بسم اﷲ الرحمن الرحیم
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں جاری پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں
12نکاتی قرارداد کی متفقہ منظوری دی گئی ہے جس میں سعودی عرب کی حمایت کا
اعلان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اگر سعودی عرب کی علاقائی سلامتی کی خلاف
ورزی کی گئی یا حرمین شریفین کو کوئی خطرہ لاحق ہوا تو پاکستان سعودی عرب
اور اس کے عوام کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہوگا اور حرمین شریفین
کی حفاظت میں سب سے آگے ہوگا۔وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار کی جانب سے پیش
کردہ قرار داد میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو یمن کے تنازعہ میں غیرجانبدار
رہنا چاہیے تاکہ وہ اس بحران کے خاتمے میں متحرک کردار ادا کر سکے ۔قرار
داد میں یمن میں حوثی باغیوں کیخلاف سعودی عرب کی قیادت میں قائم اتحاد کی
عسکری کارروائی میں شمولیت کے حوالہ سے سعودی عرب کی درخواست کا ذکر گول
کردیاگیا۔ادھر سعودی عرب کی زیرقیادت اتحادی افواج کے ترجمان بریگیڈئر جنرل
احمد العسیری نے کہا ہے کہ پاکستان نے قومی اسمبلی کی پاس کردہ قرارداد سے
آگاہ نہیں کیا اور نہ ہی اتحاد میں شمولیت کیلئے ابھی تک پوزیشن واضح کی ہے
البتہ پاک فوج کی شمولیت سے جنگ کو مزید تقویت مل سکتی ہے اور سعودی عرب
حوثیوں کے خلاف آپریشن میں پاک فوج کی شمولیت کا خواہاں ہے۔
رابطہ عالم اسلامی کی دعوت پر مجھے اسلام آباد کے ایک مقامی ہوٹل میں یمن
میں بغاوت کی صورتحال سے متعلق منعقد کئے جانے والے سیمینار میں شرکت کا
موقع ملا جس کا عنوان ’’سرزمین حرمین شریفین کی حفاظت کے سلسلہ میں
پاکستانی علماء و مشائخ کا موقف‘‘ تھا۔ سیمینار میں وفاقی وزیر مذہبی امور
سردار محمد یوسف، علامہ سینیٹر پروفیسر ساجد میر، پروفیسر حافظ محمد سعید،
ڈپٹی چیئرمین سینیٹ عبدالغفور حیدری، مفتی محمد رفیع عثمانی، لیاقت بلوچ،
حافظ عبدالغفار روپڑی ودیگر قائدین اور جید علماء کرام نے شرکت کی۔ رابطہ
عالم اسلامی کے پاکستان میں نگران ڈاکٹر عبدہ محمد عتین اور انٹرنیشنل
اسلامک ریلیف آرگنائزیشن کے پاکستان میں ڈپٹی ڈائریکٹر محمد جاوید بٹ خود
مہمانوں کے استقبال کیلئے موجود تھے۔ اس تقریب میں شریک سبھی علماء کرام
اور قائدین نے سعودی عرب کی کھل کرمددو حمایت کا اعلان کیا اور حکومت
پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ سرزمین حرمین شریفین کے تحفظ کیلئے فوری طور
پر پاک فوج بھجوائی جائے۔رابطہ عالمی اسلامی کی بنیاد شاہ فیصل بن
عبدالعزیز رحمۃ اﷲ علیہ نے رکھی جو اپنے سینے میں ملت اسلامیہ کا درد رکھتے
اور امت کے اتحاد کیلئے ہر وقت فکر مند رہتے تھے۔ ان کی کوششوں سے ہی 1962ء
میں عالم اسلام کے جید اور ممتاز علماء کا اجلاس مکۃ المکرمہ میں طلب کیا
