اجلاس یمن پر اور تنقید تحریک انصاف پر
(Haq Nawaz Jilani, Islamabad)
یمن کے مسئلے پر 6اپریل کو
پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس شروع ہوا جس میں اراکین اسمبلی نے حکومت سے
مطالبہ کیا ہے کہ حکومت کو یمن کی خانہ جنگی سے دور رہنا چاہیے۔پاکستان
سعودی عرب کی سلامتی اور جغرافیائی وحدت کو لاحق خطرات کے تدارک کے لیے فوج
بھیجوانے کے بجائے سفارتی کوششیں کر یں۔اراکین اسمبلی کا کہنا ہے کہ اقوام
متحدہ کے ذریعے متحارب فر یقوں میں سیز فائراور بات چیت کے ذریعے مسئلے کا
حل تلاش کیا جائے۔پاکستان اور ترکی دیکر اسلامی ممالک کو ساتھ ملا کر ایران
اور سعودی عرب کو ایک میز پر بٹھائیں۔مشتر کہ اجلاس سے خطاب میں پیپلز
پارٹی ، تحریک انصاف، ایم کیو ایم ، عوامی نیشنل پارٹی ، جماعت اسلامی ،
جمعیت علما اسلام اور پختون میپ کے اراکین اسمبلی نے یمن کے مسئلے پر بحث
میں حصہ لیا ۔ تمام سیاسی جماعتوں نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت کو یمن
میں اپنی فوج نہیں بھیجنا چاہیے۔ پاکستان خود دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا
ہے جس میں کسی بھی ملک نے پاکستان کے ساتھ مدد نہیں کی ۔بعض اراکین اسمبلی
نے کہا کہ پہلے ہی ہماری افغانستان میں مداخلت کی وجہ سے ملک دہشت گردی کا
شکار ہوا ہے۔ پی پی پی اراکین اسمبلی کی طرف سے بھی کہا کیا کہ یہ شیعہ سنی
لڑائی نہیں ہے ‘اس تاثر کو ہمیں خود ختم کر نا چاہیے۔ چوہدری اعتزاز احسن
نے تقر یر کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اراکان اسمبلی کو حقیقت سے آگاہ کریں۔
حکومت واضح پالیسی اختیار کریں ۔تحر یک انصاف کی جانب سے کہا گیا کہ
پاکستان کو سعودی عرب اور یمن کے باغیوں کے معاملے میں غیر جانبدار رہنا
چاہے ۔ پی ٹی آئی کے شاہ محمود قریشی اور شریں مزاری کی جانب سے کہا گیا کہ
سعودی عرب کی سلامتی کوکوئی خطرہ نہیں ہے ۔ یہ یمن کا اندررونی
جھگڑاہے۔ہمیں ماضی سے سبق سیکھ کر دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت نہیں
کر نا چاہیے۔ ایم کیوایم کی جانب سے کہا گیا کہ یمن میں اندررونی جنگ جاری
ہے ۔ سعودی عرب مداخلت کررہا ہے۔ ہم کیسے سعودی عرب کا کہنا مانے۔ایم
کیوایم کے رہنماؤں نے بھی فوج بھجوانے کی مخالفت کردی کہ پاکستان متحمل
نہیں ہوسکتا۔عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما ؤں نے بھی یمن جنگ کا حصہ بنانے کی
مخالفت کر تے ہو ئے سینیٹر الیاس بلور نے کہا کہ سعودی عرب کی محدو مدد
کرنی چاہیے اور اپنی فوج کوملوث نہیں کرنا چاہیے۔ہم اپنی توجہ مشرق وسطی پر
مرکوز نہیں کرسکتے۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علما اسلام کے رہنماؤں نے بھی
اپنے خطاب میں کہا کہ پا کستان کو دوسرے اسلامی ممالک کے ساتھ ملا کر اس آگ
کو ٹھنڈا کرنا چاہیے۔ ہمیں سوچ سمجھ کر فیصلے کر نے ہوں گے۔ سعودی عرب کے
ساتھ ہمارے اچھے تعلقات ہیں اور دوسرے برادار اسلامی ممالک کے ساتھ بھی
ہمارے اچھے اور بہتر تعلقات ہیں۔
یمن اور سعودی عرب کے مسئلے پرحکومت کی جانب سے یہ کہا گیا کہ دوسرے اسلامی
ممالک کو بھی کردار ادا کر نا چاہیے۔حکومتی اراکان کاکہنا تھا کہ پارلیمان
میں ہو نے والی بحث سے حکومت کو عوامی خواہشات کے مطابق فیصلہ کرنے اور
پالیسی بنانے میں مدد ملے گی۔وزیراعظم میاں نواز شریف کی جانب سے کہا گیا
