حکایت ِ سعدی سے اقتباس ہے ، کہا
جاتا ہے کہ مصر کے امیر کے دو بیٹے تھے ان میں سے ایک نے علم حاصل کیا جبکہ
دوسرے نے مال و دنیا سمیٹی ۔ علم والا بھائی عالم ہوا اور لوگوں کی نظر میں
صاحب ِ عزت و احترام ٹھہراجبکہ مال ودولت کا مالک دوسرا بھائی مصر کے
بادشاہ کا وزیر بن گیا ۔ مال و دولت والا بھائی اپنی دولت اور وزارت کے نشے
میں چور عالم بھائی کو حقارت اور نفرت کی نظر سے دیکھتا تھا ۔ ایک دن وزیر
نے دوسرے بھائی کو کہا کہ میں تو وزیر بن گیا ہوں اور تو فقیر کا فقیر ہی
رہا ۔ عالم بھائی نے امیر بھائی کو جواب دیا ۔ میرے بھائی اﷲ کا مجھ پر بڑا
کرم ہے کہ میں نے علم حاصل کیا جو پیغمبروں کی میراث ہے ۔ میں مانتا ہوں کہ
میں تو اس چیونٹی کی مانند ہوں جسے راہگزار پاؤں تلے مسل کر گزر جاتے ہیں ۔
شکر ہے میں وہ بھڑ نہیں جس کے ڈنگ مارنے سے لوگ چیخنے چلانے لگیں ۔ میں
اﷲکی عطاء کردہ اس نعمت پر اﷲ کا شکر ادا کر ہی نہیں سکتا ۔ مجھ میں لوگوں
کو ستانے کی قوت ہے نہ ہی دنیاوی منصب ۔
اس حکایت سے ثابت ہو ا کی علم کی دولت سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں ۔علم کی
دولت کو حاصل کرنے کی جدوجہد کرنے والی قوموں کا سر ہمیشہ بلند رہتا ہے ،
جو قومیں علم کے میدان میں آگے نکل گئی وہی کامیاب رہیں۔ علم کی اس دولت کو
ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرنے کے لیے مختلف اداروں کا قیام عمل میں
لایا جا تا ہے ۔تقریبا پورے ملک میں پھیلے گورنمنٹ سکول اور پرائیویٹ سکول
یہ خدمت سر انجام دے رہے ہیں ۔حکومت کے ساتھ ساتھ این جی اوز اور امیر
لوگوں نے بھی تعلیم کو عام کرنے کے لیے پرائیویٹ سکولوں کا اجراء کیا
ہے۔علم حاصل کرنے کے لیے امیر غریب سبھی اپنے بچوں کو ملک کے طول و عرض میں
پھیلی ہو ئی درسگاہوں میں بھیجتے ہیں ۔ امیر اپنے بچوں کو مہنگے سے مہنگے
سکول میں داخل کرواتے ہیں جبکہ غریب کی دسترس میں صرف گورنمنٹ سکول ہی ہیں
۔ ان سکولوں میں ہر جماعت کی بھاری بھرکم فیس رکھی جاتی ہے اور یہ پرائیویٹ
سکول صرف امراء کی دسترس میں ہیں ۔پرائیویٹ سکولوں میں سے چند ایک سکول بڑے
پیمانے پر کام کر رہے ہیں اور ان کی شاخیں پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں
جبکہ چند ایک بالکل چھوٹے پیمانے کام کر رہے ہیں ۔ اب تو یہ حالت ہے کہ
تقریبا ہر گلی، محلے میں یہ سکول چھوٹے چھوٹے گھروں میں بھی کھلے نظر آئیں
گے ۔پرائیویٹ سکولوں میں طلبہ کی راہنمائی گورنمنٹ سکولوں کی نسبت کہیں
بہتر کی جاتی ہے اور عام طور پر پرائیویٹ سکولوں کا معیار ِ تعلیم گورنمنٹ
سکولوں کی نسبت بہتر خیال کیا جاتا ہے ۔
پاکستان کے قیام سے لیکر پچھلے چند برس تک گورنمنٹ سکولوں سے تعلیم حاصل
کرنے والے طلبہ پورے ملک میں واضع مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے تھے ۔
بورڈ کے سالانہ امتحانات میں بھی گورنمنٹ سکولوں کے طالب علم پوزشنز حاصل
کر پاتے تھے لیکن پچھلے چند برس سے بورڈ کے سالانہ امتحانات کے نتائج ماضی
