حقیقت کی طرف ۔۔۔۔!

ایک عرصہ گزر گیا اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ مسلمانوں میں مسلمانیت کیوں نہیں ہے؟ اﷲ تعالیٰ اور اسکے محبوب رسول ﷺ کو قولاً حرز جان سمجھتے ہوئے بھی ان کے احکامات کا اصلی وقار لوگوں کی زندگی سے کیوں غائب ہے؟ آخرت کو حق مانتے ہوئے بھی عمل کرتے ہوئے اس عمل کا خاص پہلو جو اس سے متعلق آخرت میں جزا وسزا کا باعث بن سکتا ہے کیوں نظر انداز کردیا جاتا ہے؟ یہ اور اس طرح کے تمام سوالوں کے جواب کے لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو (محض بات اور مسئلہ کی تفہیم کے لئے) دوحصوں میں تقسیم کر دیا جائے۔

1۔وہ مسلمان جو فرض عبادات تو کرتے ہیں مگر پھر بھی مسلمانیت کے اعلیٰ تقاضوں پر پورا نہیں اترتے۔
2۔ وہ مسلمان جو تمام عبادات ، چاہے فرائض ہوں یا نوافل ، سب سے تہی دامن ہیں۔

اس طبقہ میں کیوں ں مسلمانیت نہیں پائی جاتی حالانکہ یہ اسلامی عقائد کا ظاہراً حامل ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ ایک تیسرا طبقہ جو فرائض و نوافل ، عبادات و معاملات کا اہتمام کرتا ہے اور اس کے اندر اسلام کی روح زندہ ہے وہ ہماری اس گفتگو سے خارج ہے ۔ کیونکہ صحت مند کو ادوایات کا نہ نسخہ تجویز کیا جاتا ہے اور نہ تشخیص مرض کی جاتی ہے۔

٭پہلا طبقہ
پہلا طبقہ جو نمازیں وغیرہ تو پڑھتا رہتا ہے رمضان میں روزے بھی رکھ لیتا ہے۔ یہ دل نا خواستہ زکوٰۃ بھی کچھ نہ کچھ دے دیتا ہے مگر اس کی زندگیوں میں اسلام کی روح کا رفرمانہیں۔ یہی سب سے خطرناک مسئلہ بھی ہے اور دین کا لادینوں کے آگے وقار منہدم کرنے والا بھی یہ طبقہ ہے۔ اسلام کی روح ان میں کا ر فرمانہیں مگر انہوں نے داڑھی رکھی ہوتی ہے نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں وغیرہ تو دیکھنے والا اس وضع قطع اور اس شخص سے صادر ہونے والے غیر اخلاقی رویے کا فرق دیکھتا ہے تو وہ خود بھی چونکہ صاحب نظر نہیں ہوتا۔ تو وہ اس کو تارہ نظری کی بناء پر مطلقاً دین اور دیندار لوگوں کی قدر بھی گنوا بیٹھتا ہے۔ جب ایسے لوگوں کی معاشرے میں اکثریت ہو جاتی ہے جو وضع قطع کے تو مسلمان ہو پر عمل ، اخلاق اور کردار کے غیر مسلم ہوں۔ تو معاشرے کا اعتماد اسلام کی اثر انگیزی سے اٹھ جانا کوئی خلاف عقل بات نہیں۔ یہی آج کے معاشرے کا حال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں ایک ظاہراً دینویں وضع قطع رکھنے والے کو عزت دی جاتی ہے اتنی دینی وضع قطع والے کو نہیں دی جاتی ۔ اس عظیم بے قدری کا ذمہ دار مذہبی طبقہ خود ہے۔

بہرحال یہ مسئلہ تو ضمن زیر بحث آگیا۔ ہم نے چاہا کہ اس طبقہ کی داخلی حالت پر بات کرنے سے قبل ظاہری نقصان کی طرف تو جہ مبذول کرادی جائے۔

