آزمائشیں تو زندگی کا حصہ ہیں! لیکن۔۔ ۔
(Muhammad Asif Iqbal, India)
کسی شخص کا مخصوص پریشانی میں
مبتلا ہوناخود اس کے غلط منصوبوں و اعمال کا نتیجہ ہے؟ دوسروں کی جانب سے
منظم و منصوبہ بند سازش ہے؟ خدا کی جانب سے آزمائش میں ڈالا جانا ہے؟یا پھر
خدا کا نازل کردہ عذاب ہے؟ان میں سے کون سی بات مخصوص شخص وگروہ پر نافذ
ہوتی ہے اس کا فیصلہ کیا جانا ذرا مشکل ہے۔اس کے باوجوداگر واقعات کا تسلسل
کے ساتھ اورپختہ بنیادوں پر جائزہ لیا جائے تونتیجہ تک پہنچناکچھ مشکل بھی
نہیں ہے۔شرط صرف یہ ہے کہ جائزہ لینے والا فرد و گروہ ہر قسم کے تعصب سے
پاک ہوکر،حقیقت پر مبنی نتائج اخذ کرنے کی سعی کرے۔لیکن مشکل اس وقت آتی ہے
جبکہ نتائج کے حصول میں ضروری شہادتوں و ثبوتوں کو مسخ کردیا جائے یا پھر
انہیں مٹا ہی دیا جائے۔آزمائشوں،مسائل،پریشانیوں اور حادثات ہی کے پس منظر
میں ہاشم پورہ قتل عام کو بھی دیکھنا چاہیے۔جس کا تذکرہ انگلش ہفت روزہ'آوٹ
لک 'نے کچھ اس طرح کیا ہے کہ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ یعنی آر ایس ایس کے
ایک کارکن کے قتل نے فوج اور پی اے سی کو ہاشم پورہ قتل عام کے لیے اکسایا
تھا اور قتل عام کے بعد ثبوتوں کو یا تو تلف کر دیا گیا یا ثبوت ، شہادتیں
و گواہیاں سی آئی ڈی کے سامنے پیش ہی نہیں کی گئیں۔۔۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ
ہاشم پورہ کا قتل عام کیا سنگھ پریوار کی انتقامی کارروائی تھی؟ایسی
انتقامی کاروائی جس میں فوج کے جوانوں اور پی اے سی کے اہلکاروں نے سنگھ
پریوار کا ساتھ دیا؟ یا حقیقت اس کے برخلاف ہے؟واقعہ 22؍مئی 1987کا ہے۔جب
میرٹھ شہر سے دوکلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر واقع ہاشم پورہ نامی ایک محلے
کے 42؍مسلم نوجوانوں کو وردی پوشوں نے بے رحمی سے قتل کیا تھا۔پولیس کے
ذریعہ کی گئی قتل عام کی واردات کے بعد سی آئی ڈی کے ایس پی ایس کے رضوی نے
22؍جون1989ء کی اپنی مذکورہ رپورٹ میں تحریر کیا تھا:واردات کے فوراً بعد
اخباروں میں اس طرح کی کچھ قیاس آرائیاں آئی تھیں کہ مقامی طور پر تعینات
میجر ستیش چندر کوشک کا ایک بھائی ہاشم پورہ میں21؍مئی1987ء کو گولیوں کے
داغے جانے سے زخمی ہوکر مرگیا تھا۔کہا جاتا ہے کہ اس ذاتی سانحہ کے سبب
میجرستیش چندر کوشک نے اپرگنگا اور ہنڈن کی نہروں کے پاس ہاشم پورہ کے
باشندوں کا قتل عام کرایا تھا۔میجر کوشک کی کرنل کے عہدے تک ترقی ہوئی،وہ
ریٹائرڈ ہوئے مگر ابتدائی رپورٹ میں ذکر کے بعد سی آئی ڈی نے ان کی مزید
کوئی چھان بین نہیں کی اور نہ ہی وزیر اعظم کے دفتر سے سی آئی ڈی کی
