بلوچستان:مزدوروں کا قتل....ملک کی داخلی سلامتی پر حملہ!

صوبہ بلوچستان میں غیرملکی مداخلت کی وجہ سے ایک عرصے سے امن و سکون عنقا ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال اور رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا یہ صوبہ بری طرح دہشت گردی اور بدامنی کی لپیٹ میں ہے۔ روزانہ ہونے والی ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں کے ساتھ ساتھ دشمن ممالک کے سرمائے اور تعاون سے وقتاً فوقتاً قومیت و لسانیت کی بنیاد پر ہونے والی بڑی دہشتگردی اور قتل عام کی وجہ سے بلوچستان کے حالات مزید بھیانک منظرنامہ پیش کرتے ہیں۔ گزشتہ روز بلوچستان کے علاقے تربت میں دہشت گردوں نے سہراب ڈیم کے زیر تعمیر پل پر کام کرنے والے کیمپ میں سوئے ہوئے پنجاب اور سندھ سے تعلق رکھنے والے بیس مزدوروں کو اٹھا کر ایک لائن میں کھڑا کر کے ان کی شناخت کے بعد گولیوں سے چھلنی کردیا۔ ایک انتظامی افسر اکبر حسین درانی کے مطابق مزدوروں کے کیمپ پر 8 سیکورٹی اہلکار تعینات تھے، تاہم حملہ آوروں کی تعداد زیادہ ہونے کے باعث یہ کچھ دیر مقابلے کے بعد فرار ہو گئے۔ صدر مملکت ممنون حسین اور وزیراعظم نواز شریف سمیت ملک کی تقریباً تمام سیاسی و مذہبی شخصیات نے واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور صدر مملکت کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات سے ہمارے حوصلے متزلزل نہیں ہو سکتے، ملک میں دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے آپریشن ضرب عضب جاری رہے گا۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے مزدوروں کی ہلاکت کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”بے گناہ اور نہتے مزدوروں کا قتل بلوچ قومی روایات، انسانی اقدار اور اسلامی تعلیمات کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ایسے اندوہناک اور سفاکیت پر مبنی اقدام نے بلوچ قوم کی سنہری روایات اور درخشندہ اقدار پر دنیا بھر میں سوالات کھڑے کردیے ہیں۔“ خیال رہے کہ تربت میں مزدوروں کے کیمپ پر حملے کی ذمہ داری بلوچستان لبریشن فرنٹ نامی تنظیم نے قبول کی ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے واقعہ کو سیکورٹی اہلکاروں کی نااہلی قرار دیا ہے۔ جبکہ صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ مجھے اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ سیکورٹی اہلکاروں نے واقعہ پر مناسب رد عمل نہیں دیا۔انہوں نے کہا کہ پنجاب کو بتایا جائے گا کہ یہ قتل عام کسی بلوچ نے پنجابی کے خلاف نہیں کیا۔ مارنے والوں کا تعلق کسی قوم سے نہیں، تربت میں پاکستانی مارے گئے۔ ذرائع کے مطابق بلوچستان کے ضلع ”کیچ“ کے علاقے تربت میں 20 مزدوروں کی ہلاکت کے بعد مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ( جے آئی ٹی ) تشکیل دے دی گئی۔ کیچ انتظامیہ کے ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی لیویز فورس کے ان آٹھ اہلکاروں سے تفتیش کرے گی، جو تربت میں مزدوروں کے کیمپ کی حفاظت پر مامور تھے۔ واضح رہے کہ جمعے اور سنیچر کی درمیانی شب تربت کے قریب گوگدان کے جس علاقے میں مزدوروں پر حملہ کیا گیا تھا وہ انتظامی لحاظ سے پولیس کے کنٹرول میں ہے۔ تاہم کیمپ کی حفاظت کے لیے لیویز فورس کے اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔ غفلت برتنے کے الزام میں آٹھوں لیویز فورس کے اہلکاروں کو معطل کر کے گرفتار کر لیا گیا۔

تربت واقعہ کے بعد وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ بلوچستان میں دہشتگردی کے واقعات میں بھارت کی خفیہ ایجنسی را کے فنڈڈ دہشت گرد ملوث ہیں۔ ہم شدت پسندوں کو واضح پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ”را“ اور دیگر غیر ملکی فنڈنگ سے وہ پاکستان کو غیر مستحکم نہیں کرسکتے۔ دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچا سکتے ہیں۔ دہشت گرد غیر ملکی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے آسان ہدف ڈھونڈتے ہیں۔ تربت میں ہونے والی دہشت گردی میں بھارت کی خفیہ ایجنسی را ملوث ہے۔ دوسری جانب سانحہ تربت کے بعد حساس اداروں کی رپورٹس میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ تربت میں قتل کیے گئے بے گناہ مزدوروں کی ہلاکت ذکی الرحمان لکھوی کی رہائی کا ردعمل ہو سکتا ہے۔ بلوچستان بدامنی میں پوری طرح دہشت گرد تنظیم ”را“ اور ”بھارت“ ملوث ہے۔ بلوچستان میں دوبارہ بدامنی پھیلانے کے لیے قتل عام کیا گیا۔ رپورٹس کے مطابق بلوچستان میں دہشت گرد حملوں میں بھارتی پیسہ شامل ہے، جب کہ چمن سے بھی بڑی تعداد میں بھارتی کرنسی برآمد ہوئی ہے۔ گرفتار دہشت گردوں کے ٹھکانے سے بھارتی ساختہ اسلحہ بھی مل چکاہے۔ جب کہ مزدوروں کی ہلاکت میں بھی بھارتی پیسہ شامل ہے۔ حساس اداروں کی رپورٹس کے مطابق افغان سرحدی علاقوں میں بھارتی قونصلیٹ بھی مداخلت میں شریک ہیں۔ فراری کیمپس اور بھارت میں رابطوں کے ثبوت موجودہیں اور پاکستان بھارتی مداخلت کے ثبوت امریکا کو بھی دے چکا ہے۔ فراری کیمپس کے مکینوں کے بھارت میں رابطوں کے ثبوت موجود ہیں۔