اس طبقہ کی عملاً غیر مسلمانیت کی وجہ میرے نزدیک یہ ہے کہ یہ لوگ عبادات اور دیگر احکام الٰہیہ کے پیچھے کار فرما حکمت اور مدعا الٰہیہ کو سمجھے ہی نہیں ورمطلقاً عبادات کو ہی مقصود اصلی گرڈن بیٹھے ہیں۔ اگر ذرا غور کیا جائے کہ آخر کیا ضرورت ہے اﷲ تو ہماری اسی وزش کی۔ صبح شام دن میں پانچ بار خاص قسم کی حرکات سے اﷲ تعالیٰ کا مقصود کا ہے؟ کیا اس سے اﷲ کو کوئی فائدہ ہونے والا ہے؟ کیا ہماری عبادت سے اﷲ کی سلطنت وسیع ہونے والی ہے؟ کیا ہماری عبادات کائنات کے انتظام و انصرام میں اﷲ کی مددگار ہے؟ ایسا ہرگز نہیں ۔حدیث قدسی میں اﷲ تعالیٰ کی جو شان بیان ہوئی ہے اور جس پر ہر مسلمان کا عقیدہ ہے تو عبادات سے متعلق کوئی ایسا تصور ہی نہیں کر سکتا ۔ حدیث قدسی ہے کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں اگر تمام مخلوقات مل جائیں اور سب کی سب میری اطاعت پر مستعد ہو جائیں تو یہ سب مل کر بھی میری سلطنت میں ایک ذرہ اضافہ نہیں کر سکتے اور اگر دنیا جہاں کی تمام مخلوقات اکٹھی ہو کر میرے خلاف آمادہ جنگ ہو جائیں تب بھی یہ سب مل کر میری سلطنت کا ایک ذرہ بھی کم نہیں کر سکتی ہے۔ وہ تو ایسا بے نیاز ہے تو پھر غور کر نا چاہیے کہ ان عبادات سے اﷲ کو کیا حاصل ہوتا ہے؟ اور ہم سے یہ عبادات کرنے میں راز کیا ہے؟

٭اصل راز
اصل راز یہ ہے کہ ہر عبادت کے پیچھے اسکی ایک خاص روح اور خاص مقصد کا ر فرما ہے۔ اس عبادت کو کرانے کا مقصد اس روح کو پانا اور اس مقصود اصلی تک پہنچنا ہے۔ اس مقصود وہ حقیقی روح ہے جو ہر عبادت کے پیچھے کا رفرما ہے ۔ یہ عبادت نہیں ۔ مثلاً نماز کی ساری عبادات اور حرکات پر غور کیا جائے تو اسکے پیچھے کا رفرما روح کا عمل ہو سکتا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ نماز کو طریقہ اور ویسلہ بنایا گیا ہے خالق باری تعالیٰ کی یاد کو دل و دماغ میں ہمیشہ منحصر رکھنے کا یہ ابتداء مقصود ہے کہ بندہ نماز کی ادائیگی کے ذریعے خود کو اﷲ کی بارگاہ میں حاضر پائے خود کو خدا کے پہلو میں محسوس کرے ۔ عن اقرب الیہ من الورید کا عملی مشاہدہ کرے۔ اﷲ کے تصور میں ہے چونکہ انسان کی شخصیت پر اصل اثرات نماز کی عبادات اور ظاہر ارکان ادائگی نے نہیں ڈالنے بلکہ اس کے اندر کارفرما روح نے ڈالنے ہیں۔ نمازدراصل ایک ازلی رشتہ کی تبدریج مضبوطی کے لئے رکھی گئی ہے۔ پھر نماز کی علت نمائی کی طرف توجہ کی جائے تو وہ فناذات تک لے جاتی ہے۔ وہ انسان جو لوگوں میں اپنی عزت نفس کے لئے کیا کچھ نہیں کرتا وہی نماز میں کمر کے بل جھکا کھڑا ہے ناک زمین پر رگڑ رہا ہے۔ پیشانی ٹیکے ہوئے ہے۔ اور زبان حال سے اپنی ذلت اور اپنے رب کی برائی بول رہا ہے یہ سارا کچھ جو ہم کرتے ہیں اگر اس سب کو ان تصورات کے تحت کرنا شروع کر دیں تو جو اصل مقصود نماز ہے جو تبدیلی اﷲ تعالیٰ کی عبادت کے ذریعے انسان میں لانا چاہتا ہے وہ یقینا آجائے گی نماز کو کامل روح کے ساتھ ادا کرنے کے ہزاروں فوائد میں سے دو فوری طور پر مرتب ہونگے اور یہی مد باقی کا دروازہ کھولیں گے۔
1۔ اﷲ کے تصور میں کچھ وقت کزارنا شروع ہو گا۔
2۔ اﷲ کی بڑائی اور اپنی عاجزی کا تصور پختہ ہو گا۔

