ما بعد جدیدیت اور گوپی چند نارنگ

میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
واضح رہے کہ مابعدجدیدیت سے مراد کوئی سکہ بند فارمولا، یا تحریک نہیں ہے بلکہ وہ کشادہ اور تکثیری فضا ہے جو ہر نوع کی انتہاپسندی کا یا ضابطہ بند نظریوں کا جو ادّعائیت اور جکڑی بندی کا شکار ہیں، یا لیک پر چلنے پر اصرار کرتے ہیں اور ادب کے کھلے ڈلے رویوں یا ذہنی کشادگی کے آڑے آتے ہیں ان سب کا رد ہے۔ مابعد جدیدیت موجودہ صورت حال میں تخلیقیت کی رنگارنگی اور ادب کی آزادی کی نقیب ہے۔ مظلوم حاشیائی طبقوں کا ادب، اقلیتی مسائل کا ادب، تانیثیت کا ادب، دلت ومرش، ردتشکیل، ثقافتی مطالعات اور مابعد نوآبادیاتی مسائل جو نئی تخلیقیت، نئی فکریات، ثقافتی جڑوں اور آزادانہ سماجی سروکار پر زور دیتے ہیں، یہ سب ادبی رویے مابعد جدید فکر کا حصہ تصور کیے جاسکتے ہیں۔ وقت بدلتا ہے تو کلچر اور ادبی رویے بھی بدلتے ہیں۔ اس کا کوئی سکہ بند منشور، کوئی منصوبہ، کوئی تحریک، کوئی خاص رسالہ، یا مرکز، یا سالار نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد کشادہ نئی ادبی فضا اور نئی تخلیقیت اور نیا ادب اور آزادی و کشادگی ہے۔ کوئی ایک تعریف اس کی پوری تعریف نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ زندہ، توانا اور متحرک نئی فکریات کا سفر ہے جو نظروں کے سامنے ہے۔

ترقی پسندی کا خاتمہ لگ بھگ پچاس کی دہائی اور جدیدیت بھی ستّر کی دہائی کے آس پاس دم توڑ رہی تھی اور ادب کُش غیرضروری بحثوں کا شکار ہوگئی۔ 1980تک آتے آتے اس کی تازگی بھی ختم ہوگئی۔ مابعدجدیدیت کوئی تحریک نہیں ہے اور نہ ہی اس کا کوئی امام ہے بلکہ اس میں آزاد تخلیقیت کی راہیں کھلی ہیں یا منصوبہ بندی نظریوں کی مابعدجدیدیت میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ ما بعد جدیدیت کوئی منصوبہ بند نظریہ نہیں ہے بلکہ نظریوں کا رد ہے۔ اس میں ذہنی آزادی ہے، تخلیقی آزادی ہے، کسی کی غلامی نہیں۔ تخلیق کار آزادانہ نئی بصیرتوں کے تحت اپنی تخلیقی کاوش کو پیش کرتا ہے۔ ترقی پسندی اور جدیدیت کے زوال پذیر ہونے کا سب سے بڑی وجہ یہی تھی کہ چاہے ادیب ہو یا، شاعر، ناول نویس یا پھر افسانہ نگار اُن کو غیرمشروط آزادی نہیں تھی اور بندھے ٹکے نظریے اور لیک کے تحت اپنی تخلیقی کاوش کو پیش کرنے پر اصرار تھا۔ دونوں تحریکیں ایک کے بعد ایک خود اپنی انتہاپسندی کا شکار اور تازگی سے تہی ہوگئیں۔ 1980 کے بعد آنے والی نسل کو نظر انداز کیا جانے لگا کیونکہ نہ اُن کے پاس کوئی نعرہ تھا اور ہی کوئی ہدایت نامہ یا باضابطہ تحریک تھی، بلکہ اُن کے یہاں کھلی ڈلی آزادانہ تخلیقیت تھی۔ اسی وجہ سے نئے ادیب کہتے تھے ان کا تعلق نہ سکہ بند جدیدیت سے ہے نہ سکہ بند ترقی پسندی سے جو دونوں ازکار رفتہ ہوگئے۔ نئی نسل کو اپنا نقاد خود پیدا کرنا چاہیے اس سے زیادہ لغویات کہی نہیں جاسکتی کیونکہ ادب ایک کُل ہے اس کے میکانکی ٹکڑے نہیں کیے جاسکتے۔ فاروقی صاحب نے اُردو ادب میں ہو رہی تبدیلیوں کی آہٹ کو اور جدیدیت کی پسپائی کو محسوس کرلیا تھا کہ جدیدیت کے زوال پذیر ہونے کے بعد کوئی نیا نظریۂ ادب اُس کی جگہ لے گا۔ شمس الرحمٰن فاروقی صاحب کو اقرار کرتے ہوئے صاف صاف لکھنا پڑا :
’’مجھے اس بات سے کوئی خوف نہیں آتا کہ نئے لکھنے والے جدیدیت سے انحراف کریں گے یا کرنا چاہیں گے۔ ادبی اصول و نظریات کو میں ترقی پسندوں کی طرح مطلق اور آفاقی اور ہمہ وقتی نہیں سمجھتا۔ ادب کے بارے میں کئی طرح کے نظریات صحیح ثابت ہو سکیں گے۔ جدیدیت کوئی مذہب نہیں، کوئی الہامی فلسفہ نہیں، جس سے انحراف کفر ہو․․․․․ ایک دن وہ بھی ہوگا جب جدیدیت اپنا کام اچھا برا کر چکے گی۔ کوئی اور نظریۂ ادب اس کی جگہ لے گا۔ میں اس دن کا منتظر ہوں۔ ‘‘
(ـ’’ہماری ادبی صورت حال‘‘ شب خون)