واضح رہے کہ بے شمار قدرتی وسائل و معدنیات کی بدولت پاکستان کا صوبہ بلوچستان عالمی سازشوں کا مرکز بن چکا ہے۔ بلوچستان میں روزانہ بیسیوں تخریبی واقعات مختلف حصوں میں رونما ہوتے ہیں، جس سے یہاں بدامنی بڑھتی ہے اور اس تخریب کاری کے پس پردہ بہت ہی منظم قوتوں کی سازشوں کا پتا بھی چلتا ہے۔ یہ قوتیں پاکستان کے اس اہم ترین صوبے میں ہر گز امن نہیں چاہتیں اوربلوچستان میں شورش برپا کرکے پاکستان کی معاشی اور تجارتی خوشحالی پر چھری پھیرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ماضی میں آئی جی ایف سی میجر جنر ل عبیداللہ خان یہ کہہ چکے ہیں کہ بلوچستان میں 20 دیگر ممالک کی ایجنسیاں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے سرگرم ہیں۔ بدامنی کی کارروائیوں میں ملک کے اندر اور ملک سے باہر بیٹھے ہوئے عناصر ملوث ہیں۔ میڈیا پر یہ رپورٹس بھی متعدد بار آچکی ہےں کہ بلوچستان میں دہشتگردی اور بدامنی میں ملوث ملک دشمن قوتوں میں بھارتی ایجنسی ”را“ سرفہرست ہے، جس کا اظہار گزشتہ روز بلوچستان کے وزیر داخلہ نے بھی کیا ہے، جبکہ اس سے پہلے متعدد اعلیٰ شخصیات بھی کرچکی ہیں۔ بلوچستان میں غیر ملکی مداخلت کے بہت سے ثبوت خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے حکومت کے پاس موجود بھی ہیں۔ بلوچستان میں ہونے والی دہشتگردی کے تناظر میں دشمن ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت کو کسی طور بھی نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔یہ ایجنسیاں پیسوں کا لالچ دے کر قومیت پرست تحریکوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں اور لسانی اور علاقائی تعصبات کو ہوا دے کر کے صوبے میں امن و امان کی صورتِ حال کشیدہ کر رہی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل جب بلوچستان میں ایک کارروائی کے دوران بڑے پیمانے پر اسلحہ و گولہ بارود، میزائل، راکٹ لانچرز، کلاشنکوفیں، خود کش جیکٹس اور دیگر تخریبی سامان برآمد کیا گیا تھا، اس وقت بھی صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے اپنے بیان میں یہی کہا تھا کہ’[ بعض ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیز بارود واسلحہ مہیا کرتی ہیں، ہمارے ملک اور بلوچستان میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلائی جاسکے۔ بیرون ممالک کی ایجنسیز کوشش کررہی ہیں کہ بلوچستان کے امن کو خراب کیاجائے۔ صوبے میں ہونے والی دہشت گردی میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے۔“جبکہ بلوچستان پولیس کے انسپکٹر جنرل محمد آملیش نے بھی یہ واضح کیا تھا کہ ”بلوچستان کے موجودہ واقعات میں تین ممالک کی مستعد جاسوس ایجنسیاں اپنے مفادات کے لیے سرگرم عمل ہیں، جن میں انڈین را، کے جی پی اور افغان انٹیلی جنس شامل ہیں۔ یہ تینوں ایجنسیاں ایک دوسرے کی براہِ راست مددگار رہیں۔ اسلحہ، گولہ بارود اور لاجسٹک مدد میں مشترکہ طور پر کام کر رہی ہیں۔“ مبصرین کا کہنا ہے کہ جب یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بلوچستان میں حالات خرابی کرنے اور بدامنی ودہشتگردی پھیلانے میں بھارتی ایجنسی ”را“ سمیت دیگر غیر ملکی ایجنسیاں ملوث ہیں تو پھر ان ملک دشمن عناصر اور تخریب کاروں کے خلاف بڑا آپریشن کر کے بلوچستان کو ملک دشمن عناصر سے پاک کیوں نہیں کردیا جاتا؟ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ روز بلوچستان میں مزدوروں کے قتل سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ بلوچستان میں دہشتگردی اور بدامنی عروج پر ہے، اس دہشتگردی کو کنٹرول کرنے کا ایک ہی حل ہے کہ تخریب کاروں کے خلاف بڑے پیمانے پر سخت آپریشن کیا جائے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق جس طرح وزیرستان اور کراچی میں آپریشن کے نتیجے میں کافی حد تک امن و سکون حاصل ہوا اور بدامنی میں کمی آئی ہے، اسی طرز کا ایک سخت آپریشن بلوچستان میں بھی تخریب کاروں کے خلاف کیا جانا چاہیے۔اس کے بغیر بلوچستان میں امن کا قائم ہونا محال نظرآتا ہے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 700891 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.