یہی کا ر انسانیت ہے اﷲ نے عہد الست کی صورت میں الوہی محبت کا چراغ ناطن میں رکھ دیا ہے ۔ نماز اور اس طرح کی دیگر عبادات کے ذریعے جب تصور الٰہی پختہ ہو گا پھر داخلی چراغ کو خارجی پہل بھی مل جائے گی جن سے وہ اور بھڑک اٹھے گا یہی چراغ بھڑکا نہ تو اﷲ تعالیٰ کی منشاء ہے جس کے لئے اس نے یہ عبادات کا نظام قائم کیا اور ہم ہیں کہ نظام کی روح کو سمجھے بغیر ظاہری ارکان پر تقید کرکے بیٹھے ہیں۔ یہی تو آزمائش ہے جو صحبت کرنے والا محبوب سے چاہتا ہے۔ تعلق پرانا ہے کچھ عرصہ کا ہجر ہے، فراق ہے مگر یا دیں باقی ہیں۔ ان یا من کو تازہ کرکے تعلق کو ازسرنو جوڑنے کی پوری اسکیم بھی دے دی گئی ہے تو کتنے بیوقوف اور کم فہم ہیں ہم کہ وضو بھی کرتے ہیں، نماز پڑ ٹائم بھی لگاتے ہیں ، مگر اس کے باوجود نماز کے مطلوبہ نتائج سے محروم ہیں۔ اس بڑی افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ محرومی ہمیں بے چین نہیں کرتی۔ ایک ریل گاڑی اگر محض گچھ گچھ کرتی رہے اور مسلسل5گھنٹوں کے سفر کے بعد آپ باہر نکلیں اور ریل گاڑی وہی کھڑی ہو جہاں سے آپ بیٹھے تھے تو وقت کے ضائع پر آپ اپنی کیفیت کا اندازہ خود کر لیں۔ اگر چند گھنٹوں کی ریل کی گچھ گچھ سے میرا تصور ہے کہ ہمیں لازمی طور پر پچھلے مقام سے اگلے مقام پر ہونا چاہیے تو اندازہ کر لیں کہ نماز کی زحمت اٹھاتے ہوئے ہمیں کتنے گھنٹے ،کتنے دن ، کتنے مہینے، کتنے سال اور کتنے دہائیاں گزر چکی ہیں اور اگر ہم آج بھی وہیں کھڑے ہوں تو اس نقصان سے کلیجہ پھٹ جانا چاہیے احساس زیاں کئی دنوں تک سونے نہ دے سانس اکھڑنے لگے۔ محض 5سال کی محنت کی کمائی پر اگر ڈاکو پڑجائے وت ہمارا کیا حال ہوتا ہے یہاں تو ساری عمر کی کمائی پر ہماری اپنی غفلت ڈاکو کا کام کر رہی ہے۔

حضور اکرمﷺ نے فرمایا تھا کہ ’’مومن کے دو دن برابر نہیں گزرتے ‘‘۔ یعنی ہر اگلے دن کو وہ پچھلے سے بہتر گزارتا ہے ۔ یہ اسلام کا قانون تسلسل ہے ۔ حضرت مجدد اقبال ؒ نے اسلام کے اسی قانون کو ’’سلام کا اصل حرکت‘‘ کردار دیا ہے۔ نام جو بھی دیں بات ایک ہی ہے کہ ہمیں مسلسل سفر کرنا ہے ہمیشہ آگے بڑھنا ہے، ہر لمحہ اﷲ کے قریب تر ہونا ہے۔ ان صدیوں کو ختم کرنا ہے اور یہی انسانی زندگی کا انتہائی مطلوب ہے۔

یہ وہ شے تھی جس نے دوسروں کے مقابلے میں ہماری مدد کرنی تھی ، ہمیں دوسروں سے ممتاز کرنا تھا ، جسمانی اعضاء تو تمام انسانوں کے برابر ہیں مگر اس داخلی طاقت نے ہمیں(Superhit) کرنا تھا۔ اسی کی اثر انگیزی نے مسلمانیت کے اوصاف ہم میں پیدا کرنے تھے۔ مگر ہم اس تاثر سے خالی ہیں اور ظاہری حرکات پر اکتفا کئے ہوئے ہیں۔

