خود مختاری کادائرہ تحفظ،امن ،
علمی و عملی اعلیٰ کردار کے ارد گرد گھومتا دکھائی دیتا ہے ۔ ترقی اور
خوشحالی بھی اسی پر محیط ہے،ہماری خوش بختی ہے کہ ہم اسلامی ،جمہوری ملک کے
باشندہ کہلاتے ہیں مگر حقیقت پسندی میں کہا جائے تو ہماری رفتار کا رخطرناک
سطح کو چھو رہی ہے ۔سٖچی بات کڑوی ضرور سہی مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ
حقیقت پسندی اختیار کر کے کمزوریوں ،خامیوں ،افسانوی منصوبہ بندی کو ترک
کردیا جائے۔حیر ت یہ ہے کہ ہم اپنے انجام سے با خبر ہو کر بھی خوشی سے
جھومتے ہیں۔کالم کی حد بندی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس اہم موضوع کو مسلسل
قسط وار قلمبند کیا جا رہا ہے ۔شروعات بنیادی حقوق سے کرتے ہیں ۔آذادی کا
مفہوم یہ ہے کہ ہرانسان ذمہ دار شہری کا عکس ہو۔مگر تلخ امر یہ ہے کہ ہمیں
ِتبدیلی کے لئے یکسو ہونا پڑے گا۔
حیران کن صورت حال کا یہ عالم ہے کہ چوری نہیں سینہ زوری سے پستی کی راہ پر
اکڑے کھڑے ہیں۔ان سطور میں خرابیوں ،کمزوریوں کی نشاندہی وطن عزیز کی اہم
ریاست آزاد کشمیر کے جہلم ویلی سے آنکھوں دیکھی منظر کشی کوقومی سطح سے
لائق توجہ سمجھا جائے۔ماضی قریب میں جہلم ویلی روڈ کی توسیع اور پختگی ایک
اہم غیر ریاستی ادارہ کے زیر انتظام قریبآ بارہ ارب روپے سے مکمل کی گئی ،جہاں
ایک رابطہ پل کی ضرورت تھی وہاں تین پل اور ایک گسٹ ہاؤس کی تعمیر کی گئی۔
جس کی واضح مثال ہٹیاں بالا سے بارہ کلو میٹر دور چناری کے قریب آبشار کو
عبور کرنے کے لئے تین پل اور افسر شاہی کی سیر و سیاحت کیلئے گسٹ ہاٗوس
بنائے گے جبکہ ایک پل ہی کافی تھا۔قومی دولت کا بے معنی اور بے دریغ
استعمال کوئی جرم نہ سمجھنا کہاں کی ہوشمندی ہے۔ اعلی ادارے کی جہاں یہ
حالت ہو وہاں نچلی سطح تک کیا صورتحال ہو سکتی ہے؟ شکایت نہیں بلکہ اصلاح
حوال کی نیت سے یہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے کہ ہم چور کو چور نہیں چوکیدار
سمجھ بیٹھیں ہیں۔اس وقت جہلم ویلی روڑ موت کے کنویں کا منظر پیش کررہی ہے ۔روڈ
کی کشادگی کرتے یہ نہیں سمجھا گیا کہ کٹاؤسے پہاڑ ی تودے سیلابی شکل اختیار
کر سکتے ہیں جس سے راہ گذر غیر محفوظ ہیں ۔معمولی بارش ہوتے ہی آمد و رفت
رک جاتی ہے۔اگر اس خطرناک صورت حال پر قابو نہ پایا گیا تو کسی بھی بڑے
انسانی ضیاع کا ہونا امکانی نظر آ رہا ہے ۔سڑک کی سطح تالابی بنائی گی
معمولی بارش سے پانی جھیل کی شکل میں جمع ہو کر سڑک کو کمزور کر رہا ہے ،کئی
جگہوں سے سڑک میں دراڑیں پڑی ہوئی ہیں جس سے کروڑوں روپے کا نقصان ہو سکتا
ہے ۔حکمران بھی اس قدر بے خبر ہیں کہ بہتری کا کوئی نصیب نہیں ۔بے غرضی کا
یہ عالم ہے کہ احساس ذمہ داری کہیں نظر نہیں آ رہی ۔
تعلیم کو فروغ دینے اور معیاری بنانے کیلئے پرائمری سطح تک امتحانات کو
بورڈز کی سطح کا پابند کیا گیا ہے جبکہ زمینی صورت حال یہ ہے کہ ماضی میں
جو طالب علم چار سو روپے میں امتحانی فیس دیکر تعلیمی سلسلہ جاری رکھتا تھا
وہ اب بارہ سو سے پندرہ سو روپے دے رہا ہے۔حالت یہ ہے کہ پرائمری اور مڈل
کے پرچے گریجویٹی سطح کے بنائے جا رہے ہیں جس سے معیار تعلیم تباہی کا پیش
خیمہ بن چکا ہے ۔نسل نو کو بے علم رکھ کر بے عمل بنانے کی کھلی سازش کی جا
رہی ہے ۔افسوسناک امر یہ ہے کہ امتحانی شیڈول ایسا مرتب کیا جاتا ہے جس سے
دو ماہ تک تعلیمی سلسلہ جمود کا شکار ہو جاتا ہے۔نصابی کتب کی ہر سال من
پسندتبدیلی سے عوام کروڑوں روپے کی پھکی دی جا تی ہے ۔زلزلہ سے نوے فی صد
تعلیمی اداروں کی بلڈنگز تباہ ہوئیں جبکہ اب بھی بے شمار پرائمری سکولز
