قومی اسمبلی حلقہ246کے ضمنی انتخابات

لیاقت آباد کی یو سی 6,7,8اور گلبرگ ٹاؤن کی تین یو سیز پر مشتمل قومی اسمبلی کا حلقہ نمبر 246ایک ایسا حلقہ ہے جس میں دوسری بار ضمنی انتخاب ہو رہا ہے ،یہ 90% اردو اسپیکنگ علاقہ ہے لیکن یہاں سے ہر دفعہ ایم کیو ایم نے غیر مہاجر امیدوار کو میدان میں اتارا اور اپنے جماعتی اثر و رسوخ کی بنیاد پر ان کو کامیاب کرایا اس علاقے سے 1970 اور 1977کے دونوں انتخابات میں پروفیسر غفور مرحوم کامیاب ہوئے تھے پھر 1985کے انتخاب میں جناب مظفر ہاشمی صاحب کامیاب ہوئے تھے ایم کیو ایم کے میدان سیاست میں آنے کے بعد 1988کے انتخاب میں تو ایم کیو ایم لسانیت کے سیلاب کے باعث بھاری ووٹوں سے کامیاب ہوئی اس کے بعد ایک الیکشن میں ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تو اس علاقے سے جناب حافظ تقی مرحوم کامیاب ہوئے تھے کے جماعت نے ان کی حمایت کی تھی پھر 1999کے بلدیاتی انتخاب میں اس حلقہ انتخاب کی تمام 6یو سیز پر جماعت اسلامی کے یو سی ناظمین کامیاب ہوئے تھے ۔اس پوری تفصیل سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ علاقہ جماعت اسلامی کا علاقہ ہے 2002کے عام انتخاب میں ایم کیو ایم کے امیدوار کے مقابلے جماعت اسلامی کے راشد نسیم صاحب نے بتیس ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے تھے ۔

12مئی 2004کے ضمنی انتخاب میں جماعت اسلامی کے بارہ کارکنان انتخاب والے دن دہشت گردوں کی فائرنگ سے شہید ہوئے تھے اس نشست پر جماعت اسلامی کی بڑی قربانیاں ہیں ۔2013کے انتخاب میں دوپہر بارہ بجے تک راشد نسیم نے ستائیس ہزار ووٹ حاصل کیے تھے جس میں سے سترہ ہزار ووٹ ضائع کردیے گئے تھے یہ کس نے ضائع کیے سب جانتے ہیں اگر بائیکاٹ نہ ہوتا اور شام تک انتخابی عمل میں رہتے تو یہ تعداد دوگنی ہو سکتی تھی ۔تحریک انصاف کے امیدوار شرجیل تھے جو خوف کے باعث انتخابی مہم کے لیے آبادی میں نکل کے بھی نہیں آئے ان کو2013میں جو بتیس ہزار ووٹ ملے اس میں ان کی شخصیت ،تنظیم یا کارکنان کا کوئی کمال نہیں تھا بلکہ پورے ملک میں عمران خان کی جو سحر انگیز انتخابی مہم الیکٹرانک میڈیا پر چل رہی تھی کچھ تو یہ اس کا ثمر تھا اور کچھ یہ کہ ایم کیو ایم کے کارکنان نے بھی اپنے بوگس ووٹوں کی تعداد کو جائز ثابت کرنے کے یہ ضروری سمجھا کہ کچھ جعلی ووٹ تحریک انصاف کو بھی ڈالے جائیں ورنہ ووٹنگ والے دن کی آنکھوں دیکھی صورتحال تو یہ تھی کہ میں نے خود دیکھا کہ ہمارے محلے میں ایک گوشت کی دکان پر بیلٹ باکس رکھا ہوا تھا اور کچھ لوگ بیلٹ پیپرز کی کتاب لیے ہوئے تھے اور کچھ کارکنان اس پر ٹھکا ٹھک مہریں لگا رہے تھے اور ایک گروپ انھیں تہہ کر کے بیلٹ باکس میں ڈال رہا تھا بوگس ووٹنگ کا یہ عمل بر سر عام ہو رہا تھا ۔ہر پولنگ اسٹیشن پر رات نو بجے تک ایم کیو ایم کے کارکنان جعلی ووٹ بھگتاتے رہے ۔ایک پولنگ بوتھ پر ایک کارکن نے اپنے دوست کو بیس سادے بیلٹ پیپرز دیے اس نوجوان نے اس دوست کے سامنے پتنگ پر مہر لگانا شروع کی تین چار بیلٹ پیپرز پر لگانے کے بعد وہ دوست کسی کام سے وہاں سے ہٹ گیا تو اس نے بقیہ پیپرز پر بلے کے نشان پر مہر لگائی ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے جو بھرپور مہم چلائی تھی اس نے پورے ملک کی طرح کراچی کے ووٹروں کو بھی اور بالخصوص ایم کیو ایم کے نوجوانوں اور خواتین کو متاثر کیا ۔
انتخابات کے موقع پر ایم کیو ایم کا طریقہ واردات یہ ہوتا ہے کہ انتخاب سے پہلے ایسی خوف کی فضا بنائی جائے کے عام لوگ گھروں سے ووٹ ڈالنے کے لیے ہی نہ نکلیں اس لیے کہ اگر عام لوگ گھروں سے نکل آئے تو بڑی تعداد میں اینٹی ایم کیو ایم ووٹ کاسٹ ہو جائیں گے اس لیے کہ ایم کیو ایم کے لوگوں کو اپنی اصل حقیقت معلوم ہے خوف کے ماحول کا دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مخالف امیدوار کے کارکنان اور پولنگ ایجنٹس انتخابی عمل سے راہ فرار اختیار کر لیں اور ان کو یہ موقع مل جائے کہ ہر پولنگ اسٹیشن پر اپنے مسلح کارکنان کے ذریعے قبضہ کر کے بے حساب بوگس ووٹنگ کی جائے ۔2013کے انتخابات میں قارئین کو یاد ہوگا کہ انتخاب سے قبل اور دوران مہم ایم کیو ایم کے انتخابی دفاتر کے قریب مسلسل بم دھماکے کرائے گئے جس میں زیادہ تر لوگ زخمی ہوئے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دھماکے کوئی بھی دفتر کے اندر نہیں ہوئے اور ان کا کوئی کارکن ہلاک نہیں ہوا لیکن اس سے خوف کی جو فضا بنی اس کے نتیجے میں لوگ زیادہ تعداد میں نہیں نکل سکے لیکن پھر بھی جتنے لوگ نکلے انھوں نے ایم کیو ایم کے خلاف ہی ووٹ کاسٹ کیا دوپہر تک صورتحال یہ تھی ہر جگہ ایم کیو ایم کے خلاف ووٹ پڑرہے تھے صرف محمد حسین محنتی صاحب دوپہر تک 35 ہزار سے زائد ووٹ لے چکے تھے یہ سچویشن متحدہ کے لیے بڑی خوفناک تھی اس لیے پھر پلان بی پر عمل کیا گیا کہ ایسی خوف کی فضابنائی گئی کہ جماعت اسلامی کو مجبوراَ بائیکاٹ پر جانا پڑا اور بس پھر کیا تھا تحریک انصاف کے پاس تو اتنی تنظیمی قوت نہ تھی کو میدان میں مقابلہ کر پاتی اس لیے سارے پولنگ اسٹیشنز ایم کیو ایم کے قبضے میں آ گئے ۔دوپہر کے بعد یہ خبر تو میں نے خود جیو پر دیکھا کہ جب جیو کے نمائندے نے سکریٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد سے کراچی کے الیکشن کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ کراچی میں تو الیکشن ہوئے ہی نہیں یہاں تو دوبارہ فوج کی نگرانی میں انتخابات ہونے چاہیے ۔

