شخصی نظریہ اور رجحان شخص کی
کارگزاری پر اثرانداز ہوتا ہے۔ اس کا کہنا سننا اس نظریے کا عکاس ہوتا۔
جہاں معاملہ برعکس ہوتا ہے' وہاں منافقت غالب رہتی ہے۔ منافقت سے بڑھ کر'
کوئی شے بری نہیں ہوتی۔
ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر زبانی کلامی ہی نہیں' اپنی کرنی کے حوالہ سے بھی'
صوفی ہیں۔ تحقیقی عمل میں بھی ان کا' یہ ہی طور اور رویہ غالب ہوتا ہے۔ ان
کی تین کتابیں مجھ ناچیز فانی کی نظر سے گزری ہیں' جو ان کے باعمل صوفی
ہونے پر مہر ثبت کرتی ہیں۔ اس ذیل میں' ان کی کتاب ۔۔۔۔۔ محراب تحقیق۔۔۔۔۔
کو ہی لے لیں۔ اس میں دس تحقیقی مقالے شامل ہیں' جن میں سے'آٹھ تصوف سے
متعلق معزز و محترم حضرات کے ہیں۔ ان کا مطالعہ کرنے کے بعد ان کہے
تحقیق ایک طرح کا صوفیانہ عمل ہے۔ اس میں بھی اس گہرے انہماک اور استغراق
کی ضرورت ہوتی ہے' جو راہ سلوک کے مسافر کا لازمہءسفر ہے۔ جس طرح سالک
اعتدال اور توازن کے حجرے میں بیٹھ کر انکشاف ذات کے رنگوں میں بےرنگ
کیفیات کی تجلیات سے لطف اندوز ہوتا ہے' اسی طرح ایک محقق بھی ادب' تاریخ
اور تہذیب کے دائروں میں سفر کرتا ہوا گوہر ہائے آب دار کی دریافت اور
بازیافت سے نئے رنگوں کی کشید کرتا ہے۔ وہ حق کی تلاش میں سرگرم کار ہوتا
ہے اور اس عمل میں اس کی تلاش اور جستجو کے رنگ دیدنی ہوتے ہیں۔
محراب تحقیق: ص 7
پر عمل کی مہر ثبت ہو جاتی ہے۔
صاحبان ذوق کے لیے' یہ دس مقالے گراں قدر سرمایہ ہیں۔ رفتہ کی دھول سے' ان
کا تلاشنا اور ان پر کام کرنا' ایسا آسان اور معمولی کام نہیں۔ پرانی
تحریروں کو پڑھنا' بڑا ہی مشکل کام ہے۔ خط اور زبان آج سے میل نہیں کھاتے۔
اوپر سے پرانی فارسی' کچھ کرنے اور سمجھنے سے دور رکھتی۔ ان پرانی تحریروں
کو نظرانداز کرنا بھی' زیادتی کے مترادف ہے۔ پرکٹھن مشکل گزار اور پرخار
راہوں کے راہی' بلاشبہ سقراط منصور اور سرمد کے قدم لیتے ہیں۔ وہ ان ہونی
کو' ہونی میں بدل کر ہی شانت ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر ساحر کی تدوینی تحقیق' بعض معاملات میں' اوروں سے قطعی ہٹ کر ہے۔
انہوں نے' اسے سائنسی عمل کے طور پر' لیا ہے۔ ان کی جملہ کاوش ہا' حسابی
کلیوں سے' مطابقت رکھتی ہیں۔ گن چن کر' بڑے محتاط انداز میں' لفظوں کا
استعمال کرتے ہیں۔ اس نوعیت کی تحریریں' خشک اور بور ہوتی ہیں لیکن ان ہاں'
یہ صورت' دیکھنے کو بھی نہیں ملتی۔ اس وصف کی بناء پر' قاری ان کے لفظوں
میں انولو ہونے میں' دقت محسوس نہیں کرتا۔
اظہار کے لیے الفاظ چناؤ میں' کوتاہ کوسی کا شکار نہیں ہوتے۔ اس کے لیے'
ذمہ دارانہ اہتمام کرتے ہیںاور کسی سطع پر' زود نویسی کا شکار نہیں ہوتے۔
مختصر نویسی انتہائی دشوار گزار عمل ہوتا ہے۔ ایک چیز کو' بار بار دیکھنا'
قطر برید کے عمل سے گزارتے رہنا' اکتا دینے والا عمل ہوتا ہے۔ مزے کی بات
یہ کہ شگفتگی اور شیفتگی ماند نہیں پڑتی. فیکشن کا قاری' تحقیق و تنقید سے
متعلق تحریروں کے قریب سے بھی' نہیں گزرتا۔
تحققیق و تننقید سے متعلق تحریروں میں' کہیں کہیں سہی' بامعنی اور موضوع سے
متعلق تحریر میں' فیکشن کا سا ذائقہ کمال کے فن کا غماز ہوتا ہے۔ رؤف
پاریکھ نے یوں ہی نہیں کہہ دیا۔
ساحر صاحب تحقیق اور تنقید کے تو مرد میدان ہیں ہی نثر بھی خوب لکھتے ہیں۔