کہ پاکستان جوبھی فیصلہ کر یں گا وہ ایوان کو اعتماد میں لے کر کرے گا ۔
حکومت نے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ان کا یہ بھی کہناتھا کہ پاکستان
ترکی اور ایران کے ساتھ بھی بات چیت کر رہا ہے ۔ پاکستان کا کردار مثبت
ہوگا۔ حکومت چاہتی ہے کہ یمن مسئلے کا پر امن حل نکلیں۔
تجز یہ کاروں کی جانب سے بھی یہ کہا گیا ہے کہ حکومت کو عرب اسپرنگ میں حصہ
نہیں لینا چاہیے۔ بجائے فر یق بننے کے پاکستان کو ثالث کا کردار ادا کر نا
چاہیے ۔ تجز یہ کاروں کے مطابق پاکستان کو اپنی افواج امن کے لیے صرف
بھیجنی چاہیے۔ پاکستان نے ماضی میں دوسرے ممالک میں امن کے لیے اپنی فوج
بھیجوائی ہے۔ یمن مسئلے پر او آئی سی کی خاموشی حیران کن ہے۔ اوآئی سی سمیت
اقوام متحدہ کو بھی اپنا کردار ادا کر نا چاہیے۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ
حکومت فوج نہیں بھجوائے گی ۔
حکومت نے جب یمن مسئلے پر مشترکہ اجلاس پیر کے روز بلایا تو تحریک انصاف نے
بھی سات ماہ بعد اسمبلی میں واپس جانے کا فیصلہ کیا کہ ہمیں یمن کے مسئلے
پر اجلاس میں شر یک ہو نا چاہیے کہ جب حکومت نے دوسال بعد تحریک انصاف کا
الیکشن 2013میں دھاندلی کے خلاف تحقیقات کا جوڈیشل کمیشن کامطالبہ مان لیا
ہے تو اسمبلی سے باہر رہنے کا جواز بھی ختم ہوجاتا ہے۔ حکومت کے سینئر و
فاقی وزیر اور وزیر اعظم کے دست راز اسحاق ڈار نے بھی تحر یک انصاف کو
منالیا تھاکہ وہ اسمبلیوں سے اپنا احتجاج ختم کر یں جبکہ تمام سیاسی
جماعتیں اور میڈیا بھی تحریک انصاف پر تنقید کر رہا تھا کہ پی ٹی آئی اپنا
احتجاج اسمبلی کے فلور پر کیا کر یں۔اب جب تحریک انصاف کے ارکان پارلیمنٹ
کے مشترکہ اجلاس میں آئیں تو حکومتی اراکین سمیت ایم کیوایم ، جمعیت علما
اسلام اور عوامی نیشنل پارٹی کے ارکان نے بھی خوب تنقید کی لیکن مسئلہ اس
وقت زیادہ خراب ہوا جب حکومت کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے پی ٹی آئی اراکین
پر تنقید کر تے ہوئے شرم و حیاجس غیر پارلیمانی الفاظ استعمال کر کے ان پر
برسے جس کا جواب پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری اعتزاز احسن نے دیا کہ حکومت
کا روایہ درست نہیں ہے ۔ یہ سب کچھ وزیراعظم نواز شر یف کے موجودگی میں ہوا
جس سے بھی کئی سوال پیدا ہوئے کہ یہ سب کچھ پلاننگ کے تحت پی ٹی آئی اراکین
سے بدلہ لینے کے لیے کیا گیا۔ یمن کے مسئلے پر بلایا گیا اجلاس سے محسوس یہ
ہورہا تھا کہ شاید تحر یک انصاف کے ممبران سے بدلہ لینے کے لیے بلا یا گیا
ہو جس سے ایوان کا ماحول خراب ہو گیا ۔ مبصر ین کا کہنا ہے کہ حکومتی ارکان
اور سیاسی جماعتوں کا تحر یک انصاف کے خلاف احتجاج بلا جواز اس لیے تھا کہ
پی ٹی آئی نے چار ماہ احتجاج کیا اور دوسال سے مسلسل انتخابات میں دھاندلی
کا رونا رو یا ہے جس پر اب دو سال بعد حکومت نے جوڈیشل کمیشن بنا دیاجس کا
پہلا اجلا س بھی منعقد ہوا اور آئندہ اجلاسوں میں دھاندلی کے حوالے بہت سے
سیاسی جمااعتوں کے اکابر ین کو بھی بلا یا جائے گا کہ وہ اپنا بیان ریکارڈ
کر لے ۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں پا کستانی سیاست تبدیل
ہو نے والی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جوڈیشل کمیشن کب تک اپنا کام ختم کر تی
ہے اور اس پر کتنا عمل ہوتا ہے۔ |
|