اسی زمانے میں نئی فکریات اور صورت حال پر گوپی چند نارنگ کی تاریخ ساز کتاب ’ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘ آٹھویں دہائی میں شائع ہوئی جس سے بھونچال سا آگیا۔ نویں دہائی میں ’نئے ادبی منظرنامے اور ما بعد جدیدیت پر مکالمہ‘ کے نام سے گوپی چند نارنگ صاحب نے پہلا اور اہم تاریخ ساز سیمینار اُردو اکادمی دھلی کے زیر اہتمام کیا۔ جس میں نئی نسل کے ادیب، شاعر، ناول نگار، افسانہ نگار، ناقد، محقق اور دانشوروں کو کھل کر اپنے خیالات و تاثرات کا اظہار کرنے کا پہلی بار موقع دیا گیا۔ اسی زمانے میں نئی نسل کے نمائندے خورشید اکبر نے اپنی کتاب ’’مخدوم محی الدین: حیات اور شاعری‘‘ کے دیباچہ میں اپنے معنی خیز خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا :
’’اُردو ادب میں ایک ذہین حساس اور با شعور نسل رفتہ رفتہ سامنے آ رہی ہے، جو تحقیق تنقید اور تخلیق تینوں سطحوں پر تازہ دم اور حوصلہ مند ہے۔ یہ نئی کھیپ ماضی کے صحت مند اقدار کی بازیافت حال کے ہمہ جہت عرفان اور مستقبل کی روشن سمت کے لیے مصروف ریاضت ہے۔ اسے اپنی شناخت کے لیے کسی محمد حسن یا کسی فاروقی کی چنداں ضرورت نہیں ہے کیونکہ اپنے ادبی ورثے اور موجودہ سرمائے کی چھان پھٹک کے لیے اسے اپنی تنقید خود کرنی ہوگی۔ ‘‘

یہ زمینی حقیقت تھی اور اُردو ادب میں ہو رہی تبدیلی کی آہٹ کو خورشید اکبر اور متعدد ادیبوں نے محسوس کیا جس کو انھوں نے بڑی بے باکی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ جدیدیت کے امام شمس الرحمٰن فاروقی نے بھی اس بات کا اعتراف کیا :
’’ایسا تو نہیں ہے کہ ہمیں لوگ بڈھے ہو گئے ہیں، کیونکہ اُس وقت ہمیں لوگ اعتراض کرتے تھے اپنے بزرگوں پر کہ صاحب آپ لوگ بوڑھے ہو گئے ہیں․․․․ اور اب آپ لوگوں کو اپنی کرسیاں ہلتی ہوئی نظر آ رہی ہیں اور ویسے بھی پُرانے ہو جانے کی بنا پر آپ کے نظریے میں وہ لچک نہیں ہے جس سے آپ ہم لوگوں کو پڑھ سکیں۔ کیا اس طرح کا الزام یا اعتراض ہم پر بھی عائد ہو سکتا ہے کہ اب تو بوڑھے ہو گئے ہو۔ لہذٰ تم لوگوں میں یہ کمزوری آ گئی ہے جو تمہارے پیشرووں میں تھی کہ تم اپنے سامنے کی چیزوں کو نہیں پڑھ سکتے․․․․ہم لوگ، کم از کم میں بوڑھا ہو چکا ہوں اور اس لیے مجھے اپنے بع والوں کی تحریریں دکھائی نہیں دے رہی ہیں جس طرح سے کہ ہم لوگ اپنے بزرگوں سے شکایت کیا کرتے تھے۔ ‘‘
(ایوان اُردو، اپریل 1995 ، ص 16)

کیا یہی وجہ تھی کہ ’شب خون‘ بند ہوا اور جدیدیت کے ہدایت ناموں کی گنجائش نہ رہنے کے بعد محترم نے ’بینی مادھو رسوا‘ کا لبادہ اوڑھ لیا۔

ما بعد جدیدیت اس بات پر زور دیتی ہے کہ ادب پر پہرا نہیں بٹھایا جا سکتا ہے۔ وہ ادب کبھی پھل پھول نہیں سکتا اور نہ ہی ترقی کر سکتا ہے جہاں تخلیق کار کے ذہن پر پابندی عائد کی جائے۔ سچا تخلیق کار کسی سکہ بند نظریے کا غلام نہیں ہوتا بلکہ آزادنہ طور پر اپنی اقدار کا انتخاب کرتا ہے۔ گوپی چند نارنگ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے بے لوث ذہنی آزادی کی طرف توجہ دلائی اور فکری طور پر نئی بصیرتوں کے در وا کیے جس کا نئی نسل کے افسانہ نگاروں، ناول نگاروں اور شاعروں پر گہرا اثر پڑا اور 1980کے بعد انھوں نے اس بات کو صاف طور پر کہنا شروع کر دیا کہ اب اُن کا تعلق نہ سکہ بند ترقی پسندی سے ہے اور نہ ہی آسیب زدہ اور بیگانگی زدہ جدیدیت سے ہے اور پھریہیں سے اُردو میں ایک خاموش انقلاب پرور اور انقلاب آفریں ما بعد جدیددور کی شروعات ہوتی ہے۔ اُردو زبان و ادب میں ما بعد جدیدیت کے آغاز اور اُس کی اہمیت،افادیت و معنویت کے ضمن میں گوپی چند نارنگ اپنے بصیرت افروز خیالات و تاثرات کا اظہار اپنے ایک انٹر ویو میں کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’اُردو میں ما بعد جدید کا آغاز وہیں سے ہوتا ہے جہاں سے نئی پیڑھی کے افسانہ نگاروں اور شاعروں نے صاف صاف کہنا شروع کیا کہ ان کا تعلق نہ ترقی پسندی سے ہے نہ جدیدیت سے۔ اتنی بات معلوم ہے کہ ادب میں تحریکیں یا رجحانات کلینڈر کے اوراق کی طرح نہیں بدلا کرتے کہ فلاں دن سے فلاں چیز کا آغاز ہو گیا۔ ایسا سوچنا ہی غیر ادبی ہے۔ ادب میں تبدیلیاں بتدریج اور تاریخی طور پر ہوتی ہیں۔ یہ کسی کے حکم نامے سے نہیں بلکہ تاریخی اور فکری حالات سے اور ادب کے اندرونی تحرک سے پیدا ہوتی ہیں۔ بعض اوقات کئی کئی رجحان شانہ بہ شانہ بھی چلتے ہیں اور ایک دوسرے کی تردید بھی کرتے ہیں اور تکمیل بھی۔ ادب فکری تنوع اور انحراف و اجتہاد سے فروغ پاتا ہے، یکسانیت اس کے لیے زہر ہے۔ جو لوگ ایک ہی نظریے، ایک ہی رجحان یا ایک لیک پر اصرار کرتے ہیں وہ ادب میں جبر اور ادعائیت کو راہ دیتے ہیں۔ سچا ادب چونکہ آزادہ رو ہوتا ہے وہ لکھنے والے کی ذہنی آزادی اور اس کے ضمیر کی آواز ہوتا ہے۔ یہ آواز ادّعائیت کو برداشت نہیں کرتی اور تبدیلی کی فضا تیار کرتی ہے۔ ترقی پسندی جب ادّعائیت اور سیاست زدہ establishment کے درجے کو پہنچ گئی توجدیدیت نے باغیانہ کردار ادا کیا۔ پھر جب جدیدیت بھی ادّعائیت حکم ناموں اور establishment کے درجے کو پہنچ گئی تو مابعد جدید فکر نے اس کی کوتاہیوں کو آشکارا کیا۔ ردّ و قبول اور اقرار و انحراف کا یہ سلسلہ ادب میں ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ زندہ زبانوں میں بہتے ہوئے پانی کی کیفیت ہوتی ہے۔ یہ پانی ایک جگہ پر ٹھہر جائے تو سڑاندھ پیدا ہو جاتی ہے۔ اُردو میں ما بعد جدید فکر اسی سڑاندھ کو دور کرنے کا نام ہے۔ کئی بار ادبی رویّے ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو بھی چلتے ہیں جن میں بالآخر ایک پسپا ہو جاتا ہے اور دوسرا اپنی اندرونی تازگی کی وجہ سے جاری رہتا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا جب حلقہ اربابِ ذوق کے شعرا کام کر رہے تھے اور ہئیت پرستی پر اصرار کر رہے تھے تو ترقی پسندی بھی اپنی عوام دوستی، سامراج دشمنی اور سماجی وابستگی کی بات اُٹھا رہی تھی۔ پندرہ بیس برس تک یہ کشاکش پہلو بہ پہلو جاری رہی، حتیٰ کہ ترقی پسندی کو بے حد مقبولیت حاصل ہوئی، لیکن آزادی کے بعد جب ترقی پسندی میں سیاسی نعرے بازی، خطابت اور اشتہاریت کی لَے بڑھ گئی تو اُسی حلقۂ اربابِ ذوق کے نمائندہ شعرا یعنی راشد، میرا جی، اخترالایمان وغیرہ جدیدیت کے پیش رو کہلائے۔ اس کے بعد بیس، پچیس برس میں جدیدیت کی تازگی بھی ختم ہو گئی اور اس کا الاؤ ٹھنڈا پڑنے لگا۔ نیز جب جدیدیت میں روایتی کلاسیکیت کی کھلی تقلید بے روح ہیئت پرستی کا آسیب منہ چڑھانے لگا تو نئی پیڑھی کے افسانہ نگار اور شاعر بھی اپنی برأت کا اظہار کرنے لگے۔ دوسری ہندوستانی زبانوں میں ’اُتّر آدھونکتا‘ کا آغاز ایمرجنسی کے زمانے سے مانا جاتا ہے جب جبر کی وجہ سے سماجی اور سیاسی مسائل شدت اختیار کر گئے۔ اُردو میں بھی عام طور سے نئی پیڑھی کے لکھنے والوں کی رائے یہ ہے کہ 1980کی دہائی سے تبدیلی کے آثار صاف دکھائی دینے لگے تھے۔ اسی زمانے میں ضرورت سے زیادہ بڑھی ہوئی علامتیت، یاسیت اور بیگانگیت کے خلاف آواز اٹھائی گئی۔ شکست ذات اور غیر ضروری داخلیت رد ہوئی۔ کشادہ سماجی سروکار پر زور دیا جانے لگا۔ ادبی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے سیاسی موضوعات taboo نہ رہے۔ حکم ناموں اور آمرانہ فتووں کو ٹھکرایا جانے لگا۔ کہانی میں کہانی پن کا چلن عام ہوا، بیانیہ کی بحالی کو محسوس کیا گیا، کتھا کہانی، حکایتی داستانی اسلوب اور تہذیبی جڑوں اوراساطیر کا عرفان بڑھا اور اُردو ادب اپنے اس قاری سے جڑنے لگا جس کو جدیدیت نے علی الا علان گنوا دیا تھا۔ معنی کے محدود نہ ہونے یا تکثیریت کی نظریاتی بحثیں بھی اسی زمانے میں سامنے آئیں۔ ‘‘
(جدیدیت کے بعد، ص 559، 560 اور 561)