گیا جس میں رابطہ عالم اسلامی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس وقت سے لیکر آج
تک یہ ادارہ اپنے مشن پر کاربند ہے۔ اس انتہائی حساس موقع پر رابطہ عالم
اسلامی کی جانب سے ملک بھر کے جید علماء کرام اور دینی قائدین کو ایک پلیٹ
فارم پر جمع کر کے متفقہ رائے سے قوم کو آگاہ کرنایقینی طور پر خوش آئند
امر ہے۔ سیمینار میں وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف، رابطہ عالم
اسلامی اسلام آباد مکتب کے نگران ڈاکٹر عبدہ محمد عتین اور جماعۃالدعوۃ کے
سربراہ حافظ محمدسعید نے فکر انگیز خطابات کئے۔ رابطہ عالم اسلامی کے
سیمینار کے اگلے دن ہی اسلام آباد میں جماعۃالدعوۃ کی جانب سے زیروپوائنٹ
سے اسلام آباد پریس کلب تک بڑے تحفظ حرمین شریفین کاررواں کا انعقاد کیا
گیا جو بلا شبہ سعودی عرب کی حمایت میں کیاجانے والا اب تک کا سب سے بڑا
پروگرام تھا جس میں تمام مکاتب فکر اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے
ہزاروں افراد نے جوق در جوق شرکت کی اور سرزمین حرمین شریفین سے گہری عقیدت
و محبت کا اظہار کیا گیا۔ کارواں کے شرکاء کے جذبات دیکھنے کے لائق
تھے۔ہزاروں افراد کی طرف سے حرمین شریفین سے رشتہ کیا ‘لاالہ الااﷲ کے فلک
شگاف نعرے لگائے جاتے رہے۔ پریس کلب تک کارواں کے اختتام پر بڑے جلسہ عام
کا بھی انعقادکیا گیا جس میں جماعۃالدعوۃ کے سربراہ پروفیسر حافظ محمد
سعید، سردار عتیق احمد خاں، مولانا محمد احمد لدھیانوی، حافظ عبدالرحمن
مکی، مولانا فضل الرحمن خلیل، علامہ زبیر احمد ظہیر، جمشید دستی ، مولانا
امیر حمزہ و دیگر سیاسی و مذہبی قائدین نے شرکت کی۔اس موقع پر سب مقررین کی
متفقہ رائے تھی کہ یمن میں بغاوت ایران اورسعودی عرب یا شیعہ سنی لڑائی
نہیں ہے۔ بعض سیاسی جماعتیں اور بیرونی ایجنڈے پر عمل پیرا نام نہاد دانشور
اس مسئلہ کو الجھانے کیلئے سعودی عرب کی حمایت کے نتیجہ میں فرقہ واریت
پروان چڑھنے کی باتیں کر رہے ہیں اور پاکستان سے ثالثی کروانے کے بے سروپا
مطالبات کئے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں باغیانہ سوچ رکھنے والوں کے خلاف
آپریشن ضرب عضب کی حمایت کی جاتی ہے اور یمن میں وہ باغی جواپنی مسلح
کاروائیوں کے ذریعہ سعودی عرب کیلئے خطرات کھڑے کر رہے ہیں اور اعلانیہ طور
پر سرزمین حرمین شریفین پر قبضہ کی دھکمیاں دے رہے ہیں ان کے اور سعودی عرب
کے مابین مصالحانہ کردار ادا کرنے کے مطالبات کئے جارہے ہیں۔ یہ تو واضح
طور پر حوثی باغیوں کی طرف سے کی جانے والی بغاوت کو قانونی جواز فراہم
کرنے اور انہیں حوصلہ دینے کے مترادف ہے۔ایسے بے سروپا مطالبات نہیں کئے
جانے چاہئیں۔ تحفظ حرمین شریفین کارواں اور جلسہ عام سے حافظ محمد سعید اور
عبدالرحمن مکی کے عربی زبان میں کئے گئے خطابات شاندار اور دلائل سے بھرپور
تھے جسے بہت پذیرائی ملی اور عرب میڈیا کی جانب سے خاص طور پر ان کی کوریج
