پاکستان کی پارلیمنٹ نے چھ اپریل
سے دس اپریل تک اپنے پانچ روزہ ہنگامہ خیز مشترکہ اجلاس کے آخر میں یمن کی
صورتحال پربارہ نکاتی متفقہ قرارداد منظور کرلی جسکے مطابق یمن تنازع پر
پاکستان غیر جانبدار رہے گا۔پاکستانی پارلیمان نے یمن میں حوثی باغیوں
کےخلاف سعودی کمان میں اتحاد کی عسکری کارروائی میں شمولیت کی سعودی عرب کی
درخواست کو نظر انداز کرتے ہوئے پارلیمنٹ کی قرارداد میں حکومت سے کہا گیا
ہے کہ وہ یمن کے بحران کے خاتمے کیلئے اقوام متحدہ اور او آئی سی میں فعال
اور سرگرم کردار ادا کرے (سب کو پتہ ہے یہ دونوں ادارئے دینا کے کسی بھی
مسلئے کو حل کرنے سکت نہیں رکھتے)۔ تاہم پاکستانی پارلیمان نے اس عزم کو
بھی دہرایا ہے کہ سعودی عرب کی علاقائی سالمیت یا حرمین شریفین کو کسی قسم
کے خطرے کی صورت میں پاکستان سعودی عرب کے شانہ بشانہ کھڑا ہو گا۔سعودی عرب
نے پاکستان سے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف جاری کارروائیوں میں بّری، بحری
اور فضائی تعاون اور مدد فراہم کرنے کی درخواست کی تھی۔اس قراردادکا مختصر
ترجمہ سو لفظوں کی کہانی کے موجد مبشر علی زیدی نے جوکیا وہ یہ ہے کہ“تیل
کے بدلے خون نہیں دے سکتے، پاکستان کا عرب بھائیوں کو جواب (پارلیمنٹ کی
قرارداد کا درست ترجمہ یہی ہے)” ۔
ابھی تک سعودی عرب یا یمن جنگ میں شامل سعودی عرب کے اتحادی کسی بھی ملک کی
وزارت خارجہ نے کوئی سرکاری ردعمل جاری نہیں کیا لیکن سعودی عرب کے مشیر
اعلیٰ برائے مذہبی امور ڈاکٹر عبدالعزیز کے بقول یمن کے مسئلے میں پاکستانی
قوم چاہتی ہے کہ پاکستان سعودی عرب کا ساتھ دے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یمن
میں ایک طرف باغی اور دوسری طرف قانونی حکومت ہے،ایسی صورتحال میں ثالثی کی
بات مذاق کے مترادف ہے۔ جبکہ متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت خارجہ ڈاکٹر
انور محمد قرقاش نے پاکستانی پارلیمان میں یمن کے تنازعے پر غیر جانبدار
رہنے کی متفقہ قرار داد منظور ہونے کے بعد جمعے کی شب ٹوئٹر پر اپنے بیانات
میں اس فیصلے کی مذمت کی تھی۔ خلیج ٹائمز کے مطابق انھوں نے ٹوئٹر پر اپنے
بیان میں کہا کہ ‘عرب خلیج اس وقت خطرناک جنگ میں ہے، اس کی سٹریٹیجک
سکیورٹی خطرے کے دہانے پر ہے اور اس وقت اس سچ کو واضح کرنا ہوگا کہ اصل
اتحادی کون ہیں، میڈیا اور بیانات کی حد تک رہنے والے اتحادی کون ہیں’۔
ڈاکٹرقرقاش نے مزید کہا کہ پاکستان کو خلیج تعاون کونسل کی چھ ریاستوں کے
ساتھ اپنے سٹریٹیجک تعلقات کے حق میں واضح موقف اختیار کرنا ہوگا۔اس اہم
مسئلے پر متضاد اور مبہم آراء کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ اماراتی
وزیر کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ ایک کاہلی پر مبنی غیرجانبدارانہ موقف کے