ابتدائی رپورٹ پر کوئی کاروائی ہوئی۔ دوسرے لفظوں میں سی آئی ڈی کی رپورٹ
ٹھنڈے بستہ میں ڈال دی گئی۔متذکرہ رپورٹ اور اس پر عمل درآمد اور پھر حالیہ
فیصلہ نہ صرف پورے نظام پر بے شمار سوالات کھڑے کرتا ہے بلکہ حق و انصاف کی
لڑائی لڑنے والوں کے حوصلوں کا بھی خون کرتا ہے۔باوجود اس کے حق کے
علمبردار جو تمام مذاہب میں موجود ہیں،ظلم کے خلاف آواز اٹھانے سے نہیں
ڈرتے۔کیونکہ ظلم کے خلاف خاموشی مجرمین کو مزید شہ دینے کا ذریعہ بنتی ہے
وہیں سماج کو بھی اندر سے کھوکھلا کرتی ہے۔
ظلم کے خلاف متحد ہونے والے ابھی ہاشم پورہ قتل عام اور اس کے حالیہ فیصلے
پر اپنی آواز بلند ہی کر رہے تھے کہ پولیس انکاؤنٹر کے دوواقعات اورسامنے
آگئے۔ایک واقعہ صندل اسمگلنگ میں ملوث 20؍افراد کے قتل کا ہے،جو زیادہ تر
تامل تھے تو وہیں دوسرا واقعہ تلنگانہ پولیس کے زیر حراست پانچ لوگوں کے
انکاؤنٹر کا ہے۔تلنگانہ انکاؤنٹر کے تعلق سے اپوروانند سیاسی تجزیہ کار مین
اسٹریم میڈیا کی غیر ت کو للکارتے ہوئے کہتے ہیں کہ مرنے والے اگر غریب اور
مسلمان نہ ہوتے تو مین اسٹریم میڈیا اس خبر کو لازماً اہمیت دیتی۔برخلاف اس
کے ایک ہی دن میں 25؍افراد ہلاک ہوگئے اور میڈیا خاموش ہے!وہ کہتے ہیں کہ
اگر یہ موت کسی بم دھماکہ میں ہوئی ہوتی تو سارے ٹیلی ویژن چینلوں کو بخار
آگیا ہوتا،لیکن وہ تو ریاستی حکومت کی طرف سے مقرر پولیس کی گولیوں سے ہوئی
ہے،لہذا مین اسٹریم میڈیا خاموش ہے۔تلنگانہ اور آندھرا پردیش کا حالیہ
انکاؤنٹر بھی حد درجہ افسوس ناک ہے۔اور خبرکی تفصیل میں اگر جایا جائے تو
یہاں بھی پولیس کارروائی پر بے شمار سوالات اٹھے ہیں۔اس کے باوجود ہم نہیں
جانتے کہ ان سوالات پر قائم ہونے والے جانچ کمیشن کتنے عرصہ میں رپورٹ دیں
گے؟اور وہ فیصلہ بھی ہاشم پورہ قتل عام ہی کی طرح کی ہوگی یا اس کے برخلاف؟
آزاد ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات کی بھی ایک طویل تاریخ موجود
ہے۔1947میں بنگال میں فرقہ وارانہ فساد ہوا جس میں تقریباً5سے10 ہزار کے
قریب افراد ہلاک ہوئے۔1969میں احمدآباد فسادات میں صرف شہر میں 512؍افراد
ہلاک ہوئے اور کل ریاست میں تقریباً3سے 5ہزار کے قریب افراد ہلاک
ہوئے۔1983میں نیلی،آسام فسادات میں تقریباً 2 سے 5ہزار افراد ہلاک
ہوئے۔1984دہلی فسادات میں 2737افراد ہلاک ہوئے۔1964میں ررکیلا اور جمشید
پور فسادات میں 2ہزار کے قریب افراد ہلاک ہوئے۔1980میں مرادآباد فسادات میں
تقریباً 2ہزار افراد ہلاک ہوئے۔1989بھاگلپور،بہار فسادات میں تقریباً 800سے
2ہزار کے درمیان افراد ہلاک ہوئے۔دسمبر1992اور جنوری 1993میں ممبئی ،مہارشٹر
فسادات میں8سوسے2ہزارکے درمیان افراد ہلاک ہوئے۔1985میں احمد آباد،گجرات