٭روزہ
یہی حال دیگر عبادات کا بھی ہے۔ ہم نے ان تمام کے ساتھ بھی یہی نماز والا سلوک کیا ہے۔ روزے کو لیں عربی میں ’’اخیل الصائم‘‘ اس گھوڑے کو کہتے ہیں جس کو ایک خاص وقت تک بھوکا پیاسا رکھا جاتا ہے پھر گرمی کی شدت میں اسی بھوک پیاس کے عالم ان کو دوڑایا جاتاہے اور دیگر مشقوں سے گزاراجاتا۔ بادی النظر میں ایک خاص معیار رکھا گیا تھا اس پر جو گھوڑا پورا اترا اس کو جنگ میں قابل استمعال سمجھا جاتا۔ اس کے ساتھ فلسفہ کا مدعا یہ ہے ہ روزے کی سی مشقیں کراکر گھوڑے کو کسی خاص مقصد کے لئے تیار کیا جاتا تھا۔

یہاں پھر وہی سوال ہے کہ کیا ہماری بھوک پیاس سے اﷲ تعالیٰ کو کوئی فائدہ پہنچنے والا ہے ، اسکا جواب گزر چکا ہے روزہ کی بھوک پیاس سے بھی اﷲ کا کوئی مقصد نہیں بلکہ مقصد اس روزے کے پیچھے کارفرما روح ہے۔ وہ یہ کہ بندہ مال و دولت دیکھ کر جابر اور شیطان نہ بن جائے۔ روزہ رکھوا کر اسے یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ اے بندے دیکھ تیرے سامنے کھانے کی طرح طرح کی چیزیں موجود ہیں ٹھنڈا پانی موجود ہے مگر تیری جرأت نہیں کہ اﷲ کی مرضی کے بغیر ان کو ہاتھ لگا دے۔ اس میں یہ روح بھی کارفرما ہے کہ اس کا اصلی مالک و مختار اﷲ ہے۔ ہم تو امین کی حیثیت رکھت ہیں ہمارے پاس یہ سب امانت ہے اور امین کے اختیارات میں اور مالک کے اختیارات میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے مالک اپنی ملک میں تصرف کا جوابدہ نہیں ہوتا جبکہ امین جو ابدہ ہوتا ہے یہ اصل مقصود جس کی طرف روزہ کے ذریعے مسلمانوں کو لے جاتا جا رہا ہے۔

جسے نماز کا انتہائی مقصود اﷲ سے تعلق کی بحالی اور مضبوطی تھا۔ اسکا تعلق عروجی سمت سے تھا روزہ کا انتہائی مقصود معاملات سے متعلق ہے۔ نماز کا انتہائی مطلوب اﷲ سے تعلق کی نوعیت میں درستی کرنا اور پروان چڑھانا تھا روزہ کا انتہائی مقصود انسانوں سے تعلق کی نوعیت میں درستی پیدا کرنا اور سب کو انسانیت کے مطلوبہ رشتے میں پیوست کرنا اور اس سے ایسے اوصاف پیدا کرانا جو سال بھر کے لئے انسان کو انسان کی سطح پر رکھنے کے لئے کافی ہوں۔

میں خیال میں روزے کے دو بنیادی مقاصد ہیں۔ ایک تو پہلے آدمی کو انسان بنانا اور دوسرا پھر انسان کو دوسروں کو انسان بنانے کی کوشش میں لگانا۔ بادی النظر میں دیکھا جائے تو روح روزہ میں تعلق مع الخلق کے ساتھ ساتھ تعلق مع کا بھی ایک مضبوط پہلو پایا جاتاہے۔ روزہ جہاں ہماری نفسانی تہذیب کرتا ہے وہاں ہمارے جسمانی تقاضوں کو کمزور کرکے اور روحانی تقاضوں کو بذریعہ عبادات و ذکر مضبوط کرکے روح کے اصلی مزاج جو کہ معرفت ایسی ہے کہ طرف بھی لے جاتا ہے۔ روزہ سے تعلق مع اﷲ کا ایک اور اہم پہلو بھی نکلتا ہے کہ یہ بھی نماز کی طرح نفی ذات کا درس ہے۔ نماز میں نفی ذات کے درس کی نوعیت الگ تھی یہاں نوعیت یکسر مختلف ہے مگر مقصود و مدعا ایک ہے نماز میں ایسے حرکات کرماکر یہ اثر دیا گیا تھا کہ مین کچھ نہیں یہاں ضبط و صبر کے ذریعے درس دیا جا رہا ہے کہ میں کچھ نہیں، محض مالک کے حکم کا پابند ہوں۔

