ہمارے ہاں تعلیم کا مقصد شعور و
آگہی نہیں بلکہ یہ باعزت رزق کمانے کا لائسنس ہے۔ جتنی اعلٰی تعلیم ہو گی،
اچھے اور باعزت روزگار کے مواقع اسی قدر زیادہ ہوں گے۔ حالانکہ علم اور رزق
دو الگ چیزیں ہیں مگر دیگر دوسری چیزوں مثلًا شادی اور جہیز کی مانند ان
دونوں کو بھی نتھی کر دیا گیا ہے۔ چنانچہ عام طور پر ایسے مضامین اختیار کے
جاتے جن میں نوکری کا تناسب زیادہ ہو۔ یہ عام رواج ہے کہ چھوٹی سی عمر میں
ہی بچوں کے ذہن میں والدین اپنی نآآسودہ خواہشات کی تکمیل کے بیج ڈال دیتے
ہیں اور بچہ اگر پڑھائی میں اتفاقًا اچھا نکل آئے تو اس کی بچپنا اور جوانی
انھی کی تکمیل میں نکل جاتی ہے۔ ایسے والدین جو بچوں کو ان کے میلان کے
مطابق تعلیم حاصل کرنے اور پیشے اختیار کرنےکا حق دیتے ہیں، آٹے میں نمک کے
برابر ہیں۔
ہمارے گھر والے بھی چاہتے تھے کہ ہم انجنئر یا ڈاکٹر بنیں مگرہمارے دل میں
مختلف اوقات میں کچھ اور شعبوں میں طبع آزمائی کی بھی خواہش رہی تا ہم وقت
کی ستم ظریفی کہ ان میں سے کوئی بھی تا بہ تکمیل نہ ہو پائی۔
بچپن سے ہی ہمیں کرکٹ کا خبط تھا۔ ہم اکیلے میں بھی کرکٹ کھیلتے تھے۔ وہ
یوں کہ جب کوئی کھیلنے والا نہ ہوتا تو ہم گیند کو دیوار پرمارتے اور جب وہ
ٹکرا کر واپس آتی تو ہم بیٹ سے اسے ضرب لگاتے۔ یوں ہم بیٹنگ کرتے۔ باؤلنگ
کا شوق چڑھتا تو اینٹ کی وکٹیں دیوار کے قریب لگا کر باؤلنگ شروع کر دیتے۔
رات کو بستر پر بھی یہی عالم ہوتا۔ ایک ہاتھ میں حاشیہ لگانے والا پیمانہ
ہوتا اور دوسرے میں ربر۔ ایک ہاتھ سے ربر بطور گیند پھینکتے اور دوسرے ہاتھ
سے پیمانہ سے ہم بیٹنگ کرتے۔ حتٰی کہ سوتے میں ہم خواب بھی کرکٹ کے دیکھتے۔
سو ہمارا پہلا شوق کرکٹر بننا ہی تھا۔
مگر ایک تو ہم صحت میں ماشاء اللہ تھے کہ جتنے دور مرضی گیند پھینکنے کی
سعی کریں وہ ہماری محبت میں ایسی سرشار کہ پاس سے ہٹتی ہی نہ تھی۔ اور
بولنگ میں بھی ایسا ہی کہ جتنا چاہے وقار یونس (اس زمانے میں شعیب اختر
نہیں تھے ٹیم میں ) بنتے گیند مخالف بیٹسمین تک پہنچتے پہنچتے کئی سجدے کر
چکتی۔ جب میچ کے لئے ٹیمیں بنتی تو دونوں کپتان بخوشی ہمیں دوسری ٹیم کو دے
دیتے۔ ہمیں کبھی کھلایا گیا تو بس فیلڈنگ کروائی گئی کہ گنتی پوری کی جا
سکے۔ ہمارقدرتی صلاحیت کو اسی طرح کے اوچھے ہتھکنڈوں سے ختم کیا گیا اور
یوں پاکستان کو ایک اور عظیم کھلاڑی کی خدمات سے محروم کر دیا گیا۔
اس زمانے میں ہاکی میں بھی پاکستان کا شمار صف اول کی ٹیموں میں ہوتا تھا۔
ہم اس میں بھی کسی سے کم نہ تھے۔ ہاکی تو ہماری قوت خرید سے باہر تھی مگر
ایک ڈنڈے( جس سے خواتین کپڑے دھوتی تھیں )کو ہم ہاکی کے طور پر استعمال
کرتے اور دو روپے کی ایک گیند کے ساتھ اپنے صحن میں چھوٹے بھائی کے ساتھ
کھیلتے تھے۔ اور گول پر گول داغتے تھے۔ ایک بار ہم نے سکول ٹیم میں بھی
اپنا نام لکھوایا۔ اور اتفاق سے ہمیں کھیلنے کا موقع بھی ملا۔ وہاں ہمیں
انھوں نے اپنے ڈنڈے کی بجائے اصلی ہاکی سے کھیلنے پر اصرار کیا۔ اب ہم تو
اس ڈنڈے سے کھیلنے کے ماہر تھے سو اتنی بھاری ہاکی سے ہم اپنا قدرتی کھیل
