اس حادثے کو سُن کے کرے گاکوئی یقیں
سُو رج کو ایک جھونکا ہوا کا بُجھا گیا
میانوالی میں مقیم ممتازادیب ، مترجم ،دانش ور، نغمہ نگار،ماہرِ تعلیم
،براڈ کاسٹر ، محقق، مورخ، ماہر لسانیات، ماہرعلم بشریات و فنون لطیفہ اور
زیرک نقاد محمد محموداحمد نے بھی اس دھوپ بھری دنیا کو چھوڑ کر عدم کی بے
کراں وادیوں کی جانب رختِ سفر باندھ لیا۔ محمد محمود احمد کے نہ ہونے کی
ہونی نے روح کو زخم زخم اور دِل کوکِرچی کِرچی کر دیا۔خراباتِ آرزوپر اس کی
دائمی مفارقت کا غم اِس طرح برسا کہ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا اور کچھ
سُجھائی نہیں دیتا۔ آنکھوں سے جوئے خوں رواں ہے اور دِل کی ویرانی کا اب
کیا مذکور ہے ؟الفاظ میرے ہونٹوں پر پتھرا گئے ہیں اور میں اپنے جذبات حزیں
کو صفحہء قرطاس پر منتقل کرنے میں دشواری محسوس کرتا ہوں۔ فرشتہء اجل نے اس
فطین، فعال اور مستعد تخلیق کار سے قلم چھین لیا جو گزشتہ چار عشروں سے
تخلیقِ ادب میں ہمہ وقت مصروف تھا۔ تقدیر کے اِس چاک کو سوزنِ تدبیر سے کسی
صورت میں رفو نہیں کیاجا سکتا۔ ہماری محفل کے وہ آفتاب و ماہتاب جن کے دم
سے ہمارے دل کی انجمن میں اُجالا ہوتا ہے، جب زینہء ہستی سے اُتر کر عدم کی
وادیوں میں غروب ہو جاتے ہیں ،تو سفاک ظلمتیں اور جان لیوا سناٹے ہمارا
مقدر بن جاتے ہیں۔ جانگسل تنہائیوں کا کرب سہتے سہتے ہم صدائے جرس کی جستجو
میں دیوانہ وار بھٹکتے پھرتے ہیں لیکن سکوت کے صحرا ؤں کے سراب ہمارے منتظر
ہوتے ہیں جہاں اپنی زندگی کے باقی دن ہم سانس گِن گِن کر پُورے کرتے ہیں۔ہم
اسی نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ سیر ِجہاں کا حاصل حیرت اورحسرت کے سوا کچھ بھی
تو نہیں ۔ اُردو ،انگریزی،عربی ،فارسی،سرائیکی،پنجابی،ہندکو اور پاکستان کی
تما م علاقائی زبانوں پر خلاقانہ دسترس رکھنے والا علم و ادب کا وہ آفتاب
جو۱۲۔نومبر۱۹۵۹کو میانوالی سے طلوع ہوا وہ ۱۳۔اکتوبر۲۰۱۴کو میانوالی ہی میں
غروب ہو گیا۔اس علاقے کی خاک کو اکسیر بنانے کی خاطر اپنی زندگی وقف کرنے
والا عظیم محب وطن اسی علاقے میں پیوندِ خاک ہو گیا جہاں اس کی آنول نال
گڑی تھی۔ ایک چھوٹے علاقے کا بہت بڑا تخلیق کار اب ہمارے درمیان موجود نہیں
رہا۔ تخلیقِ ادب کا کوئی بھی عکس ہو،اس میں اس زیرک تخلیق کار کی فعالیت کے
خدو خال جلوہ گر دکھائی دیتے ہیں۔اس کی وفات ایک بہت بڑا سانحہ ہے جس پرشہر
کا شہر سوگوار اور ہر آنکھ اشک بارہے ۔اس کی یاد میں بزمِ ادب عرصے تک
سوگوار رہے گی۔یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ ہم اپنے رفتگاں کو یاد کر کے اپنے
دلوں کو ان کی عظمتوں کی امین مہک سے آباد رکھنے کی سعی کرتے ہیں۔راہِ جہاں
سے گُزر نے والے یہ نابغہء روزگار لوگ یادگارِ زمانہ ہوتے ہیں،ان کے قدموں
کے نقوش بھی سر بہ فلک کو ہساروں کے مانند ہیں جو آنے والی نسلوں کے لیے
نشانِ منزل ثابت ہوتے ہیں۔زندگی اور اس کی حقیقی معنویت کے بارے میں اس کے
سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ ہم فریب ِ ہستی کھانے کے بعد بھی بھیانک
تاریکیوں میں ٹامک ٹوئیے مارتے پھرتے ہیں لیکن کسی نتیجے پر نہیں پہنچ
سکتے۔ تخلیق فن کے لمحوں میں دِل کی دھڑکنوں سے ہم آہنگ مسحور کُن آوازوں
کی مدھر لے پر خوابوں کی خیاباں سازیاں اپنی جگہ لیکن زندگی کی اصلیت کی
گرہ کشائی کی یہ کیفیت قاری کو خواب غفلت سے جگاتی ہے اور افکار تازہ کی
مشعل تھا م کر جہان تازہ کی جانب مراجعت کی راہ دکھاتی ہے۔ محمد محمود احمد
نے کیا خوب کہا تھا :
نیلم جیسی آنکھیں تیری، ریشم جیسے بال
سب مٹی کا مال ہے سائیں سب مٹی کا مال
سونے کا کٹ مالا تیرا،چاندی کی پازیب
ہلکے زرد ستاروں والی گہری نیلی شال
سب مٹی کا مال ہے سائیں سب مٹی کا مال
چاندی جیسے مُکھ پرچمکے گرم لہو کی دُھوپ
مخمل جیسی نرم رگوں میں مستی کا بھونچال
سب مٹی کا مال ہے سائیں سب مٹی کا مال
تُو بھی فانی، میں بھی فانی، باقی رب کی ذات
روشن صبحیں ،کاجل شامیں،ہفتے ،مہینے ،سال
سب مٹی کامال ہے سائیں سب مٹی کا مال