اب جو 23اپریل کو انتخاب ہونے جا رہا ہے اس میں ایم کیو ایم پھر اسی طرح کی خوف کا ماحول بنارہی ہے کہ عام لوگ انتخاب والے دن گھروں سے نہ نکلیں اور مخالفین کو غندہ گردی کے ذریعے خاموش کر دیا جائے اور پھر پولنگ اسٹیشنز پر اپنی من مانی کی جائے۔جمعہ 3اپریل کی رات تقریباَ سوا نو بجے میں لیاقت آباد کے بلاک 8اور9کے درمیانی روڈ سے گزر رہا تھا تو دیکھا کہ تقریباَ پچیس تیس بائیک سوار کسی پر دو اور کسی پر تین لڑکے بیٹھے تھے یہ سب ایم کیو ایم سے وابستہ عام لوگ تھے ہم سمجھے کہ یہ کوئی جلوس کی تیاری کررہے ہیں لیکن کسی کے پاس ایم کیو ایم کے جھنڈے نہیں تھے اس وقت یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ یہ سب کہاں جا رہے ہیں لیکن جب رات کو ٹی وی چینلز پر کریم آباد پر تحریک انصاف کے انتخابی دفتر پر حملے کی خبر دیکھی تو تو پتا چل گیا کہ یہ سارے نوجوان کہاں کی تیاری کررہے تھے ۔یہ سب پیشگی منصوبہ بندی کا حصہ تھا کہ جب کیمپ پر دھاوا بولا جارہاتھا تو تحریک انصاف والے ایم کیو ایم کے رہنماؤں کو فون کررہے تھے لیکن دوسری طرف سے فون بند جارہا تھا لیکن جب کیمپ گر گیا تو حیدر عباس رضوی سمیت تمام رہنما آگئے اور انھوں نے ٹینٹ کو دوبارہ لگانا شروع کردیا اور میڈیا کو یہ بیان دیا کہ یہ ہمارے کارکنان نہیں تھے بلکہ عوام تھے جنھوں نے قائد تحریک کی محبت میں یہ سب کچھ کیا یہ ہمیں بدنام کرنے کی سازش ہے ۔

اگر اس ضمنی انتخاب کو بہتر طریقے سے منعقد کروانا ہے تو اسے رینجرز کے حوالے کیا جائے اور الیکشن والے دن فوج کی نگرانی میں انتخاب منعقد کرائیں جائیں ۔لیکن ایک اہم بات یہ ہے کہ اس علاقے میں تحریک انصاف کے کچھ ووٹ تو ہو سکتے ہیں لیکن یہاں پر ان کے کارکن اور ان کی تنظیم اتنی مضبوط نہیں ہے جو ایم کیو ایم جیسی منظم تنظیم کا مقابلہ کر سکے۔اس لیے تحریک انصاف کو اپنا امید وار جماعت اسلامی کے حق میں دستبردار کر الینا چاہیے اگر فوج کی نگرانی میں انتخاب کرائے گئے تو جماعت اسلامی میں اتنی قوت اور صلاحیت موجود ہے کے وہ ایم کیو ایم کے جبڑے اپنی اس کھوئی ہوئی نشست کو دوبارہ حاصل کرلے ۔

Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 60 Articles with 43697 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.