پاکستان اور آذربائیجان کے شروع
سے ہی نہایت اچھے تعلقات رہے ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مضبوط سے مضبوط
تر ہورہے ہیں۔صدر مملکت ممنون حسین کے دورے کو آذربائیجان میں جو اہمیت دی
گئی اور ان کا جس پرتپاک اور پرجوش انداز میں استقبال کیا گیا اس سے ان
تعلقات کی مضبوطی اور اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس میں کوئی شک
نہیں کہ دونوں ممالک تاریخی، مذہبی اور ثقافتی روایات کے حامل ہیں۔تاہم روس
کے تسلط سے نکلنے کے بعد دونوں ممالک میں تجارت اور تعاون کو فروغ دیا گیا
اوراس بارے میں کئی سربراہ کانفرنسیں ہوچکی ہیں۔ پاکستان اور آذربائیجان
فوجی شعبے میں بھی تعاون کررہے ہیں۔ہمارایہ دوست ملک پاکستان سے فوجی
سازوسامان خریدتا رہا ہے۔اس لیے دونوں ملکوں کے سرکاری حکام یہ کہنے میں حق
بجانب ہیں کہ دونوں ملکوں کے مابین سٹریٹجک پارٹز شپ کی سطح کے تعلقات
استوار ہوچکے ہیں۔ یہ بات خوش کن ہے کہ پاکستان اور آذربائیجان بہت سے بین
الاقوامی مسائل پر ایک جیسے نظریات رکھتے ہیں اور ان میں بہت سی چیزیں
مشترک ہیں ۔آذربائیجان نے ہمیشہ پاکستان کی مشکل وقت میں مدد کی ہے۔
مثلاََ2005ء کے زلزلے اور2010ء کے سیلابوں کے دوران اس نے پاکستان کو تباہ
شدہ سکول تعمیر کرکے دیئے۔ ہمارا یہ دوست ملک مستقبل میں بھی ایسے ترقیاتی
منصوبے جاری رکھنے کا خواہش مند ہے۔پاکستان نے بھی ینگو رنو کارا باخ کے
مسئلہ پر آذربائیجان کی سپورٹ کی ہے۔پاکستان ان ملکوں میں سے ایک تھا جنہوں
نے سب سے پہلے آذربائیجان کو آزاد ملک کی حیثیت سے تسلیم کیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی اور سٹریٹجک محاذپر دونوں ملکوں کی سوچ اور
نظریات ایک جیسے ہیں اور دونوں ایک دوسرے کو درپیش مسائل پر تشویش کا اظہار
کرچکے ہیں اور انہیں حل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ایک دوسری بڑی خصوصیت جو
پاکستان اور آذربائیجان کو ایک دوسرے کے قریب لے آئی ہے وہ دونوں ملکوں کی
متحرک اور ولولہ انگیز قیادت ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور آذربائیجان ایک
سے زیادہ مشترکہ نقاط پر متفق ہیں جو اجتماعی قومی مفادات کے حصول کے لیے
ٹھوس بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے پاس کام کرنے کی جو صلاحیت وقوت
موجود ہے وہ ایک دوسرے کی معیشت پردور رس اور گہرے اثرات مرتب کر سکتی
ہے۔پاکستان آذربائیجان کے لیے تیل کی برآمد،قدرتی گیس اور بجلی کی فراہمی
کے لیے ایک اچھی مارکیٹ ہے جبکہ آذر بائیجان پاکستانی صنعتی و زرعی مصنوعات
کی اچھی منڈی ہوسکتی ہے۔ دونوں ممالک سرکاری اور انفرادی سطح پروفود کے
تبادلے بھی کرتے ہیں جس سے دو طرفہ تعلقات کومزید مستحکم کرنے میں مدد ملی
ہے۔موجودہ دور میں رائے عامہ بھی اچھے تعلقات کے قیام میں اہم کردار ادا
کرتی ہے۔ یوتھ اور ثقافتی پروگراموں کے ذریعے باہم میل جول محبت واحترام کو
پروان چڑھا یا جا سکتا ہے۔ثقافت دونوں اقوام کے مابین ٹرانسمیشن بیلٹ کاکام
کرتی ہے۔جس سے ایک دوسرے کے طور طریقوں اور اقدار کو سمجھنے اور دو طرفہ
قریبی تعلقات استوار کرنے میں سہولت ملتی ہے۔ اس لیے آذربائیجان اور
پاکستان دونوں نے عوامی سطح پر ایک دوسرے کو سمجھنے اور شعور اجاگر کرنے کے
لیے یوتھ فورم قائم کررکھے ہیں۔ آذربائیجان پاکستان یوتھ پروگراموں کا مقصد
آذربائیجان اور پاکستانی قوم کے درمیان محبتوں کا پل قائم کرنا ہے تاکہ
مذاکرات اور مفاہمت کے ذریعے ایک دوسرے کو قریب لایا جا سکے اور نوجوان سے
نوجوان کی سطح تک رابطوں کو بڑھایا جا سکے۔اس طرح یہ مشترکہ ترقیاتی کاوشوں
کے لیے کام کرنے کے امکانات کی راہیں تلاش کرنے کی جانب پہلا قدم ہو گا۔
دونوں ملکوں میں باضابطہ سفارتی تعلقات تو پہلے ہی موجود ہیں لیکن عوام سے
عوام کی سطح پر گہرے رابطے مفقود ہیں جنہیں استوار کرنا وقت کی اہم ضرورت