تیرے رُوپ کے چکر کاٹے اک شاعر کی سوچ
تیرے دروازے پر ڈالے اک مجذوب دھمال
سب مٹی کا مال ہے سائیں سب مٹی کا مال
محمد محمود احمد کا تعلق میانوالی کے ایک ممتاز علمی و ادبی خاندان سے تھا
۔اس کے والد محمد سلیم رضا قریشی اپنے عہد کے ممتاز ادیب ، فلسفی،معلم اور
دانش ورتھے۔محمد سلیم رضا قریشی کی زندگی درس وتدریس میں گزری اور انھیں
استاد الاساتذہ کا منصب حاصل تھا۔ محمد سلیم رضا قریشی نامور ماہر ِ تعلیم
اور عالمی ادبیات کے نباض تھے۔ اُنھوں نے عربی ،فارسی اور روسی ادبیات کا
عمیق مطالعہ کیا تھا۔وہ ترجمہ نگاری کے ذریعے دو تہذیبوں کو قریب تر لانے
کے آرزو مند تھے ۔اس مقصد کے لیے اُنھوں نے عالمی ادبیات کی نمائندہ
تحریروں کو اردو زبان میں ترجمہ کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا۔فارسی زبان میں
بچوں کے لیے لکھی گئی دلچسپ کہانیوں کو محمد سلیم رضا قریشی نے اس مہارت سے
اُردو کے قالب میں ڈھالاکہ اس سادہ سلیس ،عام فہم اوربے ساختہ ترجمے پر
تخلیق کا گمان گزرتا ہے۔ فارسی زبان میں بچوں کی کہانیوں کے یہ تر اجم
اُردو میں ’’قصہ یہ ہے ‘‘کے عنوان سے تین جلدوں میں شائع ہوئے ۔قارئین ادب
کی طرف سے ان تراجم کو بہت پذیرائی ملی۔ محمد سلیم رضا قریشی نے فارسی زبان
کے ایک مقبول ناول کا اردو ترجمہ کیا ۔یہ ناول ’’چھوٹا امیر بڑا امیر ‘‘کے
نام سے شائع ہوا ۔اس ترجمے کی اشاعت سے اردو ناول کوعالمی ادبیات کے مزاج
سے آ شنا کرنے میں مدد ملی اور اردو ادب کی ثروت میں بے پناہ اضافہ
ہوا۔محمد محمود احمد کو اپنے گھر میں جو علمی و ادبی ماحول میسر ٓا یااس کے
معجز نما اثر سے اس ہو نہار بچے کی صلاحیتوں کو صیقل کرنے میں مدد ملی اور
گھر کی تربیت نے اس کے فکر و نظر کو مہمیز کیا۔اس کا تخلیقی مزاج ہر لحظہ
نیا طور نئی برقِ تجلی کی کیفیت کا مظہر بن گیا اور اس کا مر حلہ شوق تھا
کہ طے ہی نہ ہو تا تھا ۔وہ زندگی بھر خوب سے خوب تر کی جانب مصروف جستجو
رہااپنے حسب نسب اور عظیم آبا کی علمی میراث پر اسے ہمیشہ ناز رہا ۔
دُرِ بتول ہوں شیرِ جلی کا بیٹا ہوں
میں عام شخص نہیں ہوں علیؑ کا بیٹا ہوں
کوئی تو حُسن میری بھی گفتگو میں ہو گا
میں فلسفی نہ سہی فلسفی کا بیٹا ہوں
وہ مجھ کو میری خطاؤں پہ کچھ نہیں کہتا
اُسے خبر ہے کہ میں آدمی کا بیٹا ہوں
محمد محموداحمد کی زندگی شمع کے مانند گزری ،اس کی ذات سفاک ظلمتوں میں
روشنی کی ایک کرن تھی۔ ایک زیرک ،فعال ،مستعد ، شیریں سخن اور شیریں گفتار
تخلیق کار کی حیثیت سے محمد محمود احمد نے اپنی شاعری سے پتھروں کو بھی موم
کر دیا اورقارئینِ ادب کے دلوں کو مسخر کر لیا۔ اس کے لبوں سے کسی نے کبھی
حرفِ برہمی نہ سُنا بل کہ اس کی گل افشانیء گفتار سے ہر محفل کشتِ زعفران
بن جاتی ۔ اس کا اندازِ فکر ہمیشہ تعمیر ی رہا،کسی شخص کی تخریب سے اس کا
کوئی واسطہ نہ تھا۔یہی اس کی ہر دلعزیز ی کا سبب تھا اور یہی وجہ ہے کہ اس
کا شگفتہ اسلوبِ سخن ہی اس کی ادبی پہچان بن گیا۔قدرت ِکاملہ نے اسے قناعت
اور استغنا کی دولت سے مالا مال کیاتھا اس لیے زر پرستوں اور ہوس ِ جاہ و
منصب کے روگ میں مبتلا بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے ،چڑھتے سورج کی پرستش
کرنے والے ابن الوقت اور طوطا چشم افراد سے اس نے زندگی بھر کوئی تعلق نہ
رکھا۔ کُوڑے کے ہر عفونت زدہ ڈھیرسے جاہ و منصب اور مفادات و مراعات کے
استخواں نوچنے اوربھنبھوڑنے والے خارش زدہ سگان راہ سے اُسے شدید نفرت تھی۔
درِ کسریٰ پر صدا کر نا اس کے ادبی مسلک کے خلاف تھا۔ فن کار کی انا اورخود
داری کا بھرم اس نے زندگی بھر قائم رکھا۔میانوالی ریڈیو نے جب اپنی نشریات
کاآغاز کیا تو محمد محمود احمداس کے بنیاد گزاروں میں شامل تھا۔ عالمی شہرت
کے حامل نامور براڈ کاسٹر زیڈ۔اے بخاری کے انداز کو محمد محمو داحمد نے
اپنے لیے قابلِ تقلیدسمجھا اور ریڈیوکی نشریات کو اس قدر دلچسپ بنا دیا کہ
اس کے سامعین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہونے لگا۔ان حالات میں بعض لوگوں نے