پہلا طبقہ جس کے بارے میں ہم بات کررہے ہیں یہ روزے بھی رکھتا ہے مگر اسی طرح بے روح روزے جو محض بھوک اور پیاس تو ہوتے ہیں مگر نفس انسانی پر اس کی جو مطلوبہ وادات ہیں ان سے خالی یہی وجہ ہے کہ نمازو روزہ کے پیروکار بھی ان کی تاثیر سے خالی رہ کر مسلمانیت کی روح سے کو سوں دور رہتا ہے۔

٭محکم یقین کی ضرورت
ضرورت اس امر کی ہے ظاہری عبادات سے متعلق یہ تصور واضح کیا جائے اور یہ یقین محکم رکھا جائے کہ یہ عبادات مقصود اصلی نہیں بلکہ بعض مراتب و درجات کے لئے سیڈھی اور مشابراہ کی حیثیت رکھتی ہیں ان تمام کے پیچھے ایک خاص مقصد اور وح کا ر فرما ہے۔ اب وہ وقت آگیا کہ ان عبادات کی حقیقت کی طرف سفر شروع کردیا جائے۔ لوگوں میں منادی کی جائے کہ بے روح عمل کی وہی مثال ہے کہ جس طرح تم گھر کے فرد کے ساتھ سالوں گزارتے ہو اور صرف روح نکل جائے حالانکہ جسم پورا سلامت ہے، تب بھی اس کو محض بے روح ہونے کی وجہ سے جنوں مٹی تلے دبا دیتے ہو۔ یہ مثال اہل نظر کے لئے بہت بڑی مثال ہے ۔ کسی کام کو بے روح اور تاثیر روح کا لحاظ رکھتے ہوئے کرنے کی۔

٭زکوٰۃ
یہی حال زکوٰۃ کا ہے اس میں بھی ایک روح کا رفرما ہے جو کسی اور پہلو سے ہماری شخصیت کی تربیت کرتی ہے۔ مال و دولت جس کے لئے ہم مارے مارے پھرتے ہیں۔ اسکی محبت کم از کم حد تک کھٹانے کے لئے زکوٰۃ رکھی گئی ہے۔ اسکی روح یہ ہے کہ مال کی صحبت ایک خاص سطح سے بلند نہ ہو۔ اگر یہ ایک خاص سطح سے اوپر چلی جائے تو انسان کو شیطان بنا دیتی ہے۔ حریص اور سنگ دل بنا دیتی ہے۔ حلال و حرام کے فرق کو دھندلا دیتے ہے۔ دوسروں کے حق مارے پر ضمیر کے بوجھ کو بہکا کر دیتی ہے۔ اسلام یہ چاہتا ہے۔ کہ انسان ان اخلاق زیلہ سے پاک رہے پس اس نے زکوٰۃ رکھ دی۔ اب اسکی روح کو جاننے کے بعد عمل کی ظاہری ادائیگی کے ساتھ اسکی روح اور حقیقت تک پہنچانا قارئین کی محنت پر منحصر ہے۔ ضروری نہیں کہ آپ ایک بار کسی بھی عبادت کی حقیقت اور روح تک پہنچ جائیں ۔ بعض اوقات اسکے لئے بڑی محنت اور مشق درکار ہوتی ہے۔ خدا ر ا اس محنت سے بھی نہ چرائیں۔ خدارا بے روح عمل پر کبھی مطمئن نہ ہوں اسلام بے روح اور مردہ دین نہیں ہے کہ تمہیں شرشیں کراتا پھرے ۔ یہ تم سے خاص اوصاف جاہتا ہے۔ جس کے لئے اس کے خاص نظام عبادات و معاملات دیا ہے۔ اسی طرح جس طرح ایک فیکٹری جو کپڑا بناتی ہے۔ کپڑا سکا انتہائی مطلوب ہے مگر خالی فیکٹری کی مشینری کو چلانا اور حرکت دینا کپڑا پیدا کرنے کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ اسکے پچھلے دھاگہ، رنگ، روٹی اور نہ جانے کیا کیا۔ Inputکے طور پر دینا پڑتا ہے۔ تب اگر مشینری درست ہے تو مطلوبہ نتاء پیدا ہوتے ہیں۔

