سونامیوں کی واپسی
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
کیا یہ ہمارے کپتان صاحب کی ’’عظمتوں‘‘کا
بیّن ثبوت نہیں کہ وہ محض ملک وقوم اورجمہوریت کی خاطر سات ماہ تین دِن
بعدچوروں،ڈاکوؤں اور جعلسازوں کی بوگس پارلیمنٹ میں طوہاََوکرہاََتشریف لے
آئے ؟۔کچھ لوگ اسے ’’ایک اوریو ٹرن ‘‘بھی کہتے ہیں لیکن ہم تواسے جمہوریت
کاحسن ہی سمجھتے ہیں ۔اوروں کا توذکر ہی کیا،یہاں تو یہ عالم ہے کہ ہمارے
بھائی رؤف طاہرکو بھی کسی نے گمراہ کردیا اور اُنہوں نے بھی اپنے کالم میں
تحریکِ انصاف کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں آمد کو نہ صرف یوٹرن قراردیا
بلکہ اِس حوالے سے ایک لطیفہ بھی نذرِقارئین کیا ۔لطیفہ تھا تومزیدار لیکن
ہم اُسے پڑھ کرجَل بھُن کرکباب ہوگئے ۔رہی’’ یوٹرن‘‘کی بات تواِس پربھی
ہمیں بھائی رؤف طاہرسے شدید اختلاف ہے۔اِسی لیے ہم اپنااحتجاج ویسے ہی
ریکارڈ کروارہے ہیں جیسے قائدِحزبِ اختلاف سیّدخورشیدشاہ نے پارلیمنٹ میں
ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا’’مسلم لیگ نون کواحتجاج کرناہے تواپنی حکومت کے
خلاف کرے جوتحریکِ انصاف کوایوان میں لائی ہے ‘‘۔ویسے یہ کتنی زیادتی کی
بات ہے کہ نوازلیگ پہلے ’’منتوں،ترلوں‘‘سے تحریکِ انصاف کوپارلیمنٹ کے
مشترکہ اجلاس میں لائی اورپھرخودہی بذریعہ خواجہ آصف سیالکوٹی اُس کی ’’دھنائی‘‘بھی
کردی۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں تحریکِ انصاف کی موجودگی پرشورتو پہلے
ہی بہت تھالیکن خواجہ آصف صاحب نے یہ کہہ کرجلتی پرتیل چھڑک دیاکہ ’’کچھ
شرم ہوتی ہے ،کچھ حیاہوتی ہے، اخلاقیات کوسمجھو ،خُداکا خوف کرو ،کنٹینرپر
بیٹھ کرہمیں گالیاں دیتے رہے ہواور اسمبلی کوجعلی اوردھاندلی کی اسمبلی
قراردیتے رہے ہو ،آج کھڑے ہوکر اِس بات کااقرار توکرو کہ آپ نے استعفے دیئے
ہیں‘‘۔خواجہ صاحب کی بات توسمجھ میں آتی ہے لیکن کیایہ عین حقیقت نہیں کہ
تحریکِ انصاف کوبذریعہ جوڈیشل کمیشن پارلیمنٹ میں لانے والی بھی خودنوازلیگ
ہی ہے ؟۔
اجلاس کے پہلے سیشن میں مولانافضل الرحمٰن نے بھی بہتی گنگامیں ہاتھ دھونے
کی کوشش کی لیکن سپیکرصاحب نے اُنہیں ’’ٹھَپ‘‘دیا ۔مولانانے سوال کیاکہ یہ
لوگ اسمبلی میں کِس آئینی حیثیت سے آئے ہیں تو جواباََ سپیکرصاحب نے
کیاآئینی موشگافی کی کہ’’مولانا! اگریہ اندربیٹھے ہیں تو ممبرہیں‘‘۔ اُنہوں
نے یہ بھی فرمایا’’ استعفے اپنی موت آپ مَرگئے‘‘ ۔تب سے اب تک ہم یہی سوچ
رہے ہیں کہ اگرکوئی ستم ظریف سپیکرصاحب کی کرسی خالی دیکھ کراُس پر بیٹھ
گیاتو ہمارے ایازصادق صاحب کاکیا بنے گا ۔پھرتو یہی کہاجائے گاکہ’’ چونکہ
سپیکرصاحب کی کرسی خالی تھی اِس لیے اُس پرجو بیٹھا ،وہی سپیکر‘‘۔ہمارے
ایازصادق صاحب کوتو پہلے ہی تحریکِ انصاف نے ’’وَخت‘‘میں ڈالاہوا ہے اِس
لیے بہتریہی ہے کہ وہ اپنی یہ ’’آئینی رولنگ‘‘واپس لے لیں،کہیں ایسانہ ہوکہ
وہ ’’سپیکری‘‘سے بھی ہاتھ دھوبیٹھیں ۔پارلیمنٹ کے دوسرے سیشن میں مولاناکو
جب موقع ملاتواُنہوں نے بھی ’’کھڑاک‘‘ کردیا ۔مولانانے فرمایا’’سپیکرصاحب
نے آئین وقانون اورضابطوں سے بالاتر ہوکر ایسی رولنگ دے دی ہے جومتنازع ہو
سکتی ہے ۔بحیثیت ممبراسمبلی ہمارے لیے احتساب کانظام نہیں ۔سپیکرکی توہین