اس کے خلاف سازشوں کا مکروہ سلسلہ شرع کر دیا۔محمد محمود احمد نے جب یہ
دیکھا کہ سب بے کمال اُ س کے درپئے پندر ا ہیں تو دامن جھاڑ کر چُپکے سے
ریڈیو کو خدا حافظ کہا اور پھر کبھی اُدھر کا رُخ نہ کیا۔ ذرائع ابلاغ سے
وابستہ غیر جانب دار نقاد،تجزیہ نگار اور صحافی آج بھی یہ بات بر ملا کہتے
ہیں کہ ریڈیو کی نشریات کو معیار اور وقارکی رفعت سے آشنا کرنے میں اس کا
کردار ریڈیو کی تاریخ میں آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ اس کی تخلیقی
تحریریں ایک شانِ استغنا اور بے ساختہ پن کی مظہر ہیں۔ایک حساس اور دردمند
تخلیق کارکی حیثیت سے محمد محموداحمد نے انسانیت کے وقار ، سر بلندی اور
عزت و تکریم کو ہمیشہ ملحوظ۔ایسا محسوس ہوتا تھا کہ دُکھی انسانیت کو درپیش
مسائل کا احساس اور سارے جہاں کا درداس کے دل میں سما گیا تھا۔انسانیت کی
توہین ،تذلیل ،تضحیک اور بے توقیری کرنے والے درندوں سے اُسے شدید نفرت
تھی۔اس کا خیال تھا کہ ظلم سہہ کر اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہ کرنا
ایک اہانت آمیز اور منافقانہ طرز عمل ہے ۔اس قسم کی بزدلی سے ظالم کو کھل
کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے۔حریت ِ ضمیر سے جینے کے لیے اسوہء شبیرؑکو پیشِ
نظر ر کھنے والے حریت فکر کے اس مجاہد نے تیشہء حرف سے فصیلِ جبر کو منہدم
کرنے کی مقدور بھر کوشش کی ۔ اس نے فسطائی استبداد کا ہر انداز مسترد کرتے
ہوئے ہوائے جور و ستم میں بھی شمعِ وفا کو فروزاں رکھا اور جبر کے سامنے
سپر انداز ہونے سے انکار کر دیا۔ بصارت پر پہرہ بٹھانے والو ں ،سماعت پر
قدغن لگانے والوں ،لب اظہار پر تالے لگانے والوں اور متاع ِ لوح و قلم چھین
لینے والوں پر ا س نے واضح کر دیا کہ اُمیدوں کی فصل غارت کرنے اور تمناؤں
کی حسین بستیاں تاراج کر نے کے بعد مظلوموں کے دلوں پر راج کرنے کا ان کا
خواب کبھی شرمندہء تعبیر نہیں ہو سکتا۔ معاشرتی زندگی میں خزاں کے سیکڑوں
مناظر نے اس کی روح کو زخم زخم اور دل کو کرچی کرچی کر دیا لیکن انتہائی
غیر یقینی حالات کے باوجود اُسے طلوعِ صبح بہاراں کا یقین تھا ۔ آلامِ
روزگار کے ہاتھوں قلب اور روح کی کرچیوں میں تقسیم کے باوجود اس نے اپنے
مستقبل کے خوابوں کی تجسیم کو اہم خیال کیا۔احباب نے اسے دلاسا دینے کی بہت
سعی کی لیکن سب تدبیریں اُلٹی ہو گئیں اور کسی دوا نے کام نہ کیا ۔اور پھر
چشم کے مُر جھا جانے کا لرزہ خیز ،اعصاب شکن سانحہ ہو کے رہااور
14۔اکتوبر2014کو میانوالی کے ایک نواحی قصبے ماڑی انڈس کی ایک محفل مشاعرہ
میں بیماریء دِل کے ہاتھوں اردو زبان وادب کا یہ ہنستا ،بولتا اور مسکراتا
چمن مہیب سناٹوں اور جان لیوا سکوت کی بھینٹ چڑھ گیا۔
اُمید لے کر آئی تھی محمود آج موت
سو زندگی کی مجھ سے وہ خیرات لے گئی
اس کی ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں اب اس کی حسین یادوں کو خضرِ راہ سمجھ کر
زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبور ہیں۔محمد محمود احمد کی اولاد نرینہ نہیں
تھی لیکن وہ اپنی بیٹیوں ہی کواپنی زندگی کا بیش بہا اثاثہ اور خالقِ
کائنات کی بہت بڑی نعمت قرار دیتا تھا ۔اپنی بیٹیوں کے روشن مستقبل پر اس
نے اپنی توجہ مرکوز رکھی۔اپنی بیٹیوں کی تعلیم و تربیت پر اس نے بھر پور
توجہ دی اور بیٹیوں کو ہمیشہ اﷲ کریم کی رحمت ِ بے پایا ں سے تعبیر کیا۔اس
کا خیا ل تھا کہ بیٹیاں قادر ِمطلق کی عطا ہیں ،جس گھر میں بیٹیا ں پیدا
ہوں وہاں اﷲ کی رحمت اور محبت کی فراوانی ہو تی ہے:
بیٹیاں سب کے مقدر میں کہاں ہوتی ہیں
گھر خد اکو جو پسند آئے وہاں ہوتی ہیں
تاریخ اور اس کے مسلسل عمل پر محمد محمو داحمد کی گہری نظر تھی۔اُس کا خیال
تھا کہ تاریخ وقت کے تاریک گو شوں پر پڑی ا بلق ایام کے سموں سے پڑ جا نے
والی گرد کو ہٹا نے کی تحریک دلا تی ہے۔ جب بھی ما ضی کے کسی چہرے سے نقاب
اٹھتا ہے تو حال کا قاری اس کِھلواڑ کو دیکھ کر تڑپ اُٹھتا ہے ۔اس کے جذبات
و احساسات پر جو کاری ضرب لگتی ہے،وہ اس کی تاب نہیں لا سکتا وہ شدتِ غم سے
