4 اپریل ہفتے کی شام اپنے جلو میں بے شمار حسین لمحات لے
کر آئی اور یہ حسین لمحات ہمیشہ کے لیے ہمارے ذہن میں ایک خوشگوار یاد کے
طور پر محفوظ ہو گئے!
اتفاق کہیے کہ ایک ہی دن بلکہ ایک ہی وقت یعنی سہ پہر 4 بجے دو تقریبات
تھیں، جن میں ہم مدعو تھے... دونوں تقریبات کا موضوع ایک مگر نوعیت الگ تھی...
اسی طرح میزبان بھی الگ اور مقام بھی ایک دوسرے سے بہت دور تھے... ایک دین
کی نسبت سے تھی تو دوسری پر دنیا غالب تھی...دو تین دن سے متذبذب تھے کہ
کیا کریں؟... کہاں جائیں... !
ایک پرنور محفل میں ہم فیملی یعنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ مدعو تھے اور
احقر ہی اس محفل کا مہمان خصوصی تھا گویا... دوسری تقریب میں شہر کے نامور
لوگ مدعو تھے اور پندرہ افراد اس تقریب کے دولہا تھے... "اتفاق" سے جن میں
ہم بھی شامل تھے...!
اب اجمال چھوڑ کر کچھ تفصیل بیان کرتے ہیں... پہلی تقریب تھی پاکستان کی سب
سے مشہور اور سب سے زیادہ وزٹ ہو نے والی ویب سائٹ (Hamari Web)کی طرف سے،
جو کراچی آرٹس کونسل میں منعقد تھی۔ جس میں ہماری ویب کی طرف سے قائم کردہ
رائٹرز کلب کے تحت پندرہ مضمون نگاروں کی الیکٹرانکلی بکس نیٹ پر شایع کی
گئی تھیں۔ اور آج انہی ای بکس کی رونمائی تھی، جس میں ہم بھی مدعو تھے
کیوں کہ وہاں پھولوں کی برسات میں ہماری بھی ای بک کی رونمائی تھی...!
جب کہ دوسری تقریب تھی ملک کی مشہورشاعرہ اور ادیبہ ریحانہ تبسم فاضلی کے
گھر... باجی ریحانہ تبسم فاضلی سے اکثرادبی اور دینی حلقہ واقف ہو گا...
عمر ستر سال مگر بے حد متحرک... 35 سال وومن کالج ناظم آباد میں لیکچرار
رہیں... مروجہ معنوں میں عالمہ نہ ہونے کے باوجود وقت کے بڑے بڑے علماء
کرام اور مشایخ سے درس قرآن کی اجازت... پرجوش مبلغہ،اس کے علاوہ ملک کی
مشہور ادیبہ اور شاعرہ... آٹھ نثری کتابوں کی مصنفہ... مشہورشاعرہ (حمد و
نعت و منقبت اور نظموں کے چھ مجموعے، جن میں سے دو صدارتی ایوارڈ یافتہ
ہیں...اور اس کے ساتھ ریکی اور حجامہ میں بھی غیر معمولی مہارت رکھتی
ہیں۔جی ہاں کہتے ہم انہیں باجی ہیں مگر وہ ہماری امی جان سے بھی بڑی ہیں...
