اسلام ! انسان کی ضرورت

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔

دین مبین اسلام نے جہاں یہ کہا کہ خدا نے انسان کو اس لئے خلق فرمایا کہ وہ اس کی عبادت کرے تو مومنین نے خوشنودی خدا کی خاطر عبادتوں کو اپنا روزآنہ کا معمول بنالیا کسی نے اس عبادت کو نماز، روزہ ، حج وغیرہ میں تلاش کیا تو کسی نے اس کو انسانیت کی خدمت میں۔۔۔ مگر اگر انسان یہ سمجھتا ہے کہ نماز، روزہ، حج، زکواۃ، خمس یا دیگر فروع دین کو جوخدا کیلئے انجام دیتا ہے اور ان عبادات سے خدا کو کوئی نفع پہنچا سکتا ہے تو یہ اس کی بہت بڑی بھول ہے کہ خدا کی خدائی میں اس کے نماز و روزہ سے کسی قسم کا اضافہ ہوگا۔ خداوند قدوس کی صمدیت اس بات سے ماوراء ہے ۔ نہ تو صرف نماز، روزہ، حج وغیرہ کی ظاہری شکل خدا کی بارگاہ میں قابل قبول ہے نہ ہی صرف انسانیت و بظاہر سماج کی خدمت کا نعرہ لگا کر نماز ، روزہ وغیرہ کی ظاہری شکل سے دوری اختیار کرکے بندگان خداکے حقوق ادا کرکے فرض پورا ہوتا ہے۔ بلکہ اسلام وہ دین فطرت ہے جو نہ صرف انسان کی فطرت بلکہ اس کائنات کے ارتقاء کا سسٹم و نظام جن رموز پر قائم ہے اس کا کمال صرف دین مبین اسلام پر عمل کرنے سے ہی حاصل ہوسکتا ہے۔ چاہے ابتدائے عمر میں وہ ظاہری اعمال پر ہی منحصر ہو اور بعد میں ان اعمال کی تفسیر و توجیہ یا ان اعمال کا کنایہ سمجھ میں آنے پر اعمال گہرائی اور معرفت کے ساتھ انجام پائے جانے لگیں۔عمر کے ہر دور میں ظاہر ی اور باطنی امور میں دلچسپی اور اس پر عمل اس ارتقائی سفر کیلئے ضروری ہے۔