بے حال ہو جا تا ہے۔ وہ کسی چمتکار کا شدت سے منتظر رہتا ہے ،ان حالات میں
تاریخی شعور ہمیں تاریکی سے بہت دورلے جا تا ہے اور مشہور شخصیات کے دور کے
اہم حالات اور واقعات کے بارے میں جا ن کر چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔ زما
نہء قدیم کی تا ریخ کے مطا لعہ سے یہ حقیقت معلو م ہو تی کہ ما ضی میں کچھ
لو گ با د سموم کے بگولوں کو بھی نسیم ِسحر سمجھ کر وادی ء خیال میں مستا
نہ وار گھومنے میں انہما ک کا مظاہرہ کرتے اور اپنی حماقت کو حق بجا نب ثا
بت کرنے میں زمین آسما ن کے قلا بے ملا تے رہتے تھے۔ اپنے مشکوک اور فرضی
شجرہء نسب پر رعونت کا مظاہرہ کرنے والے بگلا بھگت اور جو فروش گندم نما
مسخرے آ ج بھی نت نئے رُوپ دھار کر اور گرگٹ کی طرح رنگ بدل کرانسا نیت کے
درپئے آزار ہیں۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں دلوں میں بغض و عنا د ،
غیظ و غضب ،تنگ نظری ،عصبیت اور خوف و دہشت کی جو فضا سرایت کر گئی ہے، اس
کے بیج انہی اہلِ جور نے بو ئے تھے ۔ محمد محمود احمد کاسب سے بڑااعزازو
امتیاز یہ ہے کہ اس نے اپنا دامن ان آلائشوں سے بچائے رکھا۔زندگی کی برق
رفتاریوں نے اقدار و روایات کی کایا پلٹ دی ہے ۔ خود غرضی اورہوس پرستی کے
موجودہ زمانے میں معا شرتی زوال ، سما جی اقدار وروایا ت کی زبوں حا لی اور
مختلف اداروں کے مکمل انہدا م کی لرزہ خیز اور عصاب شکن روداد زبان حال سے
انصاف طلب دکھائی دیتی ہے۔ ممکن ہے فطرت افراد کی بے راہ روی سے چشم پو شی
بھی کر لے لیکن اقوام کی مجموعی کوتاہیوں اور ہلاکت خیزیوں کو کبھی معاف
نہیں کرتی بل کہ ان کی ہلا کت آفرینی کا سارا کچا چٹھا پیش کر دیتی ہے۔
عالمی تاریخ گواہ ہے کہ جا مہء ابو جہل میں ملبوس ایسے کرداروں کی عبرت ناک
تن آسا نی جہاں ان کی شا د ما نی بنتی رہی وہا ں اہل درد اسے دیکھ کر جی کا
زیاں کرتے رہے ۔ معاشرتی زندگی میں وقت کے اس حادثے کو کس نام سے تعبیر کیا
جائے کہ یہاں جاہل بھی اپنی جہالت کا انعام حاصل کر نے میں کامیاب ہو جاتا
ہے لیکن اس استحصالی معاشرے میں جو ہر ِقابل کو کوئی پُرسانِ حال کہیں
دکھائی نہیں دیتا۔ مسلسل شکستِ دل کے باعث بے حسی روز افزوں ہے اور سچ کہنے
پر زبان کٹتی ہے۔ تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کا جائزہ لینے سے یہ معلوم
ہوتا ہے کہ شقاوت آمیز نا انصافیوں ، جہا لت کی خجالت ،سفا کی اور اس کی
ہلاکت خیز یوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے میں آج تک کسی با ضمیر شخص
نے تا مل نہیں کیا ۔ بعض درند ں میں جبلی طور پر جہالت اور سفاکی مو جود
ہوتی ہے اور یہ اُن کو میراث میں ملتی ہے ۔ جزیرہء جہلا کے مکین چلتے پھرتے
ہوئے یہ مُردے ہمیشہ کفن پھاڑ کر بو لتے ہیں۔ اس قماش کا ہر تھوتھا چنا
گھنا باجنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔خود بے عملی کا شکار ہو جانا اور ہاتھ
پر ہاتھ دھرے منتظر فردا رہنا مگر اپنے آبا کے فرضی کمالات پر پُھول کر
کُپا ہو جانا ایک ایسا فعل ہے جو محمد محمود احمد کے نزدیک قابل گرفت ہے ۔
حرفِ صداقت لکھنے والوں کو جہلا کے کریہہ چہرے سے نقاب اُٹھانا پڑا اور ان
کے قبیح کردار سے قارئینِ ادب کو آگاہ کرنا پڑا تا کہ ان کی لا ف زنی کو
بیخ و بن سے اکھاڑنے میں مدد ملے۔ محمد محمود احمد نے چربہ ساز ،سارق ،کفن
دُزد ،بے کمال اور جعل ساز لفاظ حشرات کے قبیح کردار پر گرفت کی ہے جنھوں
نے اپنے چہرے پر جعلی حسب نسب اور نام نہادخاندانی شرافت کا مکھوٹا چڑھا
رکھاہے ، خود ساختہ شجرہ نسب پر بلاوجہ گھمنڈ کرنے والوں کے مکر کا پردہ
فاش کرتے ہوئے محمد محمود اختر نے بے ساختہ کہاہے:
میں نہیں ما نتا کاغذ پہ لکھا شجرہء نسب
بات کرنے سے قبیلے کا پتا چلتا ہے
عالمی ادبیات سے محمدمحمود احمد کی گہری دلچسپی کا ایک عالم معتر ف
تھا۔اردو زبان و ادب میں ایم۔اے کرنے کے بعد وہ محکمہ تعلیم پنجاب میں
تدریسی خدمات پر مامور ہوا۔ اس کے تمام معاصرین نے اس کی لسانی مہارت اور
ذوق سلیم کا بر ملا اعتراف کیا۔پاکستان کی تمام علاقائی زبانوں کے ادب
