ہوش کی آندھی
(Shaikh Wali Khan AlMuzaffar, Karachi)
سعودی عرب کی قیادت میں خلیجی
ممالک ، مصر ،اردن ، مراکش ،سوڈان ،ترکی اور پاکستان نے یمن میں معزول صدر
علی عبد اﷲ صالح اور ان کے اشاروں پر ناچنے والے حوثی فرقہ پرست باغیوں کے
خلاف جمعرات کے 2بجے شب ’’عاصفۃ الحزم ‘‘ ہوش کی آندھی ‘‘ نامی بہت بڑے
آپریشن کاآغاز کردیاہے ، یہ آپریشن اتنی باریکی اور ٹیکنیک کے ساتھ مرتب
کیاگیا کہ صرف 15منٹ میں اس نے صالح اور حوثیوں کے ٹھکانے تباہ ، ان کے نیٹ
ورک تہس نہس کرکے پورے یمن کی فضاؤں پر قبضہ کرلیا ، ساتھ ہی یہ اعلان بھی
کردیا گیا کہ یمنی فضائیں تاحکم ثانی نو فلائی زون ر ہیں گی ،نیزتین د ن
میں سرکار ی عمارات خالی کرنے ،بھاری اسلحہ آئینی حکومت کو حوالہ
کرنے،مذاکرات کی میز پر آنے،بحری، بری اور فضائی تمام تر راستوں کی نگرانی
ریاستی اداروں کو سپرد کرنے تک آپریشن جاری رکھنے کا بھی پیغام دیاگیا،ترکی
صدر طیب اردگان نے اس موقع پر عراق، شام،لبنان اور یمن سے ایرانی فورسز کے
انخلاء کا بھی مطالبہ کیا۔ یمن میں یہ صورت حال اس وقت سے ہے ،جب سے علی
عبداﷲ صالح کے تقریباً 35سالہ اقتدار کے خلاف وہاں کے عوام نے انقلاب کا
نعرہ لگایا ، عوام حق بجانب تھے، کیونکہ جزیرۃ العرب میں تما م ریاستیں اس
عرصے میں ترقی کے منازل طے کرکے آسمانوں کو چھورہی تھیں ،جبکہ یمن علی عبداﷲ
صالح کی غلط پالیسیوں اور بے معنی قیادت کی وجہ سے انگولا،کمبوڈیا اور
مرونڈی کی تصویر بنا ہواتھا، خلیجی ممالک خصوصاً سعودی عرب نے بیج میں آکر
مصالحت کرائی ، علی عبداﷲ صالح کو معزول کر کے ان کی پارٹی ختم نہیں کی گئی
، انہیں قذافی اور حسنی مبارک کے انجاموں سے دوچار نہیں کیاگیا، ان کے
بیٹوں کو فوج میں اعلی عہدوں پر برقرار رکھاگیااو رعوام میں جو تبدیلی کی
خواہش تھی ، وہ بھی پوری ہوگئی ، مگر صالح کو عزت راست نہیں آئی ، اس نے
اندر اندر حوثی فرقہ پرستوں کو اسٹرٹیجک راز افشا کرکے انہیں اپنا ہمنوا
بنالیا ،وہ حوثی جواُن کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے، اب اس کے ہراول دستے کا
کام کررہے تھے، انہوں صعدہ ،عمران اور دیگر شہروں پر آہستہ آہستہ چڑھائی
کرکے دار الحکومت صنعاء تک رسائی حاصل کرلی ، باقاعدہ عوامی اور جمہوری
طورپر منتخب صدر منصور ہادی اور اس کی کابینہ کو پہلے نظر بند کیا، پھر
حوثی انقلاب کا نعرہ لگایا، اُدھر ایران جو پہلے ہی عرب دنیامیں اثرورسوخ
کا خواہاں تھی ، اس نے عراق ،شام اور لبنان کو زیر کرلیاتھا، اب اس کی تما
م تر توجہ یمن پر تھی ، صنعاء میں فارسی زبان کو ثانوی زبان قرار دیاگیا،
طہران اور صنعاء میں ہوائی اور سمندری راستوں سے امدادوں کے پل لگ گئے ،
صورتِ حال کی سنگینی سے تنگ آکر صدر منصور ہادی عدن بھاگ گیا، لیکن حوثی
باغیوں اور صالح گروپ نے عدن کی طرف پیش قدمی شروع کردی ،سعودی عرب کو
دھمکانے کیلئے اس کے 1300کلو میٹر سرحد پر بھی فوجی دستے روانہ کردیئے ،اب
بحر احمر اور باب المندب بھی ان کی زد میں تھا، جہاں سے سالانہ 2500ہزار
بحری جہاز گذرتے ہیں،عالمی امن کو بھی خطرات لاحق ہوگئے تھے، اس درمیان
خلیجی ریاستوں نے ریاض اور دوحہ میں فریقین کے لئے مذاکرات کے میز سجادیئے
،لیکن حوثیوں اور صالح کے انکار کی وجہ سے وہ بھی نہ ہوسکے ،آخرکا ر نہ
چاہتے ہوئے بھی شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے جزیرۃ العرب ،بحراحمر ،بحرعرب
اور باب المندب کی حفاظت کیلئے وہ کچھ کیا، جو شاہ فہد نے کویت اور شاہ
عبداﷲ نے بحرین کیلئے کیاتھا، عاصفۃ الحزم کے نام سے انہوں نے خطے میں
توازن برقرار رکھنے ،ایران کے غیر ذمہ دارنہ روئیے کو راہ راست پر لانے
کیلئے اور انہیں گرم پیغام دینے کیلئے اتحادیوں کی ساتھ مل کر بہت بڑے
آپریشن کا آغاز کردیا،عرب ملکوں نے بھی بالاتفاق ان کی حمایت کردی اور فوری
طور پر عربوں کی تاریخ میں ایک ایسے فیصلے کا اعلان کیاگیاکہ آئندہ کیلئے
عرب سرزمین کو کوئی میلی آنکھ سے نہ دیکھ سکے ، وہ نیٹو طر ز کا ’’عرب
دفاعی قوت ،arab joint force‘‘ کا اعلان ہے ، عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل نبیل
العربي نے جمعے کی رات کو اس کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ کہ عرب لیگ کی
تاریخ اور لیگ کی قیادت میں میری زندگی کا آج کا یہ فیصلہ تاقیامت یادرکھا
جائے گا، امیدہے کہ یمن کے آپریشن سے وہاں امن قائم ہوگااور یمن ترقی کرے
گا،سعودی عرب ،خلیجی ممالک کے لئے ہوش کی آندھی اور پاکستان کیلئے ضرب عضب
اﷲ کرے خیر کا باعث بنے اور دونوں مقاموں پر امن وسلامتی کا راج ہو ، اگر
ایسا ہوا تو شاہ سلمان بن عبد العزیز اور جنرل راحیل ونواز شریف ہیرو بن
جائیں گے ،نیز خلیج کے حوالے سے ایران اور پاکستان کے حوالے سے عمران خان
کو بہت پچھتانا پڑے گا،دیکھئے اور انتظار کیجئے ،ہوتاکیاہے ۔ |
|