خداوند نے عقائد سے لےکر یعنی اصول دین سے فروع دین تک جتنے بھی اعمال و نظریات اپنانے پر زور دیا ہے وہ انسان کی اپنی بقا ء و ارتقاء کیلئے منظم و با ترتیب زندگی گذارنے کے آلے ہیں۔ جس میں انفرادی یا اندرونی یعنی نفسیاتی نظم و ضبط سے لیکر بیرونی یعنی جسمانی، علمی، معاشی، ثقافتی، معاشرتی و سیاسی نظم و ضبط کو برقرار رکھنے کی خو دلائی گئ ہے اور انسان سے چاہا گیا ہے کہ اس دنیا کو جنت کے نمونے یا ماڈل کے طور پر پیش کرے۔ خداوند کو نہ ہمارے علم حاصل کرنے سے سروکار ہے نہ اس کو ہمارے نماز پڑھنے ، روزہ رکھنے یا صلئہ رحمی سے کوئی فائدہ ہے نہ اس کو ہمارے حلال رزق کمانے اور مصرف سے کوئی غرض ہے نہ ہمارے انفاق و فطرہ و زکواۃ کی ادائیگی سے سروکار ہے نہ ہی اس کو ہمارے عادل و منصوص من اللہ رہبر، امام و قائد کے اطاعت سے کوئی فرق پڑتا ہے۔ فرق پڑتا ہے تو ہمیں ! فائدہ ہے تو ہمارا ! صرف ہمارا یعنی حضرت انسان اور اُس کے سماج کا ! ان احکامات دین کے ذریعے خدا معاشرہ انسانی کو ، زندگیِ انسانی کو ایک ھمہ گیر آئین ِزندگی و اصول ِ منطقی کے تحت منظم کرنا چاہتا ہے تاکہ اس نظام کی بدولت تما م شعبہ ء حیات فطرت کے قوانین کے تحت منظم ہوجائیں جس سےعقل انسانی بھی مطمئن ہو، ضمیر انسانی بھی مطمئن ہو اور جذباتی رحجانات کو مثبت راہیں میسر ہوں۔ اس سسٹم اور نظم و ترتیب کی نظریاتی شکل اسلامی تعلیمات ہی ہیں اور ان پر عمل پیرا ہونا ہی انسان کو سعادت مند بناتا ہےاور ہر شعبہ حیات میں یہ نظریات و احکامات ِفطرت ضمیر انسانی سے پھوٹتے ہیں اور ضمیر انسانی کو مطمئن کرتے ہیں، ان کتابی و نظریاتی باتوں کے ذریعے اسلام کا نظام انسان کو ایک بڑے نیٹورک سے منسلک کرتا ہے اور ایک بین الاقوامی و بین العوالم تربیتی نظام سے منسلک کرتا ہے اور قدم بقدم انسانی زندگی کو آہستہ آہستہ علوم اور پھر عملی شکل میں مختلف نظاموں میں حصہ لینے والا ایک بامعرفت اور متحرک انسان تشکیل دیتا ہے۔ یہ وہ دینی نظریات ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر انسان نفس مطمئنہ یعنی تقرب الی اللہ کی منزل پر فائز ہوتا ہے اور یہ وہ مدارج ِعلم و آگاہی و معرفت ہیں جن کے ساتھ مومنین اجتماعی ریاضتوں کے ساتھ قرب الہی میں اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ پست ، رکیک و گناہ آلود خیالات نہ صرف انسان کے ذہن کو فشار و نفسیاتی تناؤ میں مبتلا کرتے ہیں بلکہ ان خیالات پر عمل کرنا معاشرہ ھائے انسانی کے مختلف شعبہ جات میں انتشار و ناھم آہنگی ، بے نظمی و بے ترتیبی کے اثرات کو فروغ دیتا ہیں۔ انسانیت کا شرف اعلیٰ اخلاق کی بلند منزلیں ہیں جو اس کو نفس مطمئن عطا کرتی ہیں اور دنیا کے ظاہری نظاموں یعنی معیشت، سیاست ، علوم و ثقاتی فنون ، معاشرت وغیرہ میں ایک سسٹم کا نمونہ پیش کرتی ہیں ! ایساسسٹم جو منطقی نظریات و عاقلانہ روش پر مبنی باترتیب اور منظم کارخانہ حیات کے کل پرزے ہیں۔

اسلامی تعلیمات اس کارخانے کے کل پرزے کی طرح ہیں جو خام مال کو کمال عطا کرتے ہیں اور استعمال کے قابل بناتے ہیں جو اشیاء(انسانوں)سے فائدہ اٹھانے کیلئے اس کو تیار کرتے ہیں اور فلاح انسانی کی مادی و روحانی بقا کا سامان کرتے ہیں۔ انسان پیدائیش کے بعد اگر سسٹمِ معاشرتی میں منطقی نظم و ضبط نہیں دیکھتا یعنی کفر الحاد و منافقت پر مبنی معاشرہ دیکھتا ہے تو اسلامی تعلیمات پر عمل اس انسان کو اُس منطقی سسٹم سے مربوط کردیتی ہیں جو باقی رہنے والا ہے جس میں خالص شعور و مثبت جذبات کی کارفرمائی ہے۔ اسلامی تعلیمات پر عمل انسان کو بقا کی طرف لیجاتا ہے اس کے معاشرتی نظاموں کو بقاء و ابدی زندگی عطا کرتا ہے اس کے انفرادی اعمال کو منطق، ترتیب، نظم و انضباط اور نفس کو اطمینان عطا کرتا ہے۔