سے کچھ مختلف آ رہے ہیں ۔ بورڈ کے امتحانات میں پہلی تین پوزیشنز گورنمنٹ
کے مشہور سکولوں کی بجائے چند بڑے پرائیویٹ سکولوں کے حصے میں آ رہی ہیں
۔بورڈ کے سالانہ نتائج میں پرائیویٹ سکولوں کے نمایاں ہونے کی کئی وجوہات
ہیں جن میں سے چند ایک کا ذکر ضروری ہے۔ ایک تو یہ کہ بعض بڑے بڑے سکولوں
کے مالکان اور بعض اساتذہ بورڈ اور حکومتی سطح پرخاصااثر و رسوخ رکھتے ہیں
۔ اس اثر و رسوخ کے بل بوتے پر کرپشن اور بد عنوانی کے ذریعے پوزیشن اپنے
یا اپنے سکول کے بچوں کے نام کروا لیتے ہیں ۔اکثر و بیش تر ایگزمینشن سکشن
میں پیسبھاری رقوم ادا کر کے بچوں کے 10سے 20نمبر بڑھوا لیے جاتے ہیں
۔بظاہر تو ان چند نمبر کوئی بہت بڑی بات نظر نہیں آتی تاہم ان چند نمبروں
کے ردو بدل سے پوزیشن میں تبدیلی آجاتی ہے۔ اس طرح ایک کم محنتی بچے کو وہ
پوزیشن دے دی جاتی ہیجوکسی اور بچے کا حق ہو۔نمبروں کے ردوبدل سے کالجوں کے
میرٹ پر بھی فرق پڑھتا ہے۔ اور نعض اوقات حق دار طلبہ بھی اچھے کالجوں میں
داخلے سے محروم رہ جاتے ہیں ۔کرپشن کی یہ صورت کسی بھی محنتی بچے کے مستقبل
کے ساتھ کھیلنے کے مترادف ہے ۔ کیونکہ کرپشن اور بدعنوانی کا سہارا لے کے
ایک ایسے بچے کا مستقبل سنوار دیا جاتا ہے جس کو اس پوزیشن کے انعام میں
ملنے والے وظیفہ سے کوئی فرق نہیں پڑھتا اوروہ اس وظیفہ کی رقم حاصل کیے
بنا بھی اپنی تعلیم جاری رکھ سکتا ہے ۔ا س کے برعکس وہ بچہ جومحنت تو کر
سکتا ہے لیکن اپنی غربت کی وجہ سے آگے تعلیم حاصل نہیں کر سکتا اس کے حقوق
کو پامال کردیا جاتا ہے ۔گویا وہ بچہ جو محنت اور لگن سے تعلیم کے میدان
میں کامیاب ہونے کی کوشش کر رہا ہو وہ اس بچے سے کہیں پیچھے رہ جا تا ہے جس
کے والدین یا سکول مالکان اثر و رسوخ کے حامل ہو ں ۔محنت کے باوجود وہ بچہ
نہ صرف بددلی کا شکار ہو جاتا ہے بلکہ اپنے جائز حق سے بھی محروم رہتا ہے
جو کہ پوزیشن لینے والے طالب علم کا حق ہے ۔
ددوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ چند ایک بڑے سکولوں کے علاوہ پرائیویٹ سکولوں میں
طلبہ کی تعدادنہایت کم ہوتی ہے۔اس کم تعداد کی ایک بڑی وجہ ان سکولوں کی
بھاری بھرکم فیسیں ہیں ۔ جس کی وجہ سیان سکولوں کی تعلیم ہر ایک کی دسترس
میں نہیں ہوتی۔ ان سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بچو ں کا لائق یا
محنتی ہونااہم نہیں بلکہ ان کے والدین کا امیر ہونا ضروری ہے ۔پرائیویٹ
سکولوں میں بچوں کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے یہاں پڑھانے والے اساتذہ بچوں
پر خصوصی توجہ دے پاتے ہیں۔پرائیویٹ سکولوں کے برعکس گورنمنٹ سکولوں میں
ایک ایک جماعت میں کم و بیش پچاس طلبہ پڑھ رہے ہوتے ہیں ۔ تعداد زیادہ ہونے
کی وجہ سے گورنمنٹ سکولوں کے اساتذہ اس تندہی اور محنت سے نہیں پڑھا سکتے
جو کہ اساتذہ کا فرض اور ان طلبہ کا حق ہے ۔بچوں کی تعداد کا حد سے زیادہ
ہونے کی وجہ سے اساتذہ کے لیے ہر ایک پر انفرادی توجہ دینا ممکن ہی نہیں