٭جہاد
جہاد ’’جہد‘‘ سے ہے۔ اسکا مطلب ہے کسی مقصود کو پانے کے لئے انتہائی کوشش کرنا۔ جہاد نفی ذات کی انتہائی کوشش کہی جا سکتی ہے۔ اسکے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ تمام احکام شریعت کو حقیقی روح کے ساتھ نافذ العمل کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا چھوڑنا اور دوسرا یہ کہ اگر دین کی سلامتی خطرے میں پڑے تو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اﷲ کے دین کی جنگ کرنا۔ پہلے عبادات میں تو نفی ذات ذرا نفی تھی مگر یہاں تو واضح ہے یہ تصور کرکے مجاہد میدان کارزار میں اترتا ہے ۔ کہ اب میں نہیں۔ جب میں نہیں کا تصور واضح ہو گا تو پیچھے وہی رہ گیا جسے رہنا چاہیے۔ یہی اصل مقصود ہے۔

خلاصہ
یہ وجہ ہے کہ طبقہ ظاہری اعمال کو ادا کرتے ہوئے حقیقت عمل یا مقصود عمل یا روح عمل کا کوئی غلط نہیں رکھتے تو عمل کی اصل تاثیر مرتب ہو ہی نہیں سکتی۔ تمام لوگوں کو چاہیے کہ ان عبادات کو معمول نہ سمجھیں۔ یہ اﷲ کا حکم ہیں اس نظر سے یہ اسکو ادا کریں۔ بار بار مشق کریں۔ بار بار مشق کریں۔ نماز چونکہ بار بار ہونے والا عمل ہے لہذا اسکو ادا کرتے ہوئے اسکی حقیقی روح کو حاصل کرنے کی بہت زیادہ مشق کریں۔ ایک نماز میں نہیں ہو سکا وہ تصور حاصل تو دوسری میں اور محنت کریں اور توجہ دیں اور مشق کریں اور ایک وقت ایسا آجائے کہ آپ نماز شروع کریں تو ایسا ہو کہ نہ آپ دنیا میں ہیں۔ نہ دنیا آپ میں ہے بس آپ می۔ آپ کا رب ہے اور ساری دنیا خالی ہے۔ آپ نے اپنے رب کو منانا ہے۔ اونادھونا ہے۔ پاؤں پکڑنے ہیں۔ منتیں کرنی ہیں۔ اپنے رب کے آگے تصور میں گڑ گڑانا ہے۔ اﷲ کو گزارش کرنی ہے۔ کہ میں نکما سہی پر میرے مولا مجھے بتا میں تیرے سواء کہاں جاؤں؟ کون ہے میرا یہ تصوراتی زبان ہوگی جس سے دوران نماز آپ اﷲ سے مخاطب ہونگے۔ اسکے بعد ممکن ہی نہیں کہ وہ عظیم و رحیم و کریم رب اپنی شان اور بندے کے ظرف کے مطابق بندے کی طرف متوجہ نہ ہو۔

یہی توجہ انسانی شخصیت میں مسلمانی اوصاف پیدا کرنے کا باعث بنے گی۔

دوسرا طبقہ
پہلے طبقے پر گفتگو کرتے ہوئے ایک اہم سوال پیدا ہوا جس کو وہاں مخاطب نہیں کیا گیا کیونکہ اسکا تعلق دوسرے طبقے سے زیادہ گہرا تھا۔ سوال یہ تھا کہ پہلی گفتگو میں ہم نے اعمال و عبادات کی حقیقت اور ورح پر روز دیا ہے۔ اس یہ اعتراض ہو سکتا تھا کہ مگر کوئی نماز روزے کی بالکل پابندی ہی نہ کرے اور محض حسن نیت اور تصور کو بنیاد بنا کر یہ کہے کہ روح ہے جو مقصود ہے باقی تو ظاہری اور غیر ضروری چیزیں ہیں۔ یہ بات کرنے والا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص کپڑا بنانے کی خواہش رکھتا ہوں۔ (سابقہ مثال) فیکٹری ، مشینری اور دیگر لوازمات تو نہ ہوں محض دھاگہ اور رنگ کی بالٹی رکھ کر کھڑا ہو اور کہے کہ میں اس سے کپڑا بناؤ گا تو سمجھ دار لوگ اسکو کسی ماہر نفسیات کے پاس لے جائیں گے اسکا ذہنی علاج کرائیں گے جیسے بغیر فیکٹری ، مشینری اور دیگر لوازمات کے محض دھاگے اور رنگ سے کپڑا تیار نہیں ہو سکتاایسے ہی محض یہ خیال و تصورات سے بغیر عمل کے مقصود حاصل نہیں ہو سکتا ۔ اعمال و ارکان کی ادائیگی کی مثال فیکٹری اور مشینری کی سی ہے، دھاگے اور رنگ کی مثال حقیقت اور روح کی سی ہے، مشینری چلا کر ، ہر شے کی مطلوبہ مقدار بطورInputڈال کر اور تخلیقی مراحل کا پورا خیال رکھ کر ایک خاص وقت تک مشین چلانے کی مثال مشق کی سی ہے۔ تب جا کہ مطلوبہ نتائج ملتے ہیں۔