خواہ بیت الخلاء کے آداب و تہذیب کی بات ہو یا کسب ِ روزگار و مصارف معاشی کی بات ہو چاہے مرد و عورت کے روابط یا نونہالان کی تربیت و معاشرے میں روا رکھے جانے والے رویوں کا طریق ہو، خواہ دشمنِ فطرت و منطق سے صلح و صفائی یا جنگ کی بات ہو، چاہے حکومت بنانے اور خلقِ خدا کی خدمت کی روش ہو۔ اسلام ہر شعبہ میں تہذیب زندگی و روش اخلاق یعنی سرخرو و سربلند ہونے کے طریقہ کار بتاتا ہے۔ خدا کمال ہے اور باکمال ہونے کو پسند کرتا ہے ۔ پستی و رکیکیت سے نفرت کرتا ہے۔ اسلام نے علم و حکمت کے حصول کو انسان پر فرض کرکے اُسکی فردی اور معاشرتی اٹھان و سربلندی چاہی ہے، اخلاق کے رموز سے معاشرتی روابط کو استحکام عطا کیا ہے اور محبت و امن کی خو دلائی ہے۔ ولایت سے منسلک کرکے باشعور افراد کو حکومت بنانے کا اختیار دے کر نظام ھائے معاشرتی، ثقافتی، معاشی وغیرہ کو درست راہ پر گامزن کیا ہے۔ معیشت میں حلال کے حصول و مصرف سے معاشرے میں مادی ضروریات کی تکمیل اور کمزوروں اور بے سہارا افراد کے سہارے کا سامان کیا ہے۔ نماز کی کنائی شکل سے برائی کے خلاف عملی میدان میں عادل امام کے پیچھے متحد جماعت کو برسرپیکار ہونے کی طرف راغب کیا ہے، روزےسے کمتر معاشی طبقات کا احساس دلا کر ان کی ضرورتوں کو زکواۃ و فطرہ سے پورا کرنے کیلئے زمینہ فراہم کیا ہے۔ حج سے بین الاقوامی معاشروں کی خوبیوں کو اپنانے اور صلہ ء رحمی اور تعلقات کے فروغ اور ذہن کو بین الاقوامی بنانے کا راستہ دکھایا ہے اور ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھنے اور انکے حل کی راہ دکھائی ہے، جہاد سے مندرجہ بالا نظام و نظم و انضباط میں خلل و فساد پید اکرنے والے عوامل کی روک تھام و اصلاح نظام کی طرف متوجہ کیا ہے خواہ تعلیمی نظام ہو، رسومات و ثقافت کے میدان ہوں وغیرہ

غرض دینِ فطرت یعنی جو نظام و سسٹم خدا نے بنایا ہے اس کو اپنا کر انسانی معاشرے کوارتقاء و کمال پر انسان کو ہی پہنچانا ہے ، انسان اگر سسٹم کے خلاف چل کر کامیابی کی تمنا کرے گا تو فطرت اُسے قریب یا بعید ناکامی کا تمغہ دے گی۔خدا و اولیاء اللہ سےان ارتقائی منزلوں میں آنے والی مشکلات و آزمائشات میں توسل سے ہمت و حوصلہ لینا تو حتمی ہے اور پس پردہ طاقت جو ظاہری آنکھوں سے نظر نہیں آتی مگر باطنی بصیرت سے مشاہدہ کی جاسکتی ہے، خدا وند متعال ہی کی ہے مگر اس ارتقائی سفر کو کمال پر پہنچانے کا ذمہ حضرتِ انسان کا ہی ہے۔ وہ انسان جو اسلام کے فطری قوانین پر عمل پیرا ہوکر معاشرہ انسانی کی معاشی ، علمی، ثقافتی، معاشرتی یا سیاسی ارتقاء کو کمال پر پہنچائے باالفاظ دیگر معاشرہ انسانی کو جنت کے نمونے پر پیش کریں وہی اس جنت میں بھی جانے کے حقدار ہوں گے جو خداوند کریم نے ایسے مومنین کیلئے روز حشر کے بعد تیار کررکھی ہے۔ انشاءاللہ
"اور جس نے بھی کوشش کی اس نے اپنے لئے کوشش کی اور اللہ تو سارے عالمین سے بے نیاز ہے۔"
سورۂ عنکبوت(مکٹری کی کتاب)، آیت نمبر ۶
پروردگار عالم سے دعا ہے کہ ہمیں اپنا عبد خالص بنا کر اپنے بندوں کی خدمت کی ایسی توفیق مرحمت فرمائے جس میں ہمارےدونوں جہانوں کی سعادتوں کی تکمیل ہوسکے۔
اللھم صلی علی محمد وعلی آل محمد
سید جہانزیب عابدی
About the Author: سید جہانزیب عابدی Read More Articles by سید جہانزیب عابدی: 94 Articles with 70824 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.