عرب سپرنگ ،خزاں کی جانب

جب بھی کوئی معرکہ معرضِ وجود میں آتا ہے تو کوئی ایک فریق حق پر ہوتا ہے اور دوسرا باطل پر ہوتا ہے۔یعنی جنگ ہمیشہ ظالم اور مظلوم کے درمیان ہی ہوا کرتی ہے ایسا ممکن نہیں کہ لڑنے والے دونوں فریق مظلوم یا ظالم ہی ہوں ۔دنیا میں جتنی بھی جنگیں لڑی گئی ہیں ان کی ابتدا اس وقت ہوئی جب کسی ایک فریق نے اپنے حق سے تجاوز کیا ہو۔جب بھی دو قومیں یا ملک ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہوتے ہیں تو ان کے بھی پیشِ نظر یہی فارمولا ہو تا ہے۔جب بھی کوئی قوم اپنی سوچ،فکر اور نظریہ کسی دوسری قوم پر مسلط کرنے کی کوشش کرنے لگے تو جنگ کی چنگاری جلنے لگتی ہے اور جب کوئی ملک کسی دوسرے ملک کی زمین،وسائل اور دولت کو حاصل کرنا چاہے تو جنگ کے طبل بجنا شروع ہو جاتے ہیں ۔جنگیں کبھی غلط فہمی کی بنیاد پر شروع نہیں ہوا کرتی بلکہ ان کے پیچھے ایک منظم سوچ اور حکمتِ عملی کارفرما ہوتی ہے ۔ہاں البتہ جب کسی ظالم جنگجو کو تاریخ میں معزز مقام دلوانا مقصود ہو تواس کی جنگوں کو کسی غلط فہمی کا سبب قرار دیا جاتا ہے۔تاریخ ایسے نام نہاد اسباب سے بھری پڑی ہے جبکہ حقائق بھی تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں۔

اس وقت عالمی ذرائع ابلاغ میں یمن اور سعودی عرب کے تنازع کا ذکر بڑی شد و مد کے ساتھ ہو رہا ہے۔خبریں ،تبصرے اور تجزیے بڑے اہتمام کے ساتھ پیش کیے جا رہے ہیں ۔عالمی ذرائع ابلاغ دو حصوں میں تقسیم ہے ۔ایک گروپ سعودی عرب کی حمایت کرتا ہے جبکہ دوسرا یمن کے حق میں ہے۔ذرائع ابلاغ کی اس تقسیم نے عالمی سیاست کو بھی دو حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے ایسی رائے عامہ ہموار کی گئی ہے جس سے یہی تاثر ابھرتا ہے کہ وقت ایک بار پھر کسی ایک بڑے حق و باطل کے معرکے کو دیکھنے لیے بیتاب ہے۔خدا رحم کرے اس متوقع جنگ سے اب کی بار کوئی محفوظ نہیں رہ پائے گا اور مسلم امہ ایک ایسی آگ میں جلے گی جس کی تپش اب رہتی دنیا تک محسوس کی جاتی رہے گی۔اس تنازع کی وجوہات کو دیانت داری کے ساتھ تلاش کیا جاے تو اس کا ایک سرا سعودی عرب اور دوسرا ایران کے ساتھ جا ملتا ہے۔دونوں اسلامی ملک ہیں ۔اسلامی تعلیمات سے بخوبی آگاہ ہیں ۔دونوں طرف جید علماء کرام اور مذہبی سکالرز موجود ہیں ۔حقیقی اسلام کے تصور کو پہچانتے ہیں اور حق و باطل کے درمیان تفریق کا شعور بھی رکھتے ہیں ۔مسلم امہ اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتی کہ ان دو ممالک کی قیادت کسی باطل رستے پر چلنے کی جسارت کر سکتی ہے۔مگر یہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ صورت احوال مختلف ہے۔دونوں ملکوں نے یمن کو اپنے لیے میدان جنگ چن رکھا ہے۔حوثی قبائل اور ان کے اتحادیوں کی ایران کھل کر مدد بھی کر رہا ہے اور حمایت بھی کرتا ہے جبکہ دوسری جانب سعودی عرب کے فضائی حملے کسی سے پو شیدہ نہیں ہیں ۔ایک قوم کا ہیرو ،دوسری قوم کا دشمن کے مصداق ہر کوئی اپنے مرنے والوں کو شہید اور دوسرے کے مرنے والوں کو ہلاک لکھتا ہے۔مگر ان 62بچوں کے متعلق کیا لکھا جائے جو سعودی فضائی حملے میں اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے ہیں ۔اسی طرح روزانہ درجنوں عام خواتین اور مردوں کو موت کی وادی میں دھکیلا جا رہا ہے۔ان بے گناہوں کی موت کی ذمہ داری کس کے سر ہے۔اسلامی قیادت کو اس پر غور اور فکر کرنا چاہیے آخر انہوں نے بھی حق کے سامنے پیش ہونا ہے اس خون کا حساب دینا ہے ۔آج اس دنیا کے ذرائع ابلاغ اور یہاں کے مورخ کو تو اطمینان دلایا جا سکتا ہے مگر یومِ حساب حق کے سامنے یہ کس طرح اپنا دفاع کریں گے انہیں اس کی فکر کرنا ہو گی۔

18دسمبر 2010میں تیونس میں ایک تحریک شروع ہوئی جسے عرب سپرنگ کا نام دیا گیا تھا ۔یہ تحریک مصر،لیبیا،یمن،اردن،کویت سمیت کئی اسلامی ملکوں تک پھیلی۔اس تحریک کے شروع ہونے پر جن ملکوں کے حکمرانوں نے خوشی کو اظہار کیا تھا جب یہ ان کے ملکوں میں پہنچی تو وہی حکمران پریشان اور دربدر ہوئے ۔اس تحریک نے بادشاہت اور ملوکیت کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔اس تحریک کی ابتدا میں نہ ہی اس کی وجوہات کو سمجھا گیا اور نہ ہی مستقبل میں اس کے ظاہر ہونے والے ا ثرات کا جائزہ لیا گیا۔مسلم قیادت ریت میں سر دبائے بیٹھی رہی اور اب یہ بہار ان کے لیے خزاں بن کر نازل ہو رہی ہے ۔اسلامی ملکوں کی نوجوان نسل ملوکیت سے تنگ آچکی ہے ان کی اس بیزاری کو مغرب اور امریکہ نے اسلامی ملکوں میں انتشار کے لیے خوب استعمال کیا ہے ۔اسلامی قیادتیں بھی اپنے اقتدار کو طول بخشنے کے لیے امریکہ اور یورپ کے آلہ کا بنے رہیں اور یوں مسلم خطہ ایک بڑی خون ریزی کے لیے تیار ہو چکا ہے۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم قیادت ایک جگہ مل بیٹھے اور اسلامی تعلیمات کے مطابق ان تمام مسائل کا حل نکالے جن کی بدولت خطے میں انتشار پھیل رہا ہے۔انسانی جان کی جو قدر و منزلت اسلام نے بتائی ہے اس کا ادراک کرنے کی آج اشد ضرورت ہے۔مسلمانوں کو جنگ کا ایدھن بننے سے محفوظ کیا جائے۔اگر اب مسلمان قیادت کی طرف سے تدبر اور فہم و فراست کا مظاہرہ نہ کیا گیا توان کے مقدر میں ایسی خزاں لکھ دی جائے گی کہ جس کے بعد پھر کبھی بہار نہ ہو گی۔
 
hur saqlain
About the Author: hur saqlain Read More Articles by hur saqlain: 77 Articles with 55935 views i am columnist and write on national and international issues... View More