سوا کچھ نہیں، جبکہ پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان نے کہا ہے کہ پاکستان
مصدقہ اطلاع تک امارتی وزیر کے بیان پر ردعمل نہیں دے گا۔ دفتر خارجہ
کےبرعکس پاکستانی وزیر داخلہ چوہدری نثار جو پارلیمینٹ میں اجلاس کے دوران
مکمل خاموش رہے متحدہ عرب امارات کے وزیر کے بیان پر اپنے رد عمل کا اظہار
کرتے ہوئے اُنکا کہنا تھا کہ اماراتی وزیر کی دھمکیاں ستم ظریفی ہی نہیں
لمحہ فکریہ ہے۔ چودھری نثار نے کہا کہ متحدہ عرب امارات کا وزیر دھمکیاں دے
رہا ہے، پاکستانی قوم سعودی عرب کے ساتھ یو اے ای کے عوام کےلیے بھی
برادرانہ جذبات رکھتی ہے۔ اصولا تو جواب دینا وزارت خارجہ کی ذمہ داری ہے
لیکن چونکہ ملک میں وزیر خارجہ نام کا کوئی شخص موجود ہی نہیں ہے اور نواز
شریف خود اس وزارت کے انچارج ہیں لہذا جواب وزیر داخلہ کی طرف سے آیا ہے
جو نہیں آنا چاہیے تھا، پتہ نہیں مشیر وزارت خارجہ سرتاج عزیز کہاں ہیں۔
اماراتی وزیر مملکت خارجہ ڈاکٹر انور محمد قرقاش نے پاکستان کی ایران کے
بارے میں پالیسی پر بات کرتے ہوئے کہا ہےکہ لگتا ہے کہ اسلام آباد اور
انقرہ کے لیے خلیجی ممالک کی بجائے تہران زیادہ اہم ہے۔ اگرچہ ہمارے معاشی
اور سرمایہ کاری کے اثاثے ناگزیر ہیں لیکن اس اہم موقعے پر سیاسی حمایت
موجود نہیں ہے۔پاکستان اور ترکی کی مبہم اور متضاد رائے واضح ثبوت ہیں کہ
لیبیا سے لے کر یمن تک کی ذمہ داری کسی کی نہیں بلکہ عرب ریاستوں کی ہے اور
ہمسایہ ممالک کے لیے یہ بحران ایک اصل امتحان ہے۔ اماراتی وزیر خارجہ نے
اپنے اس بیان میں دو بڑئے واضع پیغام دیئے ہیں کہ پاکستان کو یمن بحران پر
مبہم موقف کی بھاری قیمت چکانا ہوگی یعنی پاکستان معاشی مشکلات کا شکار
ہوسکتا ہے اور دوسرا اُنکا پیغام جو سراسر متعصابانہ ہے کہ تمام غیر عرب
مسلمانوں کےلیے ہے کہ یہ لڑائی عربوں کی ہے جس میں کوئی عجم اُنکا ساتھ
نہیں دئے رہا ہے، پاکستان کےلیے اُنکے بیان کا حاصل جمع یہ ہے کہ پاکستانی
پارلیمینٹ کی قراداد کے بدلے اب کشکول میں کچھ نہیں ڈالینگے، پاکستان کوعرب
بھائیوں کا جواب (پارلیمنٹ کی قرارداد کا درست نتیجہ یہ ہی ہوگا)۔
گیارہ مئی 2013ء کے انتخابات سے قبل نواز شریف اپنی تقریوں میں پوری قوم کو
سبز خواب دکھاتے رہے، بدقسمتی سے اُنکے پاس قابل اور کام کرنے والوں لوگوں
کا قحط ہے یہ ہی وجہ ہے کہ نہ وزیر خارجہ ہے اور نہ ہی وزیر دفاع، خواجہ
آصف کو سابق چیف جسٹس کے کسی فیصلے کی بنیاد پر ہنگامی طور پر وزیر دفاع
بنایا گیا تھا، کتنا قابل وزیر داخلہ ہے اس کا اندازا تو سب کو اُس وقت ہی
ہوگیا تھا جب وزیردفاع سے انتہائی غیر مناسب اور غیر سفارتی انداز میں
پاکستانی کے پالیسی بیان کو پڑھا اورسعودی عرب کی طلب کو نہایت بھونڈے
انداز میں پیش کیا، اسی پالیسی بیان میں سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھ کر
