بلدیاتی انتخابات کے قریب
آنے سے صوبے کے دیگر حصوں کی طرح سوات میں بھی سیاسی سرگرمیاں بام عروج
پرگئی ہیں،سیاسی جوڑتوڑاوراتحادوں کیلئے رابطے شروع ہوگئے ہیں اورکئی
پارٹیوں نے توامیدوار بھی میدان میں اتاردئیے جبکہ کئی صحافی بھی سیاسی
میدان میں کود پڑے ہیں جو بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیں گے،ہرطرف اعلانات
اوروعدے وعید ہونے لگے اورہرپارٹی اپنی جیت کو یقینی بنانے کیلئے ایڑھی
چوٹی کا زورلگانے لگی،جمعیت علماء اسلام نے انتخابات کیلئے آپس میں اختلافا
ت ختم کردئے جس کے بعددونوں دھڑے دوبارہ شیروشکرہوگئے دوسری جانب پی پی پی
میں ضلعی صدارت پر رسہ کشی بھی جاری ہے ،عوامی نیشنل پارٹی ،پیپلزپارٹی
اورجمعیت علماء اسلام میں اتحادہوگیااورجماعت اسلامی وپی ٹی آئی بھی
اتحادکیلئے پرتولتے نظرآرہی ہیں تاہم مسلم لیگ ن جھٹکوں کی زدمیں ہے کیونکہ
چنددنوں کے دوران کئی اہم رہنماؤں نے ن لیگ کاساتھ چھوڑدیاہے جس کے سبب
انتخابات میں ن لیگ کو کامیابی حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہوسکتا
ہے،صوبہ خیبر پختونخوامیں بلدیاتی انتخابات کے اعلان کے بعدسوات میں تمام
تر سیاسی پارٹیوں نے سرگرمیاں تیز کردی ہیں جگہ جگہ اجتماعات اوراجلاس
معمول بن گئے ،سیاستدان اورمتوقع امیدوار رات گئے تک گلی کوچوں میں گھومتے
پھرتے اورغمی خوشی میں شرکت کرتے نظر آرہے ہیں،علیک سلیک ،عیادتیں اوربیمار
پرسیاں بھی عروج پر ہیں،ہرسیاسی پارٹی اپنے نامزدامیدواروں کی کامیابی
کویقینی بنانے کیلئے ایڑھی چوٹی کا زورلگارہی ہے دوسری جانب آزادامیدواربھی
سامنے آنا شروع ہوگئے جبکہ ساتھ ساتھ کئی صحافیوں نے بھی الیکشن لڑنے کا
اعلان کردیاہے جس سے سوات میں سیاسی فضاء منفرد اورخاصی گرم نظر آنے لگی ہے
۔
سوات میں کچھ عرصہ قبل جمعیت علماء اسلام اختلافات کا شکار ہوگئی تھی جس کے
بعد یہ جماعت دوواضح دھڑوں میں تقسیم ہوئی جو ایک دوسرے کو تسلیم کرنے سے
انکاری تھے تاہم بلدیاتی الیکشن کی آمد پر ان دونوں دھڑوں نے باہمی
اختلافات ختم کرکے ایک دوسرے کو تسلیم کرلیا اور ایک ہوگئے جواس وقت
بلدیاتی انتخابات کیلئے متحرک ہیں،دوسری جانب عوامی نیشنل پارٹی ،جے یوآئی
اور پیپلزپارٹی نے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر سہ فریقی اتحاد کا اعلان
کردیا ہے جبکہ قومی وطن پارٹی اورپی ٹی آئی بھی ایک دوسرے کیساتھ اتحاد
کیلئے پر تول رہی ہیں دونوں جماعتوں میں اتحاد کا امکان ہے ،یہ دونوں سیاسی
پارٹیاں جنرل الیکشن کے بعد اتحادی بن گئی تھیں مگر بعدمیں اختلافات کا
شکار ہوگئیں یہاں تک کہ ایک دوسرے کیخلاف دھڑادھڑبیان بازیاں بھی کرتی رہیں
جس کے سبب دونوں کے اکھٹاہونا ناممکن سالگنے لگا تھا،ابھی کچھ ہی عرصہ کی
توبات ہے کہ پی ٹی آئی نے جب قومی وطن پارٹی سے تعلق رکھنے والے صوبائی
وزیر پر الزامات لگاکر ان کی وزارت ختم کردی تو ان دونوں پارٹیوں میں
اختلافات نے انتہائی سنگین صورت اختیار کی تھی مگر آخر کار بلدیاتی
انتخابات کیلئے دونوں پارٹیاں ایک بارپھر ایک ہوگئیں جس سے یہ حقیقت کھل کر
سامنے آگئی کہ سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی۔
بلدیاتی انتخابات قریب تر ہے مگر سوات میں پاکستان پیپلز پار ٹی میں ضلعی
صدارت پر رسہ کشی جاری ہے اوراس وقت سوات میں موجود دوافراد خودکو ضلعی صدر
کہلاتے ہیں اورہرصدرکا یہ دعویٰ ہے کہ کارکنوں کی اکثریت ان کے ساتھ ہے،پی
پی پی میں ضلعی صدارت پر اختلافات کوئی نئی بات نہیں بلکہ اس پارٹی میں