کی جائے،پارلیمنٹ پرحملہ کریں ،پارلیمنٹ کوگالیاں دیں، سپیکرکی ذات کوتسلیم
نہ کریں ۔بھرے ایوان میں اِن سے پوچھاجائے کہ انہوں نے استعفیٰ دیاتھا کہ
نہیں؟۔اگر ہاتھ سے استعفیٰ نکل جائے توپھر واپس نہیں ہوتا‘‘۔ سچی بات ہے کہ
مولاناصاحب کے اِس بیان کے بعد مارے خوف کے ہمیں تو ’’تریلیاں‘‘آنے لگیں۔
ہمارے خوف کاسبب یہ تھاکہ اگرمولاناصاحب نے یہ فتویٰ جاری کردیا کہ جس طرح
تین طلاقوں کے بعد ’’حلالہ‘‘ضروری ہوجاتاہے اُسی طرح استعفے کا’’حلالہ‘‘بھی
ضروری ہے ، توپھر ہم سونامیوں کا کیابنے گا؟۔فی الحال توبات صرف آئین کی ہے
شرعی نہیں اور آئین توموم کی وہ ناک ہے جسے ہم جب اورجیسے موڑناچاہیں ،موڑنے
پرقادر ہیں لیکن اگربات شریعت تک جاپہنچی توپھر ہمارا’’کَکھ‘‘باقی نہیں بچے
گا۔
ایم کیوایم کے محترم فاروق ستارایوان میں باربار آئین کی کتاب لہرالہرا
کریہ شورمچاتے رہے کہ پارلیمنٹ میں ’’اجنبی‘‘گھس آئے ہیں۔وہ کہتے رہے ’’
اراکین کے استعفے منظورنہیں کیے جاتے اوریہ بھی نہیں بتلایا جاتاکہ آئین کے
کس آرٹیکل کے تحت استعفے منظورنہیں کیے گئے ‘‘۔ شایدبھولے فاروق ستارنہیں
جانتے کہ استعفے آئین کے اُس سب سے ’’پاورفُل آرٹیکل‘‘ کے تحت منظورنہیں
کیے گئے جسے ’’نظریۂ ضرورت‘‘کہتے ہیں اور یہ توفاروق ستاربھی جانتے ہی ہوں
گے کہ نظریۂ ضرورت آئین کاایسا آرٹیکل ہے جس کے آگے سپریم کورٹ بھی بے بس
ہے کیونکہ یہ ’’آرٹیکل‘‘خود سپریم کورٹ کاہی پیداکردہ ہے اوراسے ہمیشہ بگڑے
کام سنوارنے کے لیے استعمال کیاجا تاہے ۔یہ بجاکہ آئین کے آرٹیکل 64 کی شِق
ایک کے مطابق سپیکرقومی اسمبلی کسی بھی رکنِ اسمبلی سے صرف یہ کنفرمیشن
کرنے کامجاز ہے کہ استعفے پراس کے دستخط جعلی تونہیں اور اُس نے کسی دباؤ
کے تحت استعفیٰ تونہیں دیا۔کسی بھی رکنِ اسمبلی کے استعفے کومنظوریا
نامنظورکرنا سپیکرصاحب کاصوابدیدی اختیار ہرگزنہیں ۔آرٹیکل64 کی شق 2 کے
مطابق جورُکنِ پارلیمنٹ کوئی معقول وجہ بتائے بغیر پارلیمنٹ کے اجلاس سے
متواتر 40 دن تک غیرحاضر رہے تواُس کی رکنیت خودبخود ختم ہوجاتی ہے لیکن یہ
سب آئینی باتیں ہیں اور جس طرح ’’ہاتھی کے پاؤں میں سب کاپاؤں‘‘ اُسی طرح
نظریۂ ضرورت کے پاؤں میں ساراآئین ۔ایم کیوایم نے تحریکِ انصاف کی پارلیمنٹ
میں آمد پرشور بھی بہت مچایااور اُنہیں اجنبی قراردے کرپہچاننے سے بھی
انکارکردیا جسے دیکھ کرہمیں یوں محسوس ہواکہ جیسے ساری ایم کیوایم مرضِ
نسیاں میں مبتلاء ہوگئی ہے اوراسے اتنابھی یادنہیں رہا کہ یہ وہی تحریکِ
انصاف ہے جس کے ’’دھرناکھڑاک‘‘میں شمولیت پروہ ’’اندرواندری‘‘ راضی بھی
ہوگئی تھی لیکن پھر’’نامعلوم‘‘وجوہات کی بناپر مُکربھی گئی ،شاید اُسے کہیں
سے یہ سُن گُن مل گئی ہوگی کہ ’’امپائر‘‘کی انگلی کھڑی نہیں ہونے والی
اوریہ توسبھی جانتے ہیں کہ ایم کیوایم گھاٹے کاسودا کبھی نہیں کرتی ۔
پارلیمنٹ کامشترکہ اجلاس یمن کی صورتِ حال پر بحث کرنے کے لیے بلایاگیا
تھاجس میں وزیرِدفاع خواجہ آصف صاحب نے پالیسی بیان دیتے ہوئے یہ بتلایاکہ
سعودی عرب نے پاکستان سے بری ،بحری اورہوائی مددطلب کی ہے ۔انتہائی اہمیت
کاحامل یہ اجلاس شورشرابے اورتحریکِ انصاف کے استعفوں کی نذر ہوگیا
۔شایدجمہوریت کاحُسن اسی کوکہتے ہیں۔ |
|