اس میں حوثیوں کا لفظ استعمال کیا گیا۔ پانچ دن کے بعد پارلیمنٹ کے مشترکہ
اجلاس سے ایک متفقہ قرارداد منظور کی گئی جس کے بارہ نکات کےزریعے پاکستانی
حکومت سعودی عرب کی توقعات پوری کرسکے اور سعودی حکومت کو یہ یقین دلا سکے
کہ سعودی عرب کی سالمیت کو ابھی کوئی خطرہ نہیں، لڑائی یمن میں ہو رہی ہے
سعودی عرب پر ابھی کسی نے حملے کی نہ تو کوشش کی ہے اور نہ دھمکی دی ہے۔
جہاں تک ثالثی کی بات ے تو سعودی عرب اور اُسکے اتحادی کسی ثالثی کو ماننے
کو تیار نہیں اور پھر ہماری حکومت کی اس طرز حکمرانی اور اس طرز سفارت کاری
کے ذریعے حکومت کیسے ایک ثالث کا کردار ادا کرپائے گی۔
ایک بات نواز شریف یاد رکھیں کہ ایک اندازئے کے مطابق سعودی عرب میں گیارہ
لاکھ، متحدہ عرب عمارات میں آٹھ لاکھ اسی ہزار، کویت میں ایک لاکھ، اومان
میں پچاسی ہزار، قطر میں باون ہزار اور بحرین میں پینتالیس ہزار یعنی
23لاکھ سے زیادہ پاکستانی جن میں زیادہ تر مزدور پیشہ ہیں ان خلیجی ممالک
میں روزگار سے لگے ہوئے ہیں، ان 23 لاکھ پاکستانیوں کی وجہ سے ملک میں 23
لاکھ خاندان کچھ بہتر زندگی گذار رہے ہیں اور یہ ہی 23 لاکھ پاکستانی ملک
میں غیر ملکی زرمبادلہ لانے کا بہت بڑا زریعہ ہیں۔ مارچ کے شروع میں وزیر
اعظم نواز شریف سعودی عرب کے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز کی خصوصی دعوت پر
سعودی عرب گئے تھے۔شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے پروٹوکول کو بالائے طاق رکھ
کر ایئرپورٹ پر ان کا پرتپاک استقبال کیا۔اُس وقت وزارت اطلاعا ت کی طرف سے
جاری بیان کے مطابق وزیراعظم نواز شریف اور شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے
درمیان دوطرفہ تعلقات، علاقائی اور بین الاقوامی معاملات پر بات چیت ہوئی
تھی، اسکے بعد ہی سعودی عرب نے 25 مارچ کو یمن میں فضائی بمباری کا آغاز
کیا۔ پاکستانی حکومت کا کہنا ہے کہ سعودی عرب نے اس سے فوج مانگی تھی، تاہم
یہ نہیں بتایا کہ یہ فوجی اسے دفاعی مقاصد کے لیے یا لڑائی کے لیے چاہیے
تھی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ نواز شریف سعودی شاہ سے فوج کے تعلق سےکوئی ایسا
وعدہ کرآئے ہوں جو اب وہ پورا نہیں کرپارہے ہوں اور اگر وہ سعودی عرب کو
پاکستان کا سچا دوست سمجھتے ہیں اورجو ہے بھی تو اسے پاکستان کی مشکلات سے
آگاہ کرنا چاہیے اور سعودی حکومت کو یہ یقین دلانا چاہیے کہ اگر سعودی عرب
کی سالمیت کو کوئی خطرہ ہوا تو پاکستانی فوج سعودی عرب میں موجود
ہوگی۔وزیراعظم کو پاکستانی عوام کو بھی اعتماد میں لینا چاہیے اور اگر
سعودی عرب سے کوئی وعدہ کیا ہے تووہ اپنے عوام کو بتادینا چاہیے۔ اسکے ساتھ
ہی سعودی عرب اور دوسرئے ممالک میں کام کرنے والے پاکستانیوں کی جان و مال
کے ساتھ اُنکے روزگارکی سلامتی کی ذمہ داری بھی حکومت پاکستان کا اولین فرض
ہے۔ |