شام کی صورت حال۔ اہل سنت کہاں جائیں؟

یہ بشار الاسد اینڈ کمپنی ہے، اسرائیل اور امریکہ کی سخت دشمن۔اسلامیان فلسطین کی نگہبان۔ بس یہی ایک گروہ ہے جو مسجد اقصی کے مقدمے کو دنیا کے آگے رکھے ہوئے ہے۔ اسرائیل اور امریکہ ان سے تھر تھر کانپتے ہیں۔ اگر کوئی کھلم کھلا فلسطینی مسلمانوں کی حمایت کرتا ہے تو بس یہی ہیں۔الاسد خاندان اگر نہ ہوگا تو مسلمان کہیں کے نہ رہیں گے۔ سب بے بس ہوجائیں گے۔ فلسطین کے کاز کے لئے بہت ضروری ہے کہ الاسد خاندان کی کرسی کے پائے مضبوطی سے جمے رہیں۔آخر ٹھہرے امریکہ و اسرائیل کے دشمن۔اس لئے جوبھی الاسد خاندان کے قیادت میں قائم حکومت کے خلاف ایک لفظ بھی بولے گا وہ ٹھہرا امریکہ اور اسرائیل کا دوست اور فلسطینی کاز کا دشمن۔ چونکہ امت مسلمہ کی سب سے اہم ترجیح اس وقت مسجد اقصی ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس حکمران خاندان کی ہر مخالفت کو پوری قوت سے کچل دیا جائے۔

اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ الاسد فیملی کے عقائد کیا ہیں، اس کا بھی کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا کہ اسرائیل کے ساتھ ۱۹۷۳ کی جنگ میں حافظ الاسد کتنا مخلص تھا۔ اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ حافظ الاسد کے حکم پر اس کے بھائی نے ۱۹۸۲ میں حماۃ شہر میں بغاوت کے جرم میں اہل سنت کے ۲۰ سے ۴۰ ہزار افراد کا قتل عام کروایا تھا۔اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دس فیصد سے بھی کم علوی نصیریوں نے بندوق کی نوک پر شام کے اہل سنت کو اغوا کیا ہوا ہے ۔اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ۱۹۷۳ کے بعد اس بعثی خاندان نے اسرائیل کے خلاف کچھ نہیں کیا بلکہ زبانی جمع خرچ بھی نہ کیا۔ ایک تاثر ہے کہ وہ اسرائیل اور امریکہ کے دشمن ہیں۔ جب تک یہ تاثر باقی ہے اس بعثی اسد خاندان کے لئے ہر چیز کا جواز موجود ہے۔ بھلے اسرائیل میں اہل سنت کو سوریا سے زیادہ آزادی ہو، بھلے سوریا میں ایک شخص اپنے بھائی کے سامنے بھی بعثی علوی حکومت کے خلاف ایک لفظ نہیں بول سکتا۔آخر اسرائیل کی مخالفت ہمارا حتمی مطمح نظر ہے۔ کیا ہوا اگر شام کے حکمران اسرائیل سے بھی زیادہ ظالم ہوں۔

یہ ایران ہے، شیطان بزرگ کا سب سے بڑا دشمن۔ اسرائیل کو بے دھڑک دھمکیاں دینے والا۔ ایک واحد حکومت جس نے سلمان رشدی کے خلاف قتل کا فتوی دیا تھا۔ "انقلاب اسلامی ایرانی"کا حقیقی پاسبان جو کہ عالم اسلام کا واحد انقلاب ہے جو امریکہ کی مرضی کے خلاف برپا ہوا۔اپنے مؤقف پر بے لچک۔ چاہے کتنی دھمکیاں ملیں نیوکلیائی تجربہ کرنے پر مصر۔ معاشی پابندیوں کی کوئی پرواہ نہیں۔ امریکی بنک اور کمپنیاں ایران کے لئے شجر ممنوعہ ، جس کی وجہ سے ایرانی معاشی ترقی میں بڑی رکاوٹ، لیکن ہے مجال کہ ان کے پائے استقلال میں لرزش واقع ہے۔ کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہی ایران ان افغانی گروہوں کا اتحادی ہوجو طالبان کے خلاف شیطان بزرگ کا ساتھ دے رہے تھے۔ اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ عراق میں "دہشت گردوں" کو شکست دینے کے لئے ایران کو مجبوری میں اندر ہی اندر امریکہ سے ہاتھ ملانا پڑا۔ اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ نظریاتی سطح پر انقلاب ایرانی مغرب سے کسی بھی سطح پر نبر آزما نظر نہیں آرہا ہے۔ اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ شام میں اہل سنت کے قتل عام پر ایران ملحد بعثی علوی الاسد خاندان کا دامے درمے قدمے سخنے ساتھ دے رہا ہے۔ آخر ٹھہرا شیطان بزرگ کا دشمن۔ کیا ہوا جب شیطان بزرگ خود سے چل کر اس کے دائیں اور بائیں افغانستان اور عراق میں آیا اور کسی سیاسی مصلحت کے پیش نظر انقلاب ایرانی کو اس سے کچھ غیر مرئی قسم کے سمجھوتے کرنے پڑے۔اصل بات تو اسرائیل و امریکہ کی مخالفت کرنا ہے۔ جب تک ایران دھڑلے سے انٹرنیشنل فورموں میں امریکہ کی گستاخی کرتا رہے اور امریکہ بڑے اہتمام سے اس کو یہ مواقع فراہم کرتا رہے تب تک ایران کی حمایت جاری رہنی چاہئے۔