،اردو کے کلاسیکی ادب اور عالمی کلاسیک کا اس نے تفصیلی مطالعہ کیا تھا۔
اُردو زبان کے ارتقا، اُردو ادب کی تحریکوں،جدید لسانیات اور اردو تنقید و
تحقیق پر اس کے فکر پروراور خیال افروز مضامین فکر و نظر کے نئے دریچے وا
کرتے تھے۔ جدید لسانیات کا اس نے بہ نظر غائر جائزہ لیا تھا ۔جدید یت
،مابعد جدید یت ،ساختیات اور پس ساختیات کے اہم موضوعات پر اس کے خیالات اس
کے وسیع مطالعہ کے آئینہ دار تھے۔اس کا خیا ل تھا کہ اُردو داں طبقے کو ژاک
دریدا ،مشل فوکو،جو لیا کر سٹیوا،رولاں بارتھ،سوسئیراور ژاک لاکاں کے لسانی
نظریات سے استفادہ کر نا چاہیے۔محمد محموداحمد کی تخلیقی فعالیت اور اس کے
لا شعوری محرکات خلوص ،دردمندی اورانسانی ہمدردی کے جذبات کی اساس پر
استوار ہیں۔اس کی موثر اور دل نشیں شاعری افراد معاشرہ کے جسم و جاں کے
عقدہء دشوارکے بارے میں مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانے کی ایک ایسی کاوش ہے
جس کے معجز نما اثر سے زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرنے کی مساعی ثمر
بار ثابت ہوئیں۔اسے اس بات کاشدت سے احساس تھا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے
فروغ کے موجودہ زمانے میں زندگی کی اقدارِ عالیہ اور درخشاں روایات کو
ناقابلِ اندمال صدمات کا سامنا ہے۔حالات کی سفاکی نے دُکھی انسانیت کو ایک
ایسے مہیب غار کی جانب دھکیل دیا ہے جہاں جان لیواسکوت سے زندگی اجیرن ہو
کر رہ گئی ہے۔معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی بے حسی ،ہوس اور انتشارکے
باعث آشوبِ پندار نے گمبھیر صورت اختیار کر لی ہے۔ بے حس درندے سنگِ ملامت
لیے اہلِ محبت کے در پئے پندار اور د ر پئے آزار ہیں۔ان حالات میں حساس
تخلیق کا رکی جان کو دوہرا عذاب بر داشت کرنا پڑتا ہے ،پہلے تو وہ ان لرزہ
خیز حالات کو دیکھتا ہے اس کے بعد ان کے مسموم اثرات کے بارے میں سوچ کر
کُڑھتا ہے۔محمد محمود احمد کی شاعری میں زندگی کے یہ تمام موسم ایک دھنک
رنگ منظر نامہ سامنے لاتے ہیں۔اس کی پہچان ایک شیریں سخن اور شائستہ گفتار
ادیب کی رہی۔ اس نے سدا محنت کی عظمت پر زور دیا اور حُسن ِصورت کے بجائے
حُسنِ سیرت اور وقیع کام کی ہمہ گیر اہمیت و افادیت کو اُجاگر کیا۔
استحصالی معاشرے میں سرمایہ دار تو اپنے مکر کی چالوں سے بازی لے جاتا ہے
لیکن قسمت سے محروم محنت کش اپنی بے بسی اور سادگی کے باعث مات کھا جاتا ہے
۔فقیروں کے حالات تو جوں کے توں رہتے ہیں لیکن ابن الوقت بے ضمیروں کے وارے
نیارے ہو جاتے ہیں۔ تیسری دنیا کے ممالک میں محنت کش طبقے کو جن صبر آزما
حالات کا سامنا ہے ان کے بارے میں محمد محمود احمد نے کُھل کر لکھا ہے:
کام نے لازوال ہونا ہے
جسم تو عارضی کھلونا ہے
کب ستارے،چاند،جگنو،پُھول، تتلی مانگتے ہیں
تیسری دنیا کے بچے صرف روٹی مانگتے ہیں
اُسی دریا میں ہے میر ا بسیرا
جہاں مچھلی کو مچھلی کھا رہی ہے
کس نے کہا تھا پُھولوں کو پہنچیں شباب کو
بھنوروں سے اب بچاؤ گے کِس کِس گُلاب کو
کچے گھڑے پہ ڈُ وبتی سو ہنی تُجھے سلام
تیری سمجھ نہ آ سکی پاگل چناب کو
حق گوئی اور بے باکی کو شعار بناتے ہوئے محمد محمود احمد نے ہمیشہ اس بات
پر اصرار کیا کہ ایک سچا تخلیق کار اپنے اشہبِ قلم کی جو لانیوں سے اقلیمِ
سخن کی تکریم و تحریم کو یقینی بناناا پنا مطمحِ نظر قرار دیتا ہے۔اس نے
واضح کر دیا کہ حریت ِ فکر کے مجاہد کبھی مصلحت کا شکار نہیں ہو سکتے بل کہ
جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حر فِ صداقت لکھنا اپنا شعار بناتے ہیں۔ان
کا قلم ان کے ضمیر کی آواز کا ترجمان بن جاتا ہے اور وہ لفظ کی حرمت کی
خاطر دل و جاں سے قربانیاں دینے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ
روشنیوں کی راہ میں جو بھی دیوار بنے گا وہ نہیں رہے گا۔قحط الرجال کے
موجودہ زمانے میں زندگی مشینوں میں ڈھلتی جا رہی ہے اور اسلاف کی درخشاں
روایات سسک سسک کر دم توڑ رہی ہیں۔مظلوم انسانوں کی پر نم آ نکھوں کے