لہذا اب آپ ساحر صاحب کی تحقیق کے ساتھ ان کی سحر طراز نثر سے بھی لطف
اٹھائیے۔
محراب تحقیق: ص 10
حسام الدین لاہوری کی غزل کے تمام اشعارعارفانہ اور صوفیانہ رنگ سخن کے
غماز ہیں۔
ان کی فکر: وحدت اور تسلسل کی آئینہ دار ہے
دنیا مقام فنا ہے' اس سے دل لگانا وبال جان ہے' اصل زندگی خدائے ذوالجلال
کی معرفت و آگہی سے عبارت ہے' تخلیق کائنات کا مقصد و محور انسان ہے' انسان
کی بعثت اور عبادت الہیہ لازم وملزوم ہیں' مرشد' خداوند قدوس تک رسائی کا
ایک زینہ ہے' جیسےمتصوفیانہ مضامین اس غزل میں بیان ہوئے ہیں۔
محراب تحقیق: 16
اس کہے کی سند میں' یہ جملے ملاحظہ فرمائیں۔ حسن کے ساتھ ساتھ' قطرے میں
دجلہ مقید دکھائی پڑتا ہے۔ سید حسام الدین لاہوری کی گیارہ اشعار پر مشتمل
غزل کی روح کو' صرف اور صرف تین جملوں میں بند کر دیا ہے.
محض تین جملوں پر مشتمل ایک پیرہ تین رنگ لئے ہوئے۔
۔بڑا' چھوٹا' اس سے چھوٹا بالکل چھوٹا جملہ۔ ہر جملے کی تشریح و تفہیم کے
لیے بہت سے پہروں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
لفظ جیسے کا استعمال' قاری کو اصل غزل کی طرف پھرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
رموز معنویت اور تحریر کی درست قرآت میں معاون عنصر کا درجہ رکھتےہیں۔ یہ
ابہام سے بچائے رکھتے ہیں۔ اسی بناء پر انہوں نے اپنی تحریروں میں ان کا
باطور خاص اہتمام کیا ہے۔
وہ اپنی تحریروں میں' مصنف یا شاعر کی مجموعی فکری سے انسلاک اور لسانیاتی
اثرپذیری کا' بڑے ہی واضح لفظوں میں اظہار کرتے ہیں۔ اس سے متلعقہ شاعر یا
ادیب کے کہے کو' سمجھنے میں آسانیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ باطور نمونہ یہ
اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔
بہادر شاہ ظفر بنیادی طور پر ایک درویش منش اور فقیر مزاج انسان تھے۔ ا
بتدا ہی سے سلسلہ چشتیہ کے صوفیہ کے ساتھ خصوصی تعلق خاطر تھا۔
محراب تحقیق: ص 77
سند میں بہادر شاہ ظفر کے پانچ شعر بھی درج کرتے ہیں۔ ان پانچ اشعار میں سے
ایک شعر درج خدمت ہے۔
یہی عقدہ کشا میرے' یہی ہیں رہنما میرے
سمجھتا ان کو اپنا حامی دنیا و دیں ہوں میں
محراب تحقیق: ص 78
لسانیاتی حوالہ سے تذکرے کی یہ مثال ملاحظہ ہو۔
لسانی اعتبار سے نجم الدین سلیمانی کی زبان کا دائرہءاثر کئی زبانوں اور
بولیوں کے اثرات کو محیط ہے۔ اس میں ہریانی کا رنگ بھی ہے اور راجھستانی کا
رس بھی' پنجابی کی خوش بو بھی ہےاور برج کا آہنگ بھی; سندھی چند الفاظ بھی
اس بارہ ماسے کی منظر آرائی میں معاون ہیں اور ہندی لفظوں کی جلوہ آرائی
بھی کم نہیں; عربی اور فارسی کے متعدد الفاظ پنجابی تلفظ اور آہنگ میں نظم
ہوئے۔
محراب تحقیق: ص 143
رنگ' رس' خوش بو' آہنگ' منظر آرائی اور جلوہ آرائی جیسے لفظوں اور مرکبات
کے استعمال نے' ڈاکٹر ساحر کی نثر کو شعر خیزی عطا کی۔ یہ اس طرز اظہار کا
اعجاز ہے' اس کے مطالعے سے فیکش کا قاری بھی' تکان اور اکتاہٹ محسوس نہیں
کرتا۔
ادب کی تاریخ میں' تھوڑے میں زیادہ لکھنے کی مثال شاید ہی پائے گی۔ بہت کم
لفظوں میں بہت کچھ سمونا دینا' شاعری کا وتیرہ رہا ہے۔ اس ذیل کی نثر میں'