ہے کیونکہ دونوں اقوام مشترکہ ثقافت تاریخ ومذہبی پس منظر رکھتی ہیں۔
دونوں ملکوں اس بات پراتفاق ہے کہ نوجوان کسی بھی ملک کا اثاثہ ہوتے ہیں ۔
معاشرے کے اس طبقے کو ترغیب دینے سے تعاون کی طویل المعیاد راہیں کھلیں
گی۔اس مقصد کے لیے دونوں ملکوں کے طلبا کو ان کی اپنی اپنی یونیورسٹیوں نے
سکالر شپ کی پیش کش کی ہے جن میں صدر پاکستان ممنون حسین کے دورہ
آذربائیجان کے بعد پیش رفت ہوئی ہے۔پاکستانی اور آذربائیجان کے نوجوانوں کی
اس اقدام کے ذریعے مختلف شعبوں اور تمام سطحوں پرتعاون کو بڑھانے کی حوصلہ
افزائی ہوئی ہے۔اگرچہ دونوں ملکوں کے تعلقات اچھے ہیں لیکن دونوں جانب سے
مشترکہ مفادات کو فروغ دینا وقت کی ضرورت ہے۔پاکستان اور آذربائیجان کے
سفارت کار اس میں بہتری کے لیے سخت محنت کررہے ہیں۔پاکستانی صدر ممنوں حسین
کے دورہ با کو کو ایک خیر سگالی اقدام قرار دیا جارہا ہے۔ دونوں ملکوں کے
اعلی عہدیداروں کے مابین بات چیت اس لیے بھی بہت مفید رہی ہے کہ دونوں کے
عوام اور حکومتوں کی سطح پر تعلقات فروغ پذیر ہیں بالخصوص معیشت تجارت اور
صنعت کے شعبہ میں۔یاد رہے کہ پاکستان اور آذربائیجان کے مابین تجارت کا
موجودہ حجم صرف8 ملین ڈالر ہے تاہم صدرممنون حسین کے حالیہ دورے کے بعد بعد
کافی تک اضافہ ہونے کی امید پیدا ہوئی ہے۔ صدر پاکستان نے دونوں ملکوں کے
مابین فضائی سروس شروع کرنے کا قدم بھی اٹھایا ہے۔جس سے نہ صرف وسیع تر
تعاون کو فروغ ملے گا بلکہ معیشت بھی پھلے پھولے گی۔ پاکستان میں
آذربائیجانی سر مایہ کاروں کو ترغیب دینے کے لیے ساز گار حالات پیدا کرنے
کے امکانات کے بارے میں صدر مملکت کا کہنا تھا کہ پاکستان کے قوانین کسی
بھی سرمایہ کار کو پاکستان آنے کی اجازت دیتے ہیں اوروہ اپنے ملک میں
100فیصد منافع واپس لے جاسکتے ہیں۔ آذربائیجان اورپاکستان کے ایوان ہائے
صنعت وتجارت دونوں ملکوں کے مابین کاروباری سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے
ایک مشترکہ کونسل کے قیام پر متفق ہوچکے ہیں۔اس سلسلے میں باکو میں پاکستان
آذربائیجان کے بزنس فورم کے اجلاس کے اختتام پر مفاہمت کی ایک یا دداشت پر
دستخط بھی کیے گئے جس سے صدر مملکت ممنون حسین نے خطاب بھی کیا۔
دور ے کے دوران تین مزید مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے۔بامقصد
باہمی رابطوں کے نتیجہ کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ آذربائیجان کی حکومت
اپنے ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ہر ممکن کوشش کرئے گی جو پاکستان میں
مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرنا چاہیں گے۔بلکہ سرمایہ کاری کے امکانات
اور مختلف شعبوں کاجائزہ لینے کے لیے دورہ کا اہتمام بھی کریں گے نہ صرف
کاروباری لوگ بلکہ طلبا بھی پاکستان کادورہ کریں گے جس کے نتیجہ میں دو
طرفہ تجارت کے حجم میں فوری اضافہ ہوگا۔ یہی وہ چیز ہے جن کی پاکستان میں
کمی ہے موجودہ حکومت کی پالیسیاں ملک کو ایسے راستہ پر گامزن کررہی ہیں جو
ترقی و خوشحالی کی طرف جاتا ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کو اس وقت
توانائی کی قلت کا سامنا ہے اور اس ضمن میں آذربائیجان پاکستان کو مدد
فراہم کرسکتا ہے۔ مینو فیکچر اور ٹیکنالوجی کے دوسرے شعبوں میں بھی دونوں
ممالک ایک دوسرے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔آذربائیجان کی خاتون اول محترمہ
مہربان الیویابھی پاکستانی عوام سے شدید عقیدت کے جذبات رکھتی ہیں اور ان
کی تنظیم کے پاکستانی عوام کے رفاحی کاموں نے ان کی اس عقیدت کو ثابت بھی
کیا ہے ۔صدر مملکت نے پاکستان کے عوام کے لیے ان کی انہی شاندارخدمات کے
اعتراف میں انہیں سب بڑے سول ایوارڈ ہلال پاکستان عطا کیا۔ واضح رہے کہ ان
کی تنظیم حیدر علی ییوفاؤنڈ یشن ایک عشرے سے آزاد کشمیر اور پاکستان کے
دوسرے حصوں میں انسانی ہمدردی کے طور پر خدمات انجام دے رہی ہے۔ |