نہ پیش کر پائے۔ الٹا میدان کے ایک دو چکر لگانے کے بعد گر گئے اور چار دن
اپنی ٹانگوں کی مالش کرتے رہے۔ اور یوں یہ شوق بھی حسرت ہوا۔
ائیرفورس مین بچپن گزرنے اور وہیں پر ابتدائی تعلیم پانے کے باعث لڑاکا
پائلٹ بننے کا شوق بھی فطری تھا۔ چلانا تو ہمیں سائیکل بھی نہیں آتی تھی
مگر یہ کوئی شرط تھوڑی تھی پائلٹ بننے کے لئے۔ پھر اس عمر میں ہمارا جذبہ
حب الوطنی ہر مصلحت سے پاک تھا اور اسلام پر جان نثار کرنے کی خواہش( جو کہ
سب کو ہوتی ہے بس عمل کرنا ذرا مشکل ہے) ہر جذبے پر حاوی تھی۔ پائلٹ بن کے
ہم نے دشمنوں کے کشتوں کے پشتے لگا دینے تھے اور اسلام کا پرچم ہر خطے میں
پہنچانا تھا۔ بھارت کو تو ہم روز اپنے خیالوں میں اسلامی جمہوریہ کے روپ
میں دیکھتے تھے ، بس ہمارے پائلٹ بننے کی دیر تھی اور جہاز ہمارے ہاتھ لگنے
کی۔ لیکن شاید رب کو ابھی شر کا خاتمہ مقصود نہ تھا کہ چوتھی کلاس تک ہمیں
عینک لگ چکی تھی۔
گلوکاری بھی ہمیں کم عمری ہی سے متاثر کرتی تھی۔ محمد رفیع اور احمد رشدی
اگرچہ اک مدت قبل وفات پا چکے تھے مگر ان کے گانے ہمیں تب بھی پسند تھے اور
آج بھی ہیں اور پھر ان کی دیکھا دیکھی ہم نے بھی سر لگائی۔ ہمیں تو اپنی
آواز ان مرحومین کے مشابہ ہی لگی۔ اگر تھوڑی بہت کمی تھی بھی تو وہ ریاض سے
پوری ہو سکتی تھی۔ ابن ریاض ہونے کی بناء پر ہم اتنی سی رعایت کے تو مستحق
تھےمگر ہمارے شوق پر پہلی چھری وہیں سے چلی۔
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
ان کے دیکھا دیکھی باقی لوگ بھی ننھی سی جان کی حوصلہ شکنی کرنے لگے۔ تنگ
آکر ہم نے اس کو بھی ادھورا چھوڑ دیا۔ اب سوچتے ہیں کہ کچھ ثابت قدمی
دکھاتے تو آج ہم صف اول کے گلوکار ہوتے۔ ملکوں ملکوں گھومتے اور لوگ ہمارے
کنسرٹس کے لئے ٹائم لینے کے لئے لائنوں میں لگے ہوتے کہ موجودہ دور میں سر
اور آواز کا تعصب نہیں برتا جاتا بلکہ جو ان خوبیوں سے جتنا محروم ہو اس کا
مقام اتنا ہی بلند تر۔
سب شعبوں میں قسمت آزمائی اور امتیازی نمبروں میں ناکام ہونے کے بعد ہمارے
پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا ماسوائے اپنے بڑوں کی نظروں میں سرخرو ہونے کے۔
سو علم پر ہی توجہ دی۔ ہم نے دل نہیں لگایا کہ دل لگانے کی اور بہت سی
چیزیں تھیں۔ یہاں بھی ہمیں انجنرنگ سے زیادہ طب پسند تھی کہ ہماری نظر( جو
کہ بچپن سے ہی کمزور ہے) میں عزت اور دعائیں دونوں ڈاکٹر کو ہی زیادہ ملتی
ہیں۔ تاہم دقت یہ ہوئی کہ ہم ڈرائنگ یعنی کہ تصویر بنانے میں ایک دم صفر۔
ہم بکری بنانے کی کوشش کرتے تو تکمیل کتے کی صورت ہوتی۔ حیاتیات(یعنی
بائیلوجی) ہم نے میٹرک تک پڑھی۔ مینڈک کا نظام ہضم بنانے کی کوشش کرتے تو
نظام تنفس بن پاتا۔ دماغ بناتے تو پیٹ بن جاتا۔ رٹا لگانے کی جو خداداد
صلاحیت عطا ہوئی وہ ہم نے تنگ آ کر حساب میں استعمال کی۔
الغرض ہم نے رو دھو کر انجنیرنگ کی اور اسی بنیاد پر ہمیں انجنرنگ کے طلباء
کو پڑھانے کی نوکری ملی۔ جس طرح ہم نے یہ ڈگری لی اور اس دوران جو ہم پہ
گزری اور ہماری وجہ سے اساتذہ پر بیتی یہ کہانی پھر سہی۔
|