ہماری چند تحریریں اردو فینز اور
اس کے میگرین میں شائع ہوئیں توان کی پذیرائی پر ہمیں بے طرح اطمینان ہوا-
ہم نے سوچا کہ اردو فینز تو آٹھ ہزارصارفین کا مجموعہ ہے، ان میں سے بھی
محض ہزار پندرہ سو ہماری تحریروں سے لطف اندوزہو پاتے ہیں- ہمارے خیال میں
یہ ہمارے باقی پاکستانی قارئین کی حق تلفی تھی کہ وہ ہماری تحریر پڑھنے کی
سعادت سے محروم تھے- چنانچہ ہم نے اپنی چند تحریریں مختلف اخبارات و رسائل
میں بھیجیں کہ وہ ان کو شائع کر کے ملک و ملت کے دور دراز مقیم لوگوں تک
پہنچائیں۔ تا ہم ان اخبارات و رسائل کے مدیران نے اٹھارہ کروڑ لوگوں کے
ہونےوالےارمانوں کا خون کرتے ہوئے ہماری تحاریر شکریے کے ساتھ واپس کر دیں۔
آپ بخوبی واقف ہیں کہ ہماری ہر تحریر ہی ادبی شاہکار ہوتی ہے لہٰذا ہمارے
لئے ان مدیران کا رویہ ناقابلِ فہم تھا-یقینًا یہ لوگ اپنے اخبارات و رسائل
کی فروخت میں اضافے کے خواہش مند نہیں- ہمارا کیا ہے؟ یہ تحریریں غیر
مطبوعہ بھی رہیں تو آئندہ کسی محقق کی تحقیق کا محور ہوں گی اور ان کی
روشنی میں مستقبل کا مئو رخ ہمارے ادبی مقام کا تعین کرے گا۔تا ہم ہمارے
اردوقارئین کے ساتھ زیادتی ہے کہ وہ ان سے بے بہرہ ہیں۔
طویل سوچ بچار کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ مضامین کے شائع نہ ہونے کی
وجہ ہمارا نام ہے عمران اعوان- یہ نام کسی پروفیسر کاتو ہو سکتا ہے مگر
ادبی نام نہیں۔ تاریخ میں بھی کوئی اس نام کی ادبی شخصیت نہیں گزری- یقینًا
مدیران نام پڑھتے ہی تحریر رکھ دیتے ہوں گے کہ یہ لیکچر اب کون پڑھے؟
قصہ مختصر ہم نے نام تبدیل کرنے کا قصد کر لیا-اب ادبی ناموں پر نگاہ کی تو
اندازہ ہوا کہ اپنا ابتدائی نام کو اختتام پر بھی لگادیا جائے تو نام
شاعرانہ محسوس ہوتا ہے جیسے میرتقی میر، فیض احمد فیض، سیف الدین سیف اور
امجد اسلام امجد وغیرہ- اس مناسبت سے ہم نے عمران احمد عمران یا عمران
اعوان عمران بھی سوچے مگر بات آگے نہ بڑھی۔کیونکہ یہ نام ہمیں ثقیل محسوس
ہوئے- دوسری قباحت اس نام میں یہ تھی کہ نام شاعرانہ تھا- اور شعر کے
معاملے میں ہم کورے ہیں- ہمیں صرف استاد امام دین گجراتی کے اشعار کی سمجھ
آتی ہے اور ان کے ہی کچھ اشعار ہمارے حافظے میں بھی ہیں مگردوسرے کسی شاعر
کے نہیں- اب اگر ہم سے کوئی شعر کی فرمائش کر دے تو ہم کیا کریں گے؟ امام
دین کے اشعار پر ہاتھ صاف کرنا ان سے زیادتی کے مترادف ہے اور بڑی وجہ یہ
کہ فسادِ خلق کا اندیشہ تھا سو ہم عمران اعوان عمران سے باز رہے۔
اسد اللہ خان غالب اور علامہ اقبال بھی ذہن میں آئے کہ ان کی طرح ہم بھی
کوئی غیرمتعلقہ لاحقہ لگا لیں مگر ہمیں کوئی مناسب لاحقہ نہیں ملا- جو
مناسب لگے وہ پہلے ہی سے کسی دوسرے ادیب نے چوری کر رکھے تھے۔
اس کے علاوہ اپنے علاقے کی مناسبت سے بھی مروجہ نام ہیں جیسے کہ جگر
مرادآبادی، حفیظ جالندھری، ساحر لدھیانوی وغیرہ۔تقدیر نے ہمیں بسایا بھی ان
علاقوں میں کہ جن کے ناموں میں کوئی رومانیت نہیں- ہم نے بھی راولپنڈوی،
پنڈیگھیبوی اوراٹکوی لگایا مگر بات نہ بنی- اپنے گائوں جانگلہ کینسبت
جانگلوی بھی بطور لاحقہ رکھا جا سکتا تھا مگر کسی ناسمجھ نے جانگلوی
کوجانگلی کہہ دیا تو ازالہء حیثیت عرفی کا اندیشہ تھا سو ہم عمران اعوان
جانگلوی سےبھی باز رہے۔
پھر تاریخ پر نگاہ دوڑائی تو پدرم سلطان بودوالا معاملے کا انکشاف ہوا- کہ
اگر والدین میں سے کسی کے نام پر اپنا نام رکھو توبھی نام کو پر لگ جاتے
ہیں- مثلاً ابنِ مریم، ابنِ خلدون، ابنِ رشد، ابنِ بطوطہ اور ہمارے محترم
ابنِ انشا۔ بلاشبہ یہ تمام ادیب نہیں اور سب کی وجہ شہرت مختلف مگر سب کا
تذکرہ تو بہرحال ادب میں ہے۔لہٰذا اسی روایت پر ہم نے بھی اپنے والدکےنام
پر اپنا قلمی نام ابنِ ریاض رکھ دیا۔
اب ہم نے جب اس کی اطلاع اردو فینز پر دی تومختلف لوگوں کا ردِ عمل مختلف
تھا- کچھ لوگوں نے مطلع کرنے پر شکریہ ادا کیا- سیرت نے تو اسے بلا جواز کر
دیا۔ اور کچھ لوگ کہ جنھوں نے عمران اعوان کا ادھار دینا تھا، وہ دل ہی دل
میں خوش ہوئے کہ جان چھوٹی ادھار سے بلکہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے
مصداق نہ دی گئی رقم وصول کرنےکی کوشش کرنے لگے- رابعہ کے کہا کہ بہت سوچ
کے نام رکھا ہے۔ اس کی وجوہات اوپر درج کر دی گئی ہیں- پاکیزہ نے پوچھا کہ
کب نیا نام تبدیل ہوا ہے؟ غالبًا تبدیلی نام کی حلف برداری کی تقریب میں
شرکت کاارادہ تھا مگر اطلاع نہ ہونے کے باعث نہ پہنچ پائیں جس کے لئے ابنِ
ریاض معذرت خواہ ہے۔
لودھی نے کہا کہ اللہ تعالٰی انکل ریاض پر رحم فرمائے اور پوچھا کہ ان پر
یہ سن کر کیا گزرے گی؟ اس سوال کا جواب شعر کی صورت میں دیتا ہوں
جو تجھ پہ گزری سو گزری مگر شبِ ہجراں
تمھارے اشک میری عاقبت سنوار چلے
اور اس نام کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس میں موسیقیت بہت ہے۔ اس سے گمان یہ
ہوتا ہے کہ ہم محض کتابی کیڑے نہیں بلکہ دیگر فنونِ لطیفہ بالخصوص موسیقی
سے بھی شغف رکھتے ہیں۔ |