بہت کم مثالیں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ اس تھوزے میں معلومات کا ایک انبار لگا
دیا گیا ہے۔ اس ضمن فقط ایک جملہ کا' ایک ٹکرا ملاحظہ ہو۔
......اس میں فکر و فرہنگ کا اسلوبیاتی آہنگ; شعور وادراک کی جمالیاتی
معنویت کو اپنی تمام تر رنگینی اور رعنائی کے ساتھ منکشف کر رہا ہے۔۔۔۔۔۔
محراب تحقیق: ص 99
اس نامکمل جملے میں رومان خیزی اور شعری حسن تو ہے ہی' معنویت کے اعتبار سے
بھی' باکمال ہے۔صنعت تکرار لفظی اپنی جگہ' مرکبات فکر و فرہنگ' اسلوبیاتی
آہنگ' شعور وادراک' جمالیاتی معنویت' رنگینی اور رعنائی کی تشکیل میں' ان
کے فکر کے بھرپور ہونے میں شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
ڈاکٹر ساحر قاری کی سہولت اور ابہامی کیفیات سے بچنے کے لیے' اپنے کام کو
مختلف حصوں میں بانٹ دیتے ہیں۔ ہر حصہ' تخلق کے ایک گوشہ کو پوری طرح سے
واضح کر دیتا ہے۔ اس طرح اگلے گوشے میں' پہلے گوشے سے قطعی ہٹ کر بات کی
گئی ہوتی ہے۔ یہ تقسیم' ایک ہی بات کے دہرائے جانے سے بچ جاتی ہے۔ ان کا یہ
طور' مطالعہ کے دوران' قاری کے لیے فکری بوجھ پیدا نہیں ہونے دیتا۔ اس کا
دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے' کہ قاری انہیں فرصت کی مختلف نشتووں میں پڑھ سکتا
ہے۔ مطالعاتی تسلسل ہر سطح پر' برقرار رہتا ہے۔ ایک نشت میں' تخلیق سے
متعلق ایک نقطہ اسے میسر آ جاتا ہے۔
ڈاکٹر ساحر کسی غلط یا اختلافی بات کو گھما پھرا کر نہیں کرتے۔ جو کہتے کی
بات' صاف اور واضح طور پر کہہ دیتے ہیں۔ لپیٹ کر کرنے سے' تفہیم میں گڑبڑ
اور الجھاؤ پیدا ہو جاتا ہے۔ مثلا
مثنوی کے بعض مصرعے ساقط الوزن ہیں۔ اگر ان میں سے کچھ الفاظ کو قدیم روش
املا کے برعکس موجودہ دور میں مروج املا اور تلفظ کے مطابق پڑھا جائے' تو
وہ مثنوی کے وزن پر پورا اترتے ہیں۔
محراب تحقیق: ص 48
وہ قیاسی بات سے پرہیز رکھتے ہیں۔ کام کے دوران' تحقیقی خوردبین کو ہرچند
متحرک رکھتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وہ دور کی کوڑی تلاش لاتے ہیں۔ متعلق اور
غیر متعلق کی تمیز و شناخت میں' انہیں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں
کرنا پڑتا۔
ڈاکٹر ساحر کی تدوینی تحقیق کا' ایک اور پہلو بڑا ہی جاندار ہے' کہ وہ
متعلقہ مخطوطے کے غیرمستعل الفاظ کی جدید املا اور لفظوں کے مفاہیم درج کر
دیتے ہیں۔ ایک طرح کا جامع فرہنگ تیار کر دیتے ہیں۔ متنی تحقیق سے متعلق
اسکالر حضرات کے لیے' بلاشبہ یہ بڑے کام کی ہے۔ اگر جملہ مخطوطوں کے اس
بکھرے سرمائے کو ایک جگہ جمع کر دیا جائے تو یہ اہل تحقیق کے لئے ایک تحفہ
ہو گا اور اس حوالہ سے کام کرنے والے' ان کے احسان مند رہیں گے
ڈاکٹر ساحر حوالہ جات اور حواشی کے معاملات میں' بڑے چوکس ہیں اور اس ذیل
میں کوتاہ کوسی کا شکار نہیں ہوتے۔ یہ ہی نہیں' اشاریے جیسی اہم چیز کو
نظرانداز نہیں کرتے۔ اس سے کوئی بھی محقق' بےجا لیبر کا شکار نہیں ہوتا۔
متعلقات تک' اس کی رسائی منٹوں سیکنٹوں میں ہو جاتی ہے۔
مجموعی طور یہ بات کرنے میں' کسی قسم کا عار یا تردد محسوس نہیں ہوتا کہ
ڈاکٹر ساحر ہوش مند' بالغ فکر اور ذمہ دار محقق ہیں۔ ان کی جملہ کاوش ہا
متنی تحقیق سے متعلق اسکالرز حضرات کے لئے' قابل سند نمونہ رہیں گی |