جب ایک انگلی دُوسرے کی جانب اُٹھے توباقی کی تین انگلیاں... ..؟؟
(Muhammad Azam Azim Azam, Karachi)
اپنے گریبانوں میں جھانکنے کا طریقہ سیکھوورنہ...!! سب ہی کے تو دامن
داغدار ہیں پھرلڑائی جھگڑے کیوں ..؟؟
آج جہاں میں جتنے بھی اِنسان بستے ہیں سب ہی میں کوئی نہ کوئی خامی ضرورہے
ایساتو کوئی بھی اِنسان نہیں ہے کہ جس میں سب ہی اچھائیاں ہوں اور بُرائی
ایک نہ ہواور ایسابھی کوئی نہیں ہوگاکہ جس میں سب ہی بُرائیاں ہوں اور ایک
بھی اچھائی نہ ہو، یعنی کہ ہر زمانے کے ہر معاشرے کی ہرتہذیب میں ایسے
اِنسان گزرے ہیں جن کی ذات اچھائی اور بُرائی کا مجموعہ رہی ہے دنیا کی
تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ ہر ازل سے زمینِ خداپر آنے والے زمانے ایسے ہی
اِنسانوں کے ساتھ گزرگئے ہیں اور آج بھی ایساہی ہورہاہے زمانے اپنے اندر
بہت سے اِنسانوں اور اقوام کو اِن کی تعمیری اور مثبت سوچوں اور کارناموں
کی وجہ سے امرکرتے اور بہت سوں کو اِن کے کرتوتوں کی وجہ سے نشانِ عبرت
بناتے گزررہے ہیں۔
اَب یہ اور بات ہے کہ آج اپنے اندر بے شماربُرائیوں کا مجموعہ رکھنے
والااِنسان خود کو دوسروں کے عیبوں کو ڈھونڈنے میں لگارہتاہے اوراپنے سامنے
والے کی ذات کو کُردکُردکر ایسے ایسے عیب نکال لیتاہے کہ ہر کوئی حیرن رہ
جاتاہے اور یوں جب عیبوں کی گٹھڑی اُٹھائے ایک اِنسان دوسرے اِنسان کے
عیبوں کی جانب اپنی ایک انگلی سے اشارے کرتاہے تو وہ یہ کیوں بھول جاتاہے...؟؟
کہ اُس کے اُسی ہاتھ کی تین انگلیاں خود اُس کے عیبوں کی طرف بھی اشارہ
کررہی ہوتی ہیں الغرض یہ کہ اِنسان کوکسی دوسرے کے عیبوں کو گنوانے سے پہلے
اپنے اندرموجود عیبوں کو بھی تلاش کرلیناچاہئے جس کی وجہ سے خود اُس کی ذات
میں بھی سوچھیدہوتے ہیں مگر جو اُسے دِکھائی نہیں دیتے ہیں۔ہم ایسے لوگوں
کے لئے بس یہی کہیں گے کہ اپنے گریبانوں میں جھانکنے کا طریقہ سیکھوورنہ...!!کہیں
دوسروں کے عیبوں کو گِنواتے گِنواتے خودہی اپنے عیبوں کے دلدل میں ایسے نہ
دھنس جاؤ کہ جب تمہیں کوئی نکالنے والابھی نہ ہوگا...تب تم جنتانکلناچاہوگے
..معاشرے والے تمہیں اُتناہی دلدل میں دھکیلتے چلے جائیں گے کیوں کہ تمہارے
اپنے اعمال ایسے ہیں کہ تمہارامقدریہ دلدل ہی ہوناچاہئے۔ اَب ایسے لوگوں
کویہ بات بھی اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ مجھ سمیت سب ہی کے تو دامن
داغدارہیں کوئی ایک بھی بچاہوانہیں ہے۔
بہرحال...!!آج ہر اِنسان اپنے اندر موجود معمولی بُرائی کو معمولی سمجھ کر
نظراندازکرنے کا سلسلہ ترک کردے کیوں کہ آگے چل کر یہی معمولی بُرائی اتنی
غیرمعمولی بن جاتی ہے کہ اِسے مٹانامشکل ہوجاتاہے سو ہر اِنسان کو ہر وقت
اور ہر لمحے اپنے عیبوں کا احتساب کرتے رہناچاہئے اور خود کو اُس پیمانے پر
لانے کی سعی ضرورکرنی چاہئے جس پر ایک کامل اِنسان ہوتاہے ۔ہائیں...!! آج
یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہر زمانے کے ہر معاشرے اور ہرتہذیب کی طرح
ہمارے مُلک اور معاشرے میں بھی ہمارے اردگردرہنے والے خاص وعام ،
گاؤدی،اعلی و اوسط درجے سے بھی کم کے گھامڑاِنسانوں نے اپنے اندر تمام
اخلاقی وسماجی اور سیاسی گندرہنے کے باوجود بھی ایک دوسرے کے عیبوں کی تلاش
میں تباہ وبرباد کردیاہے۔
جدھر دیکھو...!!ہر اِنسان دوسرے اِنسان کی عیب جوئی اور کرپشن میں لگاپڑاہے
اپنے اِس فعلِ شنیع سے کسی کو کوئی سروکار نہیں کہ اِس کے اِس عمل سے خود
اِس کی اپنی ذات کا کتنانقصان ہورہاہے،اور زندگی کے جن لمحات میں اِسے اپنی
آخروی زندگی کے لئے اعمالِ صالح جمع کرنا چاہئے تھے اُن لمحات میں یہ
دوسروں کے عیب اور کرپشن کرکے اپنی آخرت کی زندگی کو جہنم کا ایندھن بنانے
کے سامان کررہاہے اوریہ اِس طرح دنیامیں اپناقیمتی وقت ضیاع کرکے خود کو
زندہ رکھ کرمُلک و قوم کاجو نقصان کررہاہے وہ الگ ایک مسئلہ ہے۔اَب یہاں
سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا ایسے لوگوں کی اخلاقی،سماجی اور سیاسی اصلاح
کرنی چاہئے...؟؟ یا اِنہیں جہنم کا ایندھن بنے کے لئے اِن کے حال پرہی
چھوڑدیناچاہئے ..؟؟توایسے میں بہت سے دردمندوں کا جواب یہ آئے گا کہ
نہیں...ایسے بداخلاق اور اخلاق سے عاری مظوم لوگوں کی اصلاح کرنے کی ذمہ
داری معاشرے میں موجود اُن اعمالِ صالح کا درس دینے والوں کو ضرورسنبھال
لینی چاہئے جو اﷲ اور اُس کے رسولﷺ اور قرآن و حدیث کے مطابق اپنی زندگیاں
گزاررہے ہیں...اوراپنی دنیاوی اور آخروی زندگیوں کو گل وگلزاربنارہے اور
اپنے اعمالِ صالح سے جنت کے حقدارٹھیرائے جارہے ہیں ایسے اﷲ کے نیک بندوں
کو آگے بڑھ کر اپنے معاشرے کے اُن اِنسانوں کی ضرورمددکرنی چاہئے آج جو
ابھی تک بھٹکے ہوئے ہیں اوراپنی اِسی حالات کو درست جان کر ہر قسم کی
اخلاقی و سماجی اور سیاسی کرپشن میں مصروف ہیں اورجو دوسروں کی عیب جوئی
کرتے ہیں اور یوں وہ ا پنی دنیا اور آخرت تباہ کر بیٹھتے ہیں۔
آج ...اگرہمیں اپنے مُلک اور معاشرے سے کرپشن کے ناسورسمیت اُن تمام عیبوں
اور بُرائیوں کوختم کرناہے تو بس ضرورت اِس امر کی ہے کہ اُوپر سے نیچے تک
سب کو اپنی اصلاح کرنی ہوگی کسی کو کسی کی طرف اپنی ایک انگلی اُٹھانے سے
پہلے اوراپنے اُس اخلاقی و سماجی اور سیاسی گندگی اور غلاظت سے بھرے گریبان
میں بھی ضرورجھانکناہوگاجو خود اپنے اندرمنوں گندگی چھپائے ہوئے ہے یوں
ہمارے حکمرانوں،سیاستدانوں، عسکری قیادت اور قومی اداروں کے سربراہان سمیت
عوام کو بھی ہر سطح پراپنا احتساب خود سے کرناہوگانہ صرف یہ کرناہوگابلکہ
اُس سے حاصل ہونے والے دائمی نتیجے پر بھی عمل کرناہوگاجس سے کرپشن اور بہت
سی ایسی بُرائیوں سے بچاجائے جن کی وجہ سے ہم اخلاقی و سماجی اور سیاسی طور
پر ٹوٹ پھوٹ کا شکارہوئے اور دنیامیں وہ مقام حاصل نہ کرسکے جو ہمیں حاصل
کرناچاہئے تھا۔(ختم شُد) |
|