وہ بھی مجھے اپنے بیٹوں کی طرح عزیز رکھتی ہیں...ان کی اسی ہفتے دو جلدوں
میں کتاب "روشن زندگی" چھپ کر آئی تو کل یعنی ہفتے کو اس کی تقریب رونمائی
رکھی گئی تھی... خواتین کی محفل تھی... مخصوص خواتین مدعو تھیں، جس میں
ہمارے میگزین کی مشہور رائٹرز بھی ہمارے توسط سے بلائی گئی تھیں... ہمیں
بھی بطور مدیر بے حد محبت اور مشفقانہ اصرار سے باجی نے بلایا تھا۔
میں حیران پریشان تذبذب کا شکار تھا کہ کیسے دونوں تقریبات میں ایک ساتھ
شرکت کروں...ایک طرف باجی کا اصرار...دوسری طرف " ہماری ویب"(Hamari Web)
کے سربراہ ابرار بھائی کی ناراضی کا خیال... آخر ایک فیصلہ کر کے ہم مطمئن
ہو گئے کہ ذرا سی ہوشیاری اور تیزی سے ہم دونوں ہی تقاریب میں شرکت کر سکتے
ہیں... عابد محمود عزام کو فون کیا کہ وہ بھی میرے ساتھ آرٹس کونسل میں
مدعو تھےاور اس محفل کے میرے ساتھ وہ بھی دولہا تھے! ... قصہ مختصر وہ، میں
اور ہماری محبت میں ہمارے سنگ سنگ مشترکہ دوست پیارے شکیل رانا بھی رکشہ
میں روانہ ہوئے ...دو حسین و جمیل، سرو قامت اور وجیہہ شہزادوں کے درمیان
بیٹھے ہمارے چھوٹے بھائی نظر آتے عابد عزام راستے بھر خوشی سے اچھلتے
رہے... میں اور شکیل بار بار انہیں تھامتے رہے کہ کہیں اچھل کر رکشے سے
نیچے چھلانگ نہ مار لیں اور پھر ان کے چہرے کی رونمائی مسجد کے باہر ہو اور
بجائے ان پر پھول برسنے کے، ان کی قبر پر چڑھائے جائیں!
بہرحال پہنچے جو آرٹس کونسل تو شام جوان ہو چکی تھی ...اور محفل جم چکی
تھی ... (Hamari Web) کے سربراہ ابرار صاحب نے پیار بھری خفگی سے ہمیں
دیکھا کہ ہم وقت سے دس منٹ تاخیر سے پہنچے تھے...!
قصہ مختصر!... اسٹیج سیکریٹری کے فرائض انجام دیے ہمارے بلبل کی طرح چہکتے
ساتھی، سنیئر صحافی کالم نگار جناب عطا محمد تبسم صاحب نے... بہت ہی
خوبصورت طریقے سے وہ محفل کو آگے لے کر چلے...اسٹیج پر مشہور ادیب پروفیسر
سحر انصاری صاحب براجمان تھے... ان کو دیکھ کر بے اختیار جون ایلیا اور
میرا جی یاد آ گئے... وہی حلیہ ... کاندھے تک لہراتے لمبے بال اور نقوش
بھی بالکل جون ایلیا صاحب جیسے... (نجانے یہ ادیب اور شعراءحضرات کا ایک
مخصوص عمر کے بعد ایک خاص بے پروا حلیہ کیوں اپنا لیتے ہیں؟ !)
بہرحال پندرہ ای بکس تھیں... تمام احباب کو ایک ایک کر کے بلایا گیا...
عابد بھائی نے تو پورا خطبہ جمعہ پڑھا... گویا مدرسہ میں کی جانے والی
تقریر سے یہاں فائدہ اٹھایا... میں نے تو شکریے کےچند جملے بھگتائے اور
ابرار صاحب کے کام کی تعریف کر کے نیچے اتر آیا...کہ واقعی جو کام اس نیک
صورت و خصلت شخص نے محض سات برسوں میں کر دکھایا ہے... وہ ہر پاکستانی
نوجوان کے لیے ایک مثال ہے... اس کی تفصیل ان شاء اللہ ایک الگ مضمون
میں... ہمیں معلوم ہو اکہ ایوارڈ آخر میں دیے جائیں گے...سو ہم دونوں تو
اپنے تعارف کے بعد عصر کی نماز کے لیے کھسک گئے... نماز سے پہلے جو وقت
دیکھا تو دل اچھل کر حلق میں آ گیا... چھ بج رہے تھے... اور ابھی نجانے
کتنی دیر باقی تھی... اسی وقت ایک فیصلہ کیا اور بھائی عابد محمود عزام سے
کہا کہ گویا آپ اب سے محمد فیصل شہزاد ہو... میں تو یہیں سے کھسک رہا ہوں
چپکے سے... جب ایوارڈ ملیں تومیری طرف سے ابرار صاحب سے معذرت کرتے ہوئے
آپ لے لینا...
بس جی بھاگم بھاگ ٹیکسی پکڑی ... ادھر بیگم کو الرٹ کیاکہ بچوں کو لے کر
پیٹرول پمپ چورنگی پہنچو... اُدھر سے ہم پہنچ گئے اور یوں ایک حسین شام ہم
نے دو بے مثال تقاریب اٹینڈ کر کے ریکارڈ قائم کیا۔ |