گوپی چند نارنگ نے ما بعد جدیدیت کے ضمن میں تخلیقی آزادی، سماجی سروکار، ثقافتی تشخص اور ادب کی تازہ فکری پر اپنی کتابوں اور تحریروں میں مدلل بحث کی ہے۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ما بعد جدید ادیب و شاعر اور افسانہ نگار اور ناول نگاروں کو پوری تخلیقی ذہنی آزادی ہے کہ وہ اپنے دل کی بات کسی بھی صنف اور اقداری انسانی موقف میں تخلیق کریں۔ ادبی تخلیق پر پہرہ نہیں بٹھایا جا سکتا ہے۔ نئی نسل یعنی 1980 کے بعد کے ادبا و شعرا کے یہاں ہمیں تیزی سے بدلتا ہوا شعری و ادبی تخلیقیت افروز منظر نامہ، عالمی قومی اور مقامی علاقائی تہذیب و ثقافت کا شدید احساس، جاگیردارانہ عہد کے وضع کردہ ادبی اور جمالیاتی پیمانوں سے انکار، ہندوستانی ثقافت کے مشترکہ عناصر و اقدار، غیرمشروط روحانیت، مرکزیت، تکثیریت، رنگارنگی، کثیرالمعنویت اور بے لوث آزاد فکر و نظر نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ ما بعد جدید ادب ہر طرح کی نظرسازی، جتھا پسندی، کلیت پسندی، آمریت ، فارمولا بندی، ضابطہ بندی، یکسانیت اور ہمہ نظمی کی رد تشکیل ہے اور وہ بُنیادی طور پر تکثیریت ، رنگارنگی، بوقلمونی، کثیرالوضعیت، مرکزیت ، بین المتونیت ، مقامیت اور تخلیقیت پر خاص طور سے زور دیتی ہے۔ تکثیریت، نئی نسل اور مابعد جدیدیت کی ابتدا کے ضمن میں دانشور، مفکر اور ’’اردو مابعدجدیدیت‘‘ کے بُنیاد گزارپروفیسرگوپی چند نارنگ صاحب اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں :
’’تکثیریت کے فلسفے کے کئی روپ ہیں، دلت، nativeدیسی واد، بھاشاازم، ہندوستانی فیمنزم، پوسٹ کولونیل کلچرل مطالعات۔ ہم جو بھی نام چاہیں دے سکتے ہیں۔ لیکن نظریے، نام یا اصطلاحیں اہم نہیں، یہ اپنے آپ طے پا جاتی ہیں، صورت حال کے اثر سے اور رواج اور چلن کے تقاضوں سے۔ مابعدجدیدیت محض ایک cover term ہے، یہ نام ہے کئی تخلیقی و فکری رویوں کے مجموعے کا، جس کی پوری تعریف ممکن نہیں، اور جس کا استعمال مختلف معاشروں اور مختلف زبانوں میں مختلف طور پر ہو رہا ہے۔ یہ کون کہتا ہے کہ ہم دوسروں کے طور کی تقلید کریں۔ تقلید تخلیق کی ضد اُردو کو اپنا نیا تخلیقی طور خود وضع کرنا ہے۔ وہ وضع ہو رہا ہے اور ہم چاہیں یا نہ چاہیں یہ ہوتا جائے گا۔ ادھر بعض لوگوں نے طرح طرح کے انوکھے نام تجویز کیے ہیں۔ ادب سیاست کا میدان نہیں کہ ہر علاقہ اور ہر ذات برادری اپنی پارٹی بنا لے اور اس پر اصرار کرے۔ سچا ادب گروہی سیاست کا نام نہیں۔ ادب میں ہر شے آزادانہ رواج اور چلن اور کلچر کی صورت حال سے طے ہوتی ہے۔ اصطلاحیں الل ٹپ نہیں سُجھائی جاتیں، ضروری ہے کہ ان میں ادبی اور تہذیبی معنویت ہو، مقامی بھی، اور عالمی بھی۔ ورنہ دہی کلھیا میں گڑ پھوڑنے والی بات ہوگی۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ نئی نسل سے مراد کون سی نئی نسل، اسّی کی نسل، نوّے کی نسل، ہر دہائی کی نسل کو بعض لوگ الگ سمجھتے ہیں۔ ان کو نہیں معلوم کہ ادب میں رویے و رجحان سال بہ سال نہیں بدلا کرتے، نسلیں پیڑھیاں صفر لگانے سے نام نہیں پاتیں، اپنی معنویت اور تاریخی اور ادبی عوامل سے شناخت پاتی ہیں۔ ہندی، بنگالی، کنڑ اور بہت سی دوسری زبانوں والے ایمرجنسی کے بعد اُتّر آدھونکتا(ما بعد جدیدیت) کا آغاز کرتے ہیں یا اسّی کی دہائی سے۔ ہمارے یہاں بھی فضا لگ بھگ اسی زمانے میں بدلنا شروع ہوئی یعنی 1980 کے بعد سے، اور اگر ضروری ہو تو اسی کو زمانی آغاز مان لینے میں حرج نہیں۔‘‘
(جدیدیت کے بعد:ص 96)

آج مہابیانیہ کا دور ختم ہو گیا ہے اور مقامی بیانیہ کا دور ہے۔ ترقی پسندی مصنف (Writer) پر، جدیدیت متن (Text) پر زور دیتی تھی جبکہ ما بعدجدیدیت فوق متن (Meta Text)، متن سازی کے عمل (Writing) اور پڑھنے کے عمل (Reading) قرأت و معنی خیزی کو زیادہ اہمیت دیتی ہے۔ اردو مابعد جدیدیت کے بُنیادگزار پروفیسر گوپی چند نارنگ نے نئی نسل کے ادیبوں، شاعروں، ناول نگاروں اور افسانہ نگاروں کے ادبی تخلیقات کو مابعدجدید ادب سے روشناس کرایا اور اُن کو اُردوادب کا حصّہ بنایا۔ انھوں نے ترقی پسندی، جدیدیت اور مابعدجدیدیت کے بنیادی فرق کو بہت ہی خوش اسلوبی اور ذہانت کے ساتھ واضح کیا ہے تاکہ نئی نسل خاص کر نوجوانوں کے ذہن میں جو خلفشار عمداً پیدا کیا گیا ہے اُس کو دور کیا جا سکے۔ اس سلسلے میں گوپی چند نارنگ کے پرُ مغز اور معنی خیز خیالات و تاثرات خاطرنشیں ہوں :
