئے ہیں۔ برادری ازم بھی
بڑی تیزی سے فروغ پا رہا ہے ۔ اور اس سے سیاسی جماعتوں کی قوت و طاقت اور
سیاسی ساکھ بھی کمزور سے کمزور تر ہوتی جا رہی ہے۔ حالیہ مقامی نظام محض
بلدیاتی ادارے ہیں جب کہ ہماری ضرورت مضبوط مقامی حکومت کا نظام ہے جو
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے بعد مقامی حکومت کا نظام ہے۔
کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات ہوا کا ٹھنڈا جھونکا ہیں ۔ امید واثق ہے کہ میاں
برادران جو ملک کی خدمت بڑی جرات و دلیری اور شد و مد سے کر رہے ہیں۔اور
اپنے انتخابی وعدوں کی تکمیل کے لیے سر توڑ کوشش کر رہے ہیں وہ بلدیاتی
انتخابات کروا کر اس حوالے سے بھی عوامی عدالت سے سرخرو ہونگے۔ان شاء اﷲ |