کیا واقعی کراچی پرامن شہر بن جائے گا؟

کراچی جو گزشتہ کئی دھائیوں سے آتش فشاں بنا ہوا تھا رینجر کے بلا امتیاز اور جرات مندانہ آپریشن کی بدولت امن کی جانب قدم بڑ ھا رہا ہے ۔ یہ خیال صرف میرا ہی نہیں بلکہ تمام سیاسی اور فوجی اکابرین کابھی ہے ۔ پھر یہ سوچ بھی ابھرتی ہے کہ آخر روشنیوں کا شہر جو پاکستان کی صنعتی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا تھا وہ جرائم اور قتل و غارت گری کی آماجگاہ کیسے بن گیا ۔ اگر ہم ماضی کے دریچوں میں جھانکیں تو اس جرم میں مبتلا بے شمار چہرے دکھائی دیتے ہیں ۔کراچی کی سیاست پر چونکہ پہلے جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کا غلبہ تھا ۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں جب سندھی قوم پرست رہنما جی ایم سید بھارتی خفیہ ایجنسی را کے اشاروں پر ناچ کر سندھ کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کی میں شریک ہوگئے تو جنرل ضیاء الحق نے اس کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھا کر معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش کی ۔ جنرل ضیاء الحق کی جانب سے کھلے حمایت ملنے کے بعد جی ایم سید نے غوث علی شاہ کے ذریعے کراچی پر غلبہ حاصل کرنے کی حکمت عملی وضع کی ۔جماعت اسلامی کا زور توڑنے کے لیے مہاجروں کو ان کے حقوق کے نام پر اکٹھا کرکے ایم کیوایم کے غبارے میں ہوا بھردی ۔ قومی خزانے اور حکومتی سرپرستی اورلامحدود وسائل کی فراہمی نے الطاف حسین جیسے ایک عام شخص کو جرائم پیشہ افراد کی جماعت کا سربراہ بنا دیا ۔اس جماعت کی بنیاد اور تربیت جرمنی کے ظالم حکمران ہٹلر کی من پسند نازی تنظیم کی طرح کی گئی جس میں چن چن کے جرائم پیشہ اور ٹارگٹ کلرز کو شامل کرکے کراچی میں بھتہ خوری کا آغاز کیا گیا ۔ ہر شخص جانتا ہے کہ اس تنظیم میں اختلاف کرنے والوں پر زندگی کیسے مشکل بنا دی جاتی ہے ۔پھر ایم کیو ایم کے اذیت گاہوں میں نہ صرف سرکاری ملازمین بلکہ فوج کے کئی افسروں کو بھی تشدد کا نشانہ بنا کر اپنی طاقت کا اظہار کیا گیا ۔ اس سے بڑی اور بات کیا ہوگی کہ کورکمانڈر کراچی کے روبرو ایم کیو ایم کے چیرمین نے کھلی الفاظ دھمکی دی کہ اگر فوج نے ایم کیو ایم پر ہاتھ ڈالا تو اس کا حلیہ بگاڑ اور خون کی ندیاں بہا دی جائیں گی۔ سیاسی مصلحتوں اور حکومتوں کی مجبوریوں کی بنا پر معاملات دن بدن خراب ہوتے گئے۔ حتی کہ جب ایک نیک سیرت انسان حکیم محمد سعید کو شہید کیا گیا تو صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور 1992ء میں ایم کیو ایم کے خلاف بھرپور آپریشن کیا گیا ۔ جب فوج آپریشن کررہی تھی تو حکومت عملی کے تحت عورتوں اور بچوں کو بالمقابل لا کھڑا کیا اور بین الاقوامی سطح پر شور مچا کے آپریشن کو حتمی شکل اختیار کرنے سے پہلے ہی ختم کروادیا ۔ اس بات کے شواہد بھی موجود ہیں کہ اس وقت جن فوجی افسروں اور جوانوں نے آپریشن میں حصہ لیا تھاان میں سے بیشتر کو ایم کیو ایم کے ٹارگٹ کلر ز ہلاک کر چکے ہیں ۔ اب جبکہ سند ھ رینجر وفاقی حکومت اور فوج کی سرپرستی میں نہایت جرات مندی سے کراچی میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن کررہی ہے توالطاف حسین نے لندن میں بیٹھ کر پھر یہ دھمکی دی کہ نائن زیرو پر چھاپے مارنے والے زندہ نہیں بچیں گے بلکہ جس کرنل کے ایما پر الطاف حسین پر دھمکیاں دینے کا مقدمہ قائم ہوا اس کو بھی ایم کیو ایم کی جانب سے بارہا مرتبہ دھمکیاں دی جاچکی ہیں ججز اورصحافی تو پہلے ہی زیر عتاب چلے آرہے ہیں ۔اس کے باوجود کہ کراچی کا بیشتر حصہ اب بھی ایم کیو ایم کے آہنی پنجوں میں جکڑا ہوا ہے لیکن رینجر کی جرات اور بہادری کی بدولت حالات کچھ بدلتے ہوئے محسوس ہورہے ہیں جس کا اظہار عزیز آبادکے علاقے میں عمران خان کا جلسہ اور ضمنی الیکشن میں حصہ لینا ہے ۔الیکشن تو پہلے بھی کتنی بار ہوچکے ہیں لیکن کسی کی جرات نہیں تھی کہ وہ ایم کیو ایم کے زیر تسلط علاقوں میں جاکر ووٹ مانگنے کی جرات کر سکے ۔ پولیس ہو یا مقامی انتظامیہ کے ادارے ہر جگہ ایم کیو ایم نے اپنے سیاسی اور جرائم پیشہ کارکن بھرتی کروا رکھے ہیں جو تنخواہ تو سرکاری خزانے سے لیتے ہیں لیکن وارداتیں ایم کیو ایم کے ایما پر بلا خوف خطر کرتے ہیں ۔گورنر ہاؤس ان جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی میں پیش پیش رہتا ہے۔ اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ اخباری مالکان کو عزیز آباد بلوا کر ان سے تحریری طور پر معافی بھی منگوائی جاچکی ہے وہ پاکستانی پریس جو خود کو بہت آزاد اور جرات مند قرار دیتا ہے کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف خبر چھاپنے کی جرات نہیں کرتا ۔ اب یہ آہنی زنجیر قدرت کی گرفت میں آکر ٹوٹتی ہوئی دکھائی دیتی ہے ۔اس میں عمران خان کو بھی کریڈٹ جاتا ہے جس نے الطاف جیسے طاقتورانسان کو نہ صر ف للکار ا بلکہ اس کے گھر میں جاکر کامیاب جلسے بھی کیے ضمنی الیکشن کا نتیجہ کچھ بھی ہو ایک مرتبہ اس کے طلسم کو توڑنے کی جرات تو کی ہے ۔ اس سے پہلے یہی الطاف کھلے الفاظ میں یہ دھمکی دے چکا تھا کہ اگر ایم کیو ایم کے خلاف کوئی قدم اٹھایا تو حکومت کاکوئی وزیر مشیر کراچی میں داخل نہیں ہوسکے گا جس طرح 12مئی کو سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو کراچی میں داخل نہیں ہونے دیاگیا تھااور نہ ہی 12مئی کے مقدمے کی سماعت سندھ ہائی کورٹ میں ہو نے دی ۔قدرت کاایک اصول ہے کہ جب انسان ظلم و زیادتی کی تمام حدیں عبور کر جاتاہے اور خود کو دنیا کا طاقت ور انسان سمجھنے لگتا ہے تو قدرت اس کے غرور کو خاک میں ملانے کا اہتمام ضرور کرتی ہے ۔ اس کے باوجود کہ پارلیمنٹ میں الطاف حسین کے خوف میں مبتلا سیاسی نمائندے اٹھتے بیٹھتے پارسائی کی قسمیں کھارہے ہیں اور بین الاقوامی عدالت کادروازہ کھٹکھٹانے کی دھمکیا ں بھی دی جارہی ہیں لیکن اب شاید جرمن نازی تنظیم کی طرز پر قائم ایم کیو ایم کے عسکری ونگ کا خاتمہ بہت قریب دکھائی دیتا ہے ۔ اگر ایسا ہوگیا تو امید کی جاسکتی ہے کہ کراچی ایک بار پھر امن و آشتی اور روشنیوں کا شہر بن جائے گا لیکن اس شہر کو پرامن بنانے کے لیے رینجر کے جو افسر اور جوان اپنی جانی و مالی قربانیاں دے رہے ہیں ان کاہر سطح پر اعتراف کرنا اور انہیں ملک کا اعلی ترین اعزاز دینا قرین انصاف بنتا ہے ۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 673355 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.