’’بے شک ادب کے لیے فن کے تقاضے پورے کرنا پہلی شرط ہے۔ ما بعد جدیدیت کے دور میں فن کی وہی اہمیت ہے جو جدیدیت کے دور میں تھی۔ یہ اہمیت تو ہمیشہ سے ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ما بعد جدیدیت فن کے میکانکی تصور کی نفی کرتی ہے کہ فن ہرگز یہ نہیں کہتا کہ ادب فقط گرامر سے بنتا ہے۔ فن یہ نہیں کہتا کہ زندگی سے منہ موڑا جائے۔ زندگی سے منہ موڑ کر تو فن بھی فن نہیں رہتا۔ ادبی قدر کا مجرد تصور ہی غلط ہے کیونکہ سچّی ادبی قدر زندگی کے معنی کی حامل ہوتی ہے اور سماجی احساس اور ثقافتی سروکار سے بے نیاز نہیں ہوتی۔ رعایت لفظی، ایہام یا علامت کوئی نسخہ نہیں کہ ان کو گھول کر پی لینے سے ادب بن جائے۔ غالب نے کہا تھا’’شاعری قافیہ پیمائی نہیں معنی آفرینی ہے۔ ‘‘

لیکن سماجی سروکار کا مطلب سابقہ ترقی پسندوں کی فارمولائی نظریاتی وابستگی یا نعرہ بازی بھی نہیں۔ ترقی پسندی نے ایک نظریے کو آخری سچّائی سمجھا اور اس کی پیروی کو فرض جانا جبکہ حریت پسندی، سماجی وابستگی اور وطن دوستی برحق تھیں۔ ما بعد جدیدیت کسی نطریے کو آخری سچّائی نہیں سمجھتی نہ کوئی حکم نامہ جاری کرتی ہے۔ البتہ ہر تخلیق کار آزادانہ اپنا کوئی نہ کوئی نقطۂ نظر رکھتا ہے جو کسی نہ کسی نظریۂ اقدار کی ترجمانی کرتا ہے، یہی سماجی سروکار ہے۔ نئی فکر کسی نظریے کے بارے میں گارنٹی نہیں دیتی کہ راہ نجات اس میں ہے، ادیب کو آزادی ہے کہ جس نظریے سے چاہے تخلیقی معاملہ کرے۔ یہ صورت حال سابقہ تمام صورتوں سے مختلف ہے۔ اس کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ ترقی پسندی ایک اور صرف ایک نظریے پر اصرار کرتی تھی۔ جدیدیت سرے سے نظریے سے ہی انکاری تھی جبکہ سکہ بند فارمولا بن گئی تھی۔ ما بعد جدیدیت کہتی ہے کہ نطریے سب غلط ہیں اس لیے کہ نظریے مزاجاً جبریت آشنا اور کلیّت پسند ہوتے ہیں اس لیے تخلیقی آزادی کے خلاف ہیں، البتہ ادب خلا میں نہیں لکھا جاتا، اقدار سے آزادانہ معاملہ کرنا تخلیق کار کا حق ہے اور ادب تخلیق کرنا اس حق کا استعمال کرنا ہے۔ گویا ادب میں مصنف کی انفرادی آئیڈیولوجی کو حتمی یا آخری سچّائی نہیں مانتی، تاہم آزادانہ نقطۂ نظر یا انفرادی آئیڈیولوجیکل موقف کی ناگزیریت کو تسلیم کرتی ہے۔ یہ موقف پچھلے دونوں موقف سے مختلف ہے۔ ‘‘
(جدیدیت کے بعد: ص 81اور 82)
گوپی چند نارنگ صاحب نے اپنی تازہ فکری اور شعور و آگہی کی روشنی سے ما بعد جدیدیت کے ضمن میں جومختصر نکات اخذکیے ہیں وہ قابلِ ذکر و ٖفکر ہیں جو حسب ذیل ہیں:
(1) نئی فکریات کسی بھی نظریے کو حتمی اور مطلق نہیں مانتی۔ یہ سِرے سے نظریہ دینے کے خلاف ہے۔ ہر نظریہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے استبدادی ہوتا۔ اس لیے تخلیقیت اور آزادی کے منافی ہے۔
(2) نئی فکر ہیگل کے ارتقائے تاریخ کے نظریے کے خلاف ہے۔ حقائق سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ تاریخ کا سفر لازماً ترقی کی راہ میں ہے۔
(3) انسانی معاثرہ بالقوۃ جابر اور استبدادی ہے اور استحصال فقط طبقاتی نوعیت کا حامل نہیں۔
(4) ریاست سماجی اور سیاسی جبر کا سب سے بڑا اور مرکزی ادارہ ہے۔
(5) سماجی، سیاسی، ادبی، ہر معاملے میں غیر مقلدیت مرجح ہے۔
(6) کسی بھی نظام کی کسوٹی حقوق انسانی اور شخصی آزادی ہیں۔ یہ نہیں تو سیاسی آزادی فریب نظر ہے۔
(7) ’مہا بیانیہ‘ کا زمانہ نہیں رہا۔ ’مہا بیانیہ‘ ختم ہو گئے ہیں یا زیر زمین چلے گئے ہیں۔ یہ دور ’مقامی بیانیہ‘ کا ہے۔ مقامی ’چھوٹے بیانیہ‘ غیر اہم نہیں ہیں، یہ توجہ کا استحقاق رکھتے ہیں۔
(8) مابعد جدیدیت ہر طرح کی کلیت پسندی اور فارمولا سازی اور ضبطہ بندی کے خلاف ہے اور اس کے مقابلے پر مخصوص اور مقامی پر، نیز کھلے ڈلے، فطری، بے محابا اور آزادانہSPONTANEOUSاظہار و عمل پر اصرار کرتی ہے۔
(9) ما بعد جدید عالمی مفکرین کا رویہ بالعموم یہ ہے:
'IF MARX ISN'T RIGHT THEN NOTHING IS'
مابعدجدید تنقید و ادب کے نکات و امتیازات کے ضمن میں مفکر و دانشور نظام صدیقی نے اپنی فکری و فنّی شعور و آگہی کی روشنی میں بڑی بے باکی کے ساتھ کھل کر بحث کی ہے۔ جس سے ما بعد جدیدیت کی فکری اور فنّی تصویر اور اُس کے امتیازات صاف طور پر عیاں ہو جاتے ہیں۔ انھوں نے اپنی تخلیقیت افروز آگہی کی روشنی سے ما بعد جدیدیت کے جو نکات وامتیازات پیش کیے ہیں وہ قابلِ غور وفکر ہیں۔
(1) اکیسویں صدی کے ما بعد جدید تناظر میں معاصر اردو شعری اور افسانوی ادب اور خصوصی طور پر ما بعد جدید تنقید اپنی مخصوص شعریات کی تخلیق کر رہی ہے جو جامد اور ساکن کردار کی حامل نہیں ہے بلکہ ایک زندہ نامیاتی اور متحرک کردار کی امین ما بعد جدید نئی جمالیات اور نئی قدریات وجود میں آ رہی ہے جس کی اساس رد تشکیل کی فکریات پر ہے۔ ایک یکسر نیا ذہنی رویہ اور اطلاقی طریق کار عصری شعری اور افسانوی ادب کی بابت رو پذیر ہے جو حد درجہ کی ذات گزیدگی، بیمار تنہائی زدگی، شکست خوردگی اور ہر نوعیت کی جدیدیت پسند انتہا پسندیوں کی رد تشکیل کر رہی ہے اور نئے اضافی سیاق میں یکسر نئے توازن کی متلاشی ہے۔ فی زمانہ پراناتوازن بھی قا بل ر دہے۔
(2) ما بعد جدید فکریات جدیدیت پسند موضوعات کی یکسانیت، ہم نظمی اور فارمولائیت سے گریزاں ہے۔ وہ نہایت شعوری طور پر ’بیگانگی‘، ’نااُمیدی‘، ’برافردختگی‘، ’نمائشی کرب‘، ’شکست خوردگی‘، ’دو نیم شخصیتی‘، ’واہمہ سازی‘، ’غیرصحت مند تنہائی گزیدگی‘، ’ذات کی حد درجہ داخلیت پسندی‘، ’جلا وطنی‘، ’بے جڑی‘، ’منفی تشکیک زدگی‘، ’منفی نمائشی انکار پسندی‘، ’ازالہ سحر‘، ’بوریت‘، ’افسردگی‘، ’لغویت‘، ’بے معنویت‘ اور ’مریضانہ فردیت پسندی‘ کے چوبی تصورقت کی بیجا اور بے معنی تکرار سے احتراز کرتی ہے۔
(3) اسلوبیاتی، ساختیاتی، ما بعد ساختیاتی اور اضافی اصطلاحوں اور معنوں میں ما بعد جدید شعرا افرسودہ، پامال جدیدیت پروردہ ہیئتی تنقیدکے محض خالص ادبی معیاروں اور زندگی کش اُصولوں کو برملا منسوخ کرتے ہیں جو غیر صحت منددقیانوسیت گزیدگی اور دوراز قیاس ابہام ، اشکال اور اہمال کے پرورش کنندہ ہیں۔ وہ نہایت شعوری طور پر مشرقی تہذیبی جڑوں ، تہذیبی ثقافت، تہذیبی سچائی اور تہذیبی دیسی واد پر اصرار کرتے ہیں۔ انجام کار دیسی لوک ہئیتی اور عوامی ساختیں اور مختلف نئے کثیرالوضع شعری اصناف کے نئے تجربے کے خلاف نہیں بشرطیکہ ان میں کچھ تخلیقیت اور ادبیت ہو۔
(4 ) مابعدجدید ادب میں خارجی ساخت اور داخلی ساخت کے تصور کی آمد نے اُردو قاری کو شدت سے احساس دلایا ہے کہ تخلیقی زبان کچھ حد تک ، نہایت صاف و شفاف وسیلۂ اظہار نہیں ہے یہ یکسر نیا تخلیقیت افروز ویژن ہی ہے جو خصوصی موضوع اور خصوصی ہئیت میں بیک وقت منقلب ہوتا ہے۔ یہی اول و آخر تخلیقیت پرور ویژن ہے جو خفیف نشان(Trace)، نشان(Sign)، تفریقیت (Difference) اور التوا (Deferment) کی سطح پر عمل آرا ہوتا ہے اور بالآخر اکبری تحریر (Arch Writing) کو منکشف کرتا ہے۔ مابعد جدید شعرا کی تخلیقی ترسیل کا موزوں، اسلوب شعوری طور پر جدیدیت پسند شعرا کے انتہائی فردیت گزیدہ مبہم اور کہر آلود طرز اظہار سے قطعاً مختلف ہوتا ہے۔
(5) ہر نوعیت کی فارمولائی اور فیشنی اسالیب اور غیر تخلیقی تحریرات کے میکانکی آداب و آئین کے خلاف ما بعد جدیدیت ایک خاموش بغاوت ہے۔ اس میں موضوعاتی، اسلوبیاتی، ہئیتی اور ساختیاتی سطح پر قطعاً یکسانیت پسندی، مشروطیت پسندی، یک رنگی پسندی اور نظریہ بندی نہیں ہوتی ہے۔ یہ سب حقیقی تخلیقیت اور معنویت کی دشمن ہیں جیسا کہ بے مثل ناقد اور تھیوری ساز پروفیسر گوپی چند نارنگ فرماتے ہیں۔ ’’ہم ایک ایسے ما بعد جدیدیت کے عہد میں زندگی گزار رہے ہیں جو تخلیقیت کا جشن جاریہ ہے۔‘‘
(6) تخلیقی زبان جو کچھ بھی حتی الامکان اپنی گرفت میں لیتی ہے۔ اس کو اصطلاحاً ’’حقیقی‘‘ سے موسوم کیا جا سکتا ہے۔ بطور خاص زبان اپنی خصوصی منطق اور خصوصی اسالیب رکھتی ہے۔ ما بعد جدید تخلیقی ادب ’’پیش پا افتادہ عامیانہ حقیقت‘‘ کو تلاش کرنے کی کوشش نہیں کرتا ہے۔ یہ بذات خود اپنی حقیقت کی تخلیق کرتا ہے۔ یہ ما بعد جدیدیت کا بُنیادی نکتہ ہے۔
(7) بین المتونیت ما بعد جدید ادب کے چند مرکزی تصورات میں ایک ہے۔ یہ فوق متن پر زور دیتی ہے جو بنیادی طور پر بین المتونیت پر منحصر ہوتی ہے۔ در حقیقت جدیدیت متن محض(Text) کو اولین معنویت و اہمیت دیتی ہے۔ ما بعد جدیدیت فوق متن(Para Text) اور فوق متن (Meta Text) ہے جیسے تخلیقی عمل اصل درمیانی تخلیقی سلسلہ کار ہے۔ اس کا ثمر تخلیقیت ہے۔ در حقیقیت تخلیقیت حقیقی تخلیق کا احساس و عرفان ہے۔ بین المتونیت جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کے درمیان ایک ناقابل تسخیرحد فاصل ہے۔ حقیقی تخلیقیت اور معنویت سیاق زائدہ ہے لیکن سیاق لا محدود اور بیکراں ہے۔ وہ ترقی پسندی اور جدیدیت کے دفتر تک محدود نہیں ہے۔
(8) ما بعد جدیدیت کارٹیسیائی نظریۂ عالم (Cartesian World View) کی ردتشکیل کرتی ہے اور سالم نظریۂ عالم کو قبول کرتی ہے۔ نتیجتاً اوریجنل چہرہ اور ثقافتی ڈسکورس (کلامیہ) کی اپنی جڑوں کی تلاش، مدام تلاش ما بعد جدید تخلیقات میں مزید استوار ہو گئی ہے۔
(9) ما بعد جدیدیت ترقی پسندی کی صرف سطحی ریزہ کار ہیئتیت (Objectivity) اور جدیدیت کی صرف سطحی ریزہ کار داخلیت(Subjectivity) کا ارتفاع کرہمہ رنگی اور ہمہ جوئی(Omnijectivity) کو قبول کرتی ہے۔ یہ فطری آزادی پر اصرار کرتی ہے۔ یہ آہن پوش مرکزیت نہیں رکھتی۔ یہ لامحددوتیوں (Infinities) کی ایک ترتیب ہے۔
(10) ما بعد جدیدیت ہر نوعیت کی یک رنگی وردی پوش جتھا بندی، یک جہت کُلیت پسندی، آمریت، فارمولاسازی، ضابطہ بندی، یکسانیت اور ہم نظمی کی رد تشکیل کرتی ہے۔ یہ اکیسویں صدی کے سیاق و سباق میں اضافی تخلیقیت، معنویت، عصریت، تکثیریت، کثیرالوضویت اور مقامیت کا جشنِ عالیہ ہے۔ مابعد جدیدیت میں کوئی مطلق مہابیانیہ یا کوڈ نہیں ہے۔

نئی نسل کے تخلیق کاروں اور ادیبوں نے اپنے ذہنی آزادی ، سماجی سروکار، آزادانہ تخلیقیت اور فنّیت کی بنا پر اپنی راہیں خود استوار کیں۔ نئی لہر نے نئی نسل کے تخلیق کاروں اور ادیبوں کو ما بعد جدیدیت سے موسوم کیا۔ نئی نسل کو گوپی چندنارنگ نے ایک ادبی پہچان دلائی ، اُن کے اندر کشادگی اور بے لوث آزادی کا سچا احساس پیدا کیا اور اُردو ادب میں ایک انقلاب آفریں کردار ادا کیا ہے۔ مجروح سلطان پوری کامندرجہ بالا شعر گوپی چند نارنگ صاحب پر صادق آتا ہے۔

اُردوئی ما بعد جدیدیت کی تنقید کو آگے بڑھانے میں گوپی چند نارنگ کے شانہ بہ شانہ وزیر آغا، ضمیر علی بدایونی، فہیم اعظمی، وہاب اشرفی، نظام صدیقی، دیوندر اسر، شین کاف نظام، شافع قدوائی، حامدی کاشمیری، ناصر عباس نیر، حقانی القاسمی، مہدی جعفر، انیس اشفاق، عتیق اﷲ، صادق، مناظر عاشق ہرگانوی، بلراج کومل، قیصر الاسلام، طارق چھتاری، منظر اعجاز، سیفی سرونجی، شہزاد انجم، مولا بخش، اجے مالوی ، راشد انور راشد، اسیم کاویانی، بلراج بخشی ، امین بنجارا، جمال اویسی، مظہر امام، مشتاق صدف اور مشتاق احمد وانی وغیرہ کے نام قابلِ ذکر اور غور و فکر ہے۔ اُردو شاعری میں ہو رہی تبدیلی کی آہٹ کو پرانی پیڑھی کے شعرا نے بھی محسوس کیا اور انھوں نے ترقی پسندی اور جدیدیت کی مردہ روایت اور نظریوں سے انحراف کرتے ہوئے مابعدجدیدیت کے تناظرمیں سوچنا اور تخلیق کرنا شروع کیا ہے۔ جس میں زندگی ہے موت نہیں ہے۔ جن میں بلراج کومل، شہریار، ندا فاضلی، گلزار، مظہر امام، مخمور سعیدی، منور رانا، بشیر بدر وغیرہ کے نام خاص طور سے لیے جا سکتے ہیں۔ نئی پیڑھی کے شعرا میں صلاح الدین پرویز، عنبر بہرائچی، فرحت احساس، نعمان شوق، ذی شان ساحل، نصیر احمد ناصر، علی محمد فرشی، شین کاف نظام، چندر بھان خیالؔ، جینت پرمار، بلراج بخشی، سیفی سرونجی، خورشید اکبر، عالم خورشید، مناظر عاشق ہرگانوی، ف س اعجاز، پرتپال سنگھ بیتاب، شاہد کلیم، عبدلاحدساز، رؤف خیر، عزیز پریہار، فرحت احساس، پروین کُمار اشک، ابرار احمد، خلیل مامون، شکیل اعظمی، مقیم اثر، راشد انور راشد، سلیم انصاری اور مشتاق صدف وغیرہ اہم ہیں۔ نسوانی آواز کو بلند کرنے والوں میں پاکستان میں سارا شگفتہ، کشور ناہید، فہمیدہ ریاض، عذرا عباس ، پروین شاکر اور فاطمہ حسن وغیرہ کے نام قابلِ ذکر و فکر ہیں۔ اُسی طرح ہندوستان میں نسوانی آواز کو بلند کرنے والوں میں خاص طور پر شہناز نبی، ترنم ریاض، عذرا پروین، شبنم عشائی، آشا پربھات، پروین شیر اور شائستہ فاخری وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ نئی نسل کے افسانہ نگاروں میں سلام بن رزاق، سید محمد اشرف، انور قمر، ساجد رشید، نور الحسنین، علی امام نقوی، مقدر حمید، جینا بڑے، شوکت حیات، طارق چھتاری، بلراج بخشی، بیگ احساس، مظہرالزماں خاں، مشرف عالم ذوقی، احمد صغیر، اقبال انصاری، شاہد اختر، یٰسین احمد، دیپک بدکی، شیام سندر آنند لہرؔ اور مشتاق احمد وانی وغیرہ کے نام غور و فکر ہیں۔ پرانی پیڑھی کے ناول نگاروں میں قرۃ العین حیدر، انتظار حسین ، عبداﷲ حسین، سریندرپرکاش اور مستنصر حسین تارڑ کی تخلیقات میں بدلتا ہوا منظر نامہ اور زندگی میں ہو رہی نئی تبدیلی کی آہٹ کا شدید احساس نظر آتا ہے۔ نئی پیڑھی کے ناول نگاروں میں صلاح الدین پرویز کا ’’نمرتا‘‘، عبدلصمد کا ’’دو گز زمین‘‘، الیاس احمد گدّی کا ’’فائر ایریا‘‘، نند کشور وکرم کا ’’انیسواں ادھیائے ‘‘، مظہرالزماں خاں کا ’’آخری زمین‘‘، ’’آخری داستان گو‘‘، گیان سنگھ شاطر کا’’ گیان سنگھ شاطر‘‘، اقبال مجید کا ’’نمک‘‘، شموئل احمد کا ناولٹ ’’ندی‘‘، حسین الحق کا ’’فرات‘‘، پیغام آفاقی کا ’’مکان‘‘، غضنفر کا ’’پانی‘‘، ’’دویہ بانی‘‘اور ’’مانجھی‘‘، مشرف عالم ذوقی کا ’’بیان‘‘، ’’لے سانس بھیآہستہ‘‘ اور ’’نالۂ شب گیر‘‘، علیم مسرور کا ’’جو اماں ملی‘‘، شیام سندر آنند لہر کا ’’اگلی عید سے پہلے‘‘، ’’سرحدوں کے بیچ‘‘، ’’مجھ سے کیا ہوتا‘‘، ’’یہی سچ ہے‘‘ اور ’’نامدیو‘‘وغیرہ کے نام خاص طور سے لیے جا سکتے ہیں۔ اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ ترقی پسندی کے زوال اور جدیدیت کے خود کو ختم کردینے کے بعد1980 سے ما بعد جدیدیت کا جشن جاریہ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں بھی جاری و ساری ہے۔ گوپی چند نارنگ کے اس پُر مغز، معنی خیز، بصیرت افروز اور خیالات و تاثرات پر میں اپنی بات کو یہیں پر ختم کرتا ہوں:
’’ما بعد جدیدیت، تخلیقیت کے سفر مدام سفر کا جشنِ جاریہ اسی لیے ہے کہ کوئی نظریہ، کوئی زاویۂ نظر حتیٰ کہ خود مابعد جدیدیت بھی حرف آخر نہیں ہے۔ جس طرح انتہاپسندی، فارمولہ بازی یا منصوبہ بندی سے بچنا ضروری ہے، اسی طرح جیسے کہ پہلے عرض کیا گیا برہنہ گفتاری سے بچنا بھی ضروری ہے کیونکہ سماجی سروکار اور ثقافتی کلامیہ بھی ذرا سی بے احتیاطی سے صحافیانہ تحریر بن سکتا ہے۔ بعض حالتوں میں یہ ہو بھی رہا ہے جو مناسب نہیں، خاطر نشان رہے کہ ادب فن ہے اور فن پر قدرت لازم ہے۔ برہنہ گفتاری نعرے بازی یا تقلیدی رویے فن پر قدرت اور زبان پر قدرت اور تخلیقیت کی نفی ہیں۔ باشعور فنکار جانتے ہیں کہ ادب، ادبیت یعنی معنی آفرینی اور حسن کاری اور جمالیاتی قدروں سے بنتا ہے۔ نری فکر، تعقل یا نظریے بازی سے نہیں۔ فنکار کے لیے ضروری ہے کہ وہ زندگی، فن اور اقدار سے اپنے طور پر معاملہ کرے، یہ تینوں ایک دوسرے سے الگ نہیں۔ فنکار مبلغ نہیں، اس کا کام کسی کو ’تھاپنا‘ یا کسی کو ’میٹنا‘ نہیں بلکہ اس کا کام اپنے باطن کی بات کہنا اور زندگی بھوگنے سے ادب تخلیق کرنا ہے جو نئی سچائی اور لطف و معنی کا
سر چشمہ ہو اور وقت کے محور پر زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ ‘‘
(جدیدیت کے بعد: ص 118اور119)
 

Ajai Malviya
About the Author: Ajai Malviya Read More Articles by Ajai Malviya: 34 Articles with 78766 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.