ہمیشہ سے عہدوں کی جنگ لڑی جارہی ہے جس کے سبب ملک کی سب سے بڑی اس سیاسی
پارٹیوں کو کافی نقصان پہنچ چکاہے ،قارئین کو یاد ہوگا کہ ماضی میں بھی پی
پی پی میں صوبائی صدارت پر اختلافات نے سراٹھالیاتھا جس کے بعدشیرپاؤنے پی
پی پی کو خیربادکہہ دیا جنہوں نے کافی عرصہ تک پی پی پی شیر پاؤ کے نام سے
پارٹی چلائی اور اب کچھ عرہ قبل قومی وطن پارٹی کے نام سے نئی جماعت کا
اعلان کیا ، سوات میں قومی وطن پارٹی نے بھی کئی حلقوں سے امیدوار نامزدکئے
ہیں جبکہ مزیدامیدواروں کو سامنے لانے کیلئے مشاورت کررہی ہے ،پختونخواملی
عوامی پارٹی بھی متحرک ہے جو عنقریب امیدواروں کا نام جاری کرے گی،اس کے
علاوہ جماعت اسلامی کی جانب سے جو سرگرمیاں جاری ہیں ان سے اندازہ لگایا
جاسکتاہے کہ بلدیاتی انتخابات کیلئے وہ کسی سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد
کرسکتی ہے جس نے مختلف حلقوں میں بڑے منظم اندازمیں سرگرمیاں جاری رکھی ہیں۔
سوات میں تمام پارٹیاں بلدیاتی انتخابات کیلئے متحر ک نظرآرہی ہیں تاہم
مسلم لیگ ن کی جانب سے کوئی خاص سرگرمیاں نظر نہیں آرہی ہیں قابل ذکر بات
یہ ہے کہ چنددنوں کے دوران سوات میں مسلم لیگ ن سے اہم راہنماؤں نے ناطہ
توڑ کر دیگر پارٹیوں میں شمولیت اختیار کی ہے جن میں حاجی رستم خان جنہوں
نے مسلم لیگ ن سے چالیس سالہ رشتہ توڑ کرخاندان اورساتھیوں سمیت پی ٹی آئی
میں شمولیت اختیار کی جبکہ ن لیگ خواتین ونگ کی ڈویژنل آرگنائز قابل ذکر
ہیں جومسلم لیگ سے دیگرخواتین کے ہمراہ پی ٹی آئی میں چلی گئیں،چنددنوں میں
اہم راہنماؤں کی دیگرپارٹیوں میں شمولیت سے مسلم لیگ ن کو جھٹکے لگ گئے
اوریہ صورتحال بلدیاتی انتخابات میں ن لیگ کے امیدواروں کو متاثر کرسکتی ہے
چونکہ سوات کے عوام کی نظرصوبے میں برسراقتدارپارٹی پی ٹی آئی کے بعدوفاق
میں برسراقتدارپارٹی ن لیگ پر لگی ہوئی ہیں تاہم اس پارٹی کو مسلسل جھٹکے
لگنے اور یہاں پر موجود اس کی قیادت کی جانب سے معنی خیزخاموشی کی وجہ سے
عوام میں مایوسی پھیلی ہوئی ہے قابل غور بات یہ بھی ہے کہ سوات میں عام
انتخابات اوربعدمیں ایک صوبائی حلقہ پرضمنی انتخابات میں بھی مسلم لیگ ن کو
ناکامی ہوئی تھی اور اگر اب بلدیاتی انتخابات میں اس پارٹی کو کامیابی حاصل
نہیں ہوئی تو اس سے سوات میں مسلم لیگ ن کوبہت بڑادھچکالگے گا جس کے نتیجے
میں یہ پارٹی بکھرکر ریزہ ریزہ ہوجائے گی ۔
پچھلے بلدیاتی انتخابات کی نسبت آئندہ ہونے والے انتخابات کیلئے سوات میں
توقع سے زیادہ امیدوارمیدان میں ہیں جن کی تعدادمیں مسلسل اضافہ ہورہاہے جن
میں آزادامیدواروں کی بھی خاصی تعدادبھی شامل ہے جبکہ ساتھ ساتھ یہاں پر
مختلف نشستوں پرالیکشن لڑنے کیلئے صحافی بھی میدان میں کودپڑے ہیں اوراب تک
تین صحافیوں نے انتخابات لڑنے کا باقاعدہ اعلان بھی کیا ہے جس کی وجہ سے
صورتحال بالکل بدل گئی ہے۔
سوات میں بلدیاتی انتخابات کیلئے بیک وقت کئی فریق آمنے سامنے ہوں گے یعنی
سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے امیدوار،آزاد امیدواراورالیکشن لڑنے
کیلئے میدان میں موجودصحافی جس سے ایک دلچسپ صورتحال ہوگئی ہے جس کے پیش
نظر اگر ایک طرف سیاسی پارٹیوں میں کانٹے دار مقابلے ہوں گے تو دوسری طرف
آزادامیدوار بھی اس دنگل میں پیچھے نہیں ہوں گے اورصحافی بھی آگے بڑھنے کی
کوشش کریں گے ،جیت کس کے حصے میں آئے گی۔۔؟ اس بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت
ہوگا تاہم تیس مئی کو انتخابات مکمل ہونے کے بعداس سوال کا جواب خودبخود مل
جائے گا۔ |