۔گورنمنٹ سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ اپنی مدد آپ اور ذاتی
کوششوں کے بل بوتے پر آگے بڑھتے ہیں ۔ ان کی کامیابی میں اساتذہ کا کردار
کچھ کم ہوتا ہے ۔اگرچہ ان گورنمنٹ سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی ذہانت اور
محنت پرائیویٹ سکولوں میں پڑھنے والے طلبہ سے کہیں بہتر ہوتی ہے لیکن ان
طلبہ کو وہ راہنمائی مل ہی نہیں پاتی جو انھیں پوزیشن لینے میں مدد گار
ثابت ہو ۔
نصابی سرگرمیوں کے علاوہ ایسا بھی اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ گورنمنٹ سکول
میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ وطالبات کو عالمی سطح یا قومی سطح پر منعقد
ہونے والے تعلیمی مقابلوں میں بھیجا ہی نہیں جاتا ۔کیونکہ گورنمنٹ سکول میں
پڑھانے والے اساتذہ اس طرح کی غیر نصابی سرگرمیوں کو اہمیت نہیں دیتے جبکہ
پرائیویٹ سکولوں میں اس طرح کے مقابلوں کے لیے بچوں کی خصوصی طور پر تربیت
کی جاتی ہے ۔ ان مقابلوں میں حصہ لینے سے نہ صرف طالب علموں کی حوصلہ
افزائی ہوتی ہے بلکہ ان بچوں کے اعتماد میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے ۔
اگر دیکھا جائے تو دنیا میں نام پیدا کرنے والے پاکستانی بچوں کا تعلق
پرائیویٹ سکولوں سے ہے ۔ جبکہ کسی گورنمنٹ سکول سے تعلیم حاصل کرنے والا
طالب علم عالمی سطح تو درکنار ملکی سطح پر بھی نام نہیں بنا سکا ۔یہی وجہ
ہے کہ یہ بچے گورنمنٹ سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی نسبت نہ صرف
زیادہ پر اعتماد ہو تے ہیں بلکہ ان میں حالات سے مقابلہ کرنے کی قوت بھی
زیادہ ہوتی ہے ۔
گورنمنٹ سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کا قصور صرف اور صرف غربت ہے
۔ جو ان کے بہترین مستقبل کی راہ میں حائل ہے ۔ بچے کسی بھی قوم کا مستقبل
ہیں اور اس مستقبل کی پرورش اور تعلیم کے سلسلے میں امیر غریب یا کسی بھی
قسم کی تفریق نہیں کی جانی چاہیے ۔امیر اور گریب دونوں ہی بچے پاکستان کے
بچے ہیں ، دونوں ہی کو آگے بڑھنے کے مناسب اور یکساں مواقع فراہم کیے جانے
چاہیں ۔ تعلیم کا شعبہ پیغمبری شعبہ ہے ۔ دنیا میں خدا کا حکم نافذ کرنے
جتنے بھی پیغمبر آئے انھوں نے تبلیغ کی ، قوموں کی تربیت کی ۔ایسے پیغمبری
شعبہ میں کرپشن اور بدعنوانی کا ہونا ہماری قوم کی بدنصیبی کی علا مت ہے ۔
تعلیم جیسے شعبے میں کرپشن ہونے کا مطلب یہ ہے کہ قوم کے مستقبل کو داؤ پر
لگا دیا جائے کیونکہ تعلیم کے شعبہ پر ملک و قوم کے مستقبل کا دارومدار ہے
۔ اس شعبہ کو بالخصوص کرپشن سے پاک کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ واحد شعبہ ہے
جس میں کرپشن کا ہونا حال تک محدود نہیں رہتا بلکہ آج کی کرپشن مستقبل پر
بھی بری طرح اثر انداز ہوتی ہے ۔ اور ایک نسل کی کرپشن کانقصان دوسری نسل
اٹھاتی ہے ۔ اس شعبے میں خصوصا ایگزامینیشن سیکشن میں ا یمان دار افسران کی
تقرری اور کرپشن کرنے والوں کے لیے کڑی سزائیں اس شعبے کی کرپشن کو ختم
کرنے کا سبب بن سکتی ہیں ۔ |