اب دوسرے طبقے کو لیں وہ فرائض اور اعمال ہی کو نہیں کرتا تو ان کی طبیعت میں مسلمانیت کیسے پیدا ہو۔ مذکورہ مثال سے آپ خود سمجھد لیں ۔ یہ عقلی طور پر بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ جو شخص اﷲ کے دین سے متعلق دیئے گئے احکامات ہی کی پیروی نہیں کرتا یہ کسی طرح ممکن ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس کی شخصیت پر دین کی تاثیر مرتب کرے۔

٭انسانی ساخت اور فرائض کی ضرورت
اﷲ تعالیٰ ہمارا خالق ہے۔ انسان جو کچھ ایجاد کرتا ہے اسکے خواص ضروریات اور کارکردگی کے بارے میں پہلے ہی بتا دیتا ہے۔ اسکے نقائص پہلے ہی بتا دیتا ہے۔ جتنی سائنسی ایجادات ہوئیں ہیں ان کے موجد اس تخلیق کی تقریب رونمائی میں ہی اس کے متعلق تمام ضروری معلومات فراہم کر دیتا ہے حالانکہ ابھی تک اس چیز نے پرفارمنس دکھائی ہی نہیں ہوتی۔ یہ ایک مخلوق خالق کا حال ہے جو خالق حقیق ہو گا، اور جو خالقوں کا خالق ہو گا ، اگر وہ اپنی تخلیق کے بارے میں قبل از وقت جو کچھ بتاتا ہے تو اسکو اہل عقل کا خلاف کہنا بڑا خلاف عقل ہے۔ یہ محض ہٹ پھرمی ہے۔ بر حال جب یہ ثابت ہو گیا کہ اس خالق کی بات اپنی مخلوق کے بارے میں اسی مخلوق خالق کی بات سے کڑوڑ ہا درجے زیادہ قابل اتفاق ہے۔

اس خالق نے اس انسان کے لئے ایک نظام اور لائحہ عمل بنا دیا ۔ ساتھ بتا دیا کہ اس طریق کار پر چلنے میں تیری فلاح اور کامیابی ہے اور اس سے اغراف میں تیری تباہی ہے۔ اس نظام میں فلاں فلاں کام تو اتنے ضروری ہیں کہ ان کے بغیر تیرے لئے اصلی انسانی ساخت کو برقرار رکھنا ہی ممکن نہیں۔ ان اہم ترین اور لازمی ترین امور کو اسلام نے فرض کا نام دے دیا۔ اسکے بعد خالق کے بناتا کہ ایک متناسب اور متوازی نظام تو یہ ہے کہ سارے احکام کو بجالا یا جائے مگر ان اہم ترین کو ہرگز نہ چھوڑنا ورنہ انسانی سطح پر قائم رہنا، آدمی ہوتے ہوئے بھی ممکن نہیں۔ اسکے بعد دوسرا درجہ ان امور کا ہے جو ضروری ہی۔ مگر دوسرے درجے میں ان کو اسلام نے سنت و نوافل کہا۔

جو انسان ان بنیادی اعمال کو ہی بجانہیں لائے گا، حقیقت اور عمل کی روح تک جانااسکے لئے خواب وخیال سے زیادہ کچھ نہیں۔ لہذا یہ دوسرا طبقہ پہلے طبقے کی نسبت زیادہ حقدار ہے کہ اس کے اندر مطلوبہ مسلمانیت کے آثار نہ نظر آئیں اور ایسا ہی ہے پس جو بات میں نے سمجھانے تھی وہ سمجھادی۔ خلاصہ یہ ہے کہ ہر ایک شیشے کی حقیقت کی طرف سفر شروع کئے۔ اس رسالے میں تو چند چیزوں کو بنیاد بنا کر ماضی الضمیر منایا گیاہے۔ورنہ ہر پہلو پر یوں تفصیل سے بات کی جائے تو ایک طویل کتاب درکار ہے۔