کی جاتی رہی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اختتام
پذیر ہو چکا ہے۔ چار دن جاری رہنے والے اجلاس میں بھانت بھانت کی بولیاں
بولی گئیں اورپاکستان کو پرائی جنگ میں نہ کودنے کے مشورے دیے جاتے رہے۔اس
طرز عمل کو عوامی سطح پر پسند نہیں کیا گیا۔ پاکستانی قوم کسی طور یہ بات
برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہے کہ ان کے ووٹ حاصل کرکے اسمبلیوں میں
پہنچنے والے نمائندے سرزمین حرمین شریفین کو لاحق خطرات پر بھی مصلحت پسندی
سے کام لیں اور گو مگو کی پالیسی کا شکار رہیں۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس
میں جس طرح مسلم امہ کے محسن سعودی عرب کے دفاع کی بات کی جانی چاہیے تھی
وہ نہیں کی گئی۔ اگرچہ قرارداد میں اتناضرور کہا گیا ہے کہ برادر اسلامی
ملک سعودی عرب یا حرمین شریفین کو کوئی خطرہ لاحق ہوا تو پاکستان ان کے
ساتھ کھڑا ہو گا۔قوم سوال کرتی ہے کہ جب حوثی باغی یمن اور عراق کی سرحدیں
توڑ کر سعودی عرب میں داخل ہوں گے تو کیا پھر ان کی مددکی جائے گی؟۔ضرورت
اس امر کی ہے کہ اس جنگ کو سرزمین حرمین شریفین کے اندر آنے سے روکا جائے۔
یمن کی منتخب حکومت کو گرانے اور نہتے یمنیوں کا خون بہانے والے باغیوں کے
خلاف سخت کاروائی کرنا بہت ضروری ہے۔ بعض سیاستدانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ
پاکستانی فوج کے جانے سے ایران ناراض ہو جائے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایران
تو اس مسئلہ کا فریق ہی نہیں ہے ۔ ہماری فوج ایران تو نہیں جارہی جو وہ
ناراض ہو جائے گا۔ اس کی تو سرحد بھی یمن سے نہیں ملتی۔ سینکڑوں میل دور
بیٹھ کر باغیوں کے خلاف کاروائی پر اسے کوئی اعتراض نہیں ہو نا چاہیے۔
بہرحال سعودی عرب اور دیگر اسلامی ملکوں کی جانب سے بار بار یہ اعتراض
اٹھایا جارہا ہے کہ حوثی باغیوں کو ایران کی طرف سے مکمل سپورٹ مل رہی
ہے۔یہ انتہائی تشویشناک امر ہے ۔ ایران کو چاہیے کہ وہ سرکاری سطح پر اس
بات کی کھل کر وضاحت کرے اورالگ تھلگ ‘تنہا نظر آنے کی بجائے عالم اسلام کے
ساتھ ملکر حرمین شریفین کے تحفظ کا فریضہ سرانجام دے۔پارلیمنٹ کی قرارداد
میں سعودی عرب کی جانب فوج بھجوانے کا ذکر گول کرنا درست نہیں ہے۔ سعودی
عرب کی زیر قیادت عرب اتحاد کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل احمد العسیری نے کہا
ہے کہ پاکستان نے اتحاد میں شمولیت کیلئے ابھی تک پوزیشن واضح نہیں کی ہے۔
پاک فوج کی جنگی مہارت پر کوئی شک نہیں کیا جا سکتا‘ اس کی شمولیت سے
باغیوں کے خلاف جنگ کو مزید تقویت ملے گی اس لئے ہمیں پاکستانی موقف کاشدت
سے انتظار ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت پاکستان کو عوامی رائے کا احترام
کرتے ہوئے سرزمین حرمین شریفین کے تحفظ کیلئے فی الفور فوج بھجوانی چاہیے
اور سعودی عرب کی سلامتی و استحکام کیلئے بھرپور کردارادا کرنا چاہیے۔ |