فساد میں تقریباً 300 افراد ہلاک ہوئے۔1992میں علی گڑھ، اترپردیش فساد
میں176افراد ہلاک ہوئے۔1992ہی میں سورت ،گجرات فساد میں تقریباً 175افراد
ہلاک ہوئے۔1990میں حیدرآباد، آندھرا پردیش فساد میں تقریباً 132افراد ہلاک
ہوئے۔1967میں رانچی فساد میں تقریبا 200افراد ہلاک ہوئے۔1979جمشید پور،
ویسٹ بنگال فساد میں تقریباً 125افراد ہلاک ہوئے۔اسی طرح ,86,1984اور87میں
بھیونڈی،میرٹھ اور احمد آبادفسادات میں تقریباً286افراد ہلاک ہوئے۔فرقہ
وارانہ فسادات کی یہ وہ مختصر تاریخ ہے جو نہ صرف ہلاک شدگان کی تعداد
بتاتی ہیبلکہ ہر فساد میں لاکھوں کی تعداد میں متاثرین کو بھی بہ خوبی
سامنے لاتی ہے۔واقعات کی روشنی میں سوال صرف اتنا سا ہے کہ کیا یہ حادثات
ہلاک شدگان و متاثرین کے اعمال کا نتیجہ ہیں،دوسروں کی جانب سے منظم و
منصوبہ بند سازش ہے،خدا کا نازل کردہ عذاب ہے یا ڈالی گئی آزمائش؟یا پھر
پولیس،انتظامیہ اور انٹلی جنس کی سرد مہری و ناکامی کا نتیجہ ہے؟
گفتگو کا دوسرا اور اہم ترین حصہ رد عمل پر مبنی ہے۔جہاں دیکھنا ہوگا کہ
پریشانی جن میں متاثرین مبتلا ہوئے وہ ان کے غلط منصوبوں و اعمال کا نتیجہ
تھی؟اگر ایسا ہے تو منصوبوں میں تبدیلی کے لیے فکر و نظرمیں لچک اوروسعت
پیدا کی جائے ۔پریشانی اگردوسروں کی منظم و منصوبہ بند سازش کا نتیجہ ہو تو
پھر دوسروں کی سازشوں سے قبل ،خود اپنے اندرون کی سازشوں سمجھا جائے۔ساتھ
ہی مسائل کے حل میں پیش رفت کی جانی چاہیے ۔اگر یہ محسوس ہو کہ پریشانی
متذکرہ وجوہات کی بنا پر نہیں بلکہ خدا نے اپنے بندوں کو آزمانے کے لیے
بھیجی ہے۔ساتھ ہی کھرے اور کھوٹے کا فیصلہ کیا جانا مقصود ہے۔تو ایسے موقع
پر خدا کے حضور خود کو کھرا ثابت کیا جائے۔اور یہ تب ہی ممکن ہے جبکہ ہم
خدا کے وہ تمام حقوق ادا کریں جو ہم پر عائد ہوتے ہیں نیز صبر و تحمل
اختیار کرتے ہوئے ثابت قدم رہیں۔لیکن معاملہ ان میں سے کوئی بھی نہ ہو، اور
پریشانی خدا کا نازل کردہ عذاب ہو۔ تو ہر اس شخص کو جو اُس عذاب سے بچا لیا
جائے،کوئی لمحہ ضائع کیے بنا ، سابقہ اور موجودہ زندگی میں انجام دینے والے
اعمال کا باریکی سے جائزہ لیتے ہوئے کمیوں پر گرفت حاصل کرے ،نیززندگی کے
شب و روز میں آناً فاناً تبدیلی کے لیے متحرک ومستعد ہوجائے۔قبل اس کے کہ
خدا کے عذاب میں وہ بھی مبتلا ہو ۔آزمائشیں توزندگی کا حصہ ہیں اور وہ آتی
ہی رہیں گی۔ضرورت اس بات کی ہے کہ وقتاً فوقتاً انفرادی و اجتماعی جائزہ
لیا جاتا رہے۔پھر ہر شخص پریشانی کا جو سبب بھی تلاش کرے اسی کی روشنی میں
اٹھ کھڑا ہو اور امن و امان کی بحالی کے ساتھ تبدیلی کا آغاز کرے!
|
|