٭گناہ
اسی طرح آپ گناہ کی حقیقت اور اسکی روح بھی بذریعہ غور وفکر پہنچنے کی کوشش کریں ۔ہم کئی گناہ کر چکے ہیں۔ ذرا تصور کریں کہ گناہ کے فوری بعد ہمیں محسوس ہوتا ہے ہمیں کونسی اڑان مل جاتی ہیں۔ کون سے پر لگ جاتے ہیں۔ الٹ شرمندگی ہوتی ہے۔ بس اسی تصور کو مدنظر رکھتے ہوئے گناہوں پر استقامت سے رکے رہیں۔ ذہن میں یہ تصور رکھیں کہ یہ پہچان اور کیفیت جو گناہ کا مطالبہ کرتی ہے یہ وقتی ہے مگر اسی گناہ کی شرمندگی اور اسکی سزا دائمی ہے۔ حضرت مولا علی کرم اﷲ وجیہہ الکریم فرماتے ہیں۔
’’کتنا فرق ہیں ان دو اعمال میں ایک وہ جس کا لطف ختم ہو چکا مگر عذاب باقی ہے۔ اور دوسرا وہ جس کی سختیں ختم ہو چکی مگر اجر باقی ہے۔

حضرت علی ؓ کے اس قول کو حرزجان بنا لیں۔ ہر وقت اس کو ذہن میں رکھیں۔ میں دانست میں گناہ کی حیثیت سے متعلق یہ معقولہ اپنی مثال نہیں رکھتا ۔

اسی طرح دنیا کی حقیقت پر غورک ریں۔ ہم میں سے ہر کوئی کچھ نہ کچھ عرصہ دفا میں گزارا جاچکا ہے۔ میں اگر اپنے 30سال سے دنیا میں جو گزارے ہوئے ہیں ہر ایک نظر دوڑاؤں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ کل کی بات ۔ یونہی جو 80سال بھی گزارا چکا ہے وہ بھی غور کر ے تو لگتا ہے چند دنوں کی بات ہے۔ چند دنوں کے لئے ہمیشہ کی زندگی ، کبھی نہ ختم ہونے والی زندگی کے لئے قربان کرنا مناسب نہیں۔

٭زندگی
یہ زندگی ایک کتاب ہے۔ کتاب دو جلدوں کے درمیان چند صفحات کا نام ہے۔ پہلی جلد ولادت ہے درمیان کے صفحات ایام زندگی ہیں اور دوسری جلد موت ہے جس سے یہ کتاب ہمیشہ کے لئے بند ہو جاتی ہے۔ پھر یہ قیامت کے دن ہمارے ہاتھ میں ہوگی ۔ ہر دن ایک صفحہ پلٹا جا رہا ہے۔ یہ ہم پر ہے کہ ہم اس پر کیا لکھتے ہیں۔ ہر روز ایک صفحہ پلٹا جا رہا ہے اس سے بڑی بات یہ کہ ہمیں معلوم ہی نہیں کہ کتنے صفحے پلٹے جا چکے ہیں اور کتنے باقی ہیں، ہو سکتا ہے آخری چند صفحات باقی ہوں اور کتاب بالکل اختتام پر ہو ، ادھر ہم سمجھ رہے ہوں کہ ابھی بہت دن ہیں پوری زندگی باقی پڑی ہے، تو بہ کر لیں گے۔ یہاں پھر حضرت مولا علی کرم اﷲ وجیہہ الکریم کا ایک قول پیش کرتا ہوں:
’’بدبخت ہے وہ شخص توبہ کی امید پر گناہ کرے اور زندگی کی امید پر توبہ نہ کرے۔ ‘‘

اﷲ ہمیں اس بد بختی سے بچائے۔یہ ہے زندگی کی حقیقت، اس کو قلب و ذہن میں راسخ کرلیں تو یقینا زندگی میں بڑی تبدیلیاں واقع ہو سکتی ہیں۔
Ali Waqar Qadri
About the Author: Ali Waqar Qadri Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.