پاکستان وہ ملک ہے جو مسائل کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔
کوئی بہتری کی کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی۔ ہر ایک کی اپنی اپنی آوازہے۔ اور
وہ آواز صرف اور صرف شور اور غوغا کے علاوہ کچھ نہیں بن پا رہا ۔ تعلیم جس
نے قوموں کی حالت بدل کر رکھ دی یہ قوم اب بھی اس کو نہ تو اپنی ترجیح بنا
رہی ہے اور نہ ہی اس کی اہمیت سے آگاہ ہے۔ دنیا کی ترقی کی مثالیں ہر کوئی
دے سکتا ہے جو بھی حکمران آیا وہ بلند و بانگ دعوے لیکر آیا لیکن عملی طور
پر وہ کچھ بھی نہ کر سکا۔ اس کے پیچھے اس کا وژن کلیئر نہ ہونا، عوام میں
سے نہ ہونا، اہلیت نہ رکھنا ،اور طاقت اور دھاندلی کے بل بوتے پر حکمرانی
حاصل کرنا تھا۔ تو ہم ااندازہ کر سکتے ہیں کہ اگر ان اوصاف کے بنا ء پر اگر
حکمرانی حاصل کر لی جائے تو عوام کا کیا حشر ہو سکتا ہے۔ پاکستان کی
بدقسمتی رہی ہے کہ شروع دن سے لے کر اس کا نہ تو کوئی نظامِ تعلیم بنایا
گیا ہے اور نہ ہی علم کے طرف عوام کو رغبت دلائی گئی ہے، ہمارے پیارے نبی
ـؐؐؐ کا فرمان ہے کہ علم حاصل کرو چاہے اس کے لیئے تمہیں چین ہی کیوں نہ
جانا پڑے۔قرآن پاک کی پہلی آیت مبارک بھی علم کی اہمیت کو واضح کر رہی
ہے۔سرکار دو عالم کا جنگی قیدیوں کا تعلیم کے عوض رہا کرنے کا عمل بھی ہمیں
اس کی اہمیت بتاتا ہے۔ تو ہم نے کبھی اپنے لیڈروں سے کیوں نہیں پوچھا کہ
جناب آپ نے ہمیں اﷲ کی اس نعمت سے کیوں محروم رکھا ہے۔ ہم کیوں ایسے لوگوں
کو اپنے ملک کی حکمرانی دیتے ہیں جو علم سے ہمیں دور کر کہ خود مزے اڑا رہے
ہیں۔ ان کے اپنے بچے تو دنیا کے اعلی اداروں سے تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں
اور ان کی عوام کے بچوں کو نہ سکول نہ کتاب اور نہ پینے کا صاف پانی حاصل
ہوتا ہے ۔ اور جو سکول بنائے جا رہے ہیں ان کی مثال ایک کارٹون سے دی جا
سکتی ہے جس میں ایک خیمہ بنا ہوتا ہے جس کے دروازے پر جلی حروف میں لکھا
ہوتا ہے پاکستان کا نظام تعلیم، اس خیمے میں بچے بھاری بھر کم بستہ اٹھائے
داخل ہو رہے ہوتے ہیں اور دوسری طرف سے گدھے باہر نکل رہے ہوتے ہیں ۔پاکستان
دنیا کے نقشے پر واحد ملک ہے جہاں جس کا دل چاہے وہ سکول بنا سکتا ہے بلکہ
وہ اپنی مرضی کا سلیبس اپنی مرضی کی فیس اپنی مرضی کا یونیفارم اپنی مرضی
کی کاپیاں تک زبردستی بچوں کے حوالے کر سکتا ہے۔ اور یقین مانیئے ان کو
کوئی پوچھنے والا نہیں، کیوں کے یہ لوگ سیاست دانوں ،میڈیا، بیورو کریسی
میں اپنی جان پہچان بنا لیتے ہیں اور بے خوف ہو کر آپ کے بچوں اور قوم کے
مستقبل کو تباہ کر رہے ہیں۔اس سے بڑھ کر کسی قوم کی بدقسمتی کیا ہو گی جس
کی ریاست کے تعلیمی ادارواں میں اس ہی قوم کے ٹیکس سے عیاشی کرینوالے اپنی
اولاد کو اس میں پڑھانا پسند نہ کریں۔ اس وقت پاکستان میں تقریباــ چار قسم
کا تعلیم سسٹم چل رہا ہے ۔ ۱۔اردو میڈیم ۲۔انگلش میڈیم ۳۔ او لیول اے لیول
۴۔ مدرسہ سسٹم ۔ عجیب بات یہ ہے کہ امتحانی نظام جس کو بورڈ یہ جانے بناء
امتحانی پراسس مکمل کر لیتا ہے کے سکول نے بچے کی تعلیم ،قومی فکر اور
تربیتی خطوط میں کیا اقدامات اٹھائے۔ سکول جس کی ایک بچے کی تربیت اور
تعلیم کی 70% ذمہ داری ہوتی ہے وہ بس اپنی فیس کے حصول کیلئے اس بچے کو
میٹرک تک لے جانا چاہتا ہے۔ وہاں جا کر جب وہ بچہ فیل ہو کر دل برداشتہ ہو
جاتا ہے اور تواعلی تعلیم کی طرف نہیں جاتا تو اس کی تمام تر ذمہ داری اس
بچے پر ڈال کر سکول آرام سے بری الزمہ ہو جاتا ہے حالت یہ ہے کہ ایک دو بچے
جو اس سکول میں اچھی کار کردگی دکھاتے ہیں ان کے بڑے بڑ ے ہورڈنگزلگا کر
ایڈمیشن لے لیا جاتا ہے لیکن جو بچے فیل ہو جاتے ہیں ان کی تفصیل ظاہر ہی
نہیں کی جاتی ۔ ہونا تو یہ چاہیے کے حکومت پرایؤیٹ سکول کو بھی تعلیم اور
تربیت کی ذمہ دار بنائے اور بچے کی ناقص کارکردگی میں سکول کو حصے دار بنا
کر کوئی نہ کوئی سزا دے ۔ فیس اور معیار کا میکنزم بنائے ۔سکول بنانے والے
کی اہلیت کے ساتھ ساتھ سکول کو والدین اور حکومت کا جوابدہ بنائے۔
|