دریچوں میں خوف کے آنسو جوئے خوں بن کر رواں ہوجاتے ہیں۔ آزاد فضاؤں میں
لطفِ نظارگی عنقا ہو جاتا ہے اور حسرتوں کے غبار کا موسم ان کا مقدر بن
جاتا ہے۔ وطن ،اہل ِ وطن اور انسانیت کے ساتھ والہانہ محبت اور قلبی
وابستگی محمدمحمود احمدکے اسلوب کا امتیازی وصف ہے ۔ انسانیت کے وقار اور
سر بلندی کے لیے اس نے بہت جدو جہد کی ۔دردمندی اور خلوص سے لبریز اس کے لب
و لہجے میں بڑی حلاوت تھی:
زمیں کی گود میں مائیں بھی جا کے سوتی ہیں
زمین ماں کی بھی ماں ہے ،زمیں سے پیار کرو
دن اگر میرا پریشانی میں گزرے محمود
ماں تسلی کے لیے میرے خواب میں آجاتی ہے
عہد غفلت میں مسلسل المیے بڑھتے گئے
زندگی گھٹتی گئی اور مسئلے بڑھتے گئے
کئی رنگ بدلتا ہے بھروسا نہیں اس کا
فی الحال وہ مخلص ہے مگر ذہن میں رکھنا
ہررنگ بھری چیز کا انجا م یہی ہے
تتلی کا یہ ٹُوٹا ہوا پر ذہن میں رکھا
اپنے اسلوب میں تاریخ کے مسلسل عمل،تاریخ کے شعوراورعصری آ گہی کے امتزاج
سے محمد محمود احمد نے تہذیبی رویے کی نمو کا اہتما م کیا ہے۔اس نے جن
تہذیبی روّیوں کو پیش ِ نظر رکھا ہے وہ معاشرتی زندگی کے حالات و معمولات
کو اس طرح مہمیز کرتے ہیں کہ ایک اجتماعی وحدت اپنی پُوری رعنائی کے ساتھ
اسلوب میں سرایت کر جاتی ہے ۔اس اجتماعی وحدت کے ادب اور فنونِ لطیفہ پر
دُوررس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔اس نے پرورش لوح و قلم میں مصروف ادیبوں کو
افکارِ تازہ کی مشعل تھا م کر سفاک ظُلمتوں کی پروا نہ کرتے ہوئے روشنی کا
سفر جاری رکھنے پر مائل کیا تا کہ صدائے جرس کی جستجو میں دیوانہ وار نکلنے
والے راہِ طلب کے آبلہ پا مسافر سرابوں کے صحرا میں بھٹکنے سے بچ جائیں۔اس
طرح جہانِ تازہ تک رسائی کے امکانات کویقینی بنایا جا سکتا ہے۔
تالاب کے پانی میں روانی نہیں ہوتی
یہ بات میری زندگی بھر ذہن میں رکھنا
عجیب سوچ میں گزری تمام رات میری
مرا دماغ بڑا ہے کہ کائنات بڑی
یہ اور بات کہ مری زمیں بنجر تھی
وگرنہ ابر نے کی نظرِ التفات بڑی
پھر پرندوں کو شجر چھوڑ کے جانا ہوگا
پھر کسی سانپ نے شاخوں سے نکالی آنکھیں
اے منڈیروں پہ دیے روز جلانے والے
اب کہا ں آئیں گے واپس تیرے جانے والے
ہو،س ، ملمع سازی،ریاکاری ،مصلحت اندیشی اور موقع پرستی نے معاشرتی زندگی
کی تمام رُتیں بے ثمر کر دی ہیں۔محمد محمود احمد نے زندگی بھر ان آلائشوں
سے اُٹھنے والے عفونت اور سڑاند کے بھبھوکوں سے متنبہ کیا اور ان سے دُور
رہنے کی تلقین کی۔یہی وجہ ہے کہ اس کی شاعری میں حرفِ صداقت کی مہک قاری کے
قلب ، روح اور ذہن کو معطر کر دیتی ہے۔اس کے مطالعہ سے قاری احساس ،ادراک
اور وجدان کی حسین وادیوں میں سر مستی اور وجدان کے عالم میں گھُو متا اور
جُھومتا ہوا ٓگے بڑھتاچلا جاتا ہے۔زندگی کے تلخ حقائق کی ترجمانی اور
انسانیت کو درپیش مسائل کی صورت گری محمد محمود احمد کا پسندیدہ موضوع
ہے۔اس کی حسین، دِل آویزاور پُر وقار شخصیت کا راز اس کے مستحکم اندازِ فکر
،دبنگ لہجے ،خلوص ،دردمندی،مروّت ،ایثار اور وفا میں پو شیدہ ہے۔خیالات کی
تونگری ،نُدرت او ر تنوع نے اس کی شاعری کو قوت اور وسعت کے اعلیٰ ترین
معیار تک پہنچا دیا ہے۔
ان کہی بات کا اظہار بھی ہوسکتا ہے
پانی جم جائے تو دیوار بھی ہوسکتا ہے
پچھلے ساون میں تو آیا تھا گھٹا کی صورت
کیا وہی معجزہ اس بار بھی ہوسکتا ہے
کیا ضروری ہے مصلے پہ فقط زاہد ہو
رونے والا کوئی مے خوار بھی ہوسکتا ہے
حق پہنچتا ہے تم کو مگر ٹھیک تو نہیں
کاغذ کی کشتیوں پہ سفر ٹھیک تو نہیں
ایک راسخ العقیدہ مسلمان کی حیثیت سے محمد محمود احمد نے توحید ،رسالت اور
اسلامی تعلیمات کو مشعلِ راہ بنایا۔تصوف سے اس کی دلچسپی زندگی بھر بر قرار
رہی،اس کا اظہار اس کی شاعری میں بھی ہوا ہے۔تصوف کے موضوع پر اس کی عقیدت
جذبوں کی صداقت کی امین ہے۔وہ اپنے موثر تخلیقی عمل سے ایک ایسی روحانی فضا
تیار کرنے کا آرزومند رہا جس کے اعجاز سے دلوں کو مرکز ِ مہر و وفا کیا جا
سکے اور قاری حریمِ کبریا سے آشنا ہو کر اپنی دنیا اور آخرت کو سنوار
سکے۔اس طرح اصلاح ِ معاشرہ کے لیے ایک ایسی ذہنی فضا تیار ہو سکتی ہے جس
میں حق و صداقت کا بولا بال ہو سکتا ہے اور ہر دل میں اُجالا ہو سکتا ہے۔اس
نے تخلیقِ ادب اور روحانیت کو زندگی کے مسائل کے ساتھ ا س خوش اسلوبی سے ہم
آ ہنگ کر دیا ہے کہ زندگی کی حقیقی معنویت کی تفہیم ممکن ہو گئی ہے۔
کتاب جسم پہ تو حید کا غلاف کیا
یوں اپنے آپ کو آلودگی سے صاف کیا
عطا ہو ا ہے اسی کو سلو کیت کا مقام
کہ جس نے روح کے حجرے میں اعتکاف کیا
جب اپنی ذات کا ادراک ہوگیا احمد
خدا کی ذات کا اس وقت اعتراف کیا
مکان ہستی کے لا مکاں میں مراقبہ کرنا چاہتا ہوں
میں اپنے اندر کے آدمی سے مکالمہ کرنا چاہتا ہوں
ہاں وہی مجھ کو بھی سر سبز کرے گا اک دن
وہ جو زیتون کی شاخوں پہ ثمر رکھتا ہے
مرا عظیم خدا میرے گرم اشکوں کی
قبول کرتا ہے سوغات نصف رات کے بعد
پیلے پھول ، سنہری بیلیں ، گہرے سرخ گلاب
آدھی رات نومبر کی اور اک پورا مہتاب
سو نے کے پانی سے اس نے لکھ بھیجی تحریر
سستے سستے لوگ نہ دیکھیں مہنگے مہنگے خواب
اپنے منفر د اسلوب کے ذریعے محمد محمود احمد نے قبول عام کاجو مقام حاصل
کیاہے وہ اپنی مثا ل آپ ہے۔اس کا اسلوب ہی اس کی شخصیت کا عکاس ہے،جس میں
اس کی زندگی کے جملہ رنگ اور شخصیت کے تمام پہلو سمٹ آئے ہیں۔اس کی حسین
شخصیت کے تما م داخلی نقوش اس کے اسلوب میں رچ بس گئے ہیں۔اس کے جذبات
،احساسات،تجربات اور مشاہدات کی قوسِ قزح نے اس کے اسلوب کے حسن کو چار
چاند لگا دئیے ہیں۔اس کے بصیرت افروزخیالات، ذہن و ذکاوت،سچے جذبات ،قلبی
احساسات اور فکر و تدبر کا سیلِ رواں پُور ی قوت کے ساتھ اس کی تخلیقی
فعالیت میں سما گیا ہے۔قاری اس سیل رواں میں اپنے تخیل کی ناؤ میں سوار
ساحل اُمید کی جانب رواں دواں رہتا ہے۔ محمود احمد نے ہمیشہ اس بات پر
اصرار کیا کہ ایک سچے تخلیق کا رکے اشہبِ قلیم کی جولانیاں اگر تخلیقِ ادب
کے لیے تکریم و تحریم کا وسیلہ ثابت ہوں تو یہ اس کی کامیابی کی دلیل ہے
صرف اسی صورت میں وہ خون بن کر رگِ سنگ میں اُترنے کی کوششوں میں کا میاب
ہو سکتا ہے ۔ حریت فکر کے مجاہد کبھی مصلحت کا شکار نہیں ہوتے بل کہ ہزار
خوف میں بھی ان کی زبان ان کے دِل اور ضمیر کا ساتھ دیتی ہے اور وہ حرف
صداقت لکھنے کو شعا ر بناتے ہیں ۔ وہ کسی صورت میں باد سموم کونسیمِ سحر
اور طوفانِ برق و گرد باد کو باد صبا نہیں کہ سکتے ۔ دردمندی اور خلوص سے
لبریز اس کے لب و لہجے میں بڑی حلاوت تھی ۔ ادبی موضوعات پر حاشیہ آرائی
اور فروغ علم و ادب کے لیے انجمن آرائی اس کا نصب العین تھا ۔ میانوالی میں
علمی ، ادبی ،ثقافتی اور سماجی تنظیم ’’ محمود فائڈیشن ‘‘ کا قیام اس کا
ناقابلِ فراموش کارنامہ ہے جس نے لوح ِ جہاں پر اس کا دام ثبت کر دیا۔ اس
فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ، محفل مسالمہ ، محفل حمد و نعت تنقیدی نشستوں، شام
ِ افسانہ،محفل مشاعرہ اور خواتین کے مشاعروں کا باقاعدگی سے اہتمام ہوتا
تھا ۔ وطن عزیز کے ممتاز ادیبوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ’’ محمود
فائڈیشن ‘‘ کی طرف سے ایوارڈ زدینے کا سلسلہ شروع کیاگیا ۔ میانوالی کی
تاریخ میں نجی سطح پر ادیبوں کی پذیرائی کی یہ اولین کامیاب کاوش تھی جسے
پورے ملک میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ گیتوں اور نغموں کے پُرسوز آہنگ ،
دلکش ترنگ اور خوش رنگ دامنوں میں اپنے آنسو چھپانے والے اس درد مند، مخلص
او رجذبہ انسانیت نوازی سے سر شار تخلیق کا رنے رنگ ، خو شبو اور حسن و
خوبی کے تما م استعارے اپنے سریلے گیتوں میں یک جا کر دیئے ہیں۔ محمد محمود
احمد نے دو سو کے قریب رسیلے گیت لکھے جو بے حد مقبول ہوئے۔ یہ گیت پاکستان
کے ممتاز گلو کاروں نے گا ئے،جنھیں سامعین نے بہت پسند کیا۔ اس کا مشہور
گیت ’’میڈ ا رانجھنا‘‘ذوق سلیم رکھنے والوں کے دل کی دھڑکن سے ہم آہنگ
ہوجاتاہے۔ اس کی خوش مزاجی اور خوش گمانی نے اسے رجائیت پسند بنادیا
تھا۔تعلقات استوار کرنے میں وہ قدرے وضع احتیاط کاقائل تھا مگر جب کسی سے
درد مندی اور خلوص کا معتبررشتہ استوار کر لیتا تو یہ عہدِ وفا اس کے لیے
گردش لیل و نہار کا چارہ گر ثا بت ہوتا ۔اس کی انجمن آرائی کے ا عجاز سے اس
کا حلقہ احباب وسیع ترہوتا چلاگیا۔ اس کے دلی مکا شفات سے اس کے احباب بھی
اچھی طرح آگاہ تھے اسی لیے سب اسے ایک مرد ِخود آگاہ قرار دیتے اور اس سے
والہا نہ محبت کرتے تھے ۔ اس کے قر یبی احباب میں محمد فیروز شاہ ،ڈاکٹر
نثار احمد قریشی ، بشیر سیفی ، صاحب زادہ رفعت سلطان ، ارشاد گرامی ، عطا
شاد، محسن بھوپالی ، صابر آفاقی ، خاطر غزنوی ، رحیم بخش شاہین، اطہر ناسک
، اقبال زخمی ، آصف خان، راجا رسالو ، گداحسین افضل ، محمد شیر افضل جعفری
،سبط الحسن ضیغم، کبیر انور جعفری ،فیض لدھیانوی ،منیر نیازی ،بشارت خان،
دیوان الیاس نصیب ، امیراختر بھٹی ، غلام علی چین ،سعداﷲ کلیم، مظفر علی
ظفر،خادم مگھیانوی اور غفار بابرکے نام قابل ذکرہیں۔ یہ سب لو گ محشر خیال
نہیں بل کہ محشر عمل تھے جو اب ماضی کی تاریخ کاحصہ بن گئے ہیں۔ کیا عظیم
مسا فر تھے جو اس راہ جہاں سے گزر گئے ۔ ان کے نقش پا ہما لیہ کی چوٹی پر
ثبت ہیں۔ ایسے لوگ ریگِ ساحل پر نو شتہ وقت کی تحریر نہیں ہوتے کہ جنھیں
قلزم ِ ہستی کی منہ زور مو جیں بہا کر لے جا ئیں۔
محمد محمود احمد نے عالمی ادبیات کے پاکستانی زبانوں میں تراجم کی اہمیت کو
اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ اُس کا خیا ل تھاکہ عالمی کلاسیک کے تراجم سے
پاکستانی زبانوں کے ادب اور فنون لطیفہ کی ثروت میں اضافہ کیا جا سکتا ہے
۔عالمی کلاسیک کے ان تراجم کے مطالعہ سے اردو زبان و ادب کے طلبا میں وسعت
نظر پیدا ہوتی ہے۔ان تراجم کے وسیلے سے تہذیب و تمدن اور معاشرت و ثقافت کو
اقتضائے وقت کے مطابق عصر ی آگہی سے متمتع کیا جا سکتا ہے۔اظہار و ابلاغ کے
نئے سانچے بھی ان تراجم ہی کے مرہون، منت ہیں۔ پاکستان کی علاقائی زبانوں
میں عالمی کلاسیک کے تراجم کی روایت ابھی تک مستحکم نہیں ہوسکی ۔ایک وسیع
المطالعہ ادیب کی حیثیت سے محمد محمود احمد کو محمد طحہ خان ،صوفی غلام
مصطفی تبسم اور اسیر عابد کی ترجمہ نگاری پسند تھی ۔جدت ، تنوع اور حریت
فکر کو محمد محمود احمدکی شاعری کی اساس سمجھاجاتا ہے ۔ اس نے تیشہء نظر سے
اپنی شاعری کے حسین تاج محل کی تعمیر کی،پامال راہوں سے بچ کر منفرد اندازِ
فکر اپنایا اور اقلیم ِسخن میں خوب رنگ جمایا ۔ اس نے جو طرزِ فغاں منتخب
کی ادبی حلقوں میں اس کی خوب پذیرائی ہو ئی۔ اس کی شا عری قلب اور روح کی
اتھا ہ گہرائیوں میں اُتر جا نے والی اثر آفرینی سے لبریز ہے۔یہی وجہ ہے کہ
اس کی شاعری سنگلاخ چٹانوں ا و ر جامد و ساکت پتھروں کو موم کرکے اپنی اثر
آفرینی کا لوہا منوالیتی ہے۔صنائع بدائع کے بر محل استعمال ، حسن بیان،
زبان و بیان پر خلاقانہ دسترس اور سہل ممتنع کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے
اور جذبوں کی صداقت کا کر شمہ دامن دل کھینچتا ہے۔اس کا اسلوب کہیں سوز و
ساز رومی کا مظہر ہے تو کہیں اس میں پیچ و تاب رازی کی جھلک دکھائی دیتی ہے
اس کے مداح اس کی شاعری کو ساحری سمجھتے ہیں جو قلب و نظر کو مسخر کرکے
قاری پر وجدانی کیفیت طاری کر دیتی ہے۔
معاشرتی زندگی میں بے اعتنائی کی روش عام ہونے لگی ہے اور بے حسی کا عفریت
چاروں طرف منڈلا رہا ہے۔اس آشوب غم میں گریہ کشاں یادیں سوہان روح بن جاتی
ہیں۔ اگر چشمِ تصور سے دیکھیں تو زندگی کی ہر رہ گزر پر محمد محمود احمد کے
نقشِ پا دکھائی دیتے ہیں۔اس کی مقبولیت کا اندازہ اس امر سے لگا یا جاسکتا
ہے کہ اس کے شعری مجموعے ’’عورت ،خوشبواور نماز‘‘کے پانچ ایڈیش شائع ہوئے
۔اُس کا دوسرا شعری مجموعہ ’’آنکھ‘‘زیر ترتیب تھا کہ اجل کے بے رحم ہاتھوں
نے سب کچھ بکھیر دیا اور اُس کی آنکھ مُند گئی۔ابد آشنا اسلوب کا حامل یہ
توانا ادیب جریدہء عالم پر اپنا دوام ثبت کرنے کے بعد چُپ کی شال اوڑھ کر
ابدی نیند سو گیا۔انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔
اب یادِ رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی
یاروں نے کتنی دُور بسائی ہیں بستیاں |