کھلے آسماں تلے چل رہے ہیں ۔جب تعلیمی اداروں کی یہ صورت حال ہو جائے تو
نسل نو کی آبیاری کا سوچنا خیالی پلاؤ کھانے کے مترادف کہا سکتا ہے۔
ہر سال بہار کے موسم آتے ہی کروڑوں روپے کے درختان سے پودہ جاتی مہم چلائے
جانے کا اعلان کیا جاتا ہے جبکہ کوہالہ سے لائن آف کنٹرول تک ننگے سنگلاخ
پہاڑوں کا سلسلہ نظر آتا ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس اہم قومی ذمہ داری
کا پاسبان کیسا بادشاہ ہے جسے کشمیر سر سبز و شاداب دکھائی دے رہا ہے۔قابل
توجہ امر یہ ہے کہ کنٹرول لائن کے اس پار بے شمار درختوں سے پہاڑنظر نہیں آ
رہے ہیں ۔
انسانی زندگی محفوظ اور کارآمد بہتر صحت اور معیاری علاج و معالجہ سے ممکن
ہے ۔حالت یہ ہے کہ ننانوئے فی صد بنیادی طبی مراکز میں ڈاکٹرز نہیں ہیں
جبکہ آپریشن کے لئے کہیں بھی سہولت نہیں ۔سالانہ بجٹ میں طبی سہولیات کے
لئے معقول رقم مختص کی جا تی ہے مگر علاج اور ادویات سے عوام محروم رکھی
جارہی ہے۔مہنگے داموں کے پرائیویٹ ہاسپیٹلز اور معالجین عوام کی بے بسی پر
سونے کے محل بنا رہے ہیں ۔
پانی انسانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے جبکہ پائپ لائینوں کی بھر مار دکھائی
دیتی ہے لیکن کام چور اور غیر ذمہ داران کی بے حسی سے پانی کی سپلائی اس
قدر بے قاعدگی کا شکار ہے کہ ضلع کے بڑے قصبہ جات چکار،چناری میں سینکڑوں
گھرانوں میں پانی کی سپلائی بند رہتی ہے جس سے معاشرے میں حیات انسانی
آلودگی اور امراض جیسے خطرات سے دوچار ہے۔ایک اور حیران کن صورت حال قارئین
کی نظر کی جاتی ہے کہ انسانی زندگی کے لئے غذا ئی فراہمی ضروری ہے جس کے
لئے محکمہ زراعت و جنگلات کو اربوں روپے کے بجٹ سے قائم کیا گیا ہے مگر کسی
بھی مرکز سے غذائی بیج ،پودے اور نگرانی کا کوئی آثار نظر نہیں آتا۔
رسل و سائل ،تعلیم ،خوراک اور صحت کے یہ کسی علاقہ یا گاؤں تک مسائل موجود
نہیں بلکہ یہ گوادر سے کراچی اور سانگڑ سے سائیوال تک ہی نہیں بلکہ راؤنڈ
سے پشاور اور مری سے ریاست جموں کشمیر لائن آف کنٹرول تک ہیں۔جب ہم فخر سے
اپنی حیثیت و اہمیت کا اظہار آذاد،خود مختار اور ترقی پسند ی سے ظاہر کرتے
ہیں تو ہمیں گریباں میں جھانک کر ذرا سوچنا چائیے کہ کیا ہم ذمہ دار،محب
وطن اور دور اندیش خوبیوں سے آراستہ ہیں ۔۔۔؟؟؟اس میں کوئی شک و شبہ نہیں
کہ ہم من حیثیث القوم ان کمزوریوں ،خامیوں اور پستیوں سے بے خبر نہیں لیکن
کیا وجہ ہے کہ دیدہ دانستہ فالٹ زون میں رہنے کے باوجود لاپراہ ،بے حس اور
دانائی سے محروم بے جان و بے زبان حالت زار میں اپنے انجام سے متفق ہیں۔ہر
گاؤں میں مساجد و امام بارہیں ہیں جن میں روزانہ معاشرے کے موثر افراد
عبادات اور واعظ سننے کیلئے جمع ہوتے ہیں مگر کسی بھی عبادت گاہ سے ان
کمزوریوں اور خرابیوں کے خاتمے کیلئے لب کشائی نہیں ہو رہی ،جس سے اشراف
طبقہ کی نظر بندی عیاں ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ منصوبہ ساز دفاتر،کار اور کوٹھیوں سے باہر نکل کر
دیانت دارانہ اقدامات کریں ۔جہاں جہاں خرابیاں ہیں ان کا جائیزہ لیکر ان
عوامل و اسباب کا ازالہ کیا جائے جن کی وجہ سے قوم کو زندگی کے وسائل سے
محروم رکھنے اور نسل نو کو جہالت کے اندھیرے میں ڈبونے کی راہ ہموار کی جا
رہی ہے۔آئندہ قسط میں اسی موضوع کا تسلسل رہے گا ۔قارئین سے توقع ہے کہ وہ
اپنے اردگرد مسائل و مشکلات کا جائیزہ لیکر ایسے رازوں سے آگاہ کریں جن کے
اظہار سے آپریشن کلین اپ کا دائرہ وسیع کرنے میں مدد مل سکے اور امن ،انصاف
،ترقی کی رائیں کھلیں۔ |