یہ ہیں آل سعود، حرمیں شریفین کے سچے خادم۔ بدعت کے سخت خلاف۔ ممکن ہے کہ کوئی قبر پرستی کے مظاہر یہاں پر برداشت کئے جائیں؟ شیخ ابن عبد الوہاب کی نظریات کے یہی پاسبان اور سلفیت کے یہی علمبردار۔انہوں نے اگر کچھ تکفیری خارجیوں کو فساد فی الارض کے خطرے کے پیش نظر جیلوں میں ٹھونس رکھا ہے تو کیا ہوا، اور اگر کچھ کو سزائے موت دے دی تو کیا ہوا۔ سلفیت تو خوب پھل پھول رہی ہے۔ حرمین و شریفین کی خدمت تو زوروں پر ہے۔ یہ تو کچھ جذباتی علماء کی غلطی ہے کہ ایک عادل و شرعی حکمران کو ناپسند بیانات یا مضامین لکھ کر خواہ مخواہ جیلوں کی ہوا کھانے کی سوجھی۔ ورنہ اور کونسا ملک ہے جہاں شریعت نافذ ہے۔ حالات کے جبر کے تحت صلیبیوں سے دوستی تو مجبوری ہے۔اسرائیل کی حرکات پر خاموشی ہے تو ہے، حمایت تو نہیں کی جارہی ہے۔ رہا شام کا مسئلہ ، تو بیانات تو دیے جارہے ہیں۔ ’دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات‘ میں مداخلت کا ابھی جواز تو پیدا نہیں ہوا۔ اقوام متحدہ کے مطابق ابھی بعثی علویوں نے صرف ۷۵۰۰ لاشیں ہی گرائی ہیں۔ جب حماۃ کا قتل عام برداشت کیا جاسکتا ہے تو یہ کونسی بڑی تعداد ہے۔اور پھر یہی تو ہیں جو بحرین میں ایرانی رافضی انقلاب کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے ہیں۔کیسے ممکن ہے کہ ہم اہلسنت ان آل سعود کی مخالفت ایک لفظ بھی بولیں؟

اہل ایمان کے ہمدردو۔۔ کیا آپ کے لئے گنجائش ہے کہ آپ امریکہ و اسرائیل کے دشمن اور فلسطین کاز کے سب سے بڑے علمبرادار بشار الاسد کی مخالفت کریں؟ کیا آپ کو زیب دیتا ہے کہ آپ پاسداران انقلاب اسلامی جو کہ بین الاقوامی فورموں میں اسرائیل کے خلاف بیان بازی میں سب سے آگے ہیں ان کے خلاف زبان درازی کریں؟ کیا آپ آل سعودکے خلاف جنہوں نے فساد فی الارض کو بالکل پنپنے نہ دیا ، بدعات اور رافضیت کو جزیرۃ العرب میں پھیلنے سے روکے رکھا ان کے خلاف کوئی جسارت کریں؟

اگر آپ ایران اور بشار الاسد کی مخالفت کریں تو اسرائیلی ایجنٹ اور امریکہ نوازی کا الزام اپنے سر لینے کے لئے تیار ہوجائیں۔اگرآپ خلیجی عرب ممالک خصوصاً آل سعود کی مخالفت کریں تو خارجیت اور شیعہ نوازی کے الزام لینے کے لئے تیار ہوجائیں۔ اگر آپ ان سب کے مخالف ہیں تو لامحالہ دہشت گرد آپ ہی ہوں گے-
ABDUL SAMI KHAN SAMI
About the Author: ABDUL SAMI KHAN SAMI Read More Articles by ABDUL SAMI KHAN